کاشفی

محفلین
غزل
(سید محمد میر سوز دہلوی)
ہزاروں مار ڈالے اور ہزاروں کو جلایا ہے
تری ان انکھڑیوں کو کس نے یہ جادو سکھایا ہے

مروں میں کس طرح مرنا کوئی مجھ کو سکھا دیوے
اجل شرما کے ٹل جاتی ہے جب سے وہ سمایا ہے

کوئی اب غم نہ کھاؤ خلق میں بےغم رہو یارو
کہ میں نے آپ اس سارے جہاں کے غم کو کھایا ہے

مجھے کیا عشق سے نسبت کہاں میں اور کہاں دلبر
ان آنکھوں نے لگایا ہے مجھے دل نے بجھایا ہے

سب اپنا جان تو اے غم دل و جاں، دین اور ایماں
ولے دل سے پرے رہنا دوانے یہ پرایا ہے

دل گم گشتہ میرا ہو نہ ہو تیرے کنے ہوگا
بھلا اے چور تونے ہی لیا میں نے یہ پایا ہے

بہار آئی بہار آئی یہی اک آن کی خاطر
عبث ان عندلیبوں نے چمن میں غل مچایا ہے

کس کچے سے تو کہہ ناصحا جو عشق سے بھاگے
کہیں جا بھی پرے، بک بک کلیجہ کیوں پکایا ہے

جو تیرے دام میں زلفوں کے تھے سو تو نکل بھاگے
کہیں یہ سوز بن داموں ترے ہاتھوں بکایا ہے
 
Top