یہ شعر کس کا ہےِ؟

آصف جسکانی

محفلین
پہلے تو یہ اس قسم کی بھی ایک ذیلی فورم کی ضرورت ہے جہاں اردو شعر و ادب کے متعلق سوالات پوسٹ کئے جائیں، ’سمت‘ کے اجراءء کی خبر بھی ویسے میں اردو نامہ میں ہی دے دیتا ہوں جو کہ گٌط ہی ہے.
بہر حال سوال یہ ہے، جو مجھ سے ای میل سے سرور عالم راز صاحب نے پوچھا ہے.، کہ یہ شعر (یا مصرع( کس کا ہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
ممکن ہے کہ یہ غلط ہی مشہور ہو، کہ ’نہ‘ کا یہ استعمال کلاسیکی شاعری میں نہیں ملتا.
آج تک نامعلوم صاحب کا ہے
نامعلوم
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
رہے دل میں ہمارے یہ رنج و الم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
 

آصف جسکانی

محفلین
السلام علیکم ورڈ پریس کہتے تو ہیں بلاگ فری ہے میں نے 2014 میں بنایا تھا بعد ایک ٹکا بھی محنت نہیں کی اسی وجہ سے کہ بعد میں گلے پڑے رہیں گے کہ پیسوں کے لیئے جس طرح ویمو پر جب میرے 752 سانگس اپلوڈ ہو چکے تو پچھلے سال ویمو سائیٹ نے مزید سانگس اپلوڈ کرنے کے پیسے مانگنا شروع کر دیئے ساتھ میں ویو سائیٹ کے سانگس ڈلیٹ کر دیئے ورڈ پریس کا کچھ حال اھوال مل سکے گا ؟ شکریہ ( تکلف برطرف رکھنے کی معذرت چاہتا ہوں )
 
پہلے تو یہ اس قسم کی بھی ایک ذیلی فورم کی ضرورت ہے جہاں اردو شعر و ادب کے متعلق سوالات پوسٹ کئے جائیں، ’سمت‘ کے اجراءء کی خبر بھی ویسے میں اردو نامہ میں ہی دے دیتا ہوں جو کہ گٌط ہی ہے.
بہر حال سوال یہ ہے، جو مجھ سے ای میل سے سرور عالم راز صاحب نے پوچھا ہے.، کہ یہ شعر (یا مصرع( کس کا ہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
ممکن ہے کہ یہ غلط ہی مشہور ہو، کہ ’نہ‘ کا یہ استعمال کلاسیکی شاعری میں نہیں ملتا.
روزنامہ پاکستان کے کالم "غلطی ہائے اشعار" مؤرخہ 14 جولائی 2013 میں کالم نگار ناصر زیدی نے لکھا ہے کہ دراصل یہ شعر ہرگز نہیں، بلکہ مرزا صادق شرر کی ایک غزل کے مطلع کا محض دوسرا مصرعہ ہے جو غلط سلط انداز میں دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے، جبکہ طویل بحر کی اس غزل کی ردیف ہی ”نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے“ ہے۔ مرزا صادق شرر کا اصل مطلع درست شکل میں اس طرح ہے:

گئے دونوں جہان کے کام سے ہم، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صَنم، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
(مرزا صادق شرر)
 

فہد اشرف

محفلین
یہ مصرع کا ہے:
ایں گناہیست کہ در شہرِ شما نیز کنند

اور مکمل شعر؟
محمد وارث حسان خان
مصرع توکمال کا ہے لیکن کن موصوف کا ہے افسوس میرے علم میں نہیں اور نہ ہی مکمل شعر جانتا ہوں۔
گر کند میل به خوبان دل من عیب مکن
کاین گناهیست که در شهر شما نیز کنند
سعدی شیرازی
گنجور » سعدی » دیوان اشعار » غزلیات » غزل ۲۵۰
 

Nabeel Anwar Dhakku

محفلین
مشہور شاعر ناصر زیدی کے مطابق یہ شعرمرزا صادق شرر کی طویل نظم کا مطلع ہے جس کے ایک مصرعے کو یار لوگوں نے دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک شعر بنا دیا ہے۔ اصل مطلع درست شکل میں درج کررہا ہوں:

گئے دونوں جہان کے کام سے ہم، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صَنم، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
 

Nabeel Anwar Dhakku

محفلین
صحیح شعر کچھ یوں‌ہے۔

گئے دونوں‌جہاں سے خدا کی قسم نہ اِدھر کےہوئے نہ اُدھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ اِدھر کےہوئے نہ اُدھر کے رہے
مشہور شاعر ناصر زیدی کے مطابق یہ شعرمرزا صادق شرر کی طویل نظم کا مطلع ہے جس کے ایک مصرعے کو یار لوگوں نے دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک شعر بنا دیا ہے۔ اصل مطلع درست شکل میں درج کررہا ہوں:

گئے دونوں جہان کے کام سے ہم، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صَنم، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
 
مشہور شاعر ناصر زیدی کے مطابق یہ شعرمرزا صادق شرر کی طویل نظم کا مطلع ہے جس کے ایک مصرعے کو یار لوگوں نے دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک شعر بنا دیا ہے۔ اصل مطلع درست شکل میں درج کررہا ہوں:

گئے دونوں جہان کے کام سے ہم، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صَنم، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

جی جناب یہ۔مرزا صادق شرر صاحب کا ہی شعر ہے
 
Top