ہجر تو روح کا موسم ہے - بانی

الف عین

لائبریرین
تمام راستہ پھولوں بھرا ہے میرے لیے
کہیں تو کوئی دعا مانگتا ہے میرے لیے
تمام شہر ہے دشمن تو کیا ہے میرے لیے
میں جانتا ہوں ترا در کھلا ہے میرے لیے
مجھے بچھڑبے کا غم تو رہے گا ہم سفرو
مگر سفر کا تقاضا جُدا ہے میرے لیے
وہ ایک عکس کہ پل بھر نظر میں ٹھہرا تھا
تمام عمر کا اب ایک سلسلہ ہے میرے لیے
عجیب در گزری کا شکار ہوں اب تک
کوئی کرم ہے نہ کوئی سزا ہے میرے لیے
گزر سکوں گا نہ اس خواب خواب بستی سے
یہاں کی مٹی بھی زنجیر پا ہے میرے لیے
اب آپ جاؤں تو جا کر اسے سمیتوں میں
تمام سلسلہ بکھرا پڑا ہے میرے لیے
یہ حسنِ ختمِ سفر۔۔ یہ طلسم خانۂ رنگ
کہ آنکھ جھپکوں تو منظر نیا ہے میرے لیے

یہ کیسے کوہ کے اندر میں دفن تھا بانیٓ
وہ ابر بن کے برستا رہا ہے میرے لیے
 

الف عین

لائبریرین
اِدھر کی آئے گی اک رو، اُدھر کی آئے گی
کہ میرے ساتھ تو مٹّی سفر کی آئے گی
ڈھلے گی شام جہاں۔۔۔ کچھ نظر نہ آئے گا
پھر اُس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی
نہ کوئی جا کے اسے دکھ مرے سنائے گا
نہ کام دوستی اب شہر بھر کی آئے گی
ابھی بلند رکھو یارو آخری مشعل
اِدھر تو پہلی کرن کیا سحر کی آئے گی

کچھ اور موڑ گزرنے کی دیر ہے بانیٓ
صدا، نہ گرد کسی ہم سفر کی آئے گی
 

الف عین

لائبریرین
رنگ لپک سے عاری۔۔۔ جسم، ادا سے خالی
یہ کیسی بستی ہے، عکسِ ہوا سے خالی
ہم سے پہلے شاید کوئی آیا نہ گیا
اک اک راہ پڑی ہے نقشِ پا سے خالی
یوں نکلا ہوں گھر سے، گھر کے ہر منظر سے
کچھ ٹوٹے اوپر سے، ہونٹ دعا سے خالی
پچھلے پہر نے بڑھ کر میری چیخ سمیٹی
کاسۂ شب تھا شاید ایک صدا سے خالی

اب کے چلی وہ آندھی، لمحۂ روشن غائب
دن سنگھرش سے عاری،،، رات۔۔ خدا سے خالی
 

الف عین

لائبریرین
رنگ لپک سے عاری۔۔۔ جسم، ادا سے خالی
یہ کیسی بستی ہے، عکسِ ہوا سے خالی
ہم سے پہلے شاید کوئی آیا نہ گیا
اک اک راہ پڑی ہے نقشِ پا سے خالی
یوں نکلا ہوں گھر سے، گھر کے ہر منظر سے
کچھ ٹوٹے اوپر سے، ہونٹ دعا سے خالی
پچھلے پہر نے بڑھ کر میری چیخ سمیٹی
کاسۂ شب تھا شاید ایک صدا سے خالی

اب کے چلی وہ آندھی، لمحۂ روشن غائب
دن سنگھرش سے عاری،،، رات۔۔ خدا سے خالی
 

الف عین

لائبریرین
وہ مناظر ہیں یہاں، جن میں کوئی رنگ نہ بو۔۔۔۔ بھاگ چلو
جاتے موسم کی فجا ہے، کہیں مانگے نہ لہو۔۔۔۔ بھاگ چلو
کوئی آواز پسِ در ہے، نہ آۃت سرِ کُو۔۔۔۔ بھاگ چلو
بے صدائی کا وہ عالم ہے کہ جم جائے لہو۔۔۔۔ بھاگ چلو
یہ وہ بستی ہے جہاں شام سے سو جاتے ہیں سب اہلِ وفا
شب کا سنّاٹا دکھائے گا عجب عالمِ ہو۔۔۔۔ بھاگ چلو
کیا عجب منظرِ بے چہرگی ہع سمت نظر آتا ہے
ہر کوئی اور کوئی اور ہے، نہ یہاں میں ہے نہ توٗ۔۔۔۔ بھاگ چلو
پھر کسی حرفِ تمنٓا کو اُڑا دے گا دھوئیں کے مانند
وقت بیٹھا ہے یہاں بن کے کوئی شعبدہ جو۔۔۔۔ بھاگ چلو
دوستو شکر کرو چاکِ جگر تک نہیں بات آئی ابھی
یہ گریبان تو ہو جائے گا سَو بار رفُو۔۔۔۔ بھاگ چلو

کسی تصویر کے پیچھے نہیں یاں کوئی تصوّر بانی
ایک اک چیز ہے بیگانۂ ادراکِ نمو۔۔۔۔ بھاگ چلو
 

الف عین

لائبریرین
جادو گری اس پر کسی صورت نہ چلے گی
اے عشق، تری سعیِ متانت نہ چلے گی
مجھ سا ترا دشمن بھی یہاں کون ہے، کچھ سوچ
دو روز بھی اپنی یہ عداوت نہ چلے گی
خوابیدہ سے لہجے میں سنا لے ابھی قصّے
وہ درد اٹھے گا کہ نزاکت نہ چلے گی
تو اپنے غمِ ذات کو کیسے ہی بیاں کر
اَوروٕ کی تراشیدہ عبارت نہ چلے گی
جھلسی ہوئی اک راہ پہ آنے کی ہے بس دیر
پھر ساتھ ترے گردِ مسافت نہ چلے گی
بستی ہے مری جاں یہ عجب بند گھروں کی
چل دے کہ یہاں رسمِ محبّت نہ چلے گی
میں ترکِ وفا کر لوں، مگر مجھ کو بتا دو
اس حادثے سے کوئی روایت نہ چلے گی
جو آئے ترے دھیان میں دل باختہ کہہ دے
بے ساختہ کہہ دے۔۔۔ کہ حکایت نہ چلے گی

ٹوٹے ہوئے خوابوں کا یہ درماں نہیں بانی
شب بھر ترے پینے کی یہ عادت نہ چلے گی
 

الف عین

لائبریرین
تیرگی بلا کی ہے، میں کوئی صدا لگاؤں
ایک شخص ساتھ تھا، اُس کا کچھ پتا لگاؤں
بہتے جانے کے سوا، بس میں کچھ نہیں تو کیا
دشمنوں کے گھاٹ ہیں، ناؤ کیسے جا لگاؤں
وہ تمام رنگ ہے، اس سے بات کیا کروں
وہ تمام خواب ہے، اُس کو ہاتھ کیا لگاؤں
کچھ نہ بن پڑے تو پھر ایک ایک دوست پر
بات بات شک کروں، تہمتیں جُدا لگاؤں
منظر آس پاس کا دوبتا دکھائی دے
میں کبھی جو دور کی بات کا پتا لگاؤں
ایسی تیری بزم کیا۔۔۔ ایسا نظم و ضبط کیا!
میرے جی میں آئی ہے آج قہقہہ لگاؤں

یہ ہے کیا جگہ میاں، کہہ رہے ہیں سب کہ یاں
کچھ کشاں کشاں رہوں، دل ذرا ذرا لگاؤں
 

الف عین

لائبریرین
گِرد میرے نہ فصیلیں ترے کام آئیں گی
کچھ ہوائیں تو مری سمت مدام آئیں گی
یہ مسافت کہ چلی جائے گی رستہ رستہ
منزلیں یوں تو نئی گام بہ گام آئیں گی
کچھ تو دل آپ ہی بجھتا سا چلا جاتا ہے
اورکیا کیا نہ ہوائیں سرِ شام آئیں گی
اِس اندھیرے میں نہ اک گام بھی رکنا یارو
اب تو اک دوسرے کی آہٹیں کام آئیں گی

بین کرتی ہوئی سمتوں سے نہ ڈرنا بانیؔ
اتنی آوازیں تو اس راہ میں عام آئیں گی
 

نوید صادق

محفلین
اعجاز صاحب!!
آداب!
بانی کا کلام مکمل ای بک کی شکل میں کب تک فائنل کر رہے ہیں۔
اور کیا میں بھی رام ریاض کے کلام کی ٹائپنگ اسی طرح تھریڈ بنا کر شروع کر دون۔
والسلام
 

نبیل

تکنیکی معاون
نوید صادق، ای بک کا مرحلہ پروف ریڈنگ کے بعد آئے گا۔ آپ اگر لائبریری پراجیکٹ میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو بصد شوق۔
 

نوید صادق

محفلین
نبیل بھائی!!
میں اس پروجیکٹ میں حصہ لینا چاہتا ہوں۔
میں ان پیج میں تو کافی ٹائپ کر لیتا ہوں۔ اعجاز ساحب سے کافی دسکس ہوا ہے۔ انہوں نے گائیڈ بھی بہت کیا۔ لیکن بانی کا کلام دیکھ کر خیال آیا کہ مین بھی تھوڑا تھوڑا کر کے اس طرح کچھ شعراء کا کلام ٹائپ کر دوں یہیں محفل میں۔
 

الف عین

لائبریرین
نوید۔ اس ای بک میں میں نے غزلیں ہی شامل کی ہیں بانی کی۔
(اور ایک آپ کی تصحیح۔ آپ کے گروپ میں بانی کی غزلوں کی پہ ڈی ایف فائل میں اس کا نام رامین لکھا ہے۔ اس کا نام راجیندر لال منچندا تھا۔
نوید آپ کلام ٹائپ کرنا تو شروع کر دیں، رکنیت سے پہلے بھی۔ لیکن خیال رہے کہ یا تو اجازت لی جائے مصنف سے، یا پھر میری طرح ترکیب لگائی جائے۔ میں نے منیر نیازی کے تین مجموعوں سے پانچ ای بکس بنا دی ہیں، کچھ کلام چھوڑ کر، کسی میں محض غزلیں، کسی میں محض نظمیں۔ اسی طرح آپ بھی کریں۔
منتظمین سے درخواست ہے کہ نوید صادق کو بھی لائبریری میں شامل کر لیں۔
 
Top