ہندوستان میں اردو

شعیب

محفلین
میرا خیال ہے پاکستانی اردو دان شاید یہی سمجھتے ہونگے کہ اردو ہندوستان میں تقریبا ختم ہوچکی ہے ۔ ‘ہندوستان میں اردو‘ کے عنوان پر بہت جلد اسی کیٹگری میں ایک پوسٹ اپلوڈ کروں گا -
 

منہاجین

محفلین
اردو ۔ ۔ ۔ ہندوستان اور پاکستان

ماشاء اللہ، زہے نصیب، شعیب صاحب بھی حرکت میں آئے۔ اب مزہ آئے گا گرما گرم بحثوں کا۔ ویسے آپس کی بات ہے، آپ سے یہ کس نے کہہ دیا کہ اردو اپنی جنم بھومی "بھارت" میں معدوم ہو گئی ہے۔ خیر جس کسی نے بھی کہا اس نے بے پر کی سنائی ہے۔

اردو کو ہندوستان سے الگ کرنا قریب قریب ناممکن ہے کیونکہ فی زمانہ اردو کی ترویج میں سب سے بڑا ہاتھ ہندوستان کا ہے۔ ہمارے وہ احباب جو برصغیر سے یورپ اور امریکہ میں جا آباد ہوئے اور ان کی اولادیں اسی غیراردو ماحول میں پیدا ہوئیں اور پروان چڑھیں انہیں اردو بولنا اور سمجھنا انڈین فلموں نے سکھایا۔ اردو کو عالمی سطح پر پھیلانے میں انڈین فلموں کا بڑا ہاتھ ہے اور اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں۔

اور ویسے بھی اردو کو محض پاکستان کی زبان سمجھنے والوں کو سوچنا چاہیئے کہ وہ تو آزادی کے اتنے برسوں بعد بھی پاکستان میں سرکاری زبان کا درجہ نہ پا سکی۔ پھر وہ محض پاکستان کی زبان کیسے ہوئی۔

ہم منتظر ہیں کہ "ہندوستان" میں اردو کے نام سے شعیب کی جامع تحریر، جس کی خوشخبری ہمیں یہاں ملی، جلد پڑھنے کو ملے تاکہ جو لوگ اردو کو پاکستان تک محدود سمجھتے ہیں ان کا خیالِ خام رفع ہو سکے۔
 

جیسبادی

محفلین
جہاں تک انڈین فلموں کا تعلق ہے وہ ہندی میں ہوتی ہیں۔ ہندی کا علیحدہ رسم الخط ہے۔ اور بولنے میں اردو کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
صرف بولنا زبان دانی نہیں کہلاتا۔
ویسے یہ خام خیالی معلوم نہیں کیسے پھیلی کہ بیرونِ ملک پاکستانی بچے اردو فلموں سے سیکھتے ہیں۔ بچے زبان اپنے ماں باپ سے ہی سیکھتے ہیں! ٹورانٹو میں پبلک سکولوں میں ھفتے کو باقاعدہ اردو کی کلاسیں ہوتی ہیں جہاں پاکستانی بچے اردو پڑھنا لکھنا سیکھتے ہیں۔
چونکہ پاکستان میں اردو کی تعلیم لازمی ہے اس لیے ہر شخص جو سکول سے فارغ تحصیل ہوتا ہے، اردو لکھ اور پڑھ سکتا ہے۔ ہندوستان میں جن لوگوں نے خود اردو سیکھی یا مسلم سکولوں میں پڑھے، وہ ہی اردو لکھ سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ ریاستوں میں صورتِ حال مختلف ہو مگر عمومی حقائق یہ ہی ہیں۔
 

منہاجین

محفلین
اردو کی ترویج بارے اصلاح کا شکریہ

جیسبادی:
شکر خدا کا کہ کوئی صائب الرائے میرے خیال سے بایں طور اختلاف کر گیا کہ مجھے اقرار کرنا پڑا۔ ویسے بھی میں تو خود کو اس چوپال کا چیمپئن سمجھنے لگ گیا تھا کہ میرے آگے ٹھہرتا ہی کوئی نہیں۔ اب کچھ ہوش ٹھکانے آئے۔ آپ کی منطق سے متاثر ہوا، آپ کا بہت بہت شکریہ۔

تاہم میری دانست میں بولنے اور سمجھنے میں اردو اور ہندی کے مابین شاید پانچ فیصد کا بھی فرق نہ ہو۔ اور فلموں نے اتنی ہی اردو سکھائی ہے اور بس۔ نبیل سے ایک بحث میں تو میں نے اس طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ اردو بولنا اور سمجھنا تو انہیں آتی ہے اب لکھنا اور پڑھنا ہم جیسے ویب کے کلاکار ہی سکھا سکتے ہیں۔ سو اس بارے میں اپنی سی کاوش اس محفل میں بھی جاری ہے۔

لیکن ایک بات سے میں اتفاق کرتا ہوں کہ میں ہندوستانیوں کے اردو بارے احساسِ کمتری سے متاثر ہو کر انہیں کچھ زیادہ ہی کوریج دے گیا تھا۔ میں اپنی خام خیالی سے تائب ہوتا ہوں۔ آپ کی بات بجا ہے کہ بچے زبان والدین سے سیکھتے ہیں، تاہم فلموں کا رول بھی اپنی جگہ مسلم ہے۔ بھارتی فلم انڈسٹری دنیا کی صفِ اول کی فلم انڈسٹری ہونے کے ناطے پورے گلوب میں اپنی ایک شناخت رکھتی ہے۔ اس کی تمامتر خرافات اپنی جگہ، مگر اس کا لامحالہ فائدہ اردو کو بھی پہنچا ہے۔ خاص طور پر ان ممالک میں جہاں پبلک سکولوں میں اردو پڑھائی نہیں جاتی۔

میری رائے میں اعتدال لانے کا ایک دفعہ پھر بہت بہت شکریہ

ویسے اب مجھے ایک اور خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ ہندوستانی ممبران اب مجھے آڑے ہاتھوں لے سکتے ہیں۔ :?
 

شعیب

محفلین
ایک نظر

یہ بات سو فیصد صحیح ہے کہ ہندی فلموں کے سبھی نغمے اردو شاعروں کی دین ہے - مجھے انداہ نہیں کہ میں “ہندوستان میں اردو“ کے عنوان سے کیا لکھوں؟ مگر میری معلومات کے تحت ضرور سے لکھوں گا - جہاں تک میرا اندازہ ہے، آج کی ہوشربا ہندوستانی نسل کو دیکھتے ہوئے لوگ یہی سمجھتے ہونگے کہ اردو ہندوستان میں ختم ہوچکی ہے ۔آج بھی جنوبی ہندوستان کے مسلم گھروں کی زبان اردو ہی ہے مگر ایسی اردو جس میں پچاس فیصد انگریزی ہوتی ہے ۔
 

جیسبادی

محفلین
اردو صرف برصغیر پاک و ہند تک محدود نہیں۔ صدیوں سے لوگ برصغیر سے ہجرت کرتے رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں اردو بولنے والے جنوبی افریقہ، تنزانیہ، کینیڈا، اور یورپ میں موجود ہیں۔ اپنی خامیوں کے باوجود اردو کی تعلیم کے لحاظ سے پاکستان ہی سرِفہرست ہے، مگر اردو اِن دور دراز آبادیوں میں بھی زندہ ہے۔ برسوں پہلے تنزانیہ سے ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی، تواس کی شفاف اردو سن کر حیران رہ گیا۔ قرّان کی تعلیم کی وجہ سے یہ آبادیاں عربی رسمالخط سے آشنا رہتی ہیں۔ اب ہمارا فرض ہے کہ نیٹ پر اس طرح کے چوپال کے ذریعہ ان لوگوں تک پہنچا جائے۔ نیٹ نے اردو کی دنیا بھر ترویج کا سنہری موقع ہمیں دیا ہے۔
 

شعیب

محفلین
کیا بات ہے؟

آپ تنزانیہ کی بات کر رہے ہیں؟ یہاں دبئی میں چینی، فلپائنی؛ جاپانی اور یوروپی لوگ بھی اردو سمجھتے ہیں اور بات چیت بھی کرنا جانتے ہیں ۔ دبئی کے تمام بازاروں میں اردو عام زبان ہے اور یہاں دنیا کے تمام ملکوں سے لوگ آکر رہتے ہیں سب ستر فیصد لوگ اردو سے واقف ہیں ۔
 

اجنبی

محفلین
خوب

بہت خوب

مگر میں شعیب کی توجہ ایک موضوع کی طرف دلانا چاہوں گا ۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ انٹرنیٹ پر اس وقت جتنے ہندوستانی اردو سے متعلق کام کر رہے ہیں ، وہ مسلمان ہیں ۔ اس فورم کے چند ممبر جو کہ ہندوستانی ہیں وہ بھی مسلمان ہیں ۔ کیا وجہ ہے کہ کوئی غیر مسلم اردو کی ترویج کے لیے کوشش نہیں کر رہا ۔ اور اگر کر رہا ہے تو ہمیں اس سے متعارف کرائیے ۔
 

شعیب

محفلین
غیر مسلم اردو دان

اِن پیج اردو ۔ یہ پروگرام کونسپٹ سوفٹویئر نے تیار کیا ہے جسے ساری دنیا میں اردو دان اپنے کمپیوٹروں پر استعمال کر رہے ہیں اور تقریبا سبھی اردو اخبارات کی اشاعت بھی اسی پروگرام پر منحصر ہے ۔ اس کمپنی کے مالکان غیر مسلم ہیں ۔

میرے علم میں دنیا کا سب سے پہلا اردو پبلیشنگ سافٹویئر حیدرآباد دکّن میں بنایا گیا، اس کا نام اردو پیج کمپوزر ہے جو کمپیوٹر پر ڈوس بیسڈ پروگرام تھا ۔ اس پروگرام کو تیار کروانے والے غیر مسلم ہیں پھر ایک شخص ۔ ۔ ۔ نے اس پروگرام کو خرید کر اپنے نام سے روشناس کروایا ۔ یہ پروگرام تقریبا پندرہ سال پرانا ہے ۔

ہمارے قومی مشاعروں میں غیر مسلم اردو شاعر بھی کثیر تعداد میں اپنا کلام سناتے ہیں اور سامعین میں بھی غیر مسلم کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں ۔ مجھے اِن شاعروں کے نام نہیں معلوم ۔

راموجی ۔ اِن کے ’’فلم سٹی‘‘ کو گذشتہ ماہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کرلیا گیا ہے، آج دنیا کا سب سے بڑا فلم سٹی حیدر آباد کا ’’راموجی فلم سٹی‘‘ ہے ۔ ہندوستان کے تقریبا سبھی زبانوں میں E.TV کے نام سے مختلف ٹیلیویژن چیانلوں کو براڈ کاسٹ کرتے ہیں جس میں E.TV urdu بھی شامل ہے ۔ یہ ہندوستان کا پہلا باقاعدہ چوبیس گھنٹے چلنے والا اردو کا انٹرٹینمنٹ ٹیلیویژن چیانل ہے اسکے علاوہ اسلامی پروگرام بھی نشر ہوتے ہیں اور اسکے مالک راموجی غیر مسلم ہیں ۔

ہندوستان کا سب سے پہلا اردو ٹیلیویژن چینل U-TV جس کی براڈ کاسٹنگ Zee گروپ والے کر رہے تھے، کسی وجہ سے روک دیا گیا، پتہ نہیں کیوں؟ اور اسکے مالکان بھی غیر مسلم ہی ہیں ۔ (ہندوستان میں درجنوں پرائیویٹ ٹیلیویژن چیانلوں میں اردو نیوز کو بھی براڈ کاسٹ کیا جاتا ہے جو غیر مسلموں کی ملکیت میں ہیں)

جنوبی ہند میں ایک چاری ٹیبل ٹرسٹ کے زیرِ نگرانی سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اردو اخبار ’’روز نامہ سالار‘‘ اس اخبار کیلئے غیر مسلم بھی کام کرتے ہیں ۔

ہندوستان بھر میں غیر مسلموں کے زیرِ نگرانی ایسے کئی اسکول اور کالجس ہیں جہاں پر باقاعدہ ’’اردو کلاسس‘‘ کا بھی اہتمام ہے ۔ یہاں اردو میں ایم اے، بی اے، بی ایس سی وغیرہ میں گریجویشن کیا جاسکتا ہے ۔

بہت جلد فلک اور صدف کے نام سے اردو ٹیلیویژن چیانلوں میں اضافہ ہونے جارہا ہے ۔ ہمارے شہر بنگلور میں تیزی کے ساتھ اس پر کام کر رہے ہیں، ایک انٹرٹینمنٹ اور دوسرا خبروں کیلئے ۔ آج سے دو سال قبل میں بھی اس گروپ کیلئے کام کرتا تھا، تب سرمایہ کیوجہ سے پروگرام کو روک دیا گیا مگر اب دوبارہ اس پر کام ہو رہا ہے اور اس میں کام کرنے والوں کی اکثریت غیر مسلموں کی ہی ہے ۔

حال ہی میں جنوب ہند کے ایک معزز شخص نے اردو ٹیلیویژن کا بیڑا اٹھایا، کئی لوگ سرمایہ لگانے آگے آئے، اِن میں غیر مسلم بھی تھے اور جب پتہ چلا کہ یہ اردو کا نہیں بلکہ اسلامی ٹیلیویژن چیانل بنے گا، سرمایہ لگانے والے سب پیچھے ہٹ گئے کیونکہ اسلامی چیانل سے آمدنی کی کسی کو امید نہیں ۔

(غیر مسلموں کی اردو میں دلچسپیاں ۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ جاری ہے)
 

منہاجین

محفلین
ہندوستان میں اُردو

بہت خوب، آپ نے کافی معلوماتی تحریر لکھی، اِس سے بہتوں کا ذہن ہندوستان میں اردو بارے واضح ہو گا۔

آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے جو آپ کو یہ بات لوگوں کو باور کرانا پڑ رہی ہے کہ اردو ابھی ہندوستان میں زندہ ہے۔ کیا آپ اس کی وضاحت کر سکتے ہیں؟
 

منہاجین

محفلین
جواب کا اِنتظار رہے گا۔

شعیب نے کہا:
جناب منہاجین:
آپ کے جواب کے لئے فی الحال میری تازہ تحریر پڑھیں :
http://shuaibday.blogspot.com/2005/08/blog-post_112429637215734555.html

فی الحال آپ کی تازہ تحریر پڑھی، اچھی لگی۔

فی المستقبل اُمید ہے کہ آپ میرے سوال کا جواب بھی ضرور دیں گے:


آخر کیا وجہ ہے جو آپ کو یہ بات لوگوں کو باور کرانا پڑ رہی ہے کہ اردو ابھی ہندوستان میں زندہ ہے۔ کیا آپ اس کی وضاحت کر سکتے ہیں؟
 
افریقاُ

خیراردو ہندوستان کی بڑی زبان ہے اور میں نے چند دفعہ گوگل پر اردو کو سرچ کیا تو اس میں سے اکثر سائیٹس کا تعلق ہندوستان سے تھا۔

اور جہاں تک بات فلموں کی ہے تو وہ واقعی ایک بڑا اورحیرت انگیز ذریعہ ہیں کسی بھی زبان کو سیکھنے کا، میں یہاں پر بہت سے افراد کو جانتا ہوں جو پاکستان سے کچھ زیادہ تعلیم کے ساتھ نہیں آئے تھے مگر اٹالین ٹی وی دیکھ کر وہ فر فر اٹالین بولتے ہیں۔ اس سے مجھے ننھا عمران مرحوم یاد آیا، میں روم ایمبیسی میں کسی کام سے گیا تو وہاں پر میں کسی کو اپنا تعارف کروارہا تھا، پھر بات ننھال تک پہنچی اور میں نے اپنے نانا مرحوم ماسٹر منظور صاحب کا ذکر کیا تو پاس بیٹھے ایک صاحب فوراُ چونک اٹھے اور آکر مجھ سے معانقہ کیا بہت گرمجوشی کے ساتھ پھر فرمانے لگے کہ میں تو پیدا انکے گھر میں ہوا اور میری پرورش اور ابتدائی تعلیم بھی انہوں نے کی تھی، نام عبدالرزاق بتایا تب مجھے یاد آیا کہ اماں ایک مہاجر خاندان کا ذکر کرتی تھیں جس کو کئی برس نانا نے سہارا دیا تھا یہ ان ہی میں سے تھے عبدالزاق انکل جو اسوقت ایمبیسی میں اکاؤنٹینٹ تھے مجھے بہت گرم جوشی کے آپنے گھر لے گئے۔ اہلِ خانہ سے ملوایا اور ننھے عمران سے بھی جو آٹھ سال کا بچہ وہیل چیئر پر تھا کیونکہ اسکا سارہ دھڑ سوکھ چکا تھا صرف چہرہ باقی اور بھرا ہوا تھا۔ ڈاکٹروں نے Muscular hypertrophy تشخیص کی تھی۔

میں نے سلام کیا تو اسنے مجھے اپنا تعارف اٹالین میں کروایا اور بات شروع ہوگئی تو میں نے تجسس کے طور پر پوچھا کہ عمران آپ نے اتنی اچھی اٹالین کہاں سے سیکھی تو اسکا جواب تھا کہ ٹی وی سے۔

چونکہ بچہ اپاہج ہونے کی وجہ سے سوائے ٹی وی دیکھنے کے کچھ بھی نہ کرسکتا تھا لہذا سیکھ گیا۔ دو سال کے بعد اسلام آباد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کا لاونج میں انکل رزاق سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ننھا عمران تو اللہ کو پیارا ہوچکا ہے۔

اور تو اور آج شام کو غیرملکیوں کے ایک لینگوئج اسکول میں کلاس کے دوران ان کو بھی یہ نصیحت کر کے آچکا ہوں کہ زبان سیکھنی ہے تو مقامی ٹی وی دیکھو اور ڈش وغیرہ چھوڑ دو-
میں نے خود اپنے گھر میں ڈش نہیں لگوائی کہ مقامی ٹی وی دیکھنا فائیدہ مندہ ہے۔ اور ایک فلم تو ہے ہی صرف کمیونیکیشن۔ اب کیا یہ اور بات ہے مگر ہے۔
 

دوست

محفلین
ایک لمبی بحث کہ اردو ہندوستان میں زیادہ ترقی پذیر ہے یا پاکستان میں ۔ ایک لاحاصل بحث جس کا میرے خیال میں کوئی اختتام نہیں اور کوئی نتیجہ بھی نہیں کئی اعتراضات ہیں اور اسکے کئی جواب۔ دلائل ہیں بات سیاسی رنگ میں بھی جاسکتی ہے کیونکہ اردو کے سلسلے میں ہماری یادیں بہت تلخ ہیں تاریخ آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی جب اردو کا رسم الخط بدل کر اس کا نام ہندی رکھا گیا ٩٠ سے ٩٥ فیصد اردو اور باقی مردہ ذبان سنسکرت ۔ یہ کوشش انگریز سرکار نے کی مقصد صرف نفرتیں پیدا کرناتھا۔ بلا شبہ اردو سے محبت کرنے والے اس وقت بھی تھےاور اب بھی ہیں مسلم بھی اور غیر مسلم بھی ۔ اس بحث میں پڑنے کی بجائے ہمیں اب اسکو آگے لے جانا سائینس اور فنی معلومات اور علوم اس میں منتقل کرنا ہیں ۔ ہندوستان میں اگرچہ اردو سمجھنے والے موجود ہیں مگر ترجیح انگریزی ہے ادھر بھی ایسے ہی ہے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنکے خیال میں اردو صرف شاعری کی زبان ہے جس میں محبوب کے عارض و رخسار کو بیان کرنے کے لیے تو سینکڑوں تراکیب ہیں مگر سائنس کے لیے نہیں ۔ اس سوچ کو بدلنا ہے باقی ہندی اردو کی بحث کچھ نہیں سچ پوچھیں تو ہندی اردو ہی ہے اگر آپ دیو ناگری لپی میں لکھے غالب کے نام کو گالب پڑہتے ہیں شاعر کی جگہ کوی لکھتے ہیں تو اس سے مفہوم تو نہیں بدل جاتا رسم الخط بدلنے سے زبانیں نہیں بدل جایا کرتیں نیز زبان کی ترقی کا عمل جاری رہتا ہے اس میں دوسری زبانوں کے حروف شامل ہوتے رہتے ہیں ہمارے پاکستانی شعراء جن میں قتیل شفائی قابلِ ذکر ہیں نے بے تکلفی سے اپنی شاعری میں سنسکرت یا موجودہ ہندی کے الفاظ استعمال کیے ہیں تو کیا یہ اردو نہ رہی یا اگر اردواب انٹرنیٹ پر انگریزی رسم الخط میں لکھی جارہی ہے تواردو نہیں رہی ۔
بات صرف دل کو مطمئن کرنے کی ہے اور کچھ نہیں ۔ اردو کو کسی بھی طرح لکھا جائے رہے گی اردو ہی۔ ہمیں عہد یہ کرنا ہے کہ اردو کے رسم الخط کو ترویج دینی ہے کیونکہ اردو کے لیے یہ رسم الخط ہی بہترین ہے کیونکہ یہ اسکے ساتھ وجود میں آیا بلکہ اردو سے پہلے اسے بنایا گیا اور بعد میں اردو بنی ۔ دوسرے طریقوں سے لکھنے سے تلفظ بدل جائے گا اور پھر جو کہ مناسب نہیں ۔
 
اردو کا ہر چاہنے والا

اردو کا ہر چاہنے والا اردو کی موجودہ صورتحال اور اس کے مستقبل کے بارے میں فکرمند رہتا ہے اس لیے میں اس بحث کو لایعنی ہر گز نہیں سمجھتا۔

ہم تو جس نئی نسل کو دیکھ رہے ہیں وہ اردو سے زیادہ سے زیادہ احتراظ کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے۔ اس میں کچھ تو حالات کی ستم ظریفی ہے کہ انگریزی کو language of success سمجھ لیا گیا ہے سو اب والدین بھی بچے سے کہتے ہیں دیکھو وہ مون ہے اور وہ سٹار!

اسی طرح نئی نسل منہ ٹھیڑھا کر کر کے انگریزی بولنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ ان سے اگر آپ اردوئے مبین میں بات کر جائیں تو منہ دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کے سامنے اچھی اردو بولنے والا خود بے وقوف بن جاتا ہے۔

بیچارے اردو کے چاہنے والوں کے لیے ایک نئی اصطلاح "اردو میڈیم" بھی مقبول کردی گئی ہے۔ اس سے ان کو دقیانوسی ثابت کیا جاتا ہے۔

مثلاً بہت سے لوگوں کو جب میں روزنامہ بوریت سے متعارف کرواتا ہوں تو ان کا منہ بن جاتا ہے کہ "اردو ویب سائٹ!!!"

یہ تو میرے اطراف میں صورتحال ہے دوسری جگہوں پر معاملہ بہتر ہوسکتا ہے۔

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ قومیں اپنی زبان نظر انداز کرکے کبھی ترقی نہیں کرسکتیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ آپ دوسری زبان میں پڑھ اور لکھ تو سکتے ہیں، مگر سوچ نہیں سکتے۔ اس نکتے پر میں جیس سے رائے دینے کی درخواست کروں گا۔
 
اردو کا ہر چاہنے والا

شارق مستقیم نے کہا:
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ قومیں اپنی زبان نظر انداز کرکے کبھی ترقی نہیں کرسکتیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ آپ دوسری زبان میں پڑھ اور لکھ تو سکتے ہیں، مگر سوچ نہیں سکتے۔ اس نکتے پر میں جیس سے رائے دینے کی درخواست کروں گا۔


جناب کیا پتے کی بات آپ نے کی گویا میرے منہ کی بات چھین لی ہے۔ کہ کوئی قوم دوسری زبان میں ترقی نہیں کر سکتی تو یہاں یورپ میں انہوں نے اپنے امیگریشن قوانین سے لے کر کرنسی تک ایک کرلی ہے زبان ایک نہیں کر سکے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے ماہانہ رسالہ “اسپرانتو“ میں بہت سال پہلے تب میں پاکستان ہوا کرتا تھا پڑھا تھا کہ:
“ یورپین پارلیمینٹ میں یورپ کی مشترکہ اور رابطہ کی زبان انگریزی کرنے کا بل پیش ہوا تو جرمنی کے وزیرِخارجہ نے نقطہّ اعتراض پر کہا تھا کہ کیا آپ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ پورے یورپ میں صرف انگریز ہی درست بول سکیں اور وہ یونین کا اقتدار سنبھال لیں ایسا کبھی نہیں ہوگا“

تاریخ گواہ ہے کہ اہل اسلام نے اپنے علمی عروج کے زمانہ میں یونانی نہیں سیکھی بلکہ یونانی علوم کو عربی میں منتقل کیا، پھر جب اہلیانِ یورپ نے ترقی کی تو انہوں نے بھی عربی کی علوم کا گڑھ تھی نہیں سیکھی مگر القانون کو اپنی زبانوں میں سترویں صدی تک پڑھایا۔

تو کسی بھی غیر ملکی زبان سیکھنے کا مطلب قربانی دینا ہے اپنے معاشرے کی اور ثقافت کی۔ انگریزی سیکھنا کبھی معیوب نہیں مگر اسکے پیچھے پاگل ہوجانے اور اپنی زبان کو نیچ سمجھنا معیوب ہے
 

نبیل

تکنیکی معاون
ڈاکٹر افتخار راجہ کہتے ہیں۔۔۔۔

تو کسی بھی غیر ملکی زبان سیکھنے کا مطلب قربانی دینا ہے اپنے معاشرے کی اور ثقافت کی۔ انگریزی سیکھنا کبھی معیوب نہیں مگر اسکے پیچھے پاگل ہوجانے اور اپنی زبان کو نیچ سمجھنا معیوب ہے

ڈاکٹر صاحب، آپ نے بہت اچھی پوسٹ کی، میں آپ کی مذکورہ بالا بات سے جزوی اختلاف کرنا چاہوں گا۔ میرے خیال میں غیر ملکی زبان سیکھنا معیوب نہیں بلکہ اس کا اپنانا معیوب ہے۔ یہ بات آپ نے انگریزی کی مثال دے کر خود ہی بتا دی ہے۔ آج کل کے دور میں انگریزی سیکھے بغیر جدید علوم پر دسترس حاصل کرنا ناممکن ہے لیکن بحیثیت قوم ترقی کرنے کے لیے اور اپنی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے ہمیں اردو کو ترویج دینا ہوگی۔ آپ کے سامنے ہی ہے کہ جدید علوم اور فنون پر انگریزی میں جو بھی نئی کتاب شائع ہوتی ہے اس کے یورپی زبانوں میں تراجم اس کے کچھ عرصے بعد منظر عام پر آ جاتے ہیں۔ میرا خواب ہے کہ ایسا اردو زبان میں بھی ممکن ہوجائے۔
 
جی میرا بھی یہی مقصد تھا میری ایک کزن پاکستان سے ہسٹو پیتھالوجی میں سپیشلائزیشن کر رہی ہیں تو انہوں نے مجھےپاکستان سے روانگی پر کہا کہ بھائی مجھے سرجیکل پیتھالوجی کی ایک فلاں والی کتاب چاہیے لازماُ انگریزی میں
مگر یہاں احوال یہ ہے کہ اٹالین میں وہ کتاب دستیاب ہے مگر انگریزی والی یو کے سے منگوانی پڑے گی اور ڈاک کا محصول بھی چارج ہوگا۔
یہاں پر انگریزی کتاب نایاب ہے مطلب انگریزی سکھانے والی تو بہت ہیں مگر انگریزی میں علم والی نہیں ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
دو دن سے میں انٹر نیٹ سے منقطع تھا۔ آج کچھ دیر کنکشن نصیب ہوا تو دل چسپ بحث دیکھنے کو ملی۔ مجھ ہندوستانی کے خیالات بھی ملاحظہ ہوں۔
پاکستانی احباب کا خیال درست ہے کہ اردو ہندوستان میں فلموں کی زبان تک محدودہوتی جا رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس سلسلے میں بھی غور کریں کہ صرف گنی چنی فلموں (کمال امروہی کی پاکیزہ، راجندر سنگھ بیدی کی دستک) کو ہی اردو کا سرٹیفکیٹ ملا ہے، یا ان کے فلم سازوں نے لینے کی کوشش کی ہے۔ اور میں تو یہ کہتا ہوں کہ یہاں اردو اب محض مسلمانوں کی ہی نہیں، صرف اسلامی مدرسوں کے طلبا کی زبان بن کر رہگئی ہے۔ کچھ ماہ قبل مشہور صحافی خوشونت سنگھ نے بھی اپنے ہفت روزہ کالم میں یہ گفتگو کی تھی اور لکھا تھا کہ غیر مسلم اردو سے کس طرح دور ہوتے جا رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے بیٹوں کو اردو سکھائی اور وہ اب بھی امریکہ میں شوق سے پڑھتے لکھتے ہیں لیکن ان کے بچے؟؟ جگن ناتھ آزاد، گوپی چند نارنگ اور بھگوان داس اعجاز اور کرشن موہن کی نسل ختم ہوتی جارہی ہے۔ مگر اس سے بڑا المیہ یہ ہے اس وقت یہاں کے مسلم نوجوان بھی (شعیب جیسے معدود ےچند لوگوں کو چھوڑ کے) اکثر اردو سے نا واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ہندی میں قرآن کی تفسیر کا بیڑا اٹھایا ہے کہ سارے شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کی زبان بھی ہندی ہی ہے۔ وہ بلا تکلف بول چال میں پردھان منتری اور مکھیہ منتری کہتا ہے (پچھلے سال لکھنؤ سے ایک صاحب ہمارے یہاں مہمان ہوئے اور مجھ سے انتر دیشیہ کی فرمائش کی اور خود مجحے غور کرنا پڑا کہ موصوف کو ان لینڈ لیٹر درکار ہے۔) خود میرے دونوں بچے فصیح اردو سے نابلد ہیں، عربی علم کی وجہ سے پڑھ تو لیتے ہیں مگر پوری طرح سمجھ نہیں پاتے، بیٹے کامران نے تو پھر تفیہم القرآن جیسی کتاب پڑھ لی مگر بیٹی تو ہماری ایسی انگریز نکلی ہےکہ لاکھ شفیع الدین نیر کی کہانیوں کی کتابیں پڑھانے کی کوشش کروں، انھیں اینڈ بلائٹن ہی پسند رہیں اور فیمس ٖفائو کی پوری کتاب ۲۰ منٹ میں ختم کر دیتی تھیں۔ تو میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہاں اردو صرف ہم بزرگ مسلمانوں کی زبان ہے (یا بزرگ پنجابیوں اور یو پی کے کایستھوں کی) یا مدرسوں کے طلباء کی۔ حکومت کی طرف سے ضرور تعاون مل رہا ہے اور اس پر بھی غور کریں کہ اردو اکادمیوں اور اس قسم کی سرکاری تمظیموں میں بھی اگر اردو داں سول سروس کے سینیر غیر مسلم افسران موجود ہوں گے تو وہی ان سرکاری پرچوں کے مدیر بھی ہوں گے۔ اور اردو کی تکنیکی ترقی میں بھی یا تو غیر مسلم نوجوان سامنے آ رہے ہیں یا ہم جیسے بزرگ۔ شعیب نے بھی ان پیج کے (شرما) اور صفحہ ساز کے (راجئو ) غیر مسلموں کا ذکر کیا ہے۔ یہی حال سرکاری سی ڈیک کا بھی ہے، اس میں بھی سارے غیر مسلم ہی ہیں جنھوں نے ان پیج کی ٹکر کا ناشر پیش کیا ہے۔ (اور ناشر لائٹ فری وئر ہے، چوری کا ان پیج استعمال کرنے والے اسے استعمال کریں)
اب اردو لینکس کی بات ہی لیں، اس میں میرے علاوہ صرف نجم النسا مسلم ہیں، اور روی کانت دوسرے ایسے ہیں جو اردو کی شد بد رکھتے ہیں۔ گورا موہنتی اور اندرا نل داس گپتا سی ایم نعیم کی کتابوں سے اردو سیکھ رہے ہیں کہ لینکس کو اردو میں مقامیا سکیں۔ خود ہمارے ممبران کہہ تو رہےہیں کہ ٹیم بنا کر کام کریں مگر نہ جانے کیا بات انھیں اس موجودہ ٹیم سے جڑنے سے روکتی ہے!!)
رہا سوال بول چال کی زبان کا تو ظاہر ہے کہ شمالی ہند کا ہندو بھی آکاش وانی کی ہندی نہیں بولتا مگر کہتا ہےکہ بول چال میں اردو نہیں، بلکہ اردو مکس ہندی بولتا ہے۔ فرق صرف یہی ہے کہ مسلمان جب ہندی بولے گا تو لفظ فرق بو لے گا اور غیر مسلم اس شبد کو انتر بولے گا۔ اور اب تو جاہل مسلمان اپنی مادری زبان بھی ہندی ہی کہتا ہے اور ایسے خاندانوں کے پڑھے لکھے بچے بھی۔
 
Top