یوم خواتین __ 8 مارچ 2021

جاسم محمد

محفلین
میں تو مرد و زن کی ایک نظامِ تعلیم کا قائل ہی نہیں ہوں، ابتدائی تعلیم تو یقیناً ایک جیسی ہی ہو گی لیکن بعد میں یقیناً دونوں کا تعلیمی نظام میں فرق ہونا چاہیے بس چند شعبہ جات کی استثنیٰ کے ساتھ
۲۱ ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ایسا ممکن نہیں۔ جب آج کی عورت تعلیم کے میدان میں مرد کا مقابلہ کر سکتی ہے تو وہی قابلیت عملی میدان میں بھی دکھا سکتی ہے۔ مردوں کے معاشرہ شاید ابھی یہ سب برداشت نہ کریں لیکن ایک وقت آئے گا کہ ان کو مرد و زن میں امتیازی سلوک ختم کرنا پڑے گا۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
۲۱ ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ایسا ممکن نہیں۔ جب آج کی عورت تعلیم کے میدان میں مرد کا مقابلہ کر سکتی ہے تو وہی قابلیت عملی میدان میں بھی دکھا سکتی ہے۔ مردوں کے معاشرہ شاید ابھی یہ سب برداشت نہ کریں لیکن ایک وقت آئے گا کہ ان کو مرد و زن میں امتیاز ختم کرنا پڑے گا۔
خالقِ مرد و زن کو قیامت کے برپا ہونے تک اور اس کے بعد کی ہر کارروائی کا ٹھیک ٹھیک علم ہے، اگر وہ خالق ہی فرق قائم کر دے تو ہم انسان جس کی سوچ چیونٹی کی حدِ نگاہ سے بڑھ کر نہیں وہ مین میخ نکالیں تو حیرت ہوتی ہے
 

ہانیہ

محفلین
آپ نے بالکل درست کہا کہ اس دن کو گالی بنا دیا گیا ہے ۔
مگر ذرا سوچئیے پہلے تو ایسا نہیں تھا،ایسا پچھلے چند سالوں سے ہوا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ اس کی ذمہ دار بھی شاید عورت خود ہی ہے۔عورت نے عجیب عجیب تحریر کے بورڈ اٹھائے،غلط نعرے لگائے ، شوہر کی توہین کی۔
یہی وجہ بنی کہ اس دن کو غلط سمجھا گیا۔
ہمارے معاشرے میں عورت کے دونوں روپ پائے جاتے ہیں ظالم بھی اور مظلوم بھی۔جو مظلوم ہے اس کے لئے کسی نے کبھی آواز نہیں اٹھائی اور جو پہلے سے آزاد ہیں وہ مطالبات کر ہی ہیں آزادی کے۔
انہیں شاید علم ہی نہیں کہ وہ تو پہلے سے آزاد ہیں۔
جہاں تک تعلیم کی بات ہے تو آپ کبھی دیہاتوں اور گاؤں میں جاکر دیکھیں سکول بچیوں سے بھرے پڑے ہیں۔انہیں کون سکول بھیجتا ہے؟ یقیناً ان کا باپ۔جو ایک مرد ہے۔
میں نے یونیورسٹیوں میں دیکھا ہے کہ لڑکے کم ہیں ،لڑکیاں زیادہ ہیں۔لڑکے باپ کے ساتھ کمائی کا ذریعہ ہیں اور بہنیں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔جو اس بات کا ثبوت ہے کہ لڑکیوں کو لڑکون کے مقابلے میں پیچھے نہیں سمجھا جاتا۔
معاشرے کی جو عورت ظلم سہتی ہے اس کیلیئے کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی۔یہ سب تو برابری کا رونا ہےکہ عورت کی گواہی کو پورا تسلیم کیا جائے۔ اب اس میں مرد کا قصور کہاں کہ اللہ نے عورت کی گواہی آدھی رکھی ہے۔
عورت نے اپنا حق مانگنے کے چکر میں مرد کی تذلیل شروع کر دی ہے۔
کئی سالوں سے سوشل میڈیا ہر سال آزادی کا شور مچتا ہے اگر اتنا ہی شور عافیہ صدیقی کی آزادی کیلیئے مچایا ہوتا تو شاید یہی عورتیں معاشرے میں اپنا مقام بلند کر چکی ہوتیں۔
میرا مقصد کسی بھی بہن یا بیٹی کی دلآزاری کرنا نہیں۔

آزادی مارچ کی عورتوں کی تعداد شاید ایک لالھ بھی نہیں ہوگی۔۔۔۔ پچاس ہزار بھی مشکل ہے۔۔۔۔ ان کو پاکستان کی ہر عورت قرار دینا غلط ہے ۔۔۔۔
دوسری بات آپ کا اصل پوائنٹ یہ ہے کہ عورت آزاد ہے ہمارے معاشرے میں۔۔۔۔
آپ میرے سوالوں کے جواب دے دیں اس سے معلوم ہو جائے گا کہ کتنی آزاد ہے۔۔۔۔
اگر کوئی عورت پھول دار پرنٹ کی چادر سے پردہ کرتی ہے اور ٹینٹ نما کالا برقعہ نہیں پہنتی ہے تو اسے برا لیوں کہا جاتا ہے۔۔۔۔ جسم تو ڈھکا ہوا ہے نا۔۔۔۔۔ تو پھر ٹینٹ نما برقعہ کیوں۔۔۔ اور بیل بوٹوں پر بھی اعتراض کیوں۔۔۔۔
ہمارے یہاں کی عورت کو پورے سسرال کی خدمت پر لگایا یا جاتا ہے۔۔۔۔۔ ساس سسر نند دیور سب کے لئے کھانا پکائے سب کے گھر کے کام کرے ۔۔۔۔ کیا مرد اپنے سسرال کی ایسی خدمت کرتا ہے۔۔۔ اچھی بہو وہی کہلائی جاتی ہے جو سب کی خدمت کرے ۔۔۔۔ مرد ویسے ہی اچھا رہتا ہے۔۔۔
تعلیم کی بات آپ کر رہی ہیں۔۔۔ پاکستان کا لٹریسی ریٹ آپ خود ہی بتا دیں اور اس میں عورتوں کے مقابلے ممیں دوں کا کیا ریشو ہے وہ بھی بتا دیں۔۔۔۔۔
گھر کا بیٹا آوارہ لڑکوں کے ساتھ پھرے اس کو پیار سے سمجھایا جاتا ہے۔۔۔۔ جلسے جلوسوں میں مار پیٹ کر آجائے یا ویسے ہی کسی دھنائی کر کے آجائے لیکن کیا کسی لڑکی کو دوسری لڑکی پر ہاتھ اٹھاتے برداشت کیا جا سکے گا۔۔۔۔لیکن افسوس ہمارے یہاں مرد کو ہر چیز کی اجازت دے دی جاتی ہے۔۔۔۔جو برا ہے وہ دونوں کے لئے برا ہونا چاہئے ۔۔۔۔ لیکن سختی عورت ہی کے لئے ہے۔۔۔۔
یہ بڑی ہی معمولی مثالیں ہیں۔۔۔۔ اور بھی چیزوں میں مرد و زن کا تقابل رکھا جا سکتا ہے۔۔۔۔ جیسے بڑے بڑے جرائم قتل چوری ڈاکہ عزت لوٹنا وغیرہ کہ عورتیں زیادہ کر رہی ہیں یا مرد۔۔۔۔ لیکن خیر چھوٹی باتوں پر فی الحال فوکس کرتے ہیں۔۔۔
کمانے والی عورت کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔۔۔ سب جانتے ہیں۔۔ اس فورم پر بھی کمانے والیوں کے لئے جو اتنے سے دنوں میں پڑھنے کو ملا ہے۔۔۔۔
 

ہانیہ

محفلین
اس سال عورت مارچ میں اس قسم کے مطالبات بھی کئے گئے ہیں۔ کیا پاکستانی معاشرہ ان مطالبات کو تسلیم کر سکتا ہے؟

بھیا یہ تو مذہب کے ہی خلاف پے۔۔۔۔ اور ہم تو اسلامی مملکت ہیں۔۔۔۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔۔۔۔
یہی تو مسئلہ ہے کہ جو بڑے عورتوں کے مسائل ہیں ان پر یہ توجہ نہیں دیتی ہیں۔۔۔۔ اسی لئے ان کو کامیابی نہیں مل رہی ہے۔۔۔۔ اگر عورتوں کے اصل مسائل کو ہائے لائیٹ کریں گی تو سب ان کا ساتھ دیں گے۔۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
بھیا یہ تو مذہب کے ہی خلاف پے۔۔۔۔ اور ہم تو اسلامی مملکت ہیں۔۔۔۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔۔۔۔
یہی تو مسئلہ ہے کہ جو بڑے عورتوں کے مسائل ہیں ان پر یہ توجہ نہیں دیتی ہیں۔۔۔۔ اسی لئے ان کو کامیابی نہیں مل رہی ہے۔۔۔۔ اگر عورتوں کے اصل مسائل کو ہائے لائیٹ کریں گی تو سب ان کا ساتھ دیں گے۔۔۔۔
مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ پاکستان میں عورت مارچ تحریک کو ایک مخصوص طبقہ ہائی جیک کر کے اپنے ایجنڈے کے فروغ کیلئے استعمال کرتا ہے۔
 

ہانیہ

محفلین
یہ معیارِ زندگی کو بلند کرنے کی دوڑ کا نتیجہ ہے

بھیا کس بلند معیار زندگی کی بات کر رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔ یہاں دوا کے پیسے نہیں ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ دیہات کا چکر لگائیں۔۔۔۔ وہاں عورتیں کھیتی باڑی بھی مردوں کے ساتھ کرتی ہیں۔۔۔۔۔ ٹیوب ویل سے پانی بھی نکالتی ہیں۔۔۔۔ چکی بھی چلاتی ہیں۔۔۔ کتنے ہی ہینڈی کرافٹ عورتیں بناتی ہیں۔۔۔۔گھروں کی لپائی بھی کرتتی ہیں۔۔۔۔ اور یہ سب دو وقت کی روٹی اور علاج اور دو کپڑوں کے لئے کیا جاتا ہے ۔۔۔۔ ہماری دیہاتی آبادی شہری آبادی سے زیادہ ہے۔۔۔۔ شہری اصول دیہات کی زندگی پر نہ لگائیں۔۔۔ پاکستان میں عورت کو گھر بٹھانے کی بات آپ دیہات میں جا کر کریں۔۔۔۔ آپ کو لگے گا کہ کہیں کسی اور دنیا سے آئے ہیں۔۔۔۔
ممکن ہی نہیں ہے کہ جو فصل یہاں ہمارے پاس شہر تک پہنچتی ہے وہ صرف مردوں کی محنت ہو۔۔۔۔۔ عورتوں کی تعداد بہت ہے اور وہ سب اپنے مردوں کا بٹاتی ہیں۔۔۔۔۔
 

ہانیہ

محفلین
مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ پاکستان میں عورت مارچ تحریک کو ایک مخصوص طبقہ ہائی جیک کر کے اپنے ایجنڈے کے فروغ کیلئے استعمال کرتا ہے۔

بھیا میں نے تو کمیونزم کے بھی ان کے یہاں نعرے پڑھے ہیں ہی ۔۔۔۔ یہ امیر عورتیں ان کو غریب اور دیہاتی عورتوں کے غم کا کیا معلوم۔۔۔ یا ایک عام عورت کے مسائل کا کیا علم۔۔۔۔ یہ اپنے آڑھے ترچھے خیالات کے نام پر ایکٹیوٹی کرنے نکل آتی ہیں۔۔۔۔

وٹے سٹے کی شادی۔۔۔ ونی۔۔۔ ان سب پر تو بات ہی نہیں ہوتی ہے ۔۔۔ ان پر تو آواز ہی نہیں اٹھائی جاتی ہے۔۔۔۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بھیا کس بلند معیار زندگی کی بات کر رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔ یہاں دوا کے پیسے نہیں ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ دیہات کا چکر لگائیں۔۔۔۔ وہاں عورتیں کھیتی باڑی بھی مردوں کے ساتھ کرتی ہیں۔۔۔۔۔ ٹیوب ویل سے پانی بھی نکالتی ہیں۔۔۔۔ چکی بھی چلاتی ہیں۔۔۔ کتنے ہی ہینڈی کرافٹ عورتیں بناتی ہیں۔۔۔۔گھروں کی لپائی بھی کرتتی ہیں۔۔۔۔ اور یہ سب دو وقت کی روٹی اور علاج اور دو کپڑوں کے لئے کیا جاتا ہے ۔۔۔۔ ہماری دیہاتی آبادی شہری آبادی سے زیادہ ہے۔۔۔۔ شہری اصول دیہات کی زندگی پر نہ لگائیں۔۔۔ پاکستان میں عورت کو گھر بٹھانے کی بات آپ دیہات میں جا کر کریں۔۔۔۔ آپ کو لگے گا کہ کہیں کسی اور دنیا سے آئے ہیں۔۔۔۔
ممکن ہی نہیں ہے کہ جو فصل یہاں ہمارے پاس شہر تک پہنچتی ہے وہ صرف مردوں کی محنت ہو۔۔۔۔۔ عورتوں کی تعداد بہت ہے اور وہ سب اپنے مردوں کا بٹاتی ہیں۔۔۔۔۔
اس میں تقریباً شکایات کا سبب حکومتوں کی نا اہلی ہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر دریا کے کنارے کوئی کتا پیاس سے مر گیا قیامت کے دن اس کا حساب بھی مجھ سے لیا جائے گا
یہ تو ہر ذی شعور جانتا ہے کہ جو مرض لاحق ہو اس کا علاج کیا جاتا ہے نہ کہ مریض کو محض درد کی ادویات کھلا کھلا کے اس کا مزید بیڑہ غرق کیا جائے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آج حکومت محض چند اسلامی اصولوں کا صحیح معنوں میں نفاذ کر دے تو خود دیکھ لیجیے گا
زکوٰۃ، عشر، خمس
ان تینوں سے ملک کے ہر غریب کا معاشی مسئلہ حل ہو سکتا ہے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
علامہ اقبال فرماتے ہیں

دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں

اگر دلِ بینا ہمیں عطا ہو جائے تو دنیا کے ہر مسئلے کا حل شریعت میں ہی نظر آنے لگے گا
 
کیا اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ دنیا نے جب اپنے معیارِ زندگی کو بلند سے بلند کرنے کے چکر میں خود کو ہلکان کیا تو خواتین کو مددگار کے طور پر ساتھ ملا لیا۔ اور جس خاتون کو مرد نے چند ٹکوں کے لیے باہر نکالا اسے علم ہی نہیں کہ خاتون گھر میں بیٹھ کر ایک ایسی نسل کی تربیت کر رہی تھی جس سے معاشرہ بنتا ہے اور آج ذرا معاشرے کی طرف نظر گھمائیے سب سے گھناؤنے جرائم کرنے والے لوگ آپ کو تعلیم یافتہ ہی ملیں گے
یہ بہت اہم نکتہ ہے بھائی عبدالرؤوف ۔۔۔ اولاد کی تربیت اور گھر کا نظم و نسق اپنے آپ میں ایک فل ٹائم جاب ہیں ۔۔۔ افسوس کہ ہمارے مرد بھی اس بات کا احساس نہیں کرتے اور جو خواتین گھر بیٹھ کر یہ ذمہ داری بخوبی نبھا رہی ہوتی ہیں انہیں ’’کچھ نہ کرنے‘‘ کے طعنے دیتے ہیں ۔۔۔ یہ زیادتی تو بہرحال ہمیں ماننا ہوگی ۔۔۔
مگر فیکٹ یہ بھی ہے اس بات کا بدلہ لینے میں خواتین خود کو ہی مزید ہلکان کرتی ہیں ۔۔۔ کوئی عورت اگر شادی شدہ زندگی گزارنا چاہے تو امور خانہ داری سے فرار ممکن ہی نہیں ۔۔۔ مرد کبھی بھی اولاد کی تربیت اس طرح کر ہی نہیں سکتے جو صلاحیت اللہ تعالیٰ نے عورت کو ودیعت کی ہے ۔۔۔ نتیجتاً ہوتا یہی کہ عورت لائف اسٹائل مینٹین کرنے کے چکر میں دن بھر خود کو دفتروں، فیکٹریوں میں ہلکان کرتی ہے اور پھر گھر پہنچتے ہی اسے گھر کے کام نمٹانے کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے ۔۔۔ ۹۰ فیصد ورکنگ وومن کا یہی المیہ ہے ۔۔۔ کچھ دن پہلے ایک اشتہار دیکھنے کا اتفاق ہوا کہ جس میں دکھایا جاتا ہے کہ ایک عورت کیسے اپنے گھر میں صبح سب سے پہلے اٹھتی ہے، سب کے لیے ناشتہ بناتی ہے، میاں صاحب کا لنچ پیک کرتی ہے، پھر خود تیار ہوکر دفتر جاتی ہے، سارا دن دفتر میں کھپا کر گھر واپس پہنچتے ہی اسے پھر گھرداری میں مشغول ہونا پڑ جاتا ہے ۔۔۔ اس پر طرہ یہ کہ اس تھکا دینے والے لائف اسٹائل کو ایک آئیڈیل زندگی بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔۔۔
عورتیں مجبوری سے گھر سے باہر کام کریں، یا محض اپنی پروفیشنل ایسپائریشنز کے تحت ۔۔۔ یہ ایک الگ بحث ہے، بلکہ کچھ فیلڈز میں تو عورتوں کو لازماً ہونا چاہیے ۔۔۔ لیکن جس ’’بیلنسڈ لائف اسٹائل‘‘ کا ہماری خواتین کو خواب دکھایا جاتا ہے، وہ سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔
کیسی چالاکی سے مرد نے اپنی ہم ذات کو اس بات کا مکلف بنا دیا جو درحقیقت خالق نے اس کے ذمے لگائی تھی ۔۔۔ اور ہم اپنے شعور اور آگہی کی بلند پروازی پر پھولے نہیں سماتے :)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
یہ بہت اہم نکتہ ہے بھائی عبدالرؤوف ۔۔۔ اولاد کی تربیت اور گھر کا نظم و نسق اپنے آپ میں ایک فل ٹائم جاب ہیں ۔۔۔ افسوس کہ ہمارے مرد بھی اس بات کا احساس نہیں کرتے اور جو خواتین گھر بیٹھ کر یہ ذمہ داری بخوبی نبھا رہی ہوتی ہیں انہیں ’’کچھ نہ کرنے‘‘ کے طعنے دیتے ہیں ۔۔۔ یہ زیادتی تو بہرحال ہمیں ماننا ہوگی ۔۔۔
مگر فیکٹ یہ بھی ہے اس بات کا بدلہ لینے میں خواتین خود کو ہی مزید ہلکان کرتی ہیں ۔۔۔ کوئی عورت اگر شادی شدہ زندگی گزارنا چاہے تو امور خانہ داری سے فرار ممکن ہی نہیں ۔۔۔ مرد کبھی بھی اولاد کی تربیت اس طرح کر ہی نہیں سکتے جو صلاحیت اللہ تعالیٰ نے عورت کو ودیعت کی ہے ۔۔۔ نتیجتاً ہوتا یہی کہ عورت لائف اسٹائل مینٹین کرنے کے چکر میں دن بھر خود کو دفتروں، فیکٹریوں میں ہلکان کرتی ہے اور پھر گھر پہنچتے ہی اسے گھر کے کام نمٹانے کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے ۔۔۔ ۹۰ فیصد ورکنگ وومن کا یہی المیہ ہے ۔۔۔ کچھ دن پہلے ایک اشتہار دیکھنے کا اتفاق ہوا کہ جس میں دکھایا جاتا ہے کہ ایک عورت کیسے اپنے گھر میں صبح سب سے پہلے اٹھتی ہے، سب کے لیے ناشتہ بناتی ہے، میاں صاحب کا لنچ پیک کرتی ہے، پھر خود تیار ہوکر دفتر جاتی ہے، سارا دن دفتر میں کھپا کر گھر واپس پہنچتے ہی اسے پھر گھرداری میں مشغول ہونا پڑ جاتا ہے ۔۔۔ اس پر طرہ یہ کہ اس تھکا دینے والے لائف اسٹائل کو ایک آئیڈیل زندگی بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔۔۔
عورتیں مجبوری سے گھر سے باہر کام کریں، یا محض اپنی پروفیشنل ایسپائریشنز کے تحت ۔۔۔ یہ ایک الگ بحث ہے، بلکہ کچھ فیلڈز میں تو عورتوں کو لازماً ہونا چاہیے ۔۔۔ لیکن جس ’’بیلنسڈ لائف اسٹائل‘‘ کا ہماری خواتین کو خواب دکھایا جاتا ہے، وہ سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔
کیسی چالاکی سے مرد نے اپنی ہم ذات کو اس بات کا مکلف بنا دیا جو درحقیقت خالق نے اس کے ذمے لگائی تھی ۔۔۔ اور ہم اپنے شعور اور آگہی کی بلند پروازی پر پھولے نہیں سماتے :)
سو فیصد درست
 

سیما علی

لائبریرین
مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ پاکستان میں عورت مارچ تحریک کو ایک مخصوص طبقہ ہائی جیک کر کے اپنے ایجنڈے کے فروغ کیلئے استعمال کرتا ہے۔
پاکستان میں آپکو پتہ ہے وہ کونسا طبقہ ہے اِنکا تعلق
اُن این جی اوز سے ہے جو ترقی یافتہ ممالک کے فنڈز اور ڈونر ایجنسیوں کی امداد سے چلتیں ۔۔ان میں سے کچھ ریاست کے مفاد کے خلاف بھی کام کر رہی ہیں۔اس لئیے صحیح طور پہ نہیں کہا جاسکتا کے اِنکے پیچھے کس
کا ہاتھ ہے ۔۔کچھ پتہ نہیں چلتا کہ انکے بیک گراونڈ میں کون لوگ ہیں ۔۔۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
جو بھی کہہ لیں پاکستان خواتین کے معاملے میں پسماندہ ترین ممالک ہی میں ہے اور رہے گا۔
 

سیما علی

لائبریرین
اولاد کی تربیت اور گھر کا نظم و نسق اپنے آپ میں ایک فل ٹائم جاب ہیں ۔۔۔ افسوس کہ ہمارے مرد بھی اس بات کا احساس نہیں کرتے اور جو خواتین گھر بیٹھ کر یہ ذمہ داری بخوبی نبھا رہی ہوتی ہیں انہیں ’’کچھ نہ کرنے‘‘ کے طعنے دیتے ہیں ۔۔۔ یہ زیادتی تو بہرحال ہمیں ماننا ہوگی ۔۔۔
بھیا یہ فل ٹائم جاب ہے بھلا کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کچھ نہیں کرتیں ۔۔۔تربیت کا ذمہ ایسے تھوڑی ماؤں کے ذمہ ہے ۔ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے ۔۔۔۔
 
Top