فرخ منظور
لائبریرین
شورشِ کائنات نے مارا
موت بن کر حیات نے مارا
پرتوِ حسنِ ذات نے مارا
مجھ کو میری صفات نے مارا
ستمِ یار کی دہائی ہے
نگہِ التفات نے مارا
میں تھا رازِ حیات اور مجھے
میرے رازِ حیات نے مارا
ستمِ زیست آفریں کی قسم
خطرۂ التفات نے مارا
موت کیا؟ ایک لفظِ بے معنی
جس کو مارا حیات نے مارا
جو پڑی دل پہ سہہ گئے لیکن
ایک نازک سی بات نے مارا
شکوۂ موت کیا کریں کہ جگر
آرزوئے حیات نے مارا
(جگر مراد آبادی)