کاشفی

محفلین
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
یہ چال یا قیامت، یہ حُسن یا شرارا
چلتا ہے کس ٹھسک سے ٹک دیکھیو خدارا

غرفے کو جھانکیو تو کیسی چمک ہے اللہ
یہ نور یا تجلّی، خورشید یا ستارا

کس کا یہ نرگستاں، ترے شہید پیارے
زیرِ زمیں سے اُٹھ اُٹھ کرتے ہیں سب نظارا

ہر آن اس کا جلوہ ہے گا بسان دیگر
خسرو ہے نے سکندر، جمشید ہے نہ دارا

کس کی مجال دیکھے اس حسن آفریں کو
ہر چند اس کا جلوہ ہے عالم آشکارا

آتی شمیم کچھ تو اس زلفِ عنبریں کی
بادِ صبا کا ہوتا اس جا اگر گزارا

پوچھے ہے مجھ سے سنیو عاشق ہے کیا تو میرا
کچھ جانتا نہیں ہے بھولا بہت بیچارا

لیتا ہے ملک دل کو یہ دل ربا امانی
اس میں نہیں کسی کا اے دل برو اجارا

دیکھو اچکپنا تم، آتا ہے پھر ستانے
دل چت کیا کبھو کا، مانگے ہے پھر دوبارا

اتنی جراحتوں پر جیتا ہے سوز صاحب
سینہ ہے یا کہ ترکش دل ہے کہ سنگِ خارا
 
Top