رشید احمد صدیقی گھاگ-رشید احمد صدیقی

مسٹر گرزلی

محفلین
گھاگ

رشید احمد صدیقی


گھاگ ( یا گھاگھ) کی ہیڈت صوتی و تحریر اس کو کسی تعریف کا متحاج نہیں رکھتیں الفاظ کے شکل اور آواز سے کتنے اور کیسے کیسے معنی اخذ کیے گئے ہیں لسانیات کی پوری تاریخ اس پر گواہ ہے کبھی کبھی تلفظ سے بولنے والے کی نسل اور قبیلہ کا پتہ لگا لیتے ہیں ۔ گھاگ کی تعریف منطق یا فلسفہ سے نہیں تجربے سے کی جاتی ہے ایسا تجربہ جسے عقلمند سمجھ لیتا ہے بے وقوف برتنا چاہتا ہے ۔ گھاگیات کا ایک اصل یہ ہے کہ قضیئے میں فریق سے بہتر قاضی بننا ہے جھگڑا میں فریق ہونا خامی کی دلیل ہے ۔ حکم بننا عقلمندوں کا شعار ہے اگر ہر ایجاد کے لئیے ایک ماں کی ضرورت ہے تو ہر ضرورت کے لیے ایک گھاگ لازم آتا ہے ۔گھاگ موجود نہ ہوتا تو دنیا سے ضرورت کا عنصر مفقود ہو جاتا اور طالب محض ہے سارا عالم “ کا فلسفہ انسداد توہین مذاہب کے قانون کی مانند ناقص ہو کر رہ جاتا ۔ گھاگ کا کمال یہ ہے کہ وہ گھاگ نہ سمجھا جائے ۔ اگر کوئی شخص گھاگ ہونے کا اظہار کرے یا بقول شخصے ” مارکھا جائے “ تو وہ گھاگ نہیں گھاگس ہے اور یہ گھاگ کی ادنٰی قسم ہے ان میں امتیاز کرنا دشوار بھی ہے آسان بھی جیسے کسی روشن خیال بیوی کے جذبہ شوہر پرستی یا کسی مولوی کے جذبہ خدا ترسی کا صحیح اندازہ لگانا ۔ گھاگ کی ایک منفرد شخصیت ہوتی ہے وہ نہ کوئی ذات ہے نہ قبیلہ وہ صرف پیدا ہو جاتا ہے لیکن اس کی نسل نہیں چلتی روایت قائم رہتی ہے ہر طبقہ اور جماعت میں کوئی نہ کوئی گھاگ موجود ہوتا ہے معاشرہ ، مذہب ، حکومت ، غرض وہ تمام ادارے جن سے انسان اپنے آپ کو بناتا بگاڑتا یا ڈر تا ڈراتا رہتا ہے کسی نہ کسی گھاگ کی دستبرد میں ہوتا ہے ۔ وہ جذبات سے خالی ہوتا ہے اور اپنے مقصدکے حصول میں نہ جاہل کو جاہل سمجھتا ہے نہ عالم کو عالم دانشمند کے سامنے وہ اپنے کو احمق کے سامنے احمق تر ظاہر کرے گا جب تک وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتا ہے اس کو یہ پروا نہیں ہوتی کہ دنیا اس کو کیا کہے گی ۔ وہ کامیابی ہی کو مقصد جانتا ہے وسیلے کو اہمیت نہیں دیتا گھاگ کا سوسائٹی کے جس طبقے سے تعلق ہوتا ہے اسی اعتبار سے اس کی گھاگیت کا درجہ متعین ہوتا ہے نچلے طبقے کا متوسط طبقے کا اعلی طبقے کے گھاگ پرفوقیت رکھتا ہے اس لیے کہ موخرالذکر کو اول الذکر سے کہیں زیادہ سہولتیں میسر ہوتی ہیں یہاں تک کہ وہ گھاگ نہ بھی ہوں جب بھی اپنی دولت اور اثر سے کام نکال سکتے ہیں ۔ ان سے کم درجہ والے کو اپنی گھاگیت کے سوا کچھ اور میسر نہیں ہوتا۔ مثلاً گھاگ ہونے کے اعتبار سے ایک پٹواری کا درجہ کسی سفیر سے کم نہیں ۔ بشرطیکہ سفیر خود کبھی پٹواری نہ رہ چکا ہو ۔ سیاسی گھاگ کو قوم اور حکومت کے درمیان وہی حیثیت حاصل ہوتی ہے وجہ قمار خانے کے منیجر کو قمار بازوں میں ہوتی ہے ۔ یعنی ہار جیت کسی کی نفع اس کا وہ صدارت کی کرسی پر سب سے زیادہ ہار پہن کر تالیوں اور نعروں کی گونج میں بیٹھتا ہے ۔ اور تحریر و تقریر میں پریس اور حکومت کے نمائندوں کو پیش نظر رکھتا ہے ۔ کہیں گولی چلنے والی ہو یا دار و رسن کا سامنا ہو تو وہ اپنے ڈرائنگ روم یا کوہستانی قیام گاہ کو بہتر و محفوظ تر جگہ سمجھتا ہے اس کے نزدیک قوم کی حیثیت نعش کی ہے ۔ اس پر مزار تعمیر کرکے نذرانے اور چڑھاوے وصول کیے جا سکتے ہیں ۔ لیکن پیش قدمی کی ضرورت ہو تو ان سے پاٹ کی راستے ہموار کیے جا سکتے ہیں اپنے اغراض کے پیش نظر وہ نوحہ غم اور نغمہ شادی میں کوئی فرق نہیں کرتا ۔ وہ حکومت سے خفیہ طور پر اور حکومت اس سے علانیہ ڈرتی ہے ۔ گھاگ صرف اپنا دوست ہوتا ہے کسی اور کی دوستی پر اعتبار نہیں رکھتا ۔ موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے موقع کو اپنے سے فائدہ نہیں اٹھانے دیتا ۔ وہ انتہا پسند نہیں ہوتا صرف انتہا پسندوں سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔اس کی مثال ایک ایسی عدالتی مسل سے دی جا سکتی ہے جس کی رو سے متضاد فیصلے آسانی سے دیئے جا سکتے ہیں اور وہ فیصلے آسانی سے بحال بھی رکھے جا سکتے ہیں اورتوڑے بھی جا سکتے ہیں ۔ سیاسی گھاگ فیکٹری کے بڑے پہیے کی مانند ہوتا ہے بظاہر یہ معلوم ہوگا کہ صرف ایک بڑا پہیا گردش کررہا ہے لیکن اس ایک پہیے کے دم سے معلوم نہیں کتنے اور کل پرزے گردش کرتے ہوتے ہیں ۔ کہیں بھاری مشین تیار ہوتی ہے کہیں نازک ہلکے ہلکے طرح طرح کے آلات ۔ کہیں زہر کہیں تریاق کہیں برہنہ رکھنے کے لیے کپڑے تیار ہوتے ہوں گے کہیں بھوکارکھنے کے لیے خرمن جمع کیا جا رہا ہو گا ۔ کہیں حفاظت کا کام در پیش ہوگا کہیں ہلاکت کے سامان فراہم کیے جا رہے ہوں گے گھاگ بولنے کے موقع پر سوچتا ہے اور چھینکنے کو صرف ایک جمائی پر ختم کر دیتا ہے وہ ضابطہ فوجداری اور کتاب الہی دونوں کی طاقت اورکمزوری سے واقف ہوتا ہے ۔ آرام کمرے میں بیٹھ کر جیلخانہ پر عذاب جھیلنے والوں سے ہمدردی کرے گا کبھی کبھی وہ ملک الموت کی زد میں نہ ہو ۔ وہ حکومت کے خطابات نہیں قبول کرتا لیکن خطاب یافتوں کو اپنے اثر میں رکھتا ہے ۔ کونسل اور کمیٹی میں نہیں بولتا لیکن کونسل اور کمیٹی میں بولنے والے اس کی زبان سے بولتے ہیں۔ وہ کبھی بیمار نہیں پڑتا لیکن بیماری اسی طرح مناتا ہے جس طرح دوسرے تعطیل مناتے ہیں اس کا بیمار ہونا درحقیقت اپنی صحت منانا ہوتا ہے ۔ وہ ہر طرح کے جرم کا مرتکب ہوتا ہے لیکن ماخوذ کسی میں نہیں ہوتاہے ۔ جرائم پیشہ ہوتا ہے سز ایافتہ نہیں ہوتا ۔ مذہبی گھاگ کو مذہب سے وہی نسبت ہے جو نسبت ہے جو بعض نوجوانوں کو اپنے والدین سے ہوتی ہے ۔ وہ والدین کو اپنا کمزور اور مضبوط دونوں پہلو سمجھتا ہے ۔ ایک طرف تو وہ ان کو حکام کے آستانوں پر حاضر ہو کر مراد یں مانگنے کا وسیلہ سمجھتا ہے دوسری طرف اگر وہ خود تعلیم یافتہ روشن خیال اور اسی طرح کی بیوی کا شوہر ہے اور والدین ذی حیثیت نہیں ہیں وہ ان کو حکام عالی مقام کے چپڑاسی سے بھی چھپانے کی کوشش کرے گا ۔ ضرورت پڑ جائے گی تو مذہب کا واسطہ دلا کر دوسروں کو ہندوستان سے ہجرت پر آمادہ کرے گا کسی اور موقع پر مذہب ہی کی آڑ پکڑکر دارالحرب میں سود لینے لگے گا ۔ وہ تارک حوالات رہے گا ۔ تارک لذت نہ ہوگا ۔ ایک شخص کا کردار یوں بیان کیا گیا ۔ پیش ملا قاضی پیش قاضی ملا ۔ پیش ہیچ ہر دو ، و پیش ہر دو ہیچ ۔ یعنی وہ ملا کے سامنے قاضی بنا رہتا ہے اور قاضی کے سامنے ملا ۔ دونوں میں سے کسی کا سامنا نہ ہو تو دونوں حیثیتیں اختیار کر لیتا ہے اور دونوں موجود ہوں تو کہیں کا نہیں رہتا ۔ یہ مقولہ گھاگس پر صادق آتا ہے گھاگ ایسا موقع ہی نہیں آنے دیتا کہ ” وہ کہیں کا نہ رہے “ گھاگ کی یہ مستند پہچان ہے۔ دفعتاً حاجی بلغ العلی وارد ہوئے اور آتے ہی بے ربط سوالات اور دوسرے اضطراری یا اختیاری اشغال سے ایک دھوم مچادی ۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے دور ہی سے سلام علیکم کمبل برودش ریش بداما پوچھنے لگے ، نظر کیوں نہیں آتے سگریٹ لاؤ پانی منگاؤ ، آخر دیر کیا ہے ، کھانا کھا چکے ہو ، کچھ معلوم ہوا ، کمیشن والے آج ٹینس کھیلیں گے یا ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب کا بیان لیں گے اچھا کوئی گانا سناؤ ” شہزادہ ہے گلشن ہے سارا لکھنو! ایک کرسی پر جابیٹھے ٹھیک طور سے جگہ نہیں پکڑی تھی کہ کھڑے ہو کر دیوار پر آویزاں تصویر دیکھنے لگے لیکن جیسے تصویر دیکھنا نہیں وقت گزار نا مدنظر ہو ۔ وہاں سے جست کی تو چار پائی پردراز اور کمبل میں ملفوف چند لمحے کے بعد اٹھ بیٹھے جیسے کوئی بھولی بات یاد آگئی ہو پھر یوں لیٹ گئے جیسے اس چیز کو اس کے ساتھ ساری کائنات کو صبر کر بیٹھے ہوں پانی آیا ، فرمایا نہیں دیا سلائی لاؤ ، وہ آئی تو جلانے کے بجائے اس سے خلال کرنے لگے ۔ کچھ کتابیں الٹیں ۔ اخبار کے اوراق کچھ لکھ رہے تھے عرض کیا ” گھاگ“ فرمایا شیطانیت سے باز نہ آؤ گے اب دیکھتا ہوں تو حاجی صاحب صحن کے دروازے سے غائب ہوتے نظر آئے ۔ جیسا کہ بیان کیا جا سکتا ہے ہر جماعت میں گھاگ ہوتے ہیں ۔ یہاں تک کہ فرشتوں میں جب ” مسلسل و مدام “ عبادت ہونے لگی تو مصلحت الہیٰ نے آدم کو پیدا ۔ فرشتوں کا یہ کہنا کہ یہ صفحہ ہستی پر فساد پھیلائیں گے گھاگ کی آمد کا پیش خیمہ تھا ۔ جس طور پر کٹر ملحد اور دہریے کبھی کبھی کٹر موحد اور متقی ہو جاتے ہیں اسی طور پر فرشتوں کے معصوم طبقے میں ابلیس ( گھاگ) پیدا ہوا ۔ گندم چشی پر آدم و حوا سے باز پرس کی گئی ۔ گھاگس تھے گھگھی بندھ گئی ۔ اپنی خطاکا اس طرح اعتراف کیا جیسے اس پر ان کو قدرت حاصل تھی ۔ گھاگ سے جواب طلب کیا گیا تو اس نے جواب دیا ۔ ” مجھے آخر کس نے گمراہ کیا “ یہ سوال ارتکاب جرم سے زیادہ سنگین تھا ۔ گھاگ اور گھاگھس دونوں جلاوطن کئے گئے اور اس جہاں میں پھینک دیئے گئے جہاں نبرد آزمائی کے ہر ایک کو مساوی مواقع ملے جس کی طرف اقبال نے اشارہ کیا ہے ۔ مزی اندر جہان کور ذوقے کہ یزدان داردو شیطان ندارو
 

جیہ

لائبریرین
بہت خوب۔ رشید احمد صدیقی کو اتنا نہیں پڑھا مگر لکھتے لا جواب ہیں
 

مسٹر گرزلی

محفلین
جی واقعی آپ نے صحیح کہا۔پطرس،رشید احمد صدیقی اور کنہیا لال کپور،اردو ادب میں تین دبستان تسلیم کیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔رشید احمد صدیقی کی "گنجہائے گرانمایہ" پڑھنے کے لائق ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ مسٹر گرزلی بہت اچھی تحریر ہے - کرشن چند، رشید احمد صدیقی کے بہنوئی تھے -
 

الف عین

لائبریرین
غلط فرخ۔ سلمی رشید صاحب کی بیٹے تھیں اور کرشن کی بیوی۔ اس طرح کرشن رشید صاحب کے داماد تھے!! سلمیٰ صدیقی خود بھی افسانہ نگار تھیں۔
 
Top