بارے نقشے کے کچھ معلومات درکار ہیں

برِاعظم انٹارکٹیکا کے بارے میں سنا گیا ہے کہ وہاں چھ مہینے رات اور چھ مہینے دن ہوتا ہے۔ کیا یہ حقیقت ہے یا پھر فرضی کہانیاں ہیں۔ یا پھر جو گرمیوں میں 20 یا 21 گھنٹے کا دن اور 3 یا چار گھنٹے کی رات ہوتی ہے اسی طرح سردیوں میں رات اور دن میں فرق آتا ہے۔ تو او وجہ کو سامنے رکھ کر کہا جاتا ہے کہ چھ ماہ رات اور چھ ماہ دن رہتا ہے؟؟؟​

جناب خرم شہزاد خرم صاحب۔ اس سوال کا جواب پہلے ہی آ چکا ہے۔ جواب نمبر 89، 92 ملاحظہ فرمائیے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جناب خرم شہزاد خرم صاحب۔ اس سوال کا جواب پہلے ہی آ چکا ہے۔ جواب نمبر 89، 92 ملاحظہ فرمائیے۔
جی سر جی ان جوابات کو ہی سامنے رکھ کر سوال کیے ہیں کہ چھ ماہ کی رات یا چھ ماہ کا دن تو نہیں ہوتا نا۔ بس 20 گھنٹے یا پھر جیسے قیصرانی بھائی نے بتایا کہ ہفتوں تک رات اور دن کا سلسلہ ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں کی رات اور دوہفتوں کا دن ہوتا ہے چھ ماہ کا تو نہیں ہوتا؟؟ یا ہوتا ہے؟؟
 
ماہرینِ متحجرات و ارضیات وہ جس سو سالہ یا ہزار سالہ تاریک دور کی بات کرتے ہیں، جس میں دائنوسار اور دیگر کئی دیوہیکل جانور صفحہء ہستی سے مٹ گئے اور ان کے متحجرات (فوسلز) اب بھی موجود ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس تاریک دور کا آغاز ایک سیارچے کی وجہ سے ہوا۔
ہوا یہ، کہ ایک بہت پڑا سیارہ خلائے بسیط میں تیرتا ہوا (اس تیرنے کی رفتار بھی ہزاروں لاکھوں میل فی گھنٹہ رہی ہو گی) زمین کے پاس سے گزر گیا (یہ بھی کوئی چند ہزار میل رہے ہوں گے) اور اس کی کششِ ثقل کے نتیجے میں زمین پر زلزلے اور پھر گرد و غبار کے وہ طوفان اٹھے جنہوں نے ایک سو یا شاید ایک ہزار سال تک (مجھے ٹھیک سے یاد نہیں) سورج کی روشنی کو زمین تک نہیں پہنچنے دیا۔ اس عرصے میں بہت سے جاندار روشنی نہ ملنے کی وجہ سے، پانی کے مکمل برف بن جانے کی وجہ سے ناپید ہو گئے۔

واللہ اعلم بالصواب۔
 
جی سر جی ان جوابات کو ہی سامنے رکھ کر سوال کیے ہیں کہ چھ ماہ کی رات یا چھ ماہ کا دن تو نہیں ہوتا نا۔ بس 20 گھنٹے یا پھر جیسے قیصرانی بھائی نے بتایا کہ ہفتوں تک رات اور دن کا سلسلہ ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں کی رات اور دوہفتوں کا دن ہوتا ہے چھ ماہ کا تو نہیں ہوتا؟؟ یا ہوتا ہے؟؟

میں اپنی حد تک آپ سے متفق ہوں۔ ڈرائنگ اور ڈایاگرام کے بغیر بات کرنا مشکل ہے تاہم کوشش کرتا ہوں کہ لفظوں میں کوئی نقشہ کھینچ سکوں، کہاں اقبال اور کہاں یہ فقیر!
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں​
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارہ​
روئے سخن آپ کی طرف نہیں ہے، شعر یاد آ گیا سو نقل کر دیا۔
 
جی تو ہوتا غالباً یہ ہے، یا یوں کہئے کہ ’’تھیوریٹی کلی‘‘ ایسا ہے کہ: (یہاں تاریخیں بھی فرضی ہیں)۔
فرض کئے لیتے ہیں کہ شمالی نصف کرے میں گرما کا موسم ہے۔ شمالی قطبی دائرے میں 23 مارچ کو سورج طلوع ہوتا ہے، یعنی افق پر نظر آنے لگتا ہے اور پھر وہ غروب نہیں ہوتا بلکہ آسمان ہی میں چکر لگاتا نظر آتا ہے، ایک دن کا ایک چکر ۔۔ اور ہر چکر میں افق سے اوپر کو اٹھتا رہتا ہے۔ منطقی طور پر وہ ایک چکر ایک دن ہے یعنی 24 گھنٹے۔ یہاں تک کہ 21 یا 22 جون کو سورج عین سر پر ہوتا ہے، وہاں 24 گھنٹے تک رکا ہوا محسوس ہوتا ہے اور پھر اسی طرح چکر لگاتے لگاتے نیچے (افق کی طرف) آنے لگتا ہے۔ حتٰی کہ 23 ستمبر کو افق میں غروب ہو جاتا ہے۔
اصولی طور پر یہ عرصہ 182، 183 دن کا ہوتا ہے اور تاریخوں کو بھی اسی حساب سے بدلنا چاہئے۔ اس کو علامتی طور پر کہہ لیجئے کہ چوں کہ وہاں 23 مارچ سے 23 ستمبر تک سورج غروب نہیں ہوا، سو وہ چھ مہینے کا ایک دن بنا۔ منطقی طور پر بھی جب ہم کہتے کہ ’’چھ ماہ کا دن‘‘ تو ہم ’’مہینوں‘‘ کی نفی نہیں کر رہے ہوتے۔
اسی مفروضے کو انٹارکٹیکا پر لاگو کر لیجئے کہ وہاں افق سے سورج کا نظر آنا 23، 24 ستمبر کو ہے، عین سر پر ہونا 25 دسمبر کو اور افق میں ’’غروب‘‘ ہو جانا 22، 23 مارچ کو ٹھہرتا ہے۔
 
رہی بات ’’رات‘‘ کی ۔۔۔۔۔۔ رات کی بات!!!
چاند تو شاید وہاں دکھائی نہیں دیتا، مگر جیسے قیصرانی صاحب نے وضاحت کی، اگر وہاں کچھ لوگ آباد ہیں تو وہ کسی دوسرے مقام کی چاند کی تاریخوں کو اعتبار دیتے ہوں گے، جیسے ڈیٹ لائن میں ہوتا ہے۔
مختصر یہ کہ ان دونوں خطوں میں ’’رات میں دن‘‘ اور ’’دن میں رات‘‘ پوشیدہ ہوتے ہیں۔ مجھے قرآنِ کریم کا فرمان یاد آ گیا:
وہ (اللہ) رات میں دن اور دن میں رات شامل کرتا ہے​
۔۔۔ جزا ک اللہ۔
 

سید ذیشان

محفلین
جی سر جی ان جوابات کو ہی سامنے رکھ کر سوال کیے ہیں کہ چھ ماہ کی رات یا چھ ماہ کا دن تو نہیں ہوتا نا۔ بس 20 گھنٹے یا پھر جیسے قیصرانی بھائی نے بتایا کہ ہفتوں تک رات اور دن کا سلسلہ ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں کی رات اور دوہفتوں کا دن ہوتا ہے چھ ماہ کا تو نہیں ہوتا؟؟ یا ہوتا ہے؟؟

قطب شمالی اور جنوبی کے قریب علاقوں، خاص طور پر انٹارٹکا میں چھ ماہ رات اور چھ ماہ دن ہوتا ہے۔ اس کی وجہ زمین کا 23 اعشاریہ 5 ڈگری جھکاو ہے۔ اور یہی جھکاو موسموں کا بھی باعث بنتا ہے۔
 
یہ چاند میاں اپنی ’’اپیا‘‘ سے اتنا پیار کرتے ہیں کہ اس کے ارد گرد گھومتے رہتے ہیں، مگر ’’تھوڑا سا‘‘ فاصلہ رکھ کر (صرف 8 لاکھ میل)۔ ڈرتے ہیں قریب آئے تو اپیا ڈانٹ دیں گی۔

ویسے میرے خیال میں چاند کا فاصلہ زمین سے دو لاکھ انتالیس ہزار میل کے لگ بھگ ہے
 
ایک اور دل چسپ بات۔
سورج کی سطح پر درجہ حرارت بہت زیادہ نہیں صرف 44 ہزار ڈگری سنٹی گریڈ ہے۔ اور زمین کے مرکزے کا درجہ حرارت بھی اتنا ہی ہے۔ سورج کی فضا کا درجہ حرارت لاکھوں گنا زیادہ ہے۔
سائنس دان اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے، مادوں کا بننا اور ٹوٹنا اور قیامت خیز جوہری بادلوں اور طوفانوں کی پیدائش اور موت کے عظیم سلسلے سورج کی فضا میں ہوتے ہیں۔ سورج اندر سے نسبتاً ’’پرسکون‘‘ ہے۔ اندازہ لگا لیجئے کہ اگر وہ سکون ہے تو بے سکونی کیا ہو گی۔
ہمم سورج کی سطح یا فوٹو اسفیئر کا درجہ حرارت تقریبا ساڑھے پانچ ہزار سیلیئس ہے۔ اور یہی درجہ حرارت زمین کی انر کور کا بھی ہے
 
قطب شمالی اور جنوبی کے قریب علاقوں، خاص طور پر انٹارٹکا میں چھ ماہ رات اور چھ ماہ دن ہوتا ہے۔ اس کی وجہ زمین کا 23 اعشاریہ 5 ڈگری جھکاو ہے۔ اور یہی جھکاو موسموں کا بھی باعث بنتا ہے۔
بجا ارشاد! یہ وہی ساڑھے تئیس ڈگری کا جھکاؤ ہے، جو منطقہ حارہ کو اور قطبین کے دائروں کو جنم دیتا ہے۔
منطقہ حارہ میں موسم کی تبدیلی ہوتی ضرور ہے مگر برائے نام۔ مجھے ملائشیا سے ایک دوست نے بتایا کہ : ’’یہاں سال میں صرف دو موسم ہوتے ہیں، ایک بارشوں کا موسم اور ایک نہ۔بارشوں کا موسم، باقی سب کچھ وہی رہتا ہے‘‘۔
قطبین کے ساڑھے تئیس ڈگری کی بات ہو چکی۔
اب رہ گئے وہ دو خطے جو شمالی اور جنوبی نصف کروں میں خطِ استوا سے ساڑھے تئیس اور ساڑھے پینسٹھ درجے تک کی پٹیوں میں آتے ہیں۔ وہاں ہر دو موسموں (سرما اور گرما) میں دن اور رات کے دورانئے میں فرق آتا ہے اور یہ فرق اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے جتنا ہم خطِ استوا سے دور ہوتے جائیں۔ پاکستان میں سب سے چھوٹا دن 25 دسمبر (طلوع آفتاب سے غروبِ آفتاب تک) غالباً گیارہ گھنٹے کا اور رات تیرہ گھنٹے کی ہوتی ہے اور سب سے بڑا دن 22 جون (طلوع آفتاب سے غروبِ آفتاب تک) تیرہ گھنٹے کا اور رات گیارہ گھنٹے کی۔
درست اعداد و شمار دیکھ لیجئے گا، میں نے عمومی حافظے کی بنیاد پر بات کی ہے۔
چین میں یہ فرق زیادہ ہے، روس میں اس سے بھی زیادہ فرق ہے۔ اور ناروے کی پٹی کے حوالے سے میری گزارش اور جناب قیصرانی صاحب کی توثیق پہلے آ چکی ہے۔
 
جواب نمبر 111 کے تسلسل میں ۔۔۔
موسموں کی تبدیلی میں بلاشبہ عرض البلد کی اہمیت بنیادی ہے، تاہم موسموں کی رنگا رنگی میں ہر خطے کی جغرافیائی ہیئت اپنا اثر رکھتی ہے۔ پہاڑ، دریا، سمندر، جھیلیں، جنگلات، صحرا، مٹی کی ساخت (نرا پتھر، پتھریلی، ریتلی، چکنی، مَیرا، نری ریت) حتٰی کہ عمارات، صنعتیں، زراعت اور فی مربع میل آبادی، وغیرہ ۔۔ ۔۔ یہ سب کچھ اپنی اپنی حد تک موسموں پر اپنا اثر دکھاتے ہیں۔
 
یہ چاند میاں اپنی ’’اپیا‘‘ سے اتنا پیار کرتے ہیں کہ اس کے ارد گرد گھومتے رہتے ہیں، مگر ’’تھوڑا سا‘‘ فاصلہ رکھ کر (صرف 8 لاکھ میل)۔ ڈرتے ہیں قریب آئے تو اپیا ڈانٹ دیں گی۔​

اس کو یوں پڑھیں:

یہ چاند میاں اپنی ’’اپیا‘‘ سے اتنا پیار کرتے ہیں کہ اس کے ارد گرد گھومتے رہتے ہیں، مگر ’’تھوڑا سا‘‘ فاصلہ رکھ کر (صرف دو ڈھائی لاکھ میل)۔ ڈرتے ہیں قریب آئے تو اپیا ڈانٹ دیں گی۔​




بہت نوازش، جناب انعام جی ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت شکریہ جناب قیصرانی صاحب۔
میری اور آپ کی باتوں کا رخ ایک ہی ہے، آپ نے بہر کیف بہتر انداز میں بات کی، تسلیمات!
جی میں نے دراصل اپنے ذہن میں موجود معلومات کو واضح کرنے کی کوشش کی کہ اگر کوئی کمی ہوئی تو آپ اسے درست فرما دیں گے۔ کرم نوازی کے لئے ممنون ہوں
 

قیصرانی

لائبریرین
برِاعظم انٹارکٹیکا کے بارے میں سنا گیا ہے کہ وہاں چھ مہینے رات اور چھ مہینے دن ہوتا ہے۔ کیا یہ حقیقت ہے یا پھر فرضی کہانیاں ہیں۔ یا پھر جو گرمیوں میں 20 یا 21 گھنٹے کا دن اور 3 یا چار گھنٹے کی رات ہوتی ہے اسی طرح سردیوں میں رات اور دن میں فرق آتا ہے۔ تو او وجہ کو سامنے رکھ کر کہا جاتا ہے کہ چھ ماہ رات اور چھ ماہ دن رہتا ہے؟؟؟​
خرم شہزاد خرم بھائی آپ شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ جب ہم قطب شمالی سے ذرا نیچے ہوتے ہیں تو بارہ گھنٹے کا دن ہوگا، ایک قدم یا ایک کلومیٹر بعد جب قطب شمالی شروع ہوگا تو چھ ماہ کی رات اور چھ ماہ کا دن۔ ایسا نہیں۔ جوں جوں آپ قطب شمالی یا قطب جنوبی کے قریب ہوتے جاتے ہیں، سردیوں میں دن چھوٹے ہوتے جاتے ہیں اور گرمیوں کے دن بڑے۔ ہوتے ہوتے ایک مقام ایسا آتا ہے کہ وہاں کچھ عرصے کے لئے سورج یا تو غروب نہیں ہوتا یا طلوع نہیں ہوتا۔ اس مقام کے مرکز پر پہنچیں گے تو چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات ہوگی

یہ بات یاد رہے کہ جب آپ خط استوا سے جنوب کو جاتے ہیں تو اس کا موسم شمال کی نسبت الٹ ہو جاتا ہے۔ یعنی اگر شمالی نصف کرے میں سردیاں چل رہی ہیں تو جنوبی نصف کرے میں گرمیاں ہوں گی۔ یعنی ہم شمالی یورپ والے جب منفی 35 ڈگری "بھگت" رہے ہوتے ہیں تو آسٹریلیا والے آرام سے 35 ڈگری سورج کی گرمی میں دھوپ کے مزے لے رہے ہوتے ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ بات صرف چاند تک نہیں رہتی۔ چاند اور پھر سورج سے کہیں دور، اسی نظامِ شمسی کا ایک رکن ہے پلوٹو۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سیارہ بعد میں دریافت ہوا اس کے وجود کا جواز یا دلیل پہلے دریافت ہوئی۔ فلکیات کے ماہرین نے مشاہدات اور حسابات کے بعد کہا کہ نیپچون سے پرے کم از کم ایک سیارہ ہونا چاہئے جو اسی نظامِ شمسی کا رکن ہو۔ اس سیارے کا حجم اور مقدارِ مادہ یہ یہ یہ ہونی چاہئے اور اس کا مدار فلاں ہونا چاہئے۔ اس تحقیق کے سامنے آنے اور پلوٹو کی دوربینی دریافت کے درمیان برسوں کا فاصلہ ہے (سیارہ بعد میں دیکھا گیا)۔

مقصد میری گزارشات کا یہ ہے کہ بہ ظاہر بہت دور بہت دور واقع سیاروں اور سیارچوں کا ہماری زمین سے بہت گہرا تعلق ہے، جس کو حسابات میں بھی سمجھا جانے کے امکانات بہر حال موجود ہیں۔ یہ ہمارے لئے بھی اور پوری انسانیت کے لئے بھی اللہ کریم کی کھلی نشانیاں ہیں۔
پلوٹو کی دریافت ایک پورا لطیفہ ہے۔ اس کی پیشین گوئی کرنے والے صاحب کا خیال تھا کہ یہ نظام شمسی کا سب سے بڑا اور سب سے بھاری سیارہ ہوگا۔ کئی سال تک تلاش کی کی ناکام کوشش کے بعد ان کی وفات ہو گئی۔ ان صاحب کی وجہ شہرت یہ نہیں کہ انہوں نے پلوٹو کے وجود کے بارے پیشین گوئی کی بلکہ ان کی وجہ "بدنامی" یہ تھی کہ انہوں نے ایک تو سیارے حجم کے بارے غلط اندازہ لگایا دوسرا یہ بھی کہ انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ مریخ پر موجود مخلوق بہت ذہین ہے۔ مریخی قطبین پر برف اور پانی موجود ہے لیکن درمیانی حصہ انتہائی زرخیز ہونے کے باوجود خشک ہے۔ انہوں نے شاید یہ بھی دعوٰی کیا تھا کہ دوربین سے انہوں نے وہ نہریں بھی دیکھ لی ہیں جن کی مدد سے ذہین مریخی قطبین سے پانی خط استوا کو لے جاتے ہیں۔ تاہم ان کی وفات کے بعد جب ان کی جائیداد کے حصے بخرے ہوئے تو بعد میں کسی رشتہ دار نے ترس کھا کر ایک نوجوان شوقیہ فلکیات دان کو نوکر رکھا کہ تم تلاش کا کام جاری رکھو۔ مقصد یہ تھا کہ مریخی نہروں کے بارے لوگوں کی توجہ ہٹائی جائے جو اب ایک طرح سے تماشہ بن رہی تھی۔ اس نوجوان نے جلد ہی یہ سیارہ تلاش کر لیا۔ لوگوں کی توجہ دیگر باتوں سے اس لئے ہٹ گئی کہ امریکہ میں دریافت ہونے والا یہ پہلا سیارہ تھا :)

معذرت یہ تو پوری کہانی ہو گئی :(
 
’’ٓآدھی رات کا سورج‘‘ ۔۔۔۔
کسی انسائیکلوپیڈیا میں پڑھا تھا کہ قطب شمالی کے آس پاس کہیں رات ہو جاتی ہے، تو سورج نصف شب کے قریب پھر نکلتا ہے اور ایک آدھ ساعت بعد غروب ہو جاتا ہے، پھر معمول کے مطابق مشرق سے طلوع ہوتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟۔

کسی دوست کو اس کے بارے میں علم ہو تو یہاں ضرور شیئر کریں۔ بہت نوازش۔


جناب قیصرانی ، جناب انعام جی ، جناب خرم شہزاد خرم ، جناب الف عین
 

قیصرانی

لائبریرین
قطب شمالی میں سورج سردیوں میں زیادہ تر وقت افق سے نیچے ہی رہتا ہے۔ اس لئے یوں سمجھیئے کہ قطبی رات کے شروع اور آخر کا وقت کافی روشن ہوتا ہے جبکہ درمیانی عرصہ زیادہ تاریک۔ یہاں فن لینڈ میں گرمیوں میں جنوب میں بھی رات کو اتنی روشنی رہتی ہے آپ بغیر ٹارچ کے گھوم پھر سکتے ہیں
 
Top