آتش ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا ۔ آتش

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا
کوڑی کا ہو گیا ہے کٹورا گلاب کا

صیاد نے تسلیِ بلبل کے واسطے
کنجِ قفس میں حوض بھرا ہے، گلاب کا

دریائے خوں کیا ہے تری تیغ نے رواں
حاصل ہوا ہے رتبہ سروں کو، حباب کا

جو سطر ہے، وہ گیسوئے حورِ بہشت ہے
خالِ پری ہے نقطہ، ہماری کتاب کا

نور آسماں ہیں صفحۂ اوّل کے نو لغت
کونین، اک دو ورقہ ہے اپنی کتاب کا

اے موجِ بے لحاظ، سمجھ کر مٹائیو
دریا بھی ہے اسیرِ طلسمِ حباب کا

اک ترک شہسوار کی دیوانی روح ہے
رنجیر میں ہمارے ہو لوہا رکاب کا

حسن و جمال سے ہے زمانے میں روشنی
شب ماہتاب کی ہے، تو روز آفتاب کا

اللہ رے ہمارا تکلّف، شبِ وصال
روغن کے بدلے عطر جلایا گلاب کا

مسجد سے مے کدے میں مجھے نشّہ لے گیا
موجِ شرابِ جادہ تھی، راہِ ثواب کا

انصاف سے وہ زمزمہ میرا اگر سنے
دم بند ہووے طوطیِ حاضر جواب کا

الفت جو زلف سے ہے دلِ داغ دار کو
طاؤس کو یہ عشق نہ ہو گا سحاب کا

معمور جو ہوا عرقِ رخ سے وہ ذقن
مضمون مل گیا مجھے چاہِ گلاب کا

پاتا ہوں ناف کا کمرِ یار میں مقام
چشمہ مگر عدم میں ہے گوہر کی آب کا

آتش شبِ فراق میں پوچھوں گا ماہ سے
یہ داغ ہے دیا ہوا کس آفتاب کا؟

(خواجہ حیدر علی آتش)

 

نوید صادق

محفلین
بھائی۔
کیا بات ہے۔
سخن ور کہلانے کا حق ادا کر ڈالا آپ نے۔

لیکن ذرا اس شعر کے دوسرے مصرعہ کو دیوان میں دوبارہ دیکھ لیں۔

الفت جو زلف سے ہے دلِ داغ دار کو
طاؤس کو یہ بھی عشق نہ ہو گا سحاب کا
 

فرخ منظور

لائبریرین
بھائی۔
کیا بات ہے۔
سخن ور کہلانے کا حق ادا کر ڈالا آپ نے۔

لیکن ذرا اس شعر کے دوسرے مصرعہ کو دیوان میں دوبارہ دیکھ لیں۔

الفت جو زلف سے ہے دلِ داغ دار کو
طاؤس کو یہ بھی عشق نہ ہو گا سحاب کا

بہت شکریہ نوید بھائی۔ دیوان میں بھی نہیں ہے۔ یعنی

الفت جو زلف سے ہے دلِ داغ دار کو
طاؤس کو یہ عشق نہ ہو گا سحاب کا
 
بہت خوبصورت غزل شیئر کرنے کے لیے شکریہ سخنور صاحب!

شعر نمبر 12 کے دوسرا مصرعہ میں ’بھی‘ زائد ہے درست فرما دیں۔ شکریہ
 
Top