بارے نقشے کے کچھ معلومات درکار ہیں

چاند بھی مشرق کی طرف جا رہا ہے اور زمین بھی مشرق کی طرف گھوم رہی ہے۔ سو ملے جلے اثر کے مطابق چاند کا ایک مہینہ (زمین کے گرد پورا چکر) تقریباً ساڑھے انتیس دن میں طے ہوتا ہے۔
اسی لئے رمضان کے کبھی تیس روزے ہوتے ہیں اور کبھی انتیس۔ یوں ایک شخص نے ساٹھ سال کی عمر تک 35 رمضان 30 دن والے اور 25 رمضان 29 دن والے پائے ہیں، ان کی ترتیب کچھ بھی رہی ہو۔ وہ کیسے؟ وہ اس طرح کہ: گزشتہ کئی صدیوں کا ریکارڈ سامنے رکھ کر یہ حساب لگایا گیا کہ ایک قمری سال (چاند کے لحاظ سے بارہ مہینے) 355 دن کا ہوتا ہے۔ گویا، سات مہینے 30 دن والے اور پانچ مہینے 29 دن والے!
 
ایک شمسی سال (سورج کے گرد زمین کا ایک چکر) 365 دن کا اور ایک قمری سال 355 دن کا۔ یعنی سورج کے 36 سال میں چاند کے 37 سال گزر گئے۔ تاریخ سے دل چسپی رکھنے والے دوستوں کو یہ بات بھی دھیان میں رکھنی پڑتی ہے، ورنہ انہیں مغالطہ ہو سکتا ہے۔
 
آپ نے نوٹ کیا ہو گا ۔۔ اگر نہیں کیا تو اب نوٹ کیجئے گا کہ:
چاند کا ہمیشہ ایک ہی رخ زمین کی طرف ہوتا ہے۔ چاند کی سات تاریخ سے بائیس تاریخ تک اس کا مشاہدہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے اور 13، 14، 15 کو بہت واضح طور پر۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ چاند جتنے عرصے میں زمین کے گرد ایک چکر مکمل کرتا ہے اتنے ہی عرصے میں اپنی ایک محوری گردش مکمل کرتا ہے۔
بچوں کی زبان میں ’’چاند میاں اپنی اپیا کے گردا گرد بھاگتے میں بھی اپنا منہ اپیا کی طرف رکھتے ہیں‘‘۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ 13، 14، 15 تاریخ کے چاند میں ایک چہرے کی سی شبیہ آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔
 
ایک اور دل چسپ بات۔
سورج کی سطح پر درجہ حرارت بہت زیادہ نہیں صرف 44 ہزار ڈگری سنٹی گریڈ ہے۔ اور زمین کے مرکزے کا درجہ حرارت بھی اتنا ہی ہے۔ سورج کی فضا کا درجہ حرارت لاکھوں گنا زیادہ ہے۔
سائنس دان اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے، مادوں کا بننا اور ٹوٹنا اور قیامت خیز جوہری بادلوں اور طوفانوں کی پیدائش اور موت کے عظیم سلسلے سورج کی فضا میں ہوتے ہیں۔ سورج اندر سے نسبتاً ’’پرسکون‘‘ ہے۔ اندازہ لگا لیجئے کہ اگر وہ سکون ہے تو بے سکونی کیا ہو گی۔
 
اللہ ہم سب پر رحم کرے، جب یہ سورج بکھر جائے گا تو کیا ہو گا!!!!؟

ہیرو شیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم کے اثرات ابھی تک دیکھے جا رہے ہیں۔ ستر 70 سال ہو گئے!
 
زمین کی حدود سے باہر نکل کر دیکھیں تو یہ محض ایک کھلونا لگتی ہے۔
یہ اپنے چھوٹے بھائی کو لے کر سورج کے گرد گھوم رہی ہے، نو یا دس سیارے اور بھی ہیں جو اسی پلیٹ میں سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اور ہر ایک کے اپنے اپنے چاند ہیں۔ مریخ زمین کا قریب ترین ہمسایہ، اس کے تین چاند ہیں، مشتری ابھی تک تو یہی کہا جاتا ہے کہ نظامَ شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے، اس کے بارہ چاند ہیں۔

سیاروں کا ایک جوڑا ایسا بھی ہے جو دونوں ادھر ایک دوسرے کے گرد گھومتے ہیں اور ساتھ ساتھ سورج کے گرد بھی ان کا سفر جاری ہے۔ ان کو دیکھ کر بچیوں کے کھیل کا وہ منظر یاد آ جاتا ہے جس میں دو بچیاں ایک دوجی کے ہاتھ پکڑ کے ایک دوجی کو بھی گھماتی ہیں اور ایک بڑے سے دائرے میں بھی چل رہی ہوتی ہیں۔ ’’ککلی کلیر دی، پگ میرے ویر دی، دوپٹہ بھرجائی دا‘‘
 
’’ککلی کلیر دی، پگ میرے ویر دی، دوپٹہ بھرجائی دا‘‘​

مفہوم
کپڑے کا ایک ٹکڑا ہی تو ہے نا! پر، کپڑے کی یہ لیر میرے بھائی کے سر پر ہو تو عزت اور بزرگی کی علامت ہے یعنی پگڑی۔ اور میری بھابی کے سر پر ہو تو حیا اور عصمت کی دلیل ہے یعنی دوپٹہ۔

۔۔۔۔

پس نوشت: میری اپنی آنکھیں بھیگ گئیں، کسی اور کو کیا کہوں۔

مدیحہ گیلانی اور @Gull Bano
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
زمین کی حدود سے باہر نکل کر دیکھیں تو یہ محض ایک کھلونا لگتی ہے۔
یہ اپنے چھوٹے بھائی کو لے کر سورج کے گرد گھوم رہی ہے، نو یا دس سیارے اور بھی ہیں جو اسی پلیٹ میں سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اور ہر ایک کے اپنے اپنے چاند ہیں۔ مریخ زمین کا قریب ترین ہمسایہ، اس کے تین چاند ہیں، مشتری ابھی تک تو یہی کہا جاتا ہے کہ نظامَ شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے، اس کے بارہ چاند ہیں۔

سیاروں کا ایک جوڑا ایسا بھی ہے جو دونوں ادھر ایک دوسرے کے گرد گھومتے ہیں اور ساتھ ساتھ سورج کے گرد بھی ان کا سفر جاری ہے۔ ان کو دیکھ کر بچیوں کے کھیل کا وہ منظر یاد آ جاتا ہے جس میں دو بچیاں ایک دوجی کے ہاتھ پکڑ کے ایک دوجی کو بھی گھماتی ہیں اور ایک بڑے سے دائرے میں بھی چل رہی ہوتی ہیں۔ ’’ککلی کلیر دی، پگ میرے ویر دی، دوپٹہ بھرجائی دا‘‘
ہر سیارے کے اپنے اپنے چاند ہیں۔ جیسے آپ نے بتایا مریخ کے تین چاند ہیں اور مشتری کے 12 چاند اور کیا جب یہ اپنے مرکز کے گرد چکر لگاتے ہیں تو جس طرح زمین کا چاند چھوتا بڑا ہوتا ہے اسی طرح باقی بھی ہوتےہیں
 

گل بانو

محفلین
مفہوم
کپڑے کا ایک ٹکڑا ہی تو ہے نا! پر، کپڑے کی یہ لیر میرے بھائی کے سر پر ہو تو عزت اور بزرگی کی علامت ہے یعنی پگڑی۔ اور میری بھابی کے سر پر ہو تو حیا اور عصمت کی دلیل ہے یعنی دوپٹہ۔

۔۔۔ ۔

پس نوشت: میری اپنی آنکھیں بھیگ گئیں، کسی اور کو کیا کہوں۔

مدیحہ گیلانی اور @Gull Bano
جی عمدہ معلوماتی مضمون اور آخری بات پر تو ہماری آنکھیں بھی نم ہو گئیں !
 
محترمہ گل بانو نے ان باکس میں ایک بہت دل چسپ جملہ لکھا ہے ’’اب پہلی جماعت کا سبق بھول بھی جائیں‘‘!

کیا کروں، خاتونِ محترم! وہ سبق کچھ زیادہ ہی پک گیا ہے۔ (’’پک‘‘ کے تین نقطے ہیں، اس کو ایک نہ پڑھ لیجئے گا، ہاہاہا)۔
 
اصل بات یہ ہے صاحبان و صاحبات!
ہمارے بچوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اُن کو صحیح معنوں میں سمجھانے والا نہیں ملتا، اور رہا رٹا؟ تو وہ ہمیشہ نہیں چلا کرتا۔ آپ سے میری یہ بات چیت بالواسطہ طور پر آپ کے بچوں سے بات چیت ہے۔ آپ اس کو مزید آسان کر کے ان کو بتائیں گے، تو یقین کیجئے، ایک بار کا سمجھا ہوا انہیں کبھی فراموش نہیں ہو گا۔
 
ابن سعید بھائی بالکل آپ نے درست فرمایا۔ اگر گوگل ہی کرنا ہے تو پھر میں یہاں کس لیے آیا ہوں۔ پھر تو میں گوگل پر اپنا ایک اکاونٹ بنا لیتا ہوں ساری معلومات وہاں سے لیا کروں گا۔ :)
فورم پر ایسے معلوماتی موضوعات پر گفتگو کرنا ایک قابل تحسین بات ہے۔ لیکن کئی دفعہ جب گفتگو کی شروعات ایسے انداز میں کی گئی ہو جس سے تاثر ملے کہ فوری جواب مقصود ہے تو عموماً سرچ انجنز کی جانب اشارہ کیا جاتا ہے۔ اس سے بھی ضروری بات یہ ہے کہ سرچ انجنز تب تک مفید نہیں ہوتے جب تک آپ کو موضوع سے متعلق "کی ورڈز" معلوم نہ ہوں۔ اسی لیے ہم نے عرض البلد اور طول البلد کے ساتھ ساتھ ان کا انگریزی متبادل لکھ دیا تھا کہ آپ کو فوری معلومات درکار ہو تو اپنے تلاش کے سفر کا آغاز کہاں سے کریں۔ :) :) :)
 
ایک اور مزے کی بات!
ہم دیکھتے ہیں کہ چاند بھی سورج کی طرح مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور مغرب میں غروب ہوتا ہے۔
مغرب تو ہے ہی ایسا! وہاں ساری روشن اقدار غروب ہو جاتی ہیں۔
مشرق و مغرب سمتوں کے نام ہی سورج کے عمل شرق و غرب کے باعث وجود میں آئے۔ بالفاظ دیگر، محترم امتابھ بچن صاحب سورج کی جگہ ہوتے تو کچھ یوں فرماتے۔۔۔ "ہم جہاں سے طلوع ہو جائیں وہی مشرق اور جہاں غروب ہو جائیں وہی مغرب کہلاتی ہے۔۔۔ ہئیں!" :) :) :)
 
Top