یقین ۔

جو چاہیے ہوتا وہ چاہت سے پہلے بتانا نادانی اور چاہت پانے کے بعد افشاء کرنا دوست نہ ہونے کی نشانی ہے۔۔۔۔۔آپ کے پاس علم ہے میرے پاس کچھ نہیں رہا۔یقین کریں یہ بہت سچے دل سے کہے رہی ہوں کہ میرے پاس ایسا کچھ نہیں ہے جس آپ کے گوُشے جو سیراب یافتہ ہیں ان کو مزید ہونا چاہیے۔ مجھے ان کو سننا نہیں تھا شاید وجہ بتادی ۔ہم میں کشش ثقل موجود ہوتی ہے اس کے مخالف سینٹری فگل بھی۔۔۔۔بس محترمہ ہاشمی کا مدار مجھ سے مختلف ہے۔

بس یہاں پر آپ مجھ سے ملتی ہیں۔۔۔انسان کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں اضافہ کرے ۔ میرا خیال ہے اچھا استاد وہ ہے جو نفیسات سمجھے اور اس کے مطابق ٹریٹ کرے وہی جب سب سے خود سر ہوتا ہے اپنا آپ سرنگوں کرتا ہے ۔۔۔۔۔ آپ اپنے وقت کی لڑکیوں سے مختلف ہیں اور جلد ہی راہ تعین کر لی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس جناب!! اگر تین چار سال ضائع نہی کرتی اور خرچ کرتی خود کو تاکہ سمجھتی تو اتنا خسارہ محسوس نہیں ہوتا جتنا مجھے ہوتا ہے۔قران پاک کو کبھی اپنی فیورٹ کتاب نہیں کہا ہے بلکہ کہا یہ کتاب اہم ہے جب اس کو پڑھ لوں گی تب کہ پاؤں یہ محبوب ترین کتاب ہے کہ بن پڑھے کہنا نادانی ہے ۔۔۔۔۔میں اس سے زیادہ کوئی مثال مانگ رہی تھی کہ کوئی ایسی بات جو آپ کو پڑھاتے ہوئے دل کو سرور بخشے ؟
جی جی میں آپ کا پوائنٹ سمجھ گئی ہوں۔
۔۔
اور حضورِوالا ! علم جتنا بھی ہو بہت کم ہوتا ہے اور میرے پاس تو سرے سے ہے ہی نہیں۔۔۔۔ آپ عمر، علم، تجربہ ہر چیز میں مجھ سے بہتر ہیں ماشا اللہ۔۔۔۔۔۔ :) اگر کبھی کوئی اچھی رہنمائی ملے یا پوائنٹ ملے تو براہ کرم مجھ سے ضرور شئیر کیجئیے گا۔۔۔۔ کیونکہ یقیناََ آپ لو مجھ سے اچھا ملے گا۔۔۔ :)

اور جی ہاں میں بھی سامنے والے کی نفسیات کے لیول پر آ کہ ڈِیل کرتی ہوں۔۔۔۔

جو سوال آپ نے آخر میں پوچھا مجھے اسکی سمجھ نہیں آ پائی ۔۔۔ پڑھاتے ہوئے دل کو سرور مجھے شاید نہیں آتا۔۔۔۔پڑھانے کے بعد ہی آتا ہے ؛)
 

نور وجدان

لائبریرین
اللہ تعالی پہ یقین کامل ہونا اور کبھی کبھار ایسے لمحات آجاتے ہیں کہ انسان ڈگمگا جاتا ہے۔ایسی ہی صورت حال کو انتہائ خببصورت پیرائےمیں بیان کیا۔۔۔داد قبول کیجئے بہت اچھی تحریر پڑھنے کو ملی۔

شکریہ کامران ۔۔۔۔۔۔۔۔ممنون و مشکور۔۔۔۔۔
اتنی گہری تحریر، اتنے سارے یکجا خیالات اور تمہاری زندگی کے بارے میں ڈھیر ساری باتیں ایک ساتھ پڑھ کر میں تبصرہ کرنے کی حالت میں تو نہیں ہوں لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ تم بہت گہری باتیں لکھتی ہو اور پھر ان تحاریر پر تبصرے اتنے جاندار اور تفصیلی ہونے لگتے ہیں کہ مجھ جیسا عام سا قاری تو کہیں بیچ میں ہی اٹک کر رہ جاتا ہے۔ تماری تحریر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ تم جو بھی لکھتی ہو، پختہ یقین اور پورے دل کے ساتھ لکھتی ہو جس کے بعد اس پر ہونے والی تنقید یا تبصرے کے لیے بالکل تیار ہوتی ہو جو کم سے کم میرے بس کا کام نہیں۔ یہ بحیثیت لکھاری تمہاری پختگی کو ثابت کرتا ہے اور میرے لیے یہ ایک بہت بڑی بات ہے۔
میں شاید تحریر کا گہرائی میں جا کر تجزیہ نہیں کر سکا لیکن پوری تحریر پڑھنے میں مجھے ایک بات محسوس ہوئی کہ تم جیسے سرپٹ بھاگتے ہوئے لکھتی ہواور قاری کو ساتھ بھگاتی جاتی ہو۔ مجھے نہ جانے کیوں ایسا لگا کہ تم کو شاید الفاظ کے چناؤ یا واقعات کے چناؤ میں تھوڑا وقفہ بھی کرنا چاہئے تاکہ مجھ جیسا قاری جس سے تیز چلنا محال ہوتا ہے وہ بھی ساتھ چل سکے۔ شاید تم اپنی زندگی کے بہت سارے واقعات بہت جلدی میں لکھنا چاہ رہی تھیں اور مجھے لگا کہ تم بھاگ رہی ہو۔ یہ سراسر میری غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے :)

بہت جاندار تجزیہ کیا ہے۔ میں زندگی کے واقعات کم ایک خیال پر وہ نقاط لانا چاہ رہی تھی کہ یقین اور بے یقینی کی کشمکش کیسی ہوتی ہے۔میں اس میں تفصیل ڈال کے نکال چکی تھی ۔ شاید آپ کا اشارہ مزید وضاحت کی طرف ہو۔۔۔۔۔۔ آپ عام ہیں، آپ ادھیڑ عمر ہیں ، آپ بے ادب ہیں ، آپ فضول شاعر ہیں ، آپ کی تحاریر انڈے اور ٹماٹر کی حق دار ہوتی ہیں ، آپ دوسروں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں ، آپ میں کچھ بھی خاص نہیں ہے مگر آپ کو پختگی نظر آجاتی ہے اور ساتھ میں آپ ایک اچھا تبصرہ بھی کردیتے ہیں ۔ کمال ہے !!!!

اور حضورِوالا ! علم جتنا بھی ہو بہت کم ہوتا ہے اور میرے پاس تو سرے سے ہے ہی نہیں۔۔۔۔ آپ عمر، علم، تجربہ ہر چیز میں مجھ سے بہتر ہیں ماشا اللہ۔۔۔۔۔۔ :) اگر کبھی کوئی اچھی رہنمائی ملے یا پوائنٹ ملے تو براہ کرم مجھ سے ضرور شئیر کیجئیے گا۔۔۔۔ کیونکہ یقیناََ آپ لو مجھ سے اچھا ملے گا۔۔۔ :)
عمر: تجربے اور علم کا تفاعل ہے ۔ اس لحاظ سے آپ کا سب سے پہلا تجربہ جو آپ کو کم عمری میں درپیش رہا ہوگا واضح کر رہا ہے کون کتنا سمندر میں ہے ۔ میں یہاں ایک اچھا پوائنٹ شئیر کرچکی ہوں کہ مجھے کبھی اپنی زندگی کے بارے میں لکھنا نہیں تھا مگر یہی سوچ کے لکھا ہے ہوسکتا ہے میرا تجربہ کسی اور کے لیے رہنما بن جائے اور کوئی اس سچے جذبے سے رہنمائی لے لے ۔
جو سوال آپ نے آخر میں پوچھا مجھے اسکی سمجھ نہیں آ پائی ۔۔۔ پڑھاتے ہوئے دل کو سرور مجھے شاید نہیں آتا۔۔۔۔پڑھانے کے بعد ہی آتا ہے ؛)

لوگ جواب دے کے پوچھتے ہیں سوال کیا ہے ۔کمال !
 

زیک

مسافر
عارفانہ خود شناسی ذات حق سے اپنے رابطے کے سلسلے میں خود شناسی ہے‘ عرفا کے نقطہ نظر سے یہ رابطہ ایسا نہیں ہے جو دو انسانوں کا آپس میں یا معاشرے کے کسی دوسرے افراد سے ہوتا ہے‘ بلکہ یہ رابطہ ”شاخ کا جڑ“ سے ”مجاز کا حقیقت“ سے اور عرفا کی اصطلاح میں مقید کا مطلق سے رابطہ ہے۔
ایک روشن فکر کے درد کے برعکس عارف کا درد انسان کی ”خود شناسی“ میں کسی بیرونی درد کا انعکاس نہیں ہے‘ بلکہ یہ ایک ایسا باطنی درد ہے‘ جو فطری اور اجتماعی درد ہوتا ہے‘ لہٰذا وہ پہلے اس سے آگاہ ہوتا ہے پھر یہ آگاہی اس کو درد مندبناتی ہے۔
لیکن ایک عارف کا درد چونکہ ایک باطنی درد ہوتا ہے‘ خود درد ہی اس کے لئے آگاہی ہے بالکل بیماریوں کے درد ہی کی طرح‘ جو طبیعت کی طرف سے کسی حاجت اور ضرورت کا اعلان ہے۔
حسرت و زاری کہ درد بیماری است
وقت بیماری ھمہ بیداری است
ہر کہ او بیدار تر پر درد تر
ہر کہ او آگاہ تر رخ زرد تر
پس بدان این اصل را ای اصلجو
ہر کہ را درد است او بردہ است بو
”بیماری میں جو حسرت اور گریہ زاری ہے‘ بیماری کے وقت سب کی بیداری کی علامت ہے۔
جو جتنا زیادہ بیدار ہے وہ اتنا ہی زیادہ دردمند ہے اور جو جتنا زیادہ خود شناس ہے اس کا چہرہ اتنا ہی زیادہ زرد ہے‘ پس اے حقیقت کے متلاشی! اس حقیقت کو جان لے کہ جو شخص درد میں مبتلا ہے اسی نے حقیقت کا پتہ لگا لیا ہے۔“
عارف کا درد فلسفی کے درد جیسا بھی نہیں‘ دونوں ہی حقیقت کے درد مند ہیں لیکن فلسفی کا درد حقیقت کے جاننے اور شناخت کرنے کا درد ہے اور عارف کا درد پہنچنے‘ ایک ہو جانے اور محو ہو جانے کا درد۔ فلسفی کا درد اسے فطرت کے دیگر فرزندوں یعنی تمام جمادات‘ نباتات اور حیوانات سے ممتاز کر دیتا ہے۔ عالم طبیعت کے کسی وجود میں ماننے اور شناخت کرنے کا درد موجود نہیں‘ لیکن عارف کا درد عشق اور جذبے کا درد ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو نہ صرف حیوان میں نہیں بلکہ فرشتوں میں بھی موجود نہیں‘ جن کی ذات کا جوہر ہی خود شناسی اور جاننا ہے۔
فرشتہ عشق نداانست چیست قصہ مخوان
بخواہ جام و گلابی بہ خاک آدم ریز
”فرشتے نے عشق کو نہ جانا کہ وہ کیا چیز ہے قصہ نہ سنا‘ جام طلب کر اور گلاب کا پانی آدم کی خاک پر ڈال دے۔“
جلوہ ای کرد رخش دید ملک‘ عشق نداشت
خیمہ در مزرعہ آب و گل آدم زد
”جب اس کے رخ کا ایک جلوہ نظر آیا تو فرشتے نے دیکھا کہ اس میں عشق نہیں تو اس نے آدم کی خاک پر اپنے خیمے گاڑ دیئے۔“
فلسفی کا درد فطرت کی حاجتوں کے جاننے کا اعلان ہے جسے فطری طور پر انسان جاننا چاہتا ہے اور عارف کا درد فطرت عشق کی حاجتوں کا اعلان ہے جو پرواز کرنا چاہتا ہے اور جب تک پوری طرح سے حقیقت کا ادراک نہیں کرتا‘ سکون نہیں پاتا۔ عارف کامل خود شناسی کو ”خداشناسی“ میں منحصر سمجھتا ہے۔ عارف کی نظر میں جسے فلسفی انسان کا حقیقی ”من“ سمجھتا ہے‘ حقیقی ”من“ نہیں ہے بلکہ روح ہے۔ ”جان“ ہے‘ ایک تعین ہے‘ حقیقی ”من“ خدا ہے اور اس تعین کے ٹوٹنے کے بعد انسان اپنے حقیقی ”من“ کو پا لیتا ہے۔
محی الدین ابن عربی فصول الحکم‘ فص شعیبی میں فرماتے ہیں‘ حکماء اور متکلمین نے خود شناسی کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے۔ لیکن ان راہوں سے ”معرفت النفس“ حاصل نہیں ہو سکتی‘ جس کا خیال یہ ہو کہ ”خود شناسی“ کے بارے میں حکماء نے جو کچھ سمجھا ہے‘ وہ حقیقت ہے‘ تو اس نے پھولی ہوئی چیز کو موٹا سمجھ رکھا ہے۔
شیخ محمود شبستری سے عرفانی مسائل کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات ”جن کے جواب میں کم نظیر عرفانی کلام‘ ”گلشن راز“ وجود میں آیا ہے۔“ میں سے ایک ”خود“ ذات اور ”من“ کے بارے میں سوال تھا کہ یہ کیا ہے؟
دگر کردی سوال ازمن کہ ”من“ چیست
مرا از من خبر کن تاکہ ”من“ کیست
چو ہست مطلق آمد در اسارت
بہ لفظ ”من“ کنند از وی عبارت
حقیقت کز تعین شد معین
تو او را در عبارت گفتہ ای من
من و تو عارض ذات وجودیم
مشبکہای مشکوة وجودیم
ھمہ یک نور دان اشباح و ارواح
گہ از آئینہ پیدا گہ ز مصباح
”تو نے پھر مجھ سے پوچھا کہ یہ ”من“ کیا ہے‘ ”من“ کے بارے میں پوچھنے سے پہلے مجھے میرے بارے میں خبر تو دو!
مطلق ہستی کو جب اسیر اور مقید کر دیا جاتا ہے تو اسے ”من“ سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ جب تعین اور حدود و قیود کی وجہ سے حقیقت کو متعین کیا جاتا ہے اسے سادہ عبارت میں ”من“ کہا جاتا ہے‘ میں اور تم دونوں ذات وجود کے عارض ہیں اور ہم وجود (روح) کے فانوس کے گرد لگی ہوئی جالیاں ہیں (جن سے روشنی چھن چھن کر باہر آتی ہے) ہیولا اور روح کو ایک نور ہی سمجھ لو‘ کیوں کہ نور کبھی تو آئینہ سے منعکس ہو کر تم تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی فانوس سے سیدھا تم تک پہنچ جاتا ہے۔“
پھر ”روح“ اور ”من“ کے بارے میں فلاسفہ کی خود شناسی پر اس طرح سے اعتراض کرتے ہیں۔
تو گوی لفظ ”من“ در ہر عبارت
بسوی روح می باشد اشارت
چو کردی پیشوائے خود خرد را
نمی دانی ز جزء خویش خودرا
برو ای خواجہ خود را نیک بشناس
کہ نبود فربہی مانند آماس(۱)
من و تو بر تر از جان و تن آمد
کہ این ہر دو ز اجزای من آمد
بہ لفظ من نہ انسان است مخصوص
کہ تا گوی بدان جان است مخصوص
یکی راہ برتر از کون و مکان شو
جہاں بگذار و خود در خود جہان شو
”تم چاہے کسی بھی عبارت میں لفظ ”من استعمال کرو اشارہ تمہاری روح ہی کی طرف ہے‘ جب تم عقل کو اپنا رہبر اور رہنما بناؤ گے‘ تو اپنے آپ کو اپنے اعضاء سے نہیں سمجھو گے۔ اے خواجہ جا اور اپنے آپ کو اچھی طرح پہچان لے کیوں کہ پھول جانا موٹاپا نہیں ہوتا‘ ”من“ اور ”تو“ جگہ اور بدن سے برتر ہیں کیوں کہ یہ دونوں مرے اجزاء اور حصے ہیں لفظ ”من“ کسی خاص انسان سے مخصوص نہیں جو تم اس سے کسی خصوصی روح کو مراد لو‘ ایک راستے پر چلو اور کون و مکان سے برتر ہو جاؤ‘ دنیا کو چھوڑ دو اور اپنے اندر ایک دنیا بن جاؤ۔“
مولانا کہتے ہیں:
ای کہ در پیکار ”خود“ را باختہ
دیگران را تو ز خود نشاختہ
تو بہ ہر صورت کہ آئی بیستی
کہ منم این واللہ آن تو نیستی
یک زمان تنہا بمانی تو زخلق
در غم و اندیشہ مانی تا بحلق
این تو کی باشی؟ کہ تو آن اوحدی
کہ خوش و زیبا و سرمست خودی
مرغ خویشی‘ صید خویشی‘ دام خویش
صدر خویشی‘ فرش خویشی‘ بام خویش
گر تو آدم زادہ ای چون اونشین
جملہ ذرات را در خود ببین
”اے وہ شخص جو جنگ میں اپنے آپ کو ہار چکا ہے اور اپنے اور دوسروں کے فرق کو نہ جان سکا‘ تم چاہے کسی بھی صورت میں آ جاؤ تم نہیں ہو‘ بلکہ اللہ کی قسم وہ میں ہوں‘ ایک وقت ایسا آئے گا جب تم مخلوقات سے الگ تھلگ اکیلے رہ جاؤ گے اور گردن تک غم و اندوہ میں مبتلا رہو گے۔ یہ تم کب ہو؟‘ تم تو وہ فرد ہو جو اپنا مرکز‘ اپنا فرش اور اپنا چھت ہے اور جو اپنے آپ میں سرمست‘ خوش اور مگن ہے‘ تم خود ہی پرندہ ہو‘ خود شکار ہو اور خود ہی جال بھی‘ بلندی بھی تم خود ہو‘ پستی بھی خود ہی اور چھت بھی تم ہی ہو‘ اگر تم آدم کی اولاد ہو تو اس کی طرح رہو اور تمام ذرات کا اپنے اندر مشاہدہ کرو۔“
چنانچہ عارف کے نقطہ نظر سے یہ روح اور جان حقیقی نہیں ہے اور یہ روح اور جان کی شناخت بھی ”خود شناسی“ نہیں ہے‘ بلکہ روح خود اپنے آپ کا اور ”من“ کا مظہر ہے۔
”من حقیقی“ خدا ہے جب انسان فنا ہو جائے اور اس کا اپنا وجود ٹوٹ جائے اور اس کی جان اور روح کا کوئی نشان باقی نہ رہے تب دریا سے یہ جدا شدہ قطرہ دریا (یعنی گل) میں واپس چلا جاتا ہے اور اس میں گم ہو جاتا ہے۔ تبھی انسان اپنی ”حقیقی خود شناسی“ کو پا لیتا ہے‘ اسی وقت انسان اپنے آپ کو تمام اشیاء میں اور تمام اشیاء کو خود اپنے اندر دیکھتا ہے اور تبھی وہ اپنی حقیقی ذات سے باخبر ہو جاتا ہے۔
یہ پڑھ کر بےاختیار ٹائلنول اور آئبوبروفن ڈھونڈی۔
 
سب سے پہلی بات تو یہ کہ اپنے دل کی آپ بیتی کو ضبطِ تحریر میں لانا کوئی آسان کام نہیں۔ اور اس کام کو انجام دینے پر آپ مبارکباد کی مستحق ہیں۔یہ بات آپ کی ہمت، جرات اور بہادری پر دال ہے۔
زندگی ہے ہی تلاش کا نام، جو تلاش نہیں کرتا، وہ زندگی کے مقصد سے نا آشنا ہے۔
اپنے وجود کے مقصد کی تلاش، اپنے خالق کی تلاش، خوشی کی تلاش، سکون کی تلاش۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ زندگی عملیت سے جڑی ہے۔ تلاش میں رہنا اور اپنی سمجھ کے مطابق جو ادراک حاصل ہوا ہے، اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا۔
جو ہدایات مالکِِ کائنات نے بھیج دی ہیں، ان کی حدود میں رہتے ہوئے تلاش جاری رکھنا۔ میرے دادا مرحوم کا ایک شعر ہے
؎ آزادیِ انساں کا مبحث دو رخ سے سمجھنا ہے یعنی
مختار ہے اور مختار نہیں مجبور ہے اور مجبور نہیں​
اس کا نام یقین ہے۔ اس بات کا یقین کہ ایک مالکِ کل ہے کہ جس نے ہمیں کچھ حدود کا پابند کر کے مگر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دے کر بھیج دیا ہے کہ جاؤ تدبر کرو، تفکر کرو، تلاش کرو، تسخیر کرو۔ مگر یہ حدود ہیں ان کا خیال رکھنا۔ یہ کرو اور یہ نہ کرو۔
ایک معمولی سی مثال یہ کہ آپ بچے کو کینوس اور رنگ دے کر کہہ دیں کہ جو جی چاہتا ہے اور سمجھ آتا ہے تخلیق کرو۔ مگر جب بچہ کینوس چھوڑ کر دیوار پر کچھ تخلیق کرنا شروع کر دیتا ہے تو آپ منع کرتے ہیں، کہ جو کینوس دیا گیا ہے، اس تک محدود رہو۔
جب تلاش میں سے عملیت نکلتی ہے تو راہ بھٹکنے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ اسی لئے کوشش کرنی چاہئے کہ خالقِ کائنات کی ہدایات اور اپنے ادراک و فہم کے مطابق اپنی ایک منزل کا تعین کریں اور پھر اس منزل کے حصول کے لئے کچھ درمیانی منازل کا تعین کریں، پھر ان کو طے کرنے کے لوازمات کا اہتمام کریں اور یکسو ہو کر چل پڑیں۔
مگر ایک اور اہم بات مدِ نظر رہنی چاہئے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں مختلف دائروں کا حصہ بنا کر بھیجا ہے اور ہر دائرے میں ہمارے کچھ فرائض اور ذمہ داریوں کا تعین کر دیا ہے۔
خاندان کا دائرہ: جہاں مرد ہونے کی حیثیت سے باپ، شوہر، بھائی، بیٹا بنا کر کچھ فرائض سونپ دیے۔ عورت ہونے کی حیثیت سے ماں، بیوی، بہن، بیٹی بنا کر کچھ ذمہ دایوں کا تعین کر دیا۔
معاشرے کا دائرہ: جس میں اہلِ محلہ، اہل مدرسہ، اور دیگر معاشرتی حلقے آ جاتے ہیں، وہاں بھی کچھ فرائض بتا دیے گئے۔
اب ان سب ذمہ داریوں کی ان کی ترجیحات کی بنیاد پر ادا کرنے کی منصوبہ بندی کرنا بھی ضروری ہے کہ انہی دائروں سے گزرنا اور اپنے فرائض کی درست انجام دہی زندگی کے اہم مقاصد میں سے ایک ہے۔

بہت اچھا لکھاری نہیں ہوں، منتشر اور بے ربط خیالات تحریر کر دیے ہیں، پتہ نہیں اپنی بات سمجھا بھی پایا ہوں یا نہیں۔
اختلاف کسی بھی رائے کا ایک اہم جزو ہوا کرتا ہے، لہٰذا کسی کو بھی میرے خیالات سے اختلاف کا حق ہے۔

آخر میں ایک بار پھر اس یقین کے سفر پر مبارکباد ور ڈھیروں دعائیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
تابش بھائی ۔۔۔۔۔ابھی کچھ وجوہات بنا آپ کے لکھی گئی خوبصورت تحریر کا جواب دیر سے دے رہی ہوں ۔ آپ نے جس مفصل انداز میں بیان کی۔۔۔۔۔۔تدبر۔۔تفکر اور تقدیر کا فلسفہ۔۔۔۔۔۔ماشاءاللہ اس کا جواب ہے اور میں آپ کی اس مربوط تحریر جس میں آپ نے واضح طور پر سچے جذبے بیاں کیے ہیں میرے لیے ایک گل دستہ ہے ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔۔۔۔۔۔۔بہت عمدہ ۔۔ خیر مبارک ۔۔۔۔ !

کبھی کبھی لفظ نہیں رہتے مگر دل نم ہوجاتا ہے ۔ آپ کی تحریر کے لیے میرے پاس کوئی جواب رہا نہیں فقط دعا کے ۔
 
اس قدر شوخ ہے کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجود ملائک یہ وہی آدم ہے
عالم کیف ہے دانئے رموز کم ہے
ہاں عجز کے اسرار سے مگر نامحرم ہے
ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانون کو
 

نور وجدان

لائبریرین
Top