یقین ۔

ربیع م

محفلین
یقین محکم عمل پیہم ' محبّت فاتح عالم ؛
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

پتا نہیں اقبال نے صرف مردوں کی شمشیریں کیوں کہا ہے جبکہ عورت بھی اتنی ہی پر عزم اور با ہمت ہو سکتی ہے ۔۔

بہت پر اثر تحریر ہے ۔۔۔

کچھ عورتیں عزم و ہمت میں مردوں سے بھی بڑھ کر ہوتی ہیں قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے کچھ جگہوں پر مریم علیہا السلام کیلئے مذکر کا صیغہ استعمال کیا ہے۔جس کے بارے میں مفسرین کرام کہتے ہیں کہ مریم علیہا السلام اپنی ہمت و ارادے میں مردوں سے بڑھ کر تھیں جس کیلئے ان کو مذکر کے صیغہ سے یاد کیا گیا۔
 

کاشف اختر

لائبریرین
آپ کے لیے تحریر مشکل ہے ۔ آپ بے شک اس کو نہ پڑھیں ۔

اب تو پڑھ چکا ہوں ۔

اور مناسب سمجھیں جہاں دقیق الفاظ ، ثقیل تراکیب ہیں ، معلومات کا کوہ گراں ہے ، اس کو واضح کردیں

جی مناسب نہیں ہے میرے لئے کہ واضح کرسکوں

ہم جیسوں کو آپ جیسے راہنمائی دے سکتے ہیں ۔

ہم جیسوں کو یعنی کند ذہنوں کو آپ راہنمائی دے سکتی ہیں ، اور آپ کی عمدہ تحاریر سے کافی اچھی رہنمائی مل رہی ہے ،


کچھ سکھا دیں تاکہ فہم ہوسکے

میں اپنے فہم کی کوتاہی کی بات کررہا ہوں ، اور سکھانا میرے بس میں نہیں ہے ، ابھی خود سیکھ رہا ہوں ،
میں نے یہ جملے بطور تعریف لکھے تھے شاید میری قاصر الکلامی کے سبب آپ نے کچھ اور سمجھ لیا ہو تو معذرت !
 
آخری تدوین:
فاروقی صاحب خوب یہ ہنر بھی کھلا آپ کا ویسے مطب کہاں ہے آپ کا ... :)
سر، دو معروضات ہیں۔
  1. میں راحیل فاروق ہوں۔ نہیں جانتا فاروقی کیسے بن جاتا ہوں۔ آپ ہی نہیں ایسے کرم فرما اور بھی ہیں۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ سننے میں غلطی ہو جاتی ہے۔ اب دیکھا کہ پڑھنے میں بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ یقیناً کوئی بددعا ہے۔
  2. میں حکیم نہیں، بھائی۔ حکمت سے کوئی خاص شغف بھی نہیں۔ ویسے آپ آنا چاہیں تو مطب بھی کھول لیں گے۔ جیالے گیلانی صاحب کی آمد پہ ہسپتال کھول سکتے ہیں تو ہم یاروں کے لیے ہاون دستہ بھی نہیں خرید سکتے؟
 

نور وجدان

لائبریرین
کچھ عورتیں عزم و ہمت میں مردوں سے بھی بڑھ کر ہوتی ہیں قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے کچھ جگہوں پر مریم علیہا السلام کیلئے مذکر کا صیغہ استعمال کیا ہے۔جس کے بارے میں مفسرین کرام کہتے ہیں کہ مریم علیہا السلام اپنی ہمت و ارادے میں مردوں سے بڑھ کر تھیں جس کیلئے ان کو مذکر کے صیغہ سے یاد کیا گیا۔
کیا اس آیت کی کچھ وضاحت کی جا سکتی ہے کہ اس سے پہلے محترم اکمل صاحب کی کی بات معاشرتی جائزے پر مبنی سمجھی تھی
 

نور وجدان

لائبریرین
اب تو پڑھ چکا ہوں


جی مناسب نہیں ہے میرے لئے کہ واضح کرسکوں

ہم جیسوں کو یعنی کند ذہنوں کو آپ راہنمائی دے سکتی ہیں ، اور آپ کی عمدہ تحاریر سے کافی اچھی رہنمائی مل رہی ہے ،

میں اپنے فہم کی کوتاہی کی بات کررہا ہوں ، اور سکھانا میرے بس میں نہیں ہے ، ابھی خود سیکھ رہا ہوں ،
میں نے یہ جملے بطور تعریف لکھے تھے شاید میری قاصر الکلامی کے سبب آپ نے کچھ اور سمجھ لیا ہو تو معذرت !

شکریہ کہ اس کو پڑھا ہے ۔ آپ کی ثقیل اردو میری نظروں سے گزری تھی اور ادب سے لگاؤ رکھتے ہیں ۔ آپ کے حسن ظن کا جواب کوئی نہیں سوا اسکے کہ اچھی سی دعا اور سلام دے دوں ۔ مجھے خوشی کے میری کوتاہی اور اغلاط پر مبنی تحریر کے باوجود اس کی تعریف کی ۔ خوش رہیں
 
میں حکیم نہیں، بھائی۔ حکمت سے کوئی خاص شغف بھی نہیں۔ ویسے آپ آنا چاہیں تو مطب بھی کھول لیں گے۔ جیالے گیلانی صاحب کی آمد پہ ہسپتال کھول سکتے ہیں تو ہم یاروں کے لیے ہاون دستہ بھی نہیں خرید سکتے؟
معاملہ نیم حکیم خطرہ جان والا نہ ہو جائے.
 
ہمیں قرآن کھول کھول کر کہاں بتایا جاتا ہے۔۔۔۔۔
سوچا تھا آپکی اس بات کا جواب لکھوں۔۔۔۔ مگر کیا لکھوں۔۔۔۔
بہنا! یہاں وہ سب کچھ ہے جو ہمیں چاہئیے جو ہم نے کبھی سوچا ہے۔۔۔۔۔ مگر اپنی پسندیدہ شے کے حصول کیلئے سب سے پہلے کھوج کی ضرورت ہے اور پھر قربانی کی۔۔۔۔۔
بہت نہیں پتا مجھے۔۔۔۔ مگراتنا پتا ہے کہ اگر آپکی طلب سچی ہے تو آپکی کھوج کو کنارہ اور سوچ کو سمت شاید مل جائے۔۔۔۔ یہاں قرآن پاک مکمل کھول کھول کر بیان کیا جاتا ہے۔۔۔۔ ایک پیسہ بھی نہیں ۔۔۔۔ نہ کہیں جانا پڑے گا۔۔۔۔ بس آپکا وقت اور اہمیت چاہئیے۔۔۔۔قرآن پاک کو جتنی اہمیت دیں گی اتنا ہی سمجھ پائیں گی۔۔۔۔ پاکستان کے سب سے اچھے اور انٹرنیشنل ادارے کی مستند رہنمائی۔۔۔۔
'مصحف' کے بعد میں کئی سال اس کھوج میں رہی۔۔۔۔
پھر ایک راز مجھے یہ میسج ملا ۔۔۔۔۔ اور میں نے یہ ٹرین پکڑ لی۔۔۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم آپکے احساسات کیا ہوں اس حوالے سے۔۔۔لیکن پلہز فرقوں پر جا کر سوچنے سے پہلے آپ اسکے ایک دفعہ پہلے تین لیکچرز سن لیں پھر فیصلہ کیجئے گا۔۔۔۔۔۔ میں وہ میسج آپکا ایز اٹ از سینڈ کر رہی ہوں :
We do not know where Nemrah has learnt Quran from. But here is a link to complete audio tafseer of Dr Farhat Hashmi. There are more than 350 lectures in it. Aap ko eik saal lagay ga is ko poora sun'ny me agr ap roz ka ek lecture sunain. Eik quran lein, aur note book lein. Roz ek lecture sun kr us pe notes leti jaen. Tarteeb se sunain. Teen chaar friends ya family ka group bna kr sun lein tu behtar hoga. Eik saal baad apko bhi Saadi jesa quran aa jae ga lakin apko eik saal dena hoga lazmi is ko. Ye jald bazi se nhi seekh sken ge aap. This is an automated reply, is lea humara kaam sirf btana hai, aagy ap pe hai k ap kr skti hain ya nahi. Hum spoon feeding bhi nahi kr skty. Ap ko agr sun'ny me koi problem hai tu usko ap ne khud solve krna hai. :) best of luck.

Agr apko in scholar se koi problem ha tu hum us k zimmedar nae hain, simple stop listening.
http://www.alhudapk.com/audio/categ...u/dr-farhat-hashmi/taleem-al-qur-an-2005.html
ڈھیروں دعاؤں اور نیک تمناؤں کے ساتھ
 

نور وجدان

لائبریرین
مگر اپنی پسندیدہ شے کے حصول کیلئے سب سے پہلے کھوج کی ضرورت ہے اور پھر قربانی کی۔۔۔۔۔

کھوُج کی بات سمجھ آتی ہے مگر قربانی کیا ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ آپ نے درست سمت رہنمائی کی ہے ۔ کچھ طبیعت تساہل پسند ی میں ہے کچھ میں نے بھی وقت ضائع کردیا ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ صدا ۔۔۔۔۔۔جب جب میں نے مطالعہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔میں اگنور کرتی رہی ۔۔۔۔۔۔بس درست کہا ہے جستجو ہونی چاہیے۔۔۔اس مشورے کو محفوظ کرلیا ہے ذہن میں اور ریمائنڈر دیتی رہوں گی کہ اتنا اچھا بتایا ہے

ایک پیسہ بھی نہیں ۔۔۔۔ نہ کہیں جانا پڑے گا۔۔۔۔ بس آپکا وقت اور اہمیت چاہئیے۔۔۔۔قرآن پاک کو جتنی اہمیت دیں گی اتنا ہی سمجھ پائیں گی۔۔۔

میں قران پاک کے لیے پیسے لگانا نہیں چاہتی ۔۔۔۔۔جانے کیوں ۔۔۔مگر اہمیت اب اس کتاب کے سوا کسی بھی کتاب کو دینا نہیں چاہتی ۔۔۔۔۔۔دیکھیں مجھے کتنا وقت لگتا ہے کہ میں ایک سال بہت زیادہ سمجھ رہی مگر زندگی اس کو لمبا کرتی یا چھوٹا۔۔۔۔۔۔ اللہ کرے عرصہ قلیل ہو کہ میں لمبے عرصے تک کسی بھی مقام پر ٹھہر نہیں سکتی ۔ یہ میری خامی ہے جس کا اعتراف ہے
ik saal baad apko bhi Saadi jesa quran aa jae ga lakin apko eik saal dena hoga lazmi is ko. Ye jald bazi se nhi seekh sken ge aap. This is an automated reply, is lea humara kaam sirf btana hai, aagy ap pe hai k ap kr skti hain ya nahi. Hum spoon feeding bhi nahi kr skty. Ap ko agr sun'ny me koi problem hai tu usko ap ne khud solve krna hai. :) best of luck.


محترمہ فرحت ہاشمی۔۔۔۔۔۔استاد نعمان علی ۔۔۔۔۔۔۔۔ طارق جمیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کسی کو بھی سننا نہیں چاہتی ۔۔۔۔۔میں جب ناول کسی کے سے سن پر پڑھنا نہیں چاہتی کہ مزہ کر کرا ہوجائے گا تو قران پاک کے ساتھ ایسا کیوں۔۔۔لیکن بہن کے دیے گئے مشورے اور خُلوص کی قدر کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔اللہ توفیق دے کہ علم کی جستجو قائم رکھے ۔آپ مجھے ایسا بتادیا کرو تاکہ کچھ میرا ذہن اچھی سمت میں چلے اور بھاگے ۔۔۔۔۔۔جزاک اللہ ۔لطف آگیا آپ کے تبصرے کو اب پڑھ کے۔سبحان اللہ
 
کھوُج کی بات سمجھ آتی ہے مگر قربانی کیا ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ آپ نے درست سمت رہنمائی کی ہے ۔ کچھ طبیعت تساہل پسند ی میں ہے کچھ میں نے بھی وقت ضائع کردیا ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ صدا ۔۔۔۔۔۔جب جب میں نے مطالعہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔میں اگنور کرتی رہی ۔۔۔۔۔۔بس درست کہا ہے جستجو ہونی چاہیے۔۔۔اس مشورے کو محفوظ کرلیا ہے ذہن میں اور ریمائنڈر دیتی رہوں گی کہ اتنا اچھا بتایا ہے



میں قران پاک کے لیے پیسے لگانا نہیں چاہتی ۔۔۔۔۔جانے کیوں ۔۔۔مگر اہمیت اب اس کتاب کے سوا کسی بھی کتاب کو دینا نہیں چاہتی ۔۔۔۔۔۔دیکھیں مجھے کتنا وقت لگتا ہے کہ میں ایک سال بہت زیادہ سمجھ رہی مگر زندگی اس کو لمبا کرتی یا چھوٹا۔۔۔۔۔۔ اللہ کرے عرصہ قلیل ہو کہ میں لمبے عرصے تک کسی بھی مقام پر ٹھہر نہیں سکتی ۔ یہ میری خامی ہے جس کا اعتراف ہے



محترمہ فرحت ہاشمی۔۔۔۔۔۔استاد نعمان علی ۔۔۔۔۔۔۔۔ طارق جمیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کسی کو بھی سننا نہیں چاہتی ۔۔۔۔۔میں جب ناول کسی کے سے سن پر پڑھنا نہیں چاہتی کہ مزہ کر کرا ہوجائے گا تو قران پاک کے ساتھ ایسا کیوں۔۔۔لیکن بہن کے دیے گئے مشورے اور خُلوص کی قدر کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔اللہ توفیق دے کہ علم کی جستجو قائم رکھے ۔آپ مجھے ایسا بتادیا کرو تاکہ کچھ میرا ذہن اچھی سمت میں چلے اور بھاگے ۔۔۔۔۔۔جزاک اللہ ۔لطف آگیا آپ کے تبصرے کو اب پڑھ کے۔سبحان اللہ
قربانی کی ضرورت ہر معاملے میں ہوتی ہے۔۔۔۔ بس کچھ قربانیوں کو ہم قربانی کا نام دے کر ساری عمر سوچتے رہتے ہیں کہ ہم نے قربانی دے ڈالی۔۔۔۔۔ اور کچھ قربانیاں ایسی ہیں کہ ہمیں خود معلوم نہیں ہو پاتا اور ہم قربان ہو رہے ہوتے ہیں
بہر حال بات یہاں قرآن کریم کی ہو رہی ہے تو یہاں قربانی کا مطلب وقت کی قربانی تو ہے ہی۔۔۔۔ ایک سال روزانہ چار گھنٹے اللہ کی رضا کیلئے وقت نکالنا مکمل یکسوئی سے یہ بہر حال انسان کیلئے انسان نہیں۔۔۔۔ دوسری اور زیادہ اہم بات یہ کہ جب آپ یہ لیکچر شروع کرہں گی اور قرآن پاک سیکھیں گی تو آپکو ساتھ ساتھ روزانہ بہت سی نفسانی قربانیاں دینی پڑیں گی۔۔۔۔ اور اس بات کی اہمیت آپ تب ہی سمجھیں گی جب آپ غوطہ زن ہو پائیں گی۔۔۔
اور
اہمیت۔۔۔۔قرآن پاک کو اہمیت دینا یہ نہیں کہ ہم اسے مائی فیورٹ بک سمجھیں۔۔۔۔اسکو اہمیت دینا یہ ہے کہ ہر لحظہ آپ اسے کائنات کی ہر شے سے اوپر رکھیں دل میں بھی اور تصورات اور عمل میں بھی۔۔۔۔دو چیزوں میں ہر مرض کی شفا ہے۔۔۔۔شہد اور قرآن پاک۔۔۔۔
جہاں تک مستقل مزاج نہ ہونے کا تعلق ہے تو یہ آج ہم سب کا مسئلہ ہے۔۔۔آئیے مل کے اسکا کوئی حل نکالتے ہیں۔۔۔۔اسکی حقیقی ، نفسیاتی، معاشرتی، ذاتی وجوہات اور انکا سد باب سوچیں۔۔۔ کیونکہ یہ مسئلہ ہماری قوم کا ہے۔۔۔۔ساری دنیا کا اس شدت سے نہیں۔۔۔۔ ہم وہ بہادر شاہ ظفر ہیں جو ساری سلطنت کے کام چھوڑ چھاڑ کر بیٹھا شعروں کہ اصلاح لیا کرتا تھا اور اگر اسے تخت سے اتر کر کسی کام کع جانا ہوتا اور کوئی اسکے پاس نہ ہوتا تو گھنٹوں انتظار کرتا کہ کوئی آئے جو مجھے جوتا پہنائے اور میں کام کو جاؤں۔۔۔۔
 

اکمل زیدی

محفلین
سر، دو معروضات ہیں۔
  1. میں راحیل فاروق ہوں۔ نہیں جانتا فاروقی کیسے بن جاتا ہوں۔ آپ ہی نہیں ایسے کرم فرما اور بھی ہیں۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ سننے میں غلطی ہو جاتی ہے۔ اب دیکھا کہ پڑھنے میں بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ یقیناً کوئی بددعا ہے۔
  2. میں حکیم نہیں، بھائی۔ حکمت سے کوئی خاص شغف بھی نہیں۔ ویسے آپ آنا چاہیں تو مطب بھی کھول لیں گے۔ جیالے گیلانی صاحب کی آمد پہ ہسپتال کھول سکتے ہیں تو ہم یاروں کے لیے ہاون دستہ بھی نہیں خرید سکتے؟

جواب اعتراض نمبر اول : مجھے خیال نہیں رہا وہ روانی میں کہ گیا ...اور کہہ بھی گیا تو یہ کوئی بد دعا نہیں دعا کی صورت سمجھ لیں ..فاروقی میرے ناقص علم کے مطابق اچھے اور برے صحیح اور غلط میں فرق کرنے والے کو کہتے ہیں ...دوسرے معنوں میں عدل کرنے کے بھی ہیں اور خدا کی ایک صفت عادل بھی ہے جو وہ اپنے بندوں میں بھی دیکھنا چاہتا ہے ...

جواب اعتراض نمبر دوئم : آپ نے غلط کہا کے حکمت سے کوئی شغف نہیں ..اگر شغف نہیں ہوتا تو اوپر اتنی حکیمانہ بات نہ کہی ہوتی آپ نے ...یا شاید حسن بےنیازی ہے یا حسن بے خبری ہے ...آپ بلائیں ہم بغیر مطب کے آجائینگے ...@راحیل فاروق صاحب :)
 
کھوُج کی بات سمجھ آتی ہے مگر قربانی کیا ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ آپ نے درست سمت رہنمائی کی ہے ۔ کچھ طبیعت تساہل پسند ی میں ہے کچھ میں نے بھی وقت ضائع کردیا ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ صدا ۔۔۔۔۔۔جب جب میں نے مطالعہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔میں اگنور کرتی رہی ۔۔۔۔۔۔بس درست کہا ہے جستجو ہونی چاہیے۔۔۔اس مشورے کو محفوظ کرلیا ہے ذہن میں اور ریمائنڈر دیتی رہوں گی کہ اتنا اچھا بتایا ہے



میں قران پاک کے لیے پیسے لگانا نہیں چاہتی ۔۔۔۔۔جانے کیوں ۔۔۔مگر اہمیت اب اس کتاب کے سوا کسی بھی کتاب کو دینا نہیں چاہتی ۔۔۔۔۔۔دیکھیں مجھے کتنا وقت لگتا ہے کہ میں ایک سال بہت زیادہ سمجھ رہی مگر زندگی اس کو لمبا کرتی یا چھوٹا۔۔۔۔۔۔ اللہ کرے عرصہ قلیل ہو کہ میں لمبے عرصے تک کسی بھی مقام پر ٹھہر نہیں سکتی ۔ یہ میری خامی ہے جس کا اعتراف ہے



محترمہ فرحت ہاشمی۔۔۔۔۔۔استاد نعمان علی ۔۔۔۔۔۔۔۔ طارق جمیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کسی کو بھی سننا نہیں چاہتی ۔۔۔۔۔میں جب ناول کسی کے سے سن پر پڑھنا نہیں چاہتی کہ مزہ کر کرا ہوجائے گا تو قران پاک کے ساتھ ایسا کیوں۔۔۔لیکن بہن کے دیے گئے مشورے اور خُلوص کی قدر کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔اللہ توفیق دے کہ علم کی جستجو قائم رکھے ۔آپ مجھے ایسا بتادیا کرو تاکہ کچھ میرا ذہن اچھی سمت میں چلے اور بھاگے ۔۔۔۔۔۔جزاک اللہ ۔لطف آگیا آپ کے تبصرے کو اب پڑھ کے۔سبحان اللہ
یہود کے ساتھ ہمیشہ بہت برا سلوک ہوتا رہا۔۔۔۔ ہر قوم نے ان کو ملک بدر کیا۔۔۔۔بنو نظیر اور بنو قریضہ کی دربدری بھی آپکو یاد ہوگی۔۔۔۔ انکی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔۔۔۔۔ انہوں نے پچھلے سو سالوں میں پہلی بار اس بات کا اندازہ لگایا کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے۔۔۔۔؟ معلوم یہ ہوا کہ ان کا اپنا کوئی ملک نہیں۔۔۔۔ تب انہوں نے جدوجہد شروع کی۔۔۔ صلیبی جنگوں اور جنگ عظیم کے بعد انہوں نے متحدہ پراپیگنڈہ کیا جس کی تفصیل درکار نہیں۔۔۔بہر حال انکو انکا وطن مل گیا۔۔۔۔ انہیں پتا چلا کہ انہوں نے سب سے زیادہ توجہ علم پہ دینی ہے۔۔۔ انہوں نے عبرانیہ یونیورسٹی بنائی جس میں سال کے 365 دن ایک بھی چھٹی نہیں ہوتی اور سب سے زیادہ سائنسداں اس یونیورسٹی سے نکلے ہیں آج تک۔۔۔۔ اور یہودی اپنی مذہبی کتاب کو 15 سال لگا کر سیکھتے ہیں اور کوئی ناغہ نہیں کرتے۔۔۔۔۔ اور جب پندرہ سال مکمل ہو جاتے ہیں تو وہ دوبارہ داخلہ لے لیتے ہیں اگلے پندرہ سال کیلئے۔۔۔۔ اور آج وہ 'بادشاہ گَر" ہیں اس پوری دنیا کے۔۔۔۔

اور ہم۔۔۔۔ ایک سال نہیں دے سکتے ہم سب قرآن کریم کو۔۔۔۔اور ہم ویسے بھی کچھ نہیں کرتے اور سال میں ڈیڑھ سو چھٹی پر بھی اکتفا نہیں کرتے 'ہم'
 
کھوُج کی بات سمجھ آتی ہے مگر قربانی کیا ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ آپ نے درست سمت رہنمائی کی ہے ۔ کچھ طبیعت تساہل پسند ی میں ہے کچھ میں نے بھی وقت ضائع کردیا ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ صدا ۔۔۔۔۔۔جب جب میں نے مطالعہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔میں اگنور کرتی رہی ۔۔۔۔۔۔بس درست کہا ہے جستجو ہونی چاہیے۔۔۔اس مشورے کو محفوظ کرلیا ہے ذہن میں اور ریمائنڈر دیتی رہوں گی کہ اتنا اچھا بتایا ہے



میں قران پاک کے لیے پیسے لگانا نہیں چاہتی ۔۔۔۔۔جانے کیوں ۔۔۔مگر اہمیت اب اس کتاب کے سوا کسی بھی کتاب کو دینا نہیں چاہتی ۔۔۔۔۔۔دیکھیں مجھے کتنا وقت لگتا ہے کہ میں ایک سال بہت زیادہ سمجھ رہی مگر زندگی اس کو لمبا کرتی یا چھوٹا۔۔۔۔۔۔ اللہ کرے عرصہ قلیل ہو کہ میں لمبے عرصے تک کسی بھی مقام پر ٹھہر نہیں سکتی ۔ یہ میری خامی ہے جس کا اعتراف ہے



محترمہ فرحت ہاشمی۔۔۔۔۔۔استاد نعمان علی ۔۔۔۔۔۔۔۔ طارق جمیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کسی کو بھی سننا نہیں چاہتی ۔۔۔۔۔میں جب ناول کسی کے سے سن پر پڑھنا نہیں چاہتی کہ مزہ کر کرا ہوجائے گا تو قران پاک کے ساتھ ایسا کیوں۔۔۔لیکن بہن کے دیے گئے مشورے اور خُلوص کی قدر کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔اللہ توفیق دے کہ علم کی جستجو قائم رکھے ۔آپ مجھے ایسا بتادیا کرو تاکہ کچھ میرا ذہن اچھی سمت میں چلے اور بھاگے ۔۔۔۔۔۔جزاک اللہ ۔لطف آگیا آپ کے تبصرے کو اب پڑھ کے۔سبحان اللہ
اور اساتذہ کہ اہمیت آپ مجھ سے بہتر جانتی ہیں۔۔۔ آپ نے ہی مجھے کل بتایا۔۔۔۔ وہ لوگ جنہوں نے زندگیاں اس فیلڈ میں لگائی ہوتی ہیں۔۔۔۔ آپ کی بات بجا ہے مگر وہ استاد ہیں وہ مزا کرکرا کنے، پڑھ کر سنانے اور کہانی ڈسکلوز کرنے نہیں آئے۔۔۔۔۔ ان کا مقصد قرآن پاک کو مکمل گہرائی میں سمجھانا ہے۔۔۔۔ قرآن پاک آسان نہیں ہے حضور! آپ تو خود استاد بھی رہی ہیں اور طالبِ علم بھی ۔۔۔۔ مجھے لگتا تھا آپ یہی کہیں گی اسی لئے کہا تھا کہ صرف ایک دفعہ پہلے تین لیکچر سن کر تو دیکھئیے۔۔۔۔ دنیاوی تعلیم کیلئے ہم پیسہ، وقت ، انا سب قربان کر دیتے ہیں حتی کہ اپنے تصورات بھی۔۔۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ دینی تعلیم ہم بغیر استاد کے اس درجہ کی سیکھ سکتے ہیں جس درجہ کی چاہئیے۔۔۔۔ :)
بہت معذرت ۔۔۔۔میرا مقصد دل آزاری ہرگز نہیں۔۔۔۔ ہم سب ایک ہی صف میں ہیں جناب! :)
 

نور وجدان

لائبریرین
آپ نے پٹائی دھلائی ساتھ میں کردی ۔۔۔۔۔۔۔:p

مشکلیں اتنی پڑیں کہ آسان ہوگئیں۔۔۔۔۔۔

قران پاک کی جو لائن کوٹ کی اس کا مفہوم یہی تھا کہ ہمیں بچپن سے اس کی تفہیم نہیں کرائی جاتی ہے۔ جبکہ اس کو بہت پہلے پڑھانا چاہیے ۔ باقی میں ان اساتذہ کے لیکچرز سن چکی ہوں۔رات کوہینڈفری لگاتے تراجم ہی سنا کرتی تھی ۔میں قران پاک کا ترجمہ بھی سنتی پڑھتی رہی ۔ مجھے کچھ سورتوں کے تراجم یاد ہیں۔میں نے پڑھنے سے مراد اس کی آیتوں کو کائنات کی آیتوں سے ملانے کہاتھا۔ یہ کلام ۔۔۔۔۔۔۔اللہ کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کائنات بھی اللہ کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر انسانی کی کہانی۔۔۔۔۔۔۔تقدیر۔۔۔۔امنجانب اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں کیوں کسی کی تشریح پر اعتبار کروں۔۔۔۔۔۔۔میں نے قران پاک لکھ لکھ کے سورہ البقر کے معانی تلاش کرنے کی 4 سال پہلے جستجو کی تھی ۔مجھے سمت نہیں ملی تھی کہ میں چاہ کیا رہی ہوں۔اب پتا چلا ہے کہ اپنی زندگی قران پاک سے ڈھونڈنی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔میں تساہل کا شکار ہوں ، میں کسی جبر کو مانتی نہیں۔میں ان مفکروں کو نہیں مانتی چاہے وہ ذاکر نائیک ہو،چاہے وہ کوئی اور۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی آپ نے سوچا ہے وہ جو بتارہے ہمیں تو اسلاف کی باتیں رٹوا رہے جبکہ آئمہ حضرات تو قیاس اور تفکر کرتے اجتہاد کیا کرتے تھے ۔آج کے دور میں ہر فرد اپنا مجتہد ہے ۔


اب یہاں سے پٹائی کردی تو کہاں جاؤں گی:barefoot:
 

نایاب

لائبریرین
یہ کلام ۔۔۔۔۔۔۔اللہ کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کائنات بھی اللہ کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر انسانی کی کہانی۔۔۔۔۔۔۔تقدیر۔۔۔۔منجانب اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں کیوں کسی کی تشریح پر اعتبار کروں۔۔۔۔۔
عین ممکن ہے کسی کی تشریح پر اعتبار کی بجائے تشریح میں موجود " حرف لفظ بیان " آپ کی تلاش میں مددگار ٹھہر سکتے
آپ کی سوچ کو درست راہ کی جانب مہمیز دے سکنے میں معاون ہو جائے ۔۔۔۔

اپنی زندگی قران پاک سے ڈھونڈنی ہے۔
لا ریب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کے دور میں ہر فرد اپنا مجتہد ہے ۔
غوروفکر لازم اور حق ہے ہر سوچ رکھنے والی ہستی کا ۔۔۔۔
اللہ سوہنا آپ کو اپنی رحمتوں بھرے علم سے نوازے آمین
بہت دعائیں
 

نور وجدان

لائبریرین
آپ تو خود استاد بھی رہی ہیں اور طالبِ علم بھی ۔

کبھی میرے طالب علموں سے پوچھ سکتی کہ میں کیسی استاد رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید رٹا لگوانا چھڑوا دیا تھا۔۔مجھے کہا کرتے میرے اسٹوڈنٹس۔نمبر نہیں ملیں اگر کتاب والا نہیں لکھا۔۔۔۔میں کہا کرتی اپنی تفہیم لکھو کہ نمبر میں نے دینے اور اگر ری چیکنگ میں مسئلہ ہوا تو میں آپ کے لیے اسٹینڈ لوں گی۔۔۔۔۔وہی بولتے اگر بورڈ میں ایسا ہوا تو۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں بھی کہا کرتی انسان اگر صیحح ہو تو کوئی چیز غلط نہیں ہوسکتی۔۔۔رٹے نے ان کی نفیسات خراب کردی تھی ۔۔۔۔۔میں ان سے کہانی کی طرح کلاس میں پڑھاتی اور گھر کی طرح گفتگو کرتی ۔۔۔۔۔۔۔میں نے اپنے طلباء کو دوستی کا رشتہ دیا ہے جس پر وہ آج بھی فخر کرتے ہیں گوکہ اس کو اب سال گزر گئے ہیں۔۔۔۔۔۔اس وجہ سے میں خود کو سرخرو پاتی ہوں کہ میں نے ایک اچھا سبق دیا ہے زندگی رٹا نہیں ہے
 

محمدظہیر

محفلین
مسافتیں قدم قدم ساتھ رہتی ہیں اور ہمارے یقین سے کھیلتی ہیں ۔ زندگی کے گُزرے ماہ و سال نے میرے یقین کو پایہ یقین تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ وہ یقین جو سوچ سے شروع ہوتا ہماری سوچ ختم کردیتا ہے ، وہ یقین جو فہم و ادراک سے ہوتا ہمیں ناقابل ِ فہم اشیاء کی طرف لے جاتا ہے یا سادہ الفاظ سے وراء سے ماوراء کا سفر کرا دیتا ہے ۔ بے یقینی نے میرے یقین کو دھندلا کیا اور میں نے اللہ سے ضد شُروع کردی ۔ انسان اللہ سے ضد کرے اور اللہ پھر اس کو اپنی طرف کھینچے یعنی کہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے نہیں تھامتے بلکہ اس کی رسی ہمیں ایسا جھنجھوڑتی ہے کہ ہماری رگ رگ اس کی حمد و تسبیح کرتی ہے ۔ اس یقین و بے یقینی کے سفر کو کچھ سطور پر مربوط کرتے آپ سب کے سامنے رکھ رہی کہ ہونا وہی جو اللہ کی چاہت ہے ۔ آدم و حوا لاکھ چاہیں اس کے مخالفت کریں وہ کر نہ سکیں اگر اللہ نہ چاہے اور لاکھ چاہیں ۔میں نے اسی سفر کو عہد الست میں دہرایا تھا اور یہ جو لکھا ہے شاید اس کو پہلے سے لکھ چکی ہوں ، میں آپ کے سامنے ناقابل فہم تحاریر رکھے دیتی ہوں اور آپ لوگوں کا حسن ظن ہے کہ اس کو پڑھے جاتے ہیں کہ میں ایک مسافر ہوں جس نے زندگی میں یقین کے مدارج سیکنڈز میں طے کرنے ہیں اس لیے میری تشنگی کو سمجھنے والے کوئی کوئی ہیں ۔میرا دل سوختگی و شکستگی کے باوجود کسی بھی مکمل انسان سے بہتر ہے کہ میں نامکمل اس لیے ہوں کہ جان چکی ہوں اللہ کا گھر شکستہ دلوں میں جلد بن جاتا ہے۔ یہ دل کثرت کے جتنے جام پیے جاتے ہیں اتنے ہی اس کے قریب ہوتے جاتے ہیں کہ جتنی چاندنی دنیا میں بکھری ہیں وہ اپنی جگہ مکمل ہوتے ہوئے بھی نا مکمل ہے ، جیسے چاند رات کے بغیر اور دن سورج کے بغیر ادھورا ہے ۔ پہاڑ ، سمندر، زمین ،صحرا ، جنگل سبھی مظاہر ایک دوسرے کے بھروسے پر قانون قدرت کے نظام کو رواں دواں کیے ہوئے ہیں ۔

میں سائنس دان بننا چاہتی تھی اس لیے فزکس میرا پسندیدہ مضمون ہوا کرتا تھا۔ بچپن میں خوابوں کی دنیا میں اپنی تجربہ گاہ سجائی ہوئی تھی اور میں اپنے خیالوں میں مختلف تجربات کیا کرتی تھی ۔ میں نے سوچا تھا میں ایسا ڈیوائس یا آلہ بناؤں گی جس سے میں مختلف رنگوں کی شعاعوں کو آپس میں ملا کے طاقت حاصل کرسکوں ۔ یوں اگر خود کو دیکھوں تو مجھے طاقت حاصل کرنے کا جُنون رہا ہے مگر ایسا ذریعہ جو میرا اپنا ایجاد کردہ ہو ۔ طاقت کا جُنون مجھے دنیا کی تسخیر کی طرف لے جانے کی طرف مجبور کرتا اور اللہ کی جانب سے اسی شدت سے میں واپس بلا لی جاتی تھی ۔ یونہی میں ایک محفلِ نعت پر بلا لی گئی ۔حمد و ثناء کی محفل میں فلک سے عرش تک نور کی برسات تھی یوں کہ عالم روشنی میں نہا گیا ہو اور میں اس کیف میں مبتلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔، جب رات اس ذکر میں گُزری تو علی الصبح میں نے پڑھنے سے انکار کردیا اور علی الا علان قرانِ پاک کے حفظ کا ارادہ کیا۔قرانَ پاک کُھول کُھول کے ہمیں کہاں بتایا جاتا ہے ۔ ہمیں اپنے محبوب کا کلام رٹا لگوانے کے لیے دیا گیا ہے ؟ اس کو سوچتی رہی کہ مجھے دنیا سے کیا لینا دینا ، مجھے تو سب اس کتاب سے ملنا ہے ۔ میرے دل پر رقت طاری رہی تھی ۔مجھے لگا میرا دل کسی موم کی مانند ہے اور وہ گھُل گیا ہے۔ چاک سینہ ، چاک جگر ۔۔۔۔یہ الفاظ اس کیفیت کو بیان کرنے سے قاصر ہوں کہ میری آنکھ سے آنسو بہت کم نکلا کرتے تھے کُجا کہ پورا دن روتے روتے گُزار دوں ۔ درحقیقت مجھے خُدا یاد آگیا تھا ، اپنے ہونے کا مقصد مجھی دنیا سے دور لے جاتا مگر دنیا مجھے اپنی طرف کھینچتی ۔میں نے رسی کا توازن بگاڑ دیا۔ دنیا میں بھی رہتی اور اس کی فکر میں بھی ۔ میرا یقین بھی منتہی کو پُہنچ کے بے یقینی کی بُلندیوں میں غرق ہوگیا۔ اس غرقابی سے مجھے نکال کے دوبارہ یقین پر استوار کردیا گیا اور یہ ذات وہی ذات ہے جو انسان پر رحم کرتی ہے ورنہ انسان کس قابل ہے ۔


ایف ایس سی سے قبل راقم نے ارادہ کیا کہ پاکستان اٹامک نیوکلیئر انرجی کمیشن میں بحثیت سائنس دان کے کام کرنا ہے مگر معاشی حالات نے گھر سے نکلنے پر مجبور کردیا ۔ میں پڑھنا چاہتی تھی اور جو خواب بُن چکی تھی ان کا پایہ تکمیل تک پُہنچانا چاہتی تھی ۔ میرا اس اصول پر یقین رہا تھا کہ انسان حالات کو اپنے اختیار میں لاتا مفتوح کرتا خود فاتح ہوتا ہے اور وہ کمزور انسان ہوتے ہیں جو حالات کے مفتوح ہوجاتے ہیں ۔ اس لیے ہر وہ کام جو مشکل ہوتا میں وہ جان کے اختیار کرتی کہ آسان تو ہر کوئی کرتا ہے مگر مشکل کوئی کوئی کرتا ہے ۔زندگی مشکل نبھاتے نبھاتے گُزرتی رہی اور یقین کے بخشے حوصلے سے ضُو پاتی رہی ۔ اپنی فیلڈ بدل کے بیوروکریٹ بننا خواب یا جُنون رہا ہے ۔یا یوں کہے لیں کہ طاقت حاصل کرنا میرا جُنون رہا ہے اور میں وہ مجنوں جس نے دُنیا کو لیلی بنائے رکھا ۔م چونکہ گھر بھی خود چلانا پڑا اور پڑھائی کے لیے پیسے نہیں تھے اس لیے بنا وقت ضائع کیے پرائیویٹ امتحان دینا شروع کیے ۔ یہاں پر میری زندگی کا مقصد جس کا بچپن سے خواب بُنا تھا ، وہ مجھے دور جاتا محسوس ہوا میں نے پناہ اختیار کرتے مذہب میں امان دھونڈتا شروع کردی ۔
ا
میٹرک میں شہاب نامہ پڑھا رکھا تھا ۔ اس کا اثر اس مقصد کے ٹوٹ جانے یعنی یقین کے ختم ہونے کے بعد'' نیا یقین'' بیدار ہونے پرا ہوا اور میں نے سوچا مجھے ''سی ایس ایس'' کرکے اعلی عہدے پر تعینات ہونا ہے ۔ یقین جب ٹوٹ جائے تو کبھی کبھی اس کا سفر مخالف سمت میں شروع ہوجاتا ہے ۔ میں نے اللہ سے ضد لگانا شروع کردی ۔ہر وہ کام کرتی جو مجھے لگتا اللہ کا ناپسند ہوسکتا ہے ۔ خاندان والے شیعہ ،سنی ،وہابی کے اختلاف میں پھنسے رہتے میں نے ہر فرقے سے لا تعلقی اختیار کرلی ۔ نماز جو ساری زندگی کبھی قضا نہیں کرتی تھی میں نے پڑھنا چھوڑ دی اور وہ قران پاک جس کی سب سے بڑی سورۃ کی سحر کے وقت بیٹھ کے تلاوت کرتی تھی اسی کو ہاتھ لگانا چھوڑ دیا اور جب مجھے کہا جاتا نماز پڑھو تو صاف انکار کرکے کہے دیتی کہ مجھے اللہ نماز میں نہیں ملتا ۔وہ کہتی دُعا مانگ لیا کر اپنے لیے کہ اللہ محنت سے زیادہ دعا پر نواز دیتا ہے مگر میرا کہنا تھا کہ دعا کچھ بھی نہیں ہوتی سب کچھ انسان کی اپنی جستجو ہوتی ہے ۔ انسان کی اپنی جستجو ہی سب کچھ ہوتی ہے چاہے وہ ضد سے چاہے وہ اس کی سمت میں ہو مگر جو اس'' ضد اور سمت'' یعنی نفی اور اثبات کے درمیاں ہوتے ہیں وہ نہ ادھر کے ہوتے ہیں نہ اُدھر کے ہوتے ہیں میں اپنی دہریت میں ہر مذہبی تعلیم کو رد کرچکی تھی ۔

راقم نے بیک وقت صبح ، شام نوکری کے ساتھ اپنے تعلیمی ادراے کی کلاسز لیتے زندگی کی صبح میں تیز دھوپ کا سامنا کیا ہے ۔ یوں تعلیم کا ماخد کتاب نہیں بن سکا اور پہلا چانس بنا پڑھے دے آئی جس میں چھ مضامیں چھوڑ دیے اس بے یقینی پر کہ میں پڑھے بغیر کچھ نہیں ہوں ۔ نتائج نے ثابت کیا کہ میں بنا پڑھے سب کچھ ہُوں کہ مستقبل قریب شاندار نتیجہ لاتا اور امید سحر کی جانب لے گیا ۔ ہر ماہ کچھ کتابیں خریدتے وقت پڑھ لیا کرتی ۔ اس طرح ایم اے انگلش کی کلاسز پڑھانا شُروع کردیں اور ساتھ سی ایس ایس کے کلاسز ملتان کے سب سے بڑے ادارے میں دنیا شُروع کردیں کہ مری قابلیت کے اساتذہ معترف تھے اور نتیجے سے پہلے مجھے اپنے ادارے میں پڑھانے کی پیش کش کردی ۔ جُوں جُوں وقت گزرتا رہا ، وقت نے حالات بدلے اور نئے سلسلے بھی شُروع ہوگئے ۔ مظہر سے جُڑنا گویا حقیقت سے ملنا ہے اور یہی سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلا ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جو منکرین محبت تھے ان کو اقرار محبت کرنا پڑا اور یوں وقت کے ستم ظریفی کہ یقین کے بعد بے یقینی کا سفر شُروع کردیا گیا ۔ اسی سفر کی بے یقینی اور بڑھا دی گئی جب راقم نے اگزامز میں پاس ہونے کے بعد ایلوکیشن میں مشکلات کا سامنا پایا ۔ ایسی مایوسی ہوئی کہ کتابیں جلا دیں اور کچھ کسی کو دے دیں کہ بھلا ہوجائے گا اور کچھ ردی کے مول پر اور کچھ بک شاپس پر بیچ ڈالی ۔ جس بات نے مجھے ضرب لگائی میں نے اسی سے کنارا کرنا شروع کردیا ۔ میں نے اللہ کی مکمل نفی کر دی اور کہ دیا کہ اللہ تو کہیں بھی نہیں دکھتا اور اگر دکھتا تو مجھے ایسے رُسوا نہیں کرتا ۔مجھ پر کُفر کے فتوی بھی لگے اور کسی نے کہا دوبارہ کلمہ شہادت پڑھو ۔ یوں شہادت دیتے اس کی ذات کی گواہی دیتے دوبارہ سے یقین کی جانب سفر شُروع ہوا۔


میں نے اس کی جناب میں گستاخی کر ڈالی ، اس کے موجودگی سے انکار ڈالا مگر اس نے اپنی رحمت کی ٹھنڈی آغوش میں لے لیا باکل ایسے جیسے ایک ماں اپنی بچے کو لوری اور تھپکی دے کے سلاتی ہے ۔میں اب اللہ سے انکار نہیں کرتی اور نہ ہی اس کو للکارتی ہوں ۔ جب انسان اس کو للکارتا ہے تو وہ منہ کے بل گرتا ہے اور جب اس سے التجائیں کرتا ہے تو اس کو اپنی آغوش میں چھپا لیتا ہے ۔میں نے اب جو جو چاہا یوں لگ رہا ہے کہ بنا سوال کے یا بن مانگے مل رہا ہے ۔میں نے جو ارادے اس کی ضد میں یا اپنی ''خدائی'' میں بنائے، وہ ٹوٹتے رہے اور وہ جو اس نے لوح َ ازل پر قلم کر رکھا ہے وہ پورا ہوتا رہا ہے اور بے شک اسی کو پورا ہونا ہے۔ اسی کو ہم ''کن فیکون'' کی تکوین کہتے ہے کہ ا نسان اپنے اصل کی طرف لوٹتا ہے ۔میں اب کسی پر کفر کا لیبل نہیں لگاتی کہ اللہ جسے چاہے نواز دیتا ہے اور جسے چاہے اوج ثریا سے زمین و کھائیوں میں پہنچا دیتا ہے ۔ اس تحریر کا مقصد اتنا ہی کہ میں نے اپنے ارادے کے ٹوٹنے اور بننے سے اللہ کو پہچانا ہے کہ میں خدا نہیں بلکہ خدا تو عرش کی رفعتوں پر مکین مجھے بڑے پیار سے دیکھ کے مسکراتا ہوگا کہ یہ میری بندی بڑی نادان ہے میرے خلاف جاتی ہے جبکہ اس کو لوٹنا میری طرف ہے ۔
مزمل شیخ بسمل کے شعر میں ذرا سی رد و بدل کے ساتھ
یقین کر، کہ یہ پڑھنے کے بعد بھی زندہ ہوں
یقین کر کہ مجھے اب بھی نیند آتی ہے
 
آخری تدوین:
کبھی میرے طالب علموں سے پوچھ سکتی کہ میں کیسی استاد رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید رٹا لگوانا چھڑوا دیا تھا۔۔مجھے کہا کرتے میرے اسٹوڈنٹس۔نمبر نہیں ملیں اگر کتاب والا نہیں لکھا۔۔۔۔میں کہا کرتی اپنی تفہیم لکھو کہ نمبر میں نے دینے اور اگر ری چیکنگ میں مسئلہ ہوا تو میں آپ کے لیے اسٹینڈ لوں گی۔۔۔۔۔وہی بولتے اگر بورڈ میں ایسا ہوا تو۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں بھی کہا کرتی انسان اگر صیحح ہو تو کوئی چیز غلط نہیں ہوسکتی۔۔۔رٹے نے ان کی نفیسات خراب کردی تھی ۔۔۔۔۔میں ان سے کہانی کی طرح کلاس میں پڑھاتی اور گھر کی طرح گفتگو کرتی ۔۔۔۔۔۔۔میں نے اپنے طلباء کو دوستی کا رشتہ دیا ہے جس پر وہ آج بھی فخر کرتے ہیں گوکہ اس کو اب سال گزر گئے ہیں۔۔۔۔۔۔اس وجہ سے میں خود کو سرخرو پاتی ہوں کہ میں نے ایک اچھا سبق دیا ہے زندگی رٹا نہیں ہے
ارے یہ تو میری کہانی ہے۔۔۔ :))
 
Top