ہندوستان میں اردو

نتیجہ

اعجاز صاحب،
کیا آپ کی بات سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ بھارت میں اردو کا مستقبل مخدوش ہے، وہ اپنی شناخت کھو رہی ہے اور ہندی میں ضم ہوتی جارہی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اعجاز صاحب کا تجزیہ 100٪ درست ہے اور لمحہ فکریہ بھی ہے
اُردہ کا مستقبل ہندوستان تو کیا پاکستان میں بھی مخدوش ہے
 
پاکستان میں توبشمول اردو سب کی حالت ہی پتلی ہے، مگر ہندوستان میں بھی ایسا ہی دکھ رہا ہے۔ اور میرے خیال میں اسکی واحد اور پہلی وجہ اردو دانوں کی بے اعتنائی ہے، ہم اردو کی محبت میں دو غزلہ بلکہ سہ غزلہ بھی لکھ سکتے ہیں مگر جاوا کا پروگرام اردو میں ترجمہ نہیں کرسکتے۔ بولیں گے پنجابی اور لکھیں گے اردو، جبکہ علم انگریزی میں حاصل کریں گے تو اردو کیا مستقبل تو لازم مخدوش ہوگا۔
 

شمشاد

لائبریرین
مزید ستم یہ ہے کہ پاکستان میں اردو کی کتابیں اتنی مہنگی ہیں کہ ہر پڑھنے والا قیمت برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ اردو کے محدودے چند ٹھکیداروں نے اس کو اب اردو کی خدمت نہیں بلکہ کاروبار بنا لیا ہے۔
ستم در ستم یہ کہ وہ جو قیمت برداشت کر سکتے ہیں وہ اردو ادب نہیں پڑھتے ۔
 

الف عین

لائبریرین
اردو ہی نہیں، کچھ بھی پڑھنے کا زمانہ نہیں رہا ہے۔ یہ زمانہ آڈیو ویڈیو کا ہے یا انٹر نیٹ کا۔ اور یہی سوچ کر ہم اردو کی ترقی کے لئے انٹر نیٹ کے میدان میں کو دے ہیں۔ آج کل کا بچہ بچہ ٹی وی سے ساری معلومات حاصل کرتا ہے اور باقی تشنگی انٹر نیٹ سے
جھتی ہے، پھر کون پیسہ خرچ کرے لکھے الفاظ کے لئے۔
ہندوستان ہو یا پاکستان، حالت تو مشترک ہی ہے۔
 
جی محترم یہ بات تو ہے کہ آج کا بچہ بھی اور بابا بھی کتاب کی نسبت ویڈیو اور کمپوٹر کے زیادہ قریب ہے، اور پھر پاکستان میں کتب کی گراں قیمتیں تو ویسے ہی بندے کا سانس بند کردیتی ہیں، مگر انڈیا میں کتب کی قیمتیں پاکستان کی نسبت بہت کم ہیں، میں بی جین پبلشرز کی کتابیں منگوایا کرتا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
آپ سے کس نے کہہ دیا کہ انڈیا میں کتابیں سستی ہیں
جناب انڈیا میں اُردو کی کتابیں بہت مہنگی ہیں
 

الف عین

لائبریرین
یہاں امریکہ میں کچھ پاکستانی ڈائجسٹ دیکھے جن پر قیمت 35 روپئے فی شمارہ تھی ، وہ بھی تقریباً ایک سال پہلے کے پرچے۔ جب کہ ہندوستان کے ہما وغیرہ اب بھی 20 اور 25 روپئے کے ہیں۔ اس سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں قیمت کم ہے جب کہ وہاں کا روپئیہ پاکستان سے زیادہ قیمتی ہے۔ البتہ کتابیں اور خاص کر ادبی کتابیں تو وہاں بھی اب سو ڈیڑھ سو روپئئے کی ہوتی ہیں اور پاکستان سے زیادہ فرق نہیں۔ اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کا نہ مجھے اندازہ ہے اور پھر یہ بھی کی خود ہندوستان میں کچھ زبانوں کی کتابیں اور رسالے بہت سستے ہیں، جیسے ملیالم کے۔ اور اخباروں میں تو آج کل یہ مقابلہ چل رہا ہے کہ کوں سستے سے سستا اخبار دے اور حیدر آباد میں اکثر انگریزی اخبار ایک روپئہ یا ڈیڑھ روپئے میں مل رہے ہیں۔
 

فرضی

محفلین
اس دھاگے پر پاکستان اور ہندوستان میں اردو کے حوالے سے بہت کچھ جاننے کا موقع ملا لیکن اس سلسلے کو روک کیوں دیا گیا ہو؟ شعیب کہا ہے جس نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا۔
 

زین

لائبریرین
آج تلاش کے دوران یہ تحریر ملی


ربط
جسٹس مارکنڈے کاٹجو، جج سپریم کورٹ آف انڈیا
اردو کے ساتھ ہمارے ملک میں بڑی ناانصافی ہوئی ہے۔ آج اس عظیم زبان کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور اس کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جس زبان نے جدید ہندوستان کو بہترین شاعری عطا کی ہے، جس نے میر، غالب، فراق اور فیض وغیرہ کی لازوال شاعری دی ہے، وہ زبان جو ہندوستانی ثقافت کے خزانے میں ایک چمکتا ہیرا ہے۔ میں اردو کے ساتھ ناانصافی سے بڑی بے وقوفی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔

اردو کے ساتھ یہ نا انصافی دو غلط تصورات کی وجہ سے ہے، جن کی تشہیر مفاد پرستوں نے خوب کی۔ ایک یہ کہ اردو ایک غیر ملکی زبان ہے اور دوم یہ کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔

پہلا تصور تو صریحاً غلط ہے۔ عربی اور فارسی تو یقینا باہری زبانیں ہیں (حالانکہ میں ان زبانوں کی بھی بڑی قدر کرتا ہوں جس طرح تمام زبانوں کی قدر کرتا ہوں) لیکن اردو ایک ایسی زبان ہے جو کہ مکمل طور پر دیسی ہے۔ ہندوستان میں اس کی پیدائش لشکر (کیمپ) اور بازار کی زبان کے طور پر ہوئی۔ اپنی معمولی شکل میں (جسے کھڑی بولی یا ہندوستانی) کہتے ہیں۔ یہ ہندوستان کے شہری علاقوں میں بڑے پیمانے پر عام لوگوں کی زبان ہے۔ اس زبان کی منفرد اور بڑی شخصیتیں ہندوستان میں ہی پیدا ہوئی ہیں، جنھوں نے لوگوں کے مسائل کو حل کرتے ہوئے، ان کے غموں کا جذباتی اور شاعرانہ مداوا تلاش کیا۔ انسانی رشتوں کی عکاسی کی اور اس طرح سے ہماری تہذیب و ثقافت کو چار چاند لگائے۔ صرف جاہل لوگ ہی اردو کو باہری اور غیر ملکی زبان کہہ سکتے ہیں۔

دوسرا خیال کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے، پہلے خیال کی طرح ہی بالکل غلط ہے۔ ہمارے ملک میں پچھلی نسل تک بیشتر شہری حصوں میں پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ لوگوں کی زبان اردو تھی، چاہے وہ ہندو ہوں، مسلمان ہوں، سکھ ہوں یا عیسائی ہوں۔ خود میرے خاندان میں میرے والد تک ہر فرد اردو میں اعلیٰ مہارت رکھتا تھا۔ صرف میری نسل سے اردو ختم ہوگئی جسے میں ایک بڑی بدنصیبی سمجھتا ہوں۔

ہمارے ثقافت کی جولانی کی بازیابی کے لیے جب میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کا جج تھا تو میں نے ایک فیصلہ دیا تھا (رمیش اپادھیائے بنام یوپی حکومت) جس میں حکومت کو سفارش کی تھی کہ ہر اسکول میں پانچ سال تک (درجہ تین تا درجہ سات) دو بڑی زبانوں سنسکرت اور اردو کو لازمی قرار دیا جائے۔ میرے خیال میں اپنی ثقافتی میراث کو نظر انداز کرکے کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ میں یہاں یہ بات صاف کرتا چلوں کہ میں صرف کشمیری پنڈتوں کو ہی اپنا پرکھا نہیں سمجھتا بلکہ کالی داس اور امیر خسرو کو بھی اپنا پوروج سمجھتا ہوں۔ میں اشوک، اکبر، سورداس، تلسی داس کو بھی اپنا پوروج سمجھتا ہوں۔ میں میر اور غالب کو بھی اپنا پوروج تصور کرتا ہوں۔ اصل پرکھے ثقافتی پرکھے ہوتے ہیں نہ کہ صرف خون کے پرکھے۔

یہ خیال کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے ''تقسیم کرو اورحکومت کرو'' کی پالیسی ہی کا حصہ تھا۔ کچھ مفاد پرست چاہتے تھے کہ ہندو اور مسلمان آپس میں لڑتے رہیں اس لیے انھوں نے اس جھوٹے خیال کو جنم دیا کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے اور ہندی ہندوؤں کی زبان۔ درحقیقت شہروں میں عام آدمی کی زبان کھڑی بولی (ہندوستانی) ہے۔ فارسی زدہ کھڑی بولی اردو اور سنسکرت زدہ کھڑی بولی ہندی ہے۔

اردو اس ملک میں کل ہند سطح کی زبان ہے کیونکہ ملک کے سترہ (١٧) صوبوں میں یہ زبان بولی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر میں اپنا ذاتی تجربہ پیش کروں گا۔ جب جسٹس بی پی جیون ریڈی الٰہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن کر آئے (جو بعد میں سپریم کورٹ کے جج ہوکر ریٹائرہوئے) تو انھوں نے مجھ سے کھڑی بولی (جو کہ اردو کی سہل اور آسان شکل ہے) میں اسی انداز اور تلفظ میں گفتگو کی جس انداز میں یوپی والا گفتگو کرتا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ایک آندھرا پردیش کا آدمی اتنی اچھی کھڑی بولی کیسے بول سکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ حیدرآباد میں ہر آدمی اردو بول سکتا ہے اور یونیورسٹی کی سطح تک خود ان کا ذریعہ تعلیم یا میڈیم اردو تھی۔

میں اردو کی بنیادی خصوصیات کا مختصراً ذکر ان لوگوں کے لیے کرنا چاہوں گا جن کو اردو کے بارے میں کوئی خاص جانکاری نہیں ہے۔ اردو ایک ایسی زبان ہے۔ جو دو دو زبانیں، فارسی اور ہندوستانی (کھڑی بولی) کے میل سے بنی ، جس کی بنیاد کھڑی بولی ہے، جس پر فارسی کی تہہ چڑھی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی وقت میں اسے ریختہ کہتے تھے، جس کا مطلب ہے ملی جلی(hybrid)۔
چونکہ اردو فارسی اور ہندوستانی کے میل سے بنی ہے، اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اردو ایک خاص قسم کی فارسی زبان ہے یا ایک خاص قسم کی ہندوستانی زبان ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک خاص قسم کی ہندوستانی زبان ہے نہ کہ ایک خاص قسم کی فارسی زبان۔ یہاں اس بات کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔
کوئی جملہ کس زبان کا ہے اس کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ اس جملہ میں فعل (نہ کہ اسم جسے انگریزی میں verbاور ہندی میں کریا کہتے ہیں اور صفت وغیرہ) کا استعمال کس زبان میں کیا گیا ہے؟ مثلاً:اگر میں کہوں:
Mr ram you and your wife آئیےtomorrow at my home at 8 pm for dinner.
یہ جملہ ہندی کا جملہ ہے انگریزی کا نہیں اگرچہ سولہ (١٦) الفاظ میں سے پندرہ الفاظ انگریزی کے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کے پورے جملے میں فعل لفظ ''آئیے'' ہندی کا لفظ ہے نہ کہ انگریزی کا۔
اردو کے سارے 'فعل' سرل ہندی (جسے ہندوستانی یاکھڑی بولی کہتے ہیں) کے ہوتے ہیں۔ اردو کے بہت سارے اسم اور صفت فارسی یا عربی زبان کے ہیں لیکن فعل ہمیشہ ہندوستانی زبان کا ہوگا۔ اگر فعل فارسی زبان کا ہوگا تو وہ مخصوص جملہ فارسی زبان کا کہلائے گا نہ کہ اردو زبان کا اور اگر فعل عربی زبان کا ہے تو وہ عربی جملہ ہوگا۔
ہم اردو کے کسی بھی شاعر کا کوئی بھی شعر لے لیں تو ہم پائیں گے کہ اس کا فعل ہمیشہ عام ہندوستانی زبان کا ہوگا ، اگرچہ بہت سارے اسم اور صفت فارسی یا عربی زبان کے ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر غالب کا یہ شعر :
دیکھو جو مجھے دیدئہ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ فعل 'دیکھو' اور 'سنو' آسان اورسرل ہندی زبان کے فعل ہیں جب کہ اسم اور صفت فارسی کے ہیں۔ اسی طرح سے ہم کسی بھی اردو شعر کا جائزہ لیں تو ہم عموماً یہ پائیں گے کہ اس میںاستعمال شدہ فعل سرل ہندی کا فعل ہے۔
اس طرح سے اردو ایک خاص قسم کی ہندوستانی یا کھڑی بولی زبان ہے نہ کہ ایک خاص قسم کی فارسی زبان۔ میں اس بات پر اس لیے زور دے رہا ہوں کیونکہ اگر اردو خاص قسم کی فارسی زبان ہوتی تو پھر یہ غیرملکی زبان ہوتی ، یہ ایک خاص قسم کی کھڑی بولی یا ہندوستانی زبان ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اردو اس ملک کی دیسی اور اسی ملک کی پیدا شدہ اور پلی بڑھی زبان ہے۔
ہمیں سب سے پہلے کھڑی بولی یا ہندوستانی زبان کو سمجھنا چاہیے، جس کی بنیاد پر اردو کی تعمیر ہوئی۔
کھڑی بولی آسان اور بول چال کی ہندی زبان ہے جو ادبی ہندی سے کچھ حد تک مختلف ہے جس کا استعمال قلم کار اور عوامی مقرر کرتے ہیں۔ کھڑی بولی ایک شہری زبان ہے۔ ہندی بولنے والے شہر یا علاقے مثلاً اتر پردیش، بہار، راجستھان، مدھیہ پردیش، دہلی، ہریانہ، ہماچل پردیش وغیرہ میں کھڑی بولی عام آدمی کی پہلی زبان ہے۔ اور ہندی نہ بولے جانے والے شہروں بشمول پاکستان میں یہ دوسری زبان ہے۔ میں اپنے ایک ذاتی تجربہ اور مشاہدہ کا ذکر یہاں کرنا چاہوں گا۔ میں ایک جلسے میں شرکت کے لیے ٹیکسی میں حیدرآباد، آندھرا پردیش سے گلبرگہ، کرناٹک جارہا تھا۔ ٹیکسی ڈرائیور تیلگو بولنے والا آدمی تھا جبکہ گلبرگہ یونیورسٹی سے جو پروفیسر صاحب مجھے لینے آئے تھے وہ کنڑّ زبان کے جانکار تھے۔ لیکن وہ دونوں ہندی میں گفتگو کررہے تھے۔ مجھے تعجب ہوا کیونکہ دونوں جنوبی ہند کے رہنے والے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ہندی میں کیوں بات کررہے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ ایسا اس لیے ہے کہ ہندی ان دونوں کے لیے رابطہ (link language)کی زبان ہے۔
کھڑی بولی وجود میں کیسے آئی؟
اگر ہم اردو کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس بنیادی نکتہ کو سمجھنا ضروری ہے۔
دنیا کے تقریباً سارے شہروں کا وجود پہلے بازار یا منڈی کی شکل میں نمودار ہوا۔ یہ تب ممکن ہوا جب لوگ اپنی ضروریات زندگی سے زیادہ سامان پیدا کرنے لگے تاکہ اس اضافی سامان کو وہ بازار یا منڈی میں بیچ سکیں یا تبادلہ کرسکیں۔ دوسرے لفظوں میں سامان بیچنے یا تبادلہ کرنے کے غرض سے، خود استعمال کرنے کی غرض سے نہیں، پیداوار زیادہ ہونے لگی۔ بیچنے اور خریدنے والے کو ایک ایسی جانی پہچانی جگہ کی ضرورت تھی، جہاں سامانوں کی خریدوفروخت ہوسکے اسی لیے بازار وجود میں آئے جو بعد میں شہروں میں تبدیل ہوگئے۔
اور اب بیچنے اور خریدنے والے کو ایک مشترک زبان کی ضرورت تھی۔ جس کے بغیر خریدوفروخت ممکن نہیں تھی۔ اسی لئے کھڑی بولی بازار کی مشترک زبان کے طور پر ابھری۔
مثال کے طور پر الہ آباد شہر، جہاں میں سب سے زیادہ رہا ہوں، میں کھڑی بولی بولی جاتی ہے، لیکن الٰہ آباد شہر کے دیہاتی اطراف میں علاقائی زبان اودھی بولی جاتی ہے (جس زبان میں تلسی داس نے اپنی رام چرت مانس کی تخلیق کی)۔ متھرا شہر میں کھڑی بولی بولی جاتی ہے لیکن متھرا کے آس پاس کے دیہاتوں میں برج بھاشا (جو کہ سورداس کی زبان تھی) بولی جاتی ہے۔ بنارس اور یوپی کے دوسرے مشرقی شہروں میں کھڑی بولی کا استعمال ہوتا ہے لیکن ان شہروں کے قرب و جوار اور غربی بہار میں بھوجپوری بولی جاتی ہے۔ شمالی بہار کے دیہی علاقوں میں میتھلی بولی جاتی ہے (جس زبان میں عظیم شاعر ودیاپتی نے لکھا) لیکن وہاں کے شہروں میں کھڑی بولی میں گفتگو کی جاتی ہے۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش کے شہروں میں کھڑی بولی کا استعمال ہوتا ہے لیکن وہاں کے دیہی علاقوں میں علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جنہیں باہر کا آدمی نہیں سمجھ سکتا۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شمالی ہندوستان کے بیشتر دیہی علاقوں میں مختلف علاقائی زبانوں (dialects) کا استعمال ہوتا ہے، لیکن شہری آبادی کی مشترک زبان کھڑی بولی ہے۔ یہ کیسے ہوا؟
ایسا اس طرح سے ہوا کہ مغلوں کے آنے سے پہلے پیداواری قوت میں اضافے کی وجہ سے ہندوستان میں ایک بہت بڑے مشترک بازار کا وجود عمل میں آچکا تھا۔ بہار یا مدھیہ پردیش کا تاجر آسانی سے اپنا مال اترپردیش، راجستھان یا پنجاب کے کسی شہر میں بیچ سکتا تھا۔ کیونکہ ایک مشترک زبان کھڑی بولی موجود تھی جسے بیچنے اور خریدنے والے دونوں اپنی علاقائی زبان کے علاوہ جانتے تھے۔ اس طرح سے کھڑی بولی ہندوستان کے مختلف شہروں کی ایک مشترک زبان ہے۔ یہاں تک کہ ہندی نہیںبولے جانے والے علاقے میں بھی کھڑی بولی، دوسری زبان کے طور پر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس طرح سے اگر کوئی کولکتہ، بنگلور، گجرات، لاہور یا کراچی جائے یا جنوبی ہند میں جائے تو وہاں کے شہروں میں رہنے والوں کے ساتھ کھڑی بولی میں گفتگو کرسکتا ہے لیکن دیہاتوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
کھڑی بولی کی ہیئت کو سمجھنے کے بعد اب ہم اردو کو سمجھنے کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اردو کی بنیاد کھڑی بولی ہے لیکن ڈھانچہ فارسی کا ہے۔ اس کی وضاحت ضروری ہے۔
کئی صدیوں تک فارسی ہندوستان کی درباری زبان تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فردوسی، حافظ، سعدی، رومی اور عمر خیام وغیرہ شاعروں اور ادیبوں نے اس زبان کو ایک مہذب اور آداب و القاب کی زبان کے طور پر بہت ترقی عطا کی تھی اور اس طرح سے یہ زبان مشرقی دنیا کے بیشتر حصوں میں پھیل گئی۔
مغل ترکی تھے فارسی نہیں اور اگرچہ ان کی مادری زبان ترکی تھی لیکن درباری زبان کے طور پر انھوں نے فارسی کو اس لیے اپنایا کیونکہ فارسی زبان ترکی زبان سے کہیں آگے تھی۔ (اکبر کے وزیرِ مالیات راجہ ٹوڈرمل نے زمین اور مال گزاری کے سارے ریکارڈ فارسی میں لکھوائے تھے)۔ اس طرح سے اگرچہ بابر نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ''تزک بابری'' ترکی زبان میں لکھی تھی لیکن اس کے پوتے اکبر نے اس کا ترجمہ فارسی میں کرایا اور اس کا نام ''بابر نامہ'' رکھا۔ اکبر نے اپنی سوانح حیات ''اکبر نامہ'' کو فارسی زبان میں ابوالفضل سے لکھوایا اسی طرح اس کے بیٹے جہانگیر کی خود نوشت سوانح عمری 'جہانگیر نامہ' اور شاہ جہاںکی سوانح حیات ''شاہجہاں نامہ'' بھی فارسی میں لکھی گئیں۔
کسی باہری زبان کا کسی دوسرے ملک کے درباری زبان یا اعلیٰ طبقے کی زبان ہوجانا کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ مثلاً: روس اور جرمنی کے اعلیٰ طبقے (اور زیادہ تر یوروپین کی) کی زبان نپولین کے حملے (اور بعد تک بھی) فرانسیسی زبان تھی اور یہ بات ٹالسٹائے کی "war and peace" سے ثابت ہے۔ اور آج بھی ہندوستان کے اعلیٰ طبقے (elite) کی زبان انگریزی ہے۔
فارسی کئی صدیوں تک ہندوستان کی درباری زبان رہی، اس لیے اس کا اثر شہروں کے مشترک زبان پر پڑا جو کہ، جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے، کھڑی بولی تھی۔ پھر اردو کیسے وجود میں آئی؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے اور میں اس کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
اگرچہ اکبر سے اورنگ زیب تک کے مغل بادشاہ ہندوستان کے بیشتر حصوں میں مضبوط حکمراں تھے لیکن ان کے بعد کے مغل بادشاہوں کی حیثیت ان کے آباد و اجداد کی پرچھائی ہوکر رہ گئی تھی۔ اسی لیے یہ مشہور ہوا کہ ''سلطنت شاہ عالم از دلی تا پالم''۔
بعد کے یہ مغل بادشاہ صرف نام کے بادشاہ تھے۔ ان کی حالت خستہ تھی۔ وہ اپنی سلطنت انگریزوں اور مراٹھا وغیرہ کو ہار چکے تھے اور ان کے کچھ سپہ سالار آزاد حکمراں بن گئے تھے (مثلاً اودھ کے نواب اور حیدرآباد کے نظام)۔ ان کے دور میں فارسی دھیرے دھیرے دربار میں استعمال ہونا بند ہوگئی اور اس کی جگہ اردو لینے لگی۔
ایسا کیوں ہوا کہ فارسی عظیم مغل حکمرانوں کے دور میں درباری زبان تھی اور بعد کے مغل بادشاہوں کے دور میں درباری زبان اردو ہوگئی؟ ایسا اس لیے ہوا کہ بعد کے مغل حکمراں صحیح معنوں میں حکمراں نہیں تھے بلکہ قریب قریب عام آدمی کے زمرہ میں آگئے تھے اور ان ساری پریشانیوں سے نبرد آزما تھے، جن سے عام آدمی نبرد آزما تھا۔ اس لیے ان کے لیے ضروری ہوگیا تھا کہ وہ ایسی زبان کو اپنائیں جو عام آدمی کے قریب ہو۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کھڑی بولی، شہروں میں جو عام آدمی کی زبان تھی، وہ درباری زبان کیوں نہیں بن سکی؟ ایسا اس لیے ہوا کہ اگرچہ بعد کے مغل حکمراں کمزور اور غریب ہوگئے تھے لیکن انھوں نے ان کے لیفٹنینٹ، نواب اور وزیر وغیرہ نے اپنی شان و شوکت، تہذیب اور خودداری کوبرقرار رکھا۔ وہ اب بھی ''شہزادئہ تیموریہ'' کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ یعنی ان کو اس بات پر ناز تھا کہ وہ عظیم فاتح تیمور کی نسل سے ہیں (تیمور بابر کے دادا کے پردادا تھے)۔ اس طرح سے ان کی حیثیت اگرچہ بہت گر گئی تھی، پھر بھی انہیں عام آدمی کی طرح رہنا اور کہلوانا منظور نہیں تھا اور اپنی شناخت بنائے رکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے فارسی کو ترک کرکے کھڑی بولی کو اپنالیا لیکن یہ کھڑی بولی عام آدمی والی کھڑی بولی نہیں تھی، بلکہ ایک خاص قسم کی کھڑی بولی تھی جس میں فارسی زبان کا رنگ، لب و لہجہ، اعلیٰ ذوق، القاب و آداب اوراعلیٰ خوش سلیقگی موجود تھی۔ دوسرے لفظوں میں وہ ایسی کھڑی بولی کا استعمال کرتے تھے جس میں اعلیٰ ذوق، حد درجہ شائستگی اور تہذیب موجود تھی اور جس میں فارسی کے کچھ الفاظ کا بھی استعمال ہوتا تھا۔
اس طرح سے اردو ان اعلیٰ اشراف (aristocrat) کی زبان تھی جو اگرچہ غریب ہوچکے تھے لیکن اپنی شان، اپنا وقار اور عزت نفس کو محفوظ کرنے میں کامیاب تھے۔
اردو کے سب سے بڑے شاعر مرزا غالب کی وہ کہانی بہت مشہور ہے کہ اگرچہ ان کو مالی دشواریوں کا زبردست سامناتھا لیکن انھوں نے ایک نوکری سے انکار کردیا تھا کیونکہ جب وہ نوکری جوائن کرنے پہنچے تو وہاں ان کو لینے کوئی نہیں آیا تھا۔ اردو والوں کی شان، عزت نفس اور خودداری کا اندازہ جوش کے اس شعر سے لگایا جاسکتا ہے:
حشر میں بھی خسروانہ شان سے جائیں گے ہم
اور اگر پرسش نہ ہوگی تو پلٹ آئیں گے ہم
اور پھر مرزا غالب کا وہ شعر:
بندگی میں بھی وہ آزاد ہ و خود بیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
اس طرح سے اردو اعلیٰ اور ادنیٰ دونوں کی زبان ہے۔ یہ اعلیٰ طبقۂ اشراف کی بھی زبان ہے اور عام آدمی کی بھی۔ عام آدمی کی زبان اس لیے کہ آخری مغل اگرچہ پوری طرح سے نہیں پھر بھی عام آدمی کی طرح ہوگئے تھے۔ کیونکہ حکومت ان کے ہاتھوں سے جاچکی تھی۔ اس کے ساتھ یہ کہنا بھی درست ہے کہ اردو عام آدمی کی زبان نہیں تھی کیونکہ اگرچہ آخری مغل حکمراں کمزور اور بے وقعت ہوکر رہ گئے تھے پھر بھی انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کی عزت اور شان میں کوئی فرق نہ آئے اور پہلے والا وقار اور شان و شوکت باقی رہے۔ اس طرح سے اردو کی دو ہری فطرت ہے۔ یہ عام آدمی کی بھی زبان ہے اور اعلیٰ طبقے کی بھی۔ (عام آدمی کی زبان کھڑی بولی ہوئی)۔ یہ بات بظاہر متضاد لگتی ہے لیکن ہے صحیح اور درحقیقت یہی اردو کی خوبصورتی ہے۔ یہ عام آدمی کی زبان ہے کیونکہ یہ عام آدمی کے مسائل، حالات، رنج و غم اور امیدوں کی غمازی کرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شرافت، اعلیٰ ظرفی، شائستگی،ادب اور شان کی زبان بھی ہے۔
اوپر یہ بات کہی گئی ہے کہ بنیادی طور پر اردو دو زبانوں کے میل سے بنی ہے۔: ہندوستانی یا آسان ہندی اور فارسی۔ ہندوستانی عام آدمی کی زبان اور فارسی اعلیٰ طبقے کی زبان۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اردو ایک خاص قسم کی ہندوستانی زبان ہے نہ کہ ایک خاص قسم کی فارسی زبان (کیونکہ اس کے سارے فعل ہندوستانی زبان کے ہیں)۔ اس تجزیہ کو جاری رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگرچہ اردو میں جو احساسات اور خیالات پیش کیے گئے ہیں ان کا تعلق عام آدمی کی زندگی سے ہے لیکن ان احساسات اور خیالات کو جس انداز میں پیش کیا گیا ہے وہ اعلیٰ درجے کا شائستہ اور aristocratic انداز ہے۔ دوسرے لفظوں میں اردو ادب اور شاعری میں عام آدمی کی امیدوں، آرزوؤں، تکالیف، رنج و الم اور احساسات کا ذکر ہے۔ لیکن یہ ذکر یا پیش کرنے کا انداز (اندازِ بیان) عام آدمی کا انداز نہیں بلکہ اعلیٰ معاشرتی طبقے کا انداز ہے۔
مثال کے طور پر اردو کے سب سے بڑے شاعر غالب کو عام شاعرانہ انداز پسند نہیں تھا۔ اپنے آپ کو اعلیٰ طبقاتی (aristocrat) تصور کرتے تھے اور ان کی یہ شدید خواہش تھی کہ وہ عام آدمی یا شاعر سے مختلف ہوں، اسی لیے ان کی شاعری جدت پسند اور غیر روایتی ہے۔ غالب کا یہ پختہ خیال تھا کہ شاعری کی زبان وہ نہیں ہونی چاہیے جسے عام طور سے لوگ بولتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے جذبات اور خیالات کا اظہارِ براہِ راست نہیں بلکہ مبہم اور اشارے اور کنایوں میں کرتے ہیں۔
یہی بات اردو کے دوسرے شاعروں کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ وہ بھی اپنے احساسات اور خیالات کا اظہار سیدھی زبان میں نہیں بلکہ مبہم، نیم خوابی، گھما پھرا کر اور اشاروں اور کنایوں میں کرتے ہیں تاکہ وہ زبان شائستہ اور ایلیٹ (elite)کی زبان لگے جو عام زبان سے مختلف ہو۔ لیکن اس انداز کی وجہ سے کبھی کبھی تخلیق کو سمجھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے (اسی لیے نقاد اور سوانح نگار حالی غالب کی ایک تہائی شاعری کو اردو شاعری نہیں مانتے) اور کبھی کبھی کئی معنی کا گمان ہونے لگتا ہے۔
جب تک طاقتور مغلوں کی حکمرانی رہی دربار کی زبان فارسی ہی رہی اور اردو کو عزت کا مقام نہیں ملا اور یہ شمالی ہندوستان میں درباری زبان نہ بن سکی لیکن جنوبی ہند اور گجرات میں اس کو پناہ ملی جہاں یہ ایلیٹ (elite)کلاس کی زبان تھی۔ ایک معنی میں اردو کی پیدائش جنوبی ہندوستان میںہوئی اور طاقتور مغلوں کے دور میں اردو وہاں مقبول ہوئی۔ جنوب کی سلطنتیں مثلاً گولکنڈہ، بیجاپور اور احمد نگر وغیرہ نے اردو کی سرپرستی کی اور وہاں اردو دربار کی زبان کے طور پر استعمال ہونے لگی۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ عظیم مغلوں کے دور میں اردو جنوبی ہند اور گجرات میں درباری زبان ہوگئی لیکن شمالی ہندوستان میں جب تک طاقتور مغلوں کی حکومت تھی اردو فارسی کی جگہ نہ لے سکی۔
درحقیقت جب شمال میں اردو کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور اسے کم درجے کی زبان سمجھا جارہا تھا اور فارسی کو ایک مثالی اور اعلیٰ زبان سمجھا جاتا تھا، اس وقت جنوبی ہند اور گجرات میں بڑے پیمانے پر اعلیٰ طبقے کی زبان اردو ہوگئی تھی۔ اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ١٧٠٠ عیسوی میں اورنگ زیب کے زمانے میں جنوبی ہند کا شاعر ولی دکنی دہلی آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کا نام اور اس کی شہرت پہلے ہی دہلی پہنچ چکی تھی۔ کیونکہ اس کی شاعری اردو زبان میں تھی جسے دلی کاعام آدمی سمجھ سکتا تھا جبکہ اس دور کے دلی کے شعرا فارسی میں شاعری کرتے تھے جو عام آدمی کی سمجھ سے باہر تھی، (کچھ لوگ ولی دکنی کو بابائے اردو یا اردو کا بانی کہتے ہیں)۔ ولی دکنی اگرچہ جنوبی ہند کے تھے لیکن ان کو عموماً بابائے اردومانا جاتا ہے کیونکہ انھوں نے ہی دلی کے شعراء پر یہ انکشاف کیا کہ اردو میں شاعری کرنا ممکن ہے، یہ ایک ایسی زبان ہے جسے عام آدمی سمجھ سکتا ہے، اس سے اردو کے وقار میں اضافہ ہوا۔
١٧٠٧ء میں اورنگ زیب کی موت کے بعد جب مغل حکمرانوں کا زوال شروع ہوا تو درباروں میں دھیرے دھیرے اردو فارسی کی جگہ لینے لگی (مغل حکمرانوں بشمول آخری مغل حکمراں کے فرمان ) فارسی میں ہوتے تھے اردو میں نہیں۔ جب میں چمبھا، ہماچل پردیش گیا تو وہاں کا عجائب گھر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جو پہلے ہندو بادشاہ کا محل ہوا کرتا تھا۔وہاں مغلوں کے جتنے فرمان ہیں وہ سب فارسی میں ہیں۔ ایک بھی اردو میں نہیں۔ اگرچہ ایسا بادل نخواستہ ہوا۔ غالب کی مثال پیش کی جاسکتی ہے انھوں نے اپنی فارسی شاعری کو زیادہ ترجیح دی اور اپنی ہی اردو شاعری کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا۔ (یہ الگ بات ہے کہ آج ان کو جو شہرت حاصل ہے، وہ ان کی اردو شاعری کی وجہ سے ہے) غالب اپنے ایک مکتوب بنام اپنے دوست منشی شیو نرائن آرام میں لکھتے ہیں : ''میرے دوست! میں اردو میں کیسے لکھ سکتا ہوں؟ کیا میرا رتبہ اتنا کم ہوگیا ہے کہ مجھ سے امید کی جائے کہ میں اردو میں لکھوں؟'' اس طرح سے اردو میں لکھنا اپنے رتبے کو کم کرنا سمجھا جاتا تھا اور اس وقت کے سارے معزز قلم کار فارسی میں ہی لکھا کرتے تھے۔
میں ایک دوسری مثال دینا چاہوں گا۔ میرے پوروج و پرکھے پنڈت مانسہ رام کاٹجو ١٧٧٥ء میں کشمیر سے آئے تو انھوں نے کروکشیتر کے پانڈہ کے رجسٹر میں مندرجہ ذیل جملہ لکھا : ''بتلاش معاش آمدم'' آخر میں انہیں مغربی مدھیہ پردیش کے جاورا کے نواب کے یہاں نوکری ملی۔
دلچسپ با ت یہ ہے کہ انھوں نے فارسی میں لکھا اردو میں نہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے میں تعلیم یافتہ طبقہ لکھنے کے لیے فارسی کا استعمال کرتاتھا۔ اردو عام بول چال کی زبان ہوسکتی تھی لیکن تحریری زبان فارسی تھی۔
غالب جنہیں ترکی نسل کے ہونے پر فخر تھا۔ اردو میں بادلِ نخواستہ لکھتے تھے۔ فارسی ان کی پسندیدہ زبان تھی۔ ان کی شروع کی شاعری میں فارسیت بدرجۂ اتم موجود ہے اس لیے اس کا سمجھنا بہت دشوار ہے۔ اور ان کے بہترین اشعار وہ ہیں جنھیں انھوں نے بعد میں لکھا اور کھڑی بولی کا زیادہ استعمال کیا۔
١٧٠٧ء میں اورنگ زیب کے انتقال کے بعد مغل حکومت کا خاتمہ اردو کے لیے نیک فال ثابت ہوا کیونکہ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوسکتاتھا کہ عدالت میں فارسی کی جگہ اردو لے۔ اردو کے اچھے دن آخری مغل بادشاہوں کے دور میں شروع ہوئے جو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دور میں اپنے عروج کو پہنچے (جیسے غالب، ذوق، جوش وغیرہ)۔
١٩٤٧ء تک اردودربار اور عدالت کی زبان رہی اور ہندوستان کے بیشتر حلقوں میں تعلیم یافتہ لوگوں کی زبان رہی۔ اس کے ساتھ ہی، اپنی دوہری خصوصیت کی بنیاد پر کھڑی بولی کے طور پر شہری علاقوں میں عام لوگوں کی زبان رہی۔
چونکہ اردو ہندوستان کے شہری علاقوں میں عام لوگوں کی زبان رہی اس لیے اس نے دوسری زبانوں کے الفاظ بھی مستعار لیے اور دوسری زبانوں کے الفاظ لینے سے کبھی انکار یا مزاحمت نہیں کی۔
چونکہ اردو عام لوگوں کی زبان تھی اس لیے ہر عام آدمی اس سے محبت کرتا تھا اور آج بھی کرتا ہے۔
اس کو تین طرح سے ثابت کیا جاسکتا ہے:
(١) آج بھی ہندی فلموں کے گانے اردو میں ہیں کیونکہ چاہے کوئی کتنا دبانا یا چھپانا چاہے، دل کی آواز اپنی ہی زبان میں ابھرے گی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نوجوان تھا تو میرے ہم عصر گایا کرتے تھے: ''اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو'' یا ''دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن'' اور اس وقت ہمیں یہ کبھی خیال نہیں آیا کہ یہ فلمی گانے عظیم شاعر غالب کی شاعری کے اشعار ہیں۔
(٢) آج بھی ریلوے پلیٹ فارم کی کتاب کی دوکانوں پر جو کتابیں بکتی ہیں ان میں غالب، میر، فیض، جوش، فراق، حالی، داغ اور ذوق وغیرہ کی شاعری کی کتابیں ہیں اگرچہ آج کل وہ دیوناگری رسم الخط میں ہیں۔ ہندی شاعروں کی کتابیں نہیں بکتی ہیں۔
ہمیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ہندی۔ نہ کہ اردو۔ عوام کی زبان ہے۔ تو پھر ایسا کیوں ہے کہ ہندی کے شاعر مہادیوی ورما یا سمترا نندن پنت کی کتابیں ریلوے بک اسٹال جہاں عام آدمی کتابیں خریدتے ہیں، نہیں بیچی جاتیں اور ہندی بولنے والے اردو شاعری کی کتابیں خریدتے ہیں؟
(٣) ہندی کے قلم کار، جن کا اردو بیک گراؤنڈ ہے، جیسے پریم چند، کشن چند، راجندر سنگھ بیدی سحر، پروفیسر گوپی چند نارنگ اور مالک رام کی مانگ ہندی دنیا میں بھی ہے۔
اردو کو ہندوستان کے لوگ پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ لوگوں کے درمیان پھول پھل کر بڑی ہوئی ہے۔ اردو ادب احتجاج کا ادب ہے، یہ احتجاج انسانی تکلیف اور درد اور نا انصافی کے خلاف ہے۔ ملاحظہ فرمائیے فیض احمد فیض کے یہ اشعار:
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
اوپر کے اشعار پاکستان میں مارشل لا کے دوران تاناشاہی، ڈکٹیٹر شپ اور ظلم کے خلاف لکھے گئے بے مثال اشعار ہیں۔
اردو حب الوطنی کی بھی زبان ہے۔ رام پرشاد بسمل کے اشعار ہر خاص و عام کی زبان زد ہیں:
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوے قاتل میں ہے
علامہ اقبال کا شعر بھی یہاں موزوںہوگا:
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
اردو شاعری نے فرسودہ سماجی رسم و رواج اور کھوکھلی روایت کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ جیسا کہ غالب لکھتے ہیں:
نہیں تسبیح اور زنّار کے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
یہاں سعادت حسن منٹو کی مختصر کہانیوں کا حوالہ بھی دیا جاسکتا ہے خاص طور سے جن حالات اور تکالیف اور اذیت کا ذکر انھوں نے ''ٹھنڈا گوشت'' اور ''ٹیٹوال کا کتا'' میں کیا ہے۔
دورِ جدید کے ہندوستان میں چونکہ اردو عوامی زبان ہے اس لیے اس کا مزاج خالصتاً سیکولر ہے۔ صرف اقبال کے آخری دور کی شاعری کو چھوڑ کر جب وہ نیشنلزم سے اسلامی شاعری کی طرف متوجہ ہوئے (بحوالہ اردو ادب کی تاریخ از محمد صادق، دوسرا ایڈیشن، صفحات 461-465) کچھ بڑے شاعروں نے تومذہب کے خلاف تک لکھ ڈالا:
میر کے دین و مذہب کو پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقا کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
اسی طرح سے غالب لکھتے ہیں:
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
ایک جگہ اور غالب لکھتے ہیں: ''مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے''
اردو ادب پر صوفیوں کا بھی اثر پڑا۔ مسلمانوں میں صوفی آزاد خیال کے تھے، کٹرّ نہیں تھے۔ چاہے ان کا مذہب یا ذات کچھ بھی ہو، انھوں نے سارے انسانوں کو عالمی محبت کا پیغام دیا۔
اردو کے جدید شاعروں کے درمیان ساحر لدھیانوی کھلے انداز میں الحادی لگتے ہیں:
عقائد وہم ہیں مذہب خیالِ خام ہے ساقی
ازل سے ذہن انساں بستۂ اوہام ہے ساقی
حقیقت آشنائی اصل میں گم کردہ راہی ہے
عروس آگہی پروردۂ ابہام ہے ساقی
پھر کہتے ہیں:
بے زار ہے کنشت و کلیسا سے یہ جہاں
سوداگرانِ دین کی سوداگری کی خیر
صحن جہاں میں رقص کناں ہیں تباہیاں
آقائے ہست و بود کی صنعت گری کی خیر
انسان الٹ رہا ہے رخ زیست سے نقاب
مذہب کے اہتمام فسوں پروری کی خیر
الحاد کررہا ہے مرتب جہانِ نو
دیر و حرم کے حیلۂ غارت گری کی خیر
میں یہاں یہ کہنے کی جسارت کررہا ہوں کہ دنیا میں کسی بھی زبان کی شاعری انسان کے دلی جذبات اور غموں کا اظہار اس انداز میں پیش کرنے سے قاصر ہے، جس انداز میں اردو شاعری نے کیا ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار میں انسانی تکالیف کا حل دیکھئے:
رنج کا خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں
اردو کے کچھ شاعر جیسے میر تقی میر اور نظیر نے ہولی، دیوالی، راکھی اور ہندوؤں کے دوسرے تہوار اور رسوم و رواج پر خوبصورت شاعری کی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اردو کسی ایک مذہب کی زبان نہیں ہے۔ ہندوؤں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جس نے اردو شاعری اور ادب میں اپنا نام سرِ فہرست درج کرایا ہے۔ جیسے فراق،چکبست، رتن لال سرشار وغیرہ۔ ولی دکنی کی شاعری میں گنگا جمنا، کرشنا، سرسوتی ، سیتا، لکشمی وغیرہ جیسے الفاظ کثرت سے استعمال کیے گئے ہیں۔ یہاںتک کہ اقبال نے بھی رام کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے:
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند
اردو شاعری کثرت میں وحدت کا مرقع ہے۔ بہت سے لوگ اور قومیں ہجرت کرکے ہندوستان آئیں اور یہاں کے بودو باش اور مٹی سے ہم آہنگ ہوگئیں جس کی عکاسی فراق نے یوں کی ہے:
سرزمین ہند پہ اقوامِ عالم کے فراق
قافلے آتے گئے ہندوستان بنتا گیا
١٩٤٧ء میں تقسیمِ ہند سے اردو کو سب سے بڑا نقصان پہنچا۔ اس وقت سے اردو کو غیر ملکی زبان کہا جانے لگا اور یہ کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے یہاں تک کہ اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے اور اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ ہم آہنگی ثابت کرنے کے لیے خود مسلمانوں نے اردو پڑھنا چھوڑ دیا۔ ١٩٤٧ء کے بعد فارسی کے وہ الفاظ جو عام استعمال میں تھے، انہیں ہٹاکر ان کی جگہ سنسکرت کے الفاظ ڈال دیے گئے جو عام لوگوں کی فہم سے باہر ہے۔ مثلاً جب میں الٰہ آباد ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ کی سنوائی کررہا تھا تو ایک درخواست میرے سامنے پیش کی گئی جس پر izfrhkw vkosnu i= لکھا تھا۔ میں نے فاضل وکیل سے دریافت کیا کہ izfrhkw کا کیا مطلب ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کا مطلب درخواست ضمانت ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کو bailیا ضمانت کے الفاظ استعمال کرنے چاہیے تھے، جسے ہر کوئی سمجھتا ہے نہ کہ izfrhkw جسے کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ کھڑی بولی والا بھی نہیں سمجھ سکتا۔ ایک بار میں صبح میں چہل قدمی کررہا تھا تو میں نے ایک بورڈ دیکھا جس پر لکھا تھا izoj.k dsunz میں اس کا مطلب نہ سمجھ سکا۔ پھر میں نے آگے دیکھا جہاں انگریزی میں لکھا تھا selection centre۔ میری رائے میں اس بورڈ پر ہندی میں ''بھرتی دفتر'' یا ''روزگار دفتر'' لکھا جانا چاہیے تھا نہ کہ izoj.k dsun جسے کوئی نہیں سمجھتا۔
نفرت کی پالیسی کے تحت، کھڑی بولی سے فارسی کے الفاظ جو عام استعمال میں تھے، کو ہٹا کر ان کی جگہ سنسکرت کے الفاظ، جو کہ عام استعمال میں نہیں تھے، کو داخل کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ عام ہندی غیر ضروری طور پر سنسکرت زدہ ہوگئی، جسے عام آدمی سمجھنے سے اکثر قاصر ہے۔ ہماری عدالتوں میں بعض نوٹیفیکشن میں استعمال کیے گئے ہندی کے الفاظ کو سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ فارسی الفاظ سے نفرت اردو کے لیے قریب قریب قتلِ عام ثابت ہوئی۔
ان تمام دشمنی کے باوجود وہ زبان جو دلوں کی آواز ہے، اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک لوگوں کے سینے میں دل ہے، اردو لوگوں کے دلوں میں بستی ہے، اس بات سے ثابت ہے کہ آج بھی مشاعرہ چاہے شمال، جنوب، مشرق یا مغرب میں ہو، سماج کے ہر طبقے کی بھیڑ حیرت انگیز طور پر دوڑی چلی آتی ہے۔ اگر اردو غیر ملکی زبان ہے تو یہ بات حیرت انگیز ہے کہ ہندوستان کے لوگ اسے اتنا کیوں چاہتے اور پیار کرتے ہیں؟
الٰہ آباد میں ایک تنظیم جس کا نام سنسکرت اردو اکیڈمی ہے، بنائی گئی جس کا بنیادی مقصد ہندوستان کے دو بڑے ثقافتی مگر نظرانداز زبانیں سنسکرت اور اردو کا فروغ ہے۔ جب اس تنظیم کی اساس قائم ہوئی تو کچھ لوگوں نے سنسکرت اور اردو کو ایک عجیب وغریب cocktailکہا ہے۔ ان کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ اردو کے 70%الفاظ سنسکرت کے الفاظ ہیں۔ سنسکرت اردو کی دادی ہے (جیسا کہ دوسری زبانوں کی بھی ہے)۔ اور جب دادی اور پوتی ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتی ہیں تو دونوں فیض یاب ہوتی ہیں۔
میں یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ یہ ایک غلط خیال ہے کہ سنسکرت ہندو مذہب کی زبان ہے (ٹھیک ویسے ہی جیسے اردو کے بارے میں یہ غلط مفروضہ ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے)۔ درحقیقت سنسکرت آزادانہ سوچنے والوں کی زبان ہے۔ سنسکرت زبان و ادب میں فلسفیانہ سوچ کا دائرہ حیرت انگیز حد تک وسیع ہے۔ خالصتاً مذہبی اور کلیتاً الحادی۔ ہندی کے عظیم قلم کار راہل سنسکر تائن کہا کرتے تھے کہ سنسکرت سیکھنے سے پہلے وہ بھگوان میں یقین کرتے تھے لیکن اسے سیکھنے کے بعد وہ ناستک ہوگئے۔ قدیم ہندوستان کے سائنسداں آریہ بھٹ، سشروت اور چرک وغیرہ نے سنسکرت میں لکھا۔ اسی طرح سے دوسرے قدیم فلسفی، ڈرامہ نگار اور شاعروں وغیرہ نے بھی سنسکرت میں ہی اپنا تخلیقی کارنامہ انجام دیا۔
جو لوگ اردو کی بقا اور فروغ چاہتے ہیں میری ان سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ اکیلے نہ چلیں بلکہ اردو کو سنسکرت والوںسے جوڑیں۔ ایسا کرنے سے اردو پرایک خاص فرقہ کی زبان ہونے کی چھاپ نہیں لگے گی۔
میرا یہ بھی مشورہ ہے کہ اردو شاعری کی کتابوں میں دیوناگری رسم الخط کا بھی استعمال کیا جائے (جیسا کہ پرکاش پنڈت نے کیا ہے) کیونکہ ایسا کرنے سے ان لوگوں کو بھی ان شاعری کی کتابوں کو پڑھنے کا موقع ملے گا جو فارسی رسم الخط نہیں جانتے۔ میرے خیال میں رسم الخط کے بارے میں بہت زیادہ سخت نہیں ہوناچاہیے۔ (اردو فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے، عربی رسم الخط میں نہیں۔ عربی اور فارسی کے رسم الخط میں کچھ فرق ہے، لیکن یہاں اس کی تفصیل میںجانے کی چنداں ضرورت نہیں)۔
ہونا یہ چاہیے کہ بائیں کے صفحے پر فارسی رسم الخط میں مواد پیش کیا جائے اور دائیں والے صفحے پر دیوناگری رسم الخط میں اور ہر صفحہ کے آخر میں مشکل الفاظ کے معنیٰ آسان ہندی یا ہندوستانی زبان میں لکھ دیے جائیں۔
آخر میں اردو اور ہندی کے قلم کاروں سے گزارش کروں گا کہ وہ آسان اور سہل زبان استعمال کریں۔ اکثر اردو یا ہندی کی تخلیق سمجھنے میں بڑی دشو اری ہوتی ہے۔ جو کچھ لکھا گیا ہے اگر وہ سمجھ سے باہر ہے تو ایسے ادب سے کیا فائدہ؟ آج ہندوستانی عوام کو بیشمار مسائل جیسے غربت، بے روزگاری اور مہنگائی وغیرہ کا سامنا ہے۔ ان مسائل سے نبرد آزمائی میں ادب کو مدد کرنا چاہیے اور ایسا آسان زبان استعمال کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ جسے گوناگوں مسائل سے الجھے عام لوگ سمجھ سکیں۔ بعینہ اسی طرح جس طرح دوسری عالمی جنگ کے اوقات میں ونسٹن چرچل کی تقریروں نے اثر کیا یا جس طرح پریم چند اور سرت چند کی کہانیوں نے عام آدمی کی ڈھارس بندھائی اور سماج پر جفا کشی، ایمانداری، ایثار و قربانی اور اعلیٰ انسانی اقدار کے اثرات مرتب کیے۔
 

شہزاد وحید

محفلین
یہاں امریکہ میں کچھ پاکستانی ڈائجسٹ دیکھے جن پر قیمت 35 روپئے فی شمارہ تھی ، وہ بھی تقریباً ایک سال پہلے کے پرچے۔ جب کہ ہندوستان کے ہما وغیرہ اب بھی 20 اور 25 روپئے کے ہیں۔ اس سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں قیمت کم ہے جب کہ وہاں کا روپئیہ پاکستان سے زیادہ قیمتی ہے۔ البتہ کتابیں اور خاص کر ادبی کتابیں تو وہاں بھی اب سو ڈیڑھ سو روپئئے کی ہوتی ہیں اور پاکستان سے زیادہ فرق نہیں۔ اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کا نہ مجھے اندازہ ہے اور پھر یہ بھی کی خود ہندوستان میں کچھ زبانوں کی کتابیں اور رسالے بہت سستے ہیں، جیسے ملیالم کے۔ اور اخباروں میں تو آج کل یہ مقابلہ چل رہا ہے کہ کوں سستے سے سستا اخبار دے اور حیدر آباد میں اکثر انگریزی اخبار ایک روپئہ یا ڈیڑھ روپئے میں مل رہے ہیں۔
یہاں تو انگریزی اخبار 15 روپے کا ملتا ہے۔ کم از کم
 
Top