یہ بہت اہم نکتہ ہے بھائی عبدالرؤوف ۔۔۔ اولاد کی تربیت اور گھر کا نظم و نسق اپنے آپ میں ایک فل ٹائم جاب ہیں ۔۔۔ افسوس کہ ہمارے مرد بھی اس بات کا احساس نہیں کرتے اور جو خواتین گھر بیٹھ کر یہ ذمہ داری بخوبی نبھا رہی ہوتی ہیں انہیں ’’کچھ نہ کرنے‘‘ کے طعنے دیتے ہیں ۔۔۔ یہ زیادتی تو بہرحال ہمیں ماننا ہوگی ۔۔۔
مگر فیکٹ یہ بھی ہے اس بات کا بدلہ لینے میں خواتین خود کو ہی مزید ہلکان کرتی ہیں ۔۔۔ کوئی عورت اگر شادی شدہ زندگی گزارنا چاہے تو امور خانہ داری سے فرار ممکن ہی نہیں ۔۔۔ مرد کبھی بھی اولاد کی تربیت اس طرح کر ہی نہیں سکتے جو صلاحیت اللہ تعالیٰ نے عورت کو ودیعت کی ہے ۔۔۔ نتیجتاً ہوتا یہی کہ عورت لائف اسٹائل مینٹین کرنے کے چکر میں دن بھر خود کو دفتروں، فیکٹریوں میں ہلکان کرتی ہے اور پھر گھر پہنچتے ہی اسے گھر کے کام نمٹانے کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے ۔۔۔ ۹۰ فیصد ورکنگ وومن کا یہی المیہ ہے ۔۔۔ کچھ دن پہلے ایک اشتہار دیکھنے کا اتفاق ہوا کہ جس میں دکھایا جاتا ہے کہ ایک عورت کیسے اپنے گھر میں صبح سب سے پہلے اٹھتی ہے، سب کے لیے ناشتہ بناتی ہے، میاں صاحب کا لنچ پیک کرتی ہے، پھر خود تیار ہوکر دفتر جاتی ہے، سارا دن دفتر میں کھپا کر گھر واپس پہنچتے ہی اسے پھر گھرداری میں مشغول ہونا پڑ جاتا ہے ۔۔۔ اس پر طرہ یہ کہ اس تھکا دینے والے لائف اسٹائل کو ایک آئیڈیل زندگی بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔۔۔
عورتیں مجبوری سے گھر سے باہر کام کریں، یا محض اپنی پروفیشنل ایسپائریشنز کے تحت ۔۔۔ یہ ایک الگ بحث ہے، بلکہ کچھ فیلڈز میں تو عورتوں کو لازماً ہونا چاہیے ۔۔۔ لیکن جس ’’بیلنسڈ لائف اسٹائل‘‘ کا ہماری خواتین کو خواب دکھایا جاتا ہے، وہ سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔
کیسی چالاکی سے مرد نے اپنی ہم ذات کو اس بات کا مکلف بنا دیا جو درحقیقت خالق نے اس کے ذمے لگائی تھی ۔۔۔ اور ہم اپنے شعور اور آگہی کی بلند پروازی پر پھولے نہیں سماتے