یہ شعر کس کا ہےِ؟

فرخ منظور

لائبریرین
"میں دور تھا ضرور مگر راستوں میں تھا"

یہ شعر کا دوسرا مصرعہ ہے، پہلا مصرعہ بھول گیا،اگر کسی کو یاد تو براے مہربانی بتا دیں

منزل سفر میں تھی ، قدم فاصلوں میں تھا
میں دور تھا ضرور مگر راستوں میں تھا
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک بار پھر یہ 'حسین' اتفاق ہوا اعجاز صاحب کہ ایک ہی وقت میں ہم دونوں ایک ہی موضوع پر لکھ رہے تھے :)
 

الف عین

لائبریرین
وارث۔ فرق مگر یہ ہے کہ دونوں کی فکر کی سمت الگ الگ تھی۔ میں نے ’نہ‘ کا اجافہ مناسب سمجھا، تم نے ’تو‘ کا؟ اصل تو شاعر کو ہی معلوم ہو گا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
دراصل یہ شعر میں نے کبھی نہیں سنا ورنہ بے وزن یاد نہ ہوتا۔ یہ علی فاروقی صاحب کو تلاش تھی تو میں نے رومن میں ڈھونڈا تو ایک سائٹ سے مل گیا میں نے بس اسے اردو میں تبدیل کر کے لکھ دیا۔
 

الف عین

لائبریرین
مبارک ہو کہ رومن میں تلاش ممکن ہوئی۔ ورنہ انگریزی سپیلنگ۔۔ مطلب رومن میں اردو کو ایسا جغادری بنا دیا جاتا ہے کہ نہ جانے کیسے پڑھ لیتے ہیں لوگ۔ جیسے "شعلہ" کو shoola.لکھا ہوا دیکھا تھا urdupoets,net پر، قاسمی کے مجموعے کا نام،
 

فرخ منظور

لائبریرین
اردو میں تو یہ شعر کہیں ملا ہی نہیں اس لئے رومن میں تلاش کرنا پڑا۔ ویسے میں رومن میں تلاش کرنے میں بھی خاصا اچھا ہوں۔ :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
پہلے تو یہ اس قسم کی بھی ایک ذیلی فورم کی ضرورت ہے جہاں اردو شعر و ادب کے متعلق سوالات پوسٹ کئے جائیں، ’سمت‘ کے اجراءء کی خبر بھی ویسے میں اردو نامہ میں ہی دے دیتا ہوں جو کہ گٌط ہی ہے.
بہر حال سوال یہ ہے، جو مجھ سے ای میل سے سرور عالم راز صاحب نے پوچھا ہے.، کہ یہ شعر (یا مصرع( کس کا ہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
ممکن ہے کہ یہ غلط ہی مشہور ہو، کہ ’نہ‘ کا یہ استعمال کلاسیکی شاعری میں نہیں ملتا.

اعجاز صاحب! فسانۂ عجائب از مرزا رجب علی بیگ سرور لکھنوی میں دو اشعار کی صورت میں یوں درج ہیں۔

گئے دونوں جہان کے کام سے ہم
نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے

ان اشعار پر رشید حسن خاں صاحب کا نوٹ یوں درج ہے۔

نسّاخ نے سخنِ شعرا میں اسے بہ نام مرزا صادق علی شرر لکھا ہے۔ اس میں ردیف "نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے" ہے
 

یونس عارف

محفلین

اعجاز صاحب! فسانۂ عجائب از مرزا رجب علی بیگ سرور لکھنوی میں دو اشعار کی صورت میں یوں درج ہیں۔

گئے دونوں جہان کے کام سے ہم
نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے

ان اشعار پر رشید حسن خاں صاحب کا نوٹ یوں درج ہے۔

نسّاخ نے سخنِ شعرا میں اسے بہ نام مرزا صادق علی شرر لکھا ہے۔ اس میں ردیف "نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے" ہے


السّلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
سخنوربھائی ہم آپ کی محنت کا قدر کرتے ہیں :applause::applause::applause::applause::applause:
ہماری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں
اللہ آپ کو خوش و خرم رکھے آمین ثم آمین
 

خوشی

محفلین
یہ شعر کچھ یوں ھے

گئے دونوں جہاں سے وائے ستم
نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رھے نہ اُدھر کے رھے

اور شعر مرزا صادق شرر کا ھے
 

فرخ منظور

لائبریرین
السّلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
سخنوربھائی ہم آپ کی محنت کا قدر کرتے ہیں :applause::applause::applause::applause::applause:
ہماری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں
اللہ آپ کو خوش و خرم رکھے آمین ثم آمین

وعلیکم السلام یونس صاحب۔

ان نیک تمناؤں کے لئے بہت شکریہ۔ خدا آپ کو سلامت رکھے۔
 
Top