یہ پڑھا آپ نے؟

ساجداقبال

محفلین
1100316237-2.gif
کیا ہم اللہ کے عذاب کے مستحق نہیں؟؟؟
 

مغزل

محفلین
جی ایکسپریس اخبار کی گزشتہ اشاعت میں ، میں جاوید چوہدری کا یہ کالم پڑھ چکا ہوں۔۔
۔۔۔ کچھ کہنے کو الفاظ اور کچھ لکھنے کو قلم ساتھ نہیں دے رہا۔۔۔
 
1100316237-2.gif
کیا ہم اللہ کے عذاب کے مستحق نہیں؟؟؟
ہاں ہم اتنے ہی بے غیرت ہوچکے ہے کہ ہمارے سامنے لاکھوں کروڑوں گناہ ایسے ہوتے ہے جہنیں ہم زور بازو پر روک سکتے ہے لیکن نہیں روکتے ۔۔۔ جیسے وہ شخص مجبور تھا جس کی چار چار بیٹیاں گھر پر تھی اور وہ کسی بھی پرائے جھگڑے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے سو بار سوچتا تھا۔۔۔۔ لیکن اسے خوف خدا شاید یاد نہیں رہا۔۔بلکہ کسی کو بھی یاد نہی رہا۔۔اس کی جگہ ہم ہوتے تو کیا کرسکتے تھے۔۔۔ ۔۔۔۔ عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ دن بھر میں فقط دو کھنٹے کی نیند لیا کرتے تھے ۔۔۔۔ وہ بھی اگر وقت مل جائے تو۔۔۔ سارا سارا دن لوگوں کے مسائل حل کرنا اور رات کو بھیس بدل کر پہرے دینا کہ شہر میں کوئی ایسا تو نہیں جو اپنے سفید پوشی کی وجہ سے گھر سے باہر بھی نا آسکا تو جا کر اس کی حاجت پوری کردینا۔ ۔۔۔ اور ایک ہمارے حاکم ہے کہ جنہیں اپنی سیاست سے فرست ہی نہیں کہ عوام کے بارے میں سوچ سکے۔ پولیس والے اپنے اوپر والوں کے ہاتھ مجبور ہے ۔ اوپر والے امیر چوہدریوں کے ہاتھ ۔۔۔۔ اور چوہدری ایک دوسری کو زیر کرنے میں مصروف ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تو لگتا ہے کہ امام مہدی ہی آکر اس امت کے حال بدلیں گے۔
واللہ تعالٰی علم و رسول عزوجل و صلی اللہ علیک وسلم
والسلام
 

شمشاد

لائبریرین
نہایت ہی افسوس ناک خبر ہے۔ لیکن یہ تو آئے دن ہوتا رہتا ہے۔ حکومت کے اہلکاروں کو خدا یاد نہیں اور ہمارے کرتوت ایسے ہی ہیں کہ ایسے حکمران ہم پر مسلط ہیں۔ اور آئیندہ 8 جنوری کو پھر ہم انہی بھڑیا صفت حکرانوں کو اپنے اوپر مسلط کر لیں گے۔

انا للہ و انا الیہ راجعون۔
 

خرم

محفلین
حکومت اور حکومت کے اہلکاروں کی بات جانے دیجئے بھائی۔ ان "عام"‌لوگوں کی بات کیجئے جو انتہائی بے غیرتی سے یہ تمام منظر دیکھا کئے اور بعد میں‌ٹسوے بہایا کئے۔ جب اپنی بیٹی اور پرائی بیٹی کا فرق ہی ملحوظِ خاطر ہے تو پھر کسی پر بھی لعن طعن کیسی؟ پولیس والے بھی صرف اپنے بچوں‌کا سوچتے ہیں، سیاستدان بھی صرف اپنے بچوں‌کا سوچتے ہیں اور عوام بھی صرف اپنے بچوں کا سوچتے ہیں۔ پھر کوئی کسی اور کو طعنہ کیوں‌دے؟ پولیس والا "کسی"‌کے بچوں کی حفاظت کرتا ہوا جان سے جائے تو "اس" کے بچوں کا ذمہ کون لے گا؟ اس کی نوکری جائے تو اس کی کون حمایت کرے گا؟ بے حس معاشرہ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ باقی رہ گئی بات عذاب کی تو کیا یہ سب کچھ عذاب نہیں؟ بے غیرتی اور بے ہمتی سے بھی بڑا کوئی عذاب ہوگا؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے کہ بے غیرتی ہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے خنزیر کو اتنا مکروہ و ناپاک کہا گیا۔
اللہ ہم سب پر رحم فرمائے۔ آمین۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
شکریہ ساجد، میں یہ کچھ روز قبل پڑھ چکا ہوں اور میں اس وقت سے اسی کیفیت میں ہوں جس کا جاوید چوہدری نے ذکر کیا ہے۔ میں اس پر علیحدہ سے بھی لکھنے کا ارادہ کرتا رہا ہوں لیکن میرے پاس الفاظ نہیں تھے جن سے میں اپنی کیفیت کا اظہار کر سکتا۔
 

فرید احمد

محفلین
کل ایک مقامی اخبار میں ایک جرمن گیت کے دو تین قطعوں کا ترجمہ یوں تھا
ہٹلر پہلے کمیونسٹوں کو مارنے لگا ،
میں خاموش رہا کہ میں ان میں نہ تھا
پھر وہ یہودیوں کو مارنے لگا
میں خاموش رہا کہ میں ان میں نہ تھا
پھر وہ مجھے مارنے لگا
مجھے کوئی بچانے والا نہ تھا کہ میں اب میں اکیلا تھا
 

محسن حجازی

محفلین
میں آپ سے پہلے پڑھ تو چکا ہوں پر محفل پر رکھنے کی جرات نہیں کر پایا۔۔۔ جمعے کا دن تھا جب یہ کالم پڑھا۔۔۔ کچھ مبالغہ نہیں تب سے بے حد خوف زدہ ہوں۔۔۔ کہ اگر کچھ ہو جائے تو اس ملک میں کوئی ساتھ دینے والا نہیں۔۔۔ اب جی کرتا ہے کسی اور جگہ جا بسیں۔۔۔ یا یہاں سروں کی فصلیں کاٹ کر نئی پود اگائیں۔۔۔
 

AHsadiqi

محفلین
نہيں ميرے بھائيو ہميں خود کو بيدار کرنا ہے مايوس نہيں ہونا کيونکہ مايوسي نااميدي کفر ہے جہاں ہم نے ان ناظرين کي مزمت کي کيا ذرا اپنے دل ميں جھانک کرديکھيں کيا مجھ ميں يہ جرات ہے کہ ميں ان بدبختوں کا مقابلہ کروں اگر ہے تو ٹھيک ورنہ پہلے ميں اپنے اندر اس صلاحيت کو بيدار کروں اور پھر يہ جان ليں کہ اگر وہ قانون کو ہاتھ ميں لے سکتے ہيں تو ہم بھي يہ بد بخت حکمران کچھ نہيں کريں گے ہمارے ليے ہميں خود کچھ کرنا ہے .يہاں تين سوال اٹھتے ہيں .کيا کرنا ہے؟ کيوں کرنا ہے؟ کس کے ليے کرنا ہے ؟
 
بے حمیتی اور بے غیرتی کی جیتی جاگتی مثال بن گئی ہے ہماری قوم اور اللہ کا عذاب ہی تو ہے جو مشرف اور برسر اقتدار ٹولوں کی صورت میں ہم پر برسا برس سے مسلط ہے اور ہمیں پھر بھی سمجھ نہیں آتی۔

ظلم کو نہ روکنا ظلم کی حمایت کے مترادف ہے اور اب ہمیں اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ دوسروں کے گھر لگی آگ کو دیکھ کر یہ سوچنا کہ ہم محفوظ ہیں اور یہ آگ ہمارے گھروں تک نہیں پہنچے گی انتہا درجے کی حماقت اور ناعاقبت اندیشی ہے ۔ یہ آگ ہماری طرف بھی بڑھ رہی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ ابھی ہم تک اس کی آنچ نہیں آئی مگر کسی بھی وقت آ سکتی ہے تب ہماری طرح باقی لوگ بھی فقط تماشائی ہوں گے۔
 

خرم

محفلین
بھائی دکھ تو ہر با ضمیر انسان کو ہوتا ہے اس طرح کے واقعات پر۔ لیکن اس کرب کو اپنے اندر کی آگ کا ایندھن بنائیں۔ ایک تحریک کا ڈول ڈالا گیا تھا اسی محفل پر کچھ عرصہ پہلے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے وہ بھائی جو اسلام آباد میں مقیم ہیں وہ کسی طرح ان لڑکیوں‌کا پتہ کرتے، ان کی طرف سے ایف آئی آر کٹواتے اور ان لڑکوں کو کیفرِ کردار تک پہنچوانے میں اپنا کردار ادا کرتے۔ یا کوئی اور بھی اسی قسم کی کوشش کی جاتی یا کی جائے تبھی یہ معاشرہ بدل سکتا ہے۔ اب بھی اگر ہم سب یہ عہد کر لیں کہ کسی پر ظلم نہیں‌ہونے دیں‌گے اور مظلوم کا ساتھ دیں گے چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ہو تو انشاء اللہ دیے سے دیا جل پڑے گا اور اندھیرے دور ہوں‌گے۔ وگرنہ تو یہی ہوگا کہ ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اور ہم لوگ فورموں‌پر یا محفلوں میں اپنے دل کی بھڑاس نکال کر آرام سے سو جائیں گے۔
 

ظفری

لائبریرین
آہ ۔۔۔۔ یہ واقعہ پڑھ کر میرے ذہن میں کراچی کا ایک واقعہ تازہ ہوگیا جو غالباً 1985 یا 1986 کے دور کا ہے ۔ جو کہ معصوم کیس کے نام سے بہت عرصے سے خبروں کا محور بنا رہا ۔ اس واقعہ کی ہولناکی آج تک میرے ذہن سے محو نہیں ہوئی ۔ موجودہ واقعہ اُس واقعہ کے سامنے کچھ اہمیت نہیں رکھتا ۔ جس میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی بس کے انتظار میں کھڑی ہوئیں ، دو نوجوان لڑکیوں بس اسٹاپ سے ، سب کی نظروں کے سامنے اغوا کیا گیا اور پھر ان کو اس بیدری سے قتل کرکے دو روز بعد سڑک پر پھینک دیا گیا تھا ۔ ان کئ جسموں پر ہوس کے نشانات کیساتھ تشدد کے نشانات بھی پائے گئے تھے ۔جن میں سگریٹوں سے جھلسائے ہوئے داغ سب سے نمایاں تھے ( میں یہاں کھُل کر اس واقعہ کو بیان نہیں کرنا چاہتا ) ۔ جب اخبارات میں ان دونوں کے باپ کی تصویر دیکھی تھی تو کلیجہ منہ کو آتا تھا ۔ ظلم اور مجبوری کی وہ ایسی تصویر تھا کہ میں اوائل عمر میں‌ ہونے کے باوجود بھی یہ محسوس کیئے بغیر نہیں رہ سکا کہ یہ کیا ظلم ہوگیا ہے ۔ اس سے زیادہ شرمناک اور بے انصافی کی بات یہ ہوئی کہ ان دونوں‌کو اغوا کرنے والے کسی بڑے جسٹسوں کے لڑکے تھے ۔ جن کا تعلق اندورونِ سندھ سے تھا ۔ مگر جہاں تک میرے علم میں ہے کہ ان پر یہ جرم ثابت نہیں کیا جاسکا تھا ۔ اس کیس کا کیا فیصلہ ہوا میرے علم میں نہیں ۔ مگر سفاکی ، بربریت ، ظلم اور ہوس کی ایسی مثال میں نے شاید ہی کسی مسلم معاشرے میں کہیں دیکھی ہو ۔ ہم آج جہاں کھڑے ہیں ۔ وہاں مسیحا بھی اس لیئے آیا نہیں کرتے کہ وہ بھی مصلوب کر دیئے جائیں گے کہ قوم ، بےحسی اور اخلاقی پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں اس قدر غرق ہے کہ کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔ ؟ (انااللہ وانااللہ راجعون )
 
اگر کوئی یہ پتہ کر دے کہ یہ واقع کہاں پر ہوا تو میں مزید تحقیق کرتا ہوں اور ان لڑکوں کا پتہ چلانے کی کوشش کرتا ہوں ، کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔

میرے ایک دو دوست ہیں آئی ایس آئی میں اگر صرف ان لڑکوں کے بارے میں صحیح معلومات مل جائے تو انہیں خاطر خواہ سبق سکھایا جا سکتا ہے اور قانونی کاروائی کے لیے بھی کیس بنایا جا سکتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ تو جناح سپر کی اس بیکری یا اس کے آس پاس سے ہی پتہ چل سکتا ہے۔ یقیناً لوگوں کو معلوم تو ہو گا۔ لیکن زبان کھولنے کی گاڑنٹی نہیں ہے۔
 

خرم

محفلین
اگر پوچھا جائے یا صرف دوکانداروں‌کو اتنا ہی کہہ دیا جائے کہ جب بھی ان میں سے کوئی لڑکا نظر آئے کسی فون نمبر پر فون کر دیا جائے تو بھی بات بن سکتی ہے۔ وہ لڑکیاں تو اب شاید اس مارکیٹ کبھی نہ آئیں لیکن اگر وہ باقاعدہ گاہک ہوں‌تو ان کے جاننے والے یا گھر والے کبھی آسکتے ہیں اور دوکانداروں‌کو کہا جا سکتا ہے کہ وہ انہیں آپ سے رابطہ کرنے کو کہیں۔ وہ لڑکے تو وہاں دوبارہ ضرور آئیں گے۔ میرا اندازہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایک ماہ تک غالباً۔
 
Top