انٹرویو گل یاسمیں سے انٹرویو

صابرہ امین

لائبریرین
پیاری گل، استاد محترم کی روزانہ کی روٹین جان کر بے حد لطف آیا تھا۔ اس لیے یہ دل چاہا کہ آپ سے بھی پوچھا جائے کہ آپ اپنا دن کیسے گذارتی ہیں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین

اکمل زیدی

محفلین
جی سیما آپا یہ رہے ہم۔۔۔۔۔ ڈھونڈ رہے ہیں ابھی گُل یاسمیں کو۔۔ خزاں چھائی ہے نا تو تھوڑی مشکل ہو رہی ہے لیکن اللہ پاک کے کرم سے جلدی ٹھیک ہو جائے گا سب۔
انشاء اللہ ۔۔۔وی آل آر ویٹنگ فار دس۔۔۔۔👍
 

اکمل زیدی

محفلین
ان شاء اللہ۔
دعاؤں کی اشد ضرورت ہے ۔ جھولی بھر بھر دیجئیے۔۔۔ کیا معلوم کس کی دعا قبولیت کا شرف پائے۔
بے فکر رہیں ہم سب کو یاد رکھتے ہیں ۔۔۔آپ سے بھی ملتمس ہوں دعاوں کی ہم سب کو ضرورت ہے ۔۔۔خدا آپ کو ہمت اور حوصلہ دے ۔۔الہی آمین۔۔
 
جی سیما آپا یہ رہے ہم۔۔۔۔۔ ڈھونڈ رہے ہیں ابھی گُل یاسمیں کو۔۔ خزاں چھائی ہے نا تو تھوڑی مشکل ہو رہی ہے لیکن اللہ پاک کے کرم سے جلدی ٹھیک ہو جائے گا سب۔
اللہ کرے آپ کی زندگی میں بہت جلدی بہار آجائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں ہماری چہکتی مہکتی گلِ یاسمیں دوبارہ مل جائے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بہت مہینوں بعد اس لڑی میں آنا ہوا۔ سب کی بہت ساری دعاؤں کا شکریہ۔ آپ لوگوں نے بہت ہمت بندھائی اور مشکل وقت میں ساتھ دیا۔ اسی وجہ سے آج ہم واپس اپنے پہلے مزاج میں ہیں۔
جانے والے لوٹ کر تو نہیں آتے لیکن ان کی یاد کو ساتھ لے کر بھی جیا جا سکتا ہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
نہیں سینئیر ایکٹیوٹی سنٹر نہیں۔۔۔ 18 سے لے کر اوپر تک ہر عمر کے لوگ ہوتے ہیں۔ جو زیادہ تر اکیلے ہوتے ہیں اور کسی قسم کے کام میں یا صرف وقت گزارنے کی حد تک آتے ہیں۔
ایکٹیوٹیز مختلف قسم کی ہیں سٹچنگ، ہینڈ نٹنگ، مشین نٹنگ، بیڈ ورک، پیچ ورک، پینٹنگ، ٹیکسٹیل پینٹنگ، ککنگ۔ کمپیوٹر، میوزک، ڈانس ایکسر سائز اور decoupage وغیرہ ہیں۔
ایک گروپ میں زیادہ سے زیادہ 8 لوگ شامل ہو سکتے ہیں۔ ایک بندے کی نگرانی میں جس کا کام انھیں سکھانا ہوتا ہے یا اس سلسلہ میں مدد کرنی ہوتی ہے، اور یہی رول ہم سرانجام دیتے ہیں۔
ہفتے میں دو یا تین کلاسز ہوتی ہیں ہماری۔ جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں یہ زیادہ تر خواتین ہیں کیونکہ جو جینٹس ہیں وہ زیادہ تر کمپیوٹر اور گارڈننگ وغیرہ میں دلچسپی لیتے ہیں۔
ہماری دلچسپی کیسے ہوئی۔۔۔ اس بارے تھوڑا بتاتے چلیں تو شاید آپ ہمارے اس جنون کو سمجھ جائیں۔
امی ابو کی وفات کے بعد ہمیں شدید ڈپریشن ہوا۔ ابو جان کی وفات پہلے ہوئی اور اتفاق ایسا ہوا کہ اس وقت وہ پاکستان تھے کچھ زمین کے معاملات نمٹانے کے لئے جو دادا جان کی وفات کے بعد ان پر آ پڑے تھے۔ ہم نہیں جا پائے۔ یا شاید یہاں بھی "لاڈ پیار" ہی آڑے آیا کہ کیسے برداشت کرے گی گُل۔ اس سے پہلے دادا جان کی بھی ڈیتھ ہوئی، جس وقت شدید بیمار تھے تو پوچھا گیا ان سے کہ گُل کو بلا دیں۔۔۔ بنا ملے چلے گئے، اپنی طرف سے سب ہمارے لئے اچھا کر رہے تھے کہ ہمارے نازک دل پہ کوئی ٹیس نہ لگے، مگر ہر بار ایک کسک سی دل میں رہ جاتی، پھر یوں ہوا کہ ہم امی جان کے ساتھ پاکستان گئے تھے۔ امی جان کو ابھی رہنا تھا وہاں جبکہ ہمیں آنا تھا واپس۔ تو ہم نے کہا کہ چار ماہ بعد آ کر آپ کو واپس لے جائیں گے۔ بیمار تو تھیں نہیں امی جان۔ چاتھا مہینہ ختم ہونے کا آخری دن تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور کزن نے بتایا کہ تائی اماں نہیں رہیں۔
بھائیوں کو اور ہمیں جیسے جیسے فلائیٹ ملی، پہنچے ۔ وہ دن ہمارے "جھلے" اور "لاپرواہ" دکھنے کا آخری دن تھا۔ جس وقت جنازہ اٹھایا جانا تھا۔۔۔ تو سب سے بڑے بھائی ہمارے پاس کھڑے تھے، اور جیسے بالکل ٹوٹے ہوئے۔۔۔نجانے کیسا وقت اور کیسا احساس تھا کہ ہم نے ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ دیا اور کہا "امی جان کو جانے دیں ، ابو جی انتظار میں ہوں گے۔"
پھر تو رونا جیسے ہم نے اپنے اوپر حرام کر لیا کہ بھائی لوگ نہ پریشان ہوں ۔ جو لاڈ پیار ہم ان سے لیتے آئے تھے، وہ لوٹانے کا وقت آ گیا تھا۔ بہت حساس طبیعت پائی ہے ہم نے مگر جو بھی آنسو ہوتے آنکھوں سے نہ ٹپکنے دئیے۔۔۔ بس دل میں گرتے رہے۔اور ایک دن پیمانہ لبریز ہو گیا برداشت کا، چیخنا اور دیواروں سے سر ٹکرانا ۔ واپس آنے کے بعد ظاہر ہے کہ امی جان نظر نہ آتی تھیں۔ بند کمرہ ، پردے گرائے بس یونہی وقت گزرتا، ہسپتال ایڈمٹ کئی کئی ہفتے، اینٹی ڈیپریشن صحت بگاڑنے لگے۔ اس دوران جو سب سے برا تجربہ ہمیں ہوا وہ خود کو زمین اور آسمان کے بیچ معلق محسوس کرنا تھا۔ اس میں چار سے پانچ دن گزرجاتے اور ہمیں سمجھ نہ آتی تھی کہ ہم زمین پر ہیں یا زمین اور آسمان کے بیچ لٹکے ہوئے ہیں۔ اور پھر یہ کیفیت ختم ہو جاتی آہستہ آہستہ۔ خوفناک سی تھی ۔۔ جب بندہ خود کو کہیں موجود ہی نہ پا رہا ہو۔
ہسپتال میں ہی کئی مریض ایسے نظر آئے کہ اپنی بازوکی نسیں کاٹی ہوئی ہیں۔ زندگی سے مایوس لوگ۔ دردناک حالت میں دیکھے لوگ۔خود کو ایسی جگہ ہاسپٹل میں دیکھ کر سوچا کہ گُل کیوں ہے یہاں؟ اللہ پاک نے بہت کرم کیا اور ہمارے دل میں سورت رحمٰن معہ ترجمہ سننے کی خواہش ہوئی۔ اور ہم اس حقیقت کو پا گئے کہ "تو تم اللہ کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے" پھر ہر کام ہر بات میں بس یہی ورد جاری رکھا اور پر توجہ مرکوز رکھی۔ ایک ہفتہ ہی گزرا ہو گا کہ واضح تبدیلی صحت میں ہوئی۔ اور ہم نے ایکٹیویٹی سینٹر میں جانا شروع کیا ۔ تا کہ دیکھ سکیں کیا کچھ ہے وہاں۔
شاید دو تین مہینے ہی گزرے، تب ہم نے پہلی بار پیچ ورک شروع کیا تھا۔ اور اندازہ ہوا تھا کہ ڈپریشن میں بہت مدد گار ہے۔ سوچوں کو ایک جگہ مرکوز کرنے میں بہت مدد دیتا ہے۔
ہمارے مشاغل تو آپ دیکھتے ہی رہتے ہیں کسی نہ کسی لڑی میں۔ تو وہاں بھی یہ حال تھا۔ کہ سب کو دیکھنا ہوتا تھا ہم نے نیا کیا بنایا ہے۔ ہمیں اچھا محسوس ہونے لگا اور پھر وہاں جو ہماری ٹیچر تھی ، اس نے پوچھا کہ میری مدد گار بن سکتی ہو؟ ہم نے ہاں کر دی۔ دو مہینے اس کے ساتھ ہی کلاس لی۔ پھر ہمارا الگ گروپ بنا دیا گیا۔ گروپ میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ 25 سے لے کر 87 سال تک کی خواتین ہیں۔ کچھ تو معذور ہیں اور اپنی زندگی کے آخری دن یوں کسی طرف دھیان لگا کر گزار رہی ہیں۔ کچھ ویسے بیمار ہیں تو کبھی صرف دیکھنے کے لئے بیٹھی رہتی ہیں۔ دو کو کینسر ہے ۔۔ ایک کی تو ڈیتھ ہو گئی۔ جو تین چار گھنٹے ان کے ساتھ گزرتے ہیں، یہی کوشش ہوتی ہے کہ ان کو چھوٹی چھوٹی خوشیاں دے سکیں۔ کسی کو اچھے سامع کی ضرورت ہوتی ہے، کسی کو ویسے کسی کی توجہ چاہئیے ہوتی ہے۔ بس اپنائیت دینا بہت حوصلے کا کام ہوتا ہے جب کہ انسان خود بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو۔ اسی دوران بھائی کی بھی وفات ہو گئی۔ اچانک ہی معلوم ہوا کہ انھیں کینسر ہے۔اٹلی میں تھے اس وقت جب معلوم ہوا مگر پھر بھابی کی خواہش پہ پاکستان چلے گئے اور تین ہفتوں میں وفات پا گئے۔ آخری دن انھیں ڈاکٹر نے بتا دیا تھا کہ بس آج کا دن ہے جس سے بات کرنا چاہتے ہو کر لو۔ ہمیں کال کی انھوں نے۔ اور بہت حوصلے سے بات کرتے رہے خوش خوش۔ اور ہمیں تسلی دیتے رہے کہ میں علاج کروا رہا ہوں اور بالکل ٹھیک ہوں اب۔ ہم بھی یقین کر بیٹھے کہ اب اتنے اچھے سے بات کر رہے ہیں تو ٹھیک ہی ہیں۔ چند گھنٹے ہی گزرے کہ وہ خبر آئی جس کا سوچا بھی نہ تھا۔ ابھی بھی ان کا وہ خوشگوار سا لہجہ کانوں میں گونجتا ہے اور ہم یہی سوچتے ہیں کہ معلوم ہو جانے کے بعد اتنا مطمئن کیسے رہ سکتا ہے انسان۔ بہت زندہ دل تھے، ہر وقت ہمیں ستاتے رہنا۔ اور دوسرے بھائیوں سے ڈانٹ کھانا۔
بتانے کا مقصد یہ کہ جو ہم اپنوں کے لئے نہیں کر پائے ان کی خدمت کی صورت۔۔۔ تو اب ان خواتین کے لئے اپنی خدمات پیش کر دی ہیں۔ اور سو فیصد اللہ پاک کی خوشنودی کے لئے ہے ۔ رضاکارانہ طور پر ہے۔ اس کے بدلے ہمارا صلہ اللہ پاک کے پاس محفوظ ہو رہا ہے اور وہی ہمارا آخرت سنوارنے کا ذریعہ ہے۔ باقی نماز روزہ تو فرضی عبادات ہیں وہ تو کرنی ہی کرنی ہیں حسبِ ہدایت۔ چند گھڑیوں کی خوشی دے کر اپنا دل بھی خوش ہو جاتا ہے۔ اللہ پاک توفیق دئیے رکھے اور ہمت بھی۔۔۔ آمین۔
اس ایکٹیویٹی سینٹر میں کرسمس سےتین مہینے پہلے کچھ مختلف کرافٹس بنانا شروع کرتے ہیں۔ جو دسبر میں فروخت کئے جاتے ہیں اور وہ رقم انھی پر کسی پارٹی یا کسی اور تفریح پر استعمال کی جاتی ہے۔ ایک دنیا بسی ہوئی ہے یہاں بھی۔۔۔ کئی بار جاؤ صبح تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک نہیں رہا۔۔۔ ایسے ہی محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی اپنا چلا گیا۔ بہت لگاؤ ہو گیا ہے۔ لگتا ہے کہ بس اب زندگی کا یہی ایک مقصد ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ پاک کی محبت اور ہر نعمت کو محسوس نہ کر پاتے تو شاید نیک راہ نہ پاتے جو فلاح کی طرف لے جانے کا سبب بنی۔
پاگل ہو جاتے ورنہ

تن من میرا پرزے پرزے جیویں درزی دیاں لیراں ھُو
ایناں لیراں دی یارو گل کفنی پا کے رل ساں سنگ فقیراں ھُو

اور اب محفل ہے ساتھ میں تو یہاں ہنس بول کر کافی انرجی مل جاتی ہے ۔
بہت خوب ماشاء اللہ متاثر کن
 
Top