انٹرویو گل یاسمیں سے انٹرویو

زیک

مسافر
جی بہت اچھا رہا۔
اس میں میٹرک کا سلیبس پڑھا تھا ساتھ میں لینگویج کورس۔
یہاں پڑھائی کا طریقہ بہت مختلف ہے پاکستان سے۔
اس فرق پر کچھ روشنی ڈالیں۔ ڈنمارک کے تعلیمی نظام کی کیا بات سب سے اچھی لگی؟ پاکستان کی تعلیم کی کیا چیز ڈنمارک سے بہتر تھی؟
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ایکٹیوٹی سنٹر کا ذکر آپ کئی بار کر چکی ہیں۔ اس بارے میں اگر کچھ بتانا چاہیں۔ کیا یہ سینیئر ایکٹیوٹی سنٹر ہے؟ کس قسم کی ایکٹیوٹیز ہوتی ہیں؟ آپ کا وہاں کیا رول ہے؟
نہیں سینئیر ایکٹیوٹی سنٹر نہیں۔۔۔ 18 سے لے کر اوپر تک ہر عمر کے لوگ ہوتے ہیں۔ جو زیادہ تر اکیلے ہوتے ہیں اور کسی قسم کے کام میں یا صرف وقت گزارنے کی حد تک آتے ہیں۔
ایکٹیوٹیز مختلف قسم کی ہیں سٹچنگ، ہینڈ نٹنگ، مشین نٹنگ، بیڈ ورک، پیچ ورک، پینٹنگ، ٹیکسٹیل پینٹنگ، ککنگ۔ کمپیوٹر، میوزک، ڈانس ایکسر سائز اور decoupage وغیرہ ہیں۔
ایک گروپ میں زیادہ سے زیادہ 8 لوگ شامل ہو سکتے ہیں۔ ایک بندے کی نگرانی میں جس کا کام انھیں سکھانا ہوتا ہے یا اس سلسلہ میں مدد کرنی ہوتی ہے، اور یہی رول ہم سرانجام دیتے ہیں۔
ہفتے میں دو یا تین کلاسز ہوتی ہیں ہماری۔ جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں یہ زیادہ تر خواتین ہیں کیونکہ جو جینٹس ہیں وہ زیادہ تر کمپیوٹر اور گارڈننگ وغیرہ میں دلچسپی لیتے ہیں۔
ہماری دلچسپی کیسے ہوئی۔۔۔ اس بارے تھوڑا بتاتے چلیں تو شاید آپ ہمارے اس جنون کو سمجھ جائیں۔
امی ابو کی وفات کے بعد ہمیں شدید ڈپریشن ہوا۔ ابو جان کی وفات پہلے ہوئی اور اتفاق ایسا ہوا کہ اس وقت وہ پاکستان تھے کچھ زمین کے معاملات نمٹانے کے لئے جو دادا جان کی وفات کے بعد ان پر آ پڑے تھے۔ ہم نہیں جا پائے۔ یا شاید یہاں بھی "لاڈ پیار" ہی آڑے آیا کہ کیسے برداشت کرے گی گُل۔ اس سے پہلے دادا جان کی بھی ڈیتھ ہوئی، جس وقت شدید بیمار تھے تو پوچھا گیا ان سے کہ گُل کو بلا دیں۔۔۔ بنا ملے چلے گئے، اپنی طرف سے سب ہمارے لئے اچھا کر رہے تھے کہ ہمارے نازک دل پہ کوئی ٹیس نہ لگے، مگر ہر بار ایک کسک سی دل میں رہ جاتی، پھر یوں ہوا کہ ہم امی جان کے ساتھ پاکستان گئے تھے۔ امی جان کو ابھی رہنا تھا وہاں جبکہ ہمیں آنا تھا واپس۔ تو ہم نے کہا کہ چار ماہ بعد آ کر آپ کو واپس لے جائیں گے۔ بیمار تو تھیں نہیں امی جان۔ چاتھا مہینہ ختم ہونے کا آخری دن تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور کزن نے بتایا کہ تائی اماں نہیں رہیں۔
بھائیوں کو اور ہمیں جیسے جیسے فلائیٹ ملی، پہنچے ۔ وہ دن ہمارے "جھلے" اور "لاپرواہ" دکھنے کا آخری دن تھا۔ جس وقت جنازہ اٹھایا جانا تھا۔۔۔ تو سب سے بڑے بھائی ہمارے پاس کھڑے تھے، اور جیسے بالکل ٹوٹے ہوئے۔۔۔نجانے کیسا وقت اور کیسا احساس تھا کہ ہم نے ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ دیا اور کہا "امی جان کو جانے دیں ، ابو جی انتظار میں ہوں گے۔"
پھر تو رونا جیسے ہم نے اپنے اوپر حرام کر لیا کہ بھائی لوگ نہ پریشان ہوں ۔ جو لاڈ پیار ہم ان سے لیتے آئے تھے، وہ لوٹانے کا وقت آ گیا تھا۔ بہت حساس طبیعت پائی ہے ہم نے مگر جو بھی آنسو ہوتے آنکھوں سے نہ ٹپکنے دئیے۔۔۔ بس دل میں گرتے رہے۔اور ایک دن پیمانہ لبریز ہو گیا برداشت کا، چیخنا اور دیواروں سے سر ٹکرانا ۔ واپس آنے کے بعد ظاہر ہے کہ امی جان نظر نہ آتی تھیں۔ بند کمرہ ، پردے گرائے بس یونہی وقت گزرتا، ہسپتال ایڈمٹ کئی کئی ہفتے، اینٹی ڈیپریشن صحت بگاڑنے لگے۔ اس دوران جو سب سے برا تجربہ ہمیں ہوا وہ خود کو زمین اور آسمان کے بیچ معلق محسوس کرنا تھا۔ اس میں چار سے پانچ دن گزرجاتے اور ہمیں سمجھ نہ آتی تھی کہ ہم زمین پر ہیں یا زمین اور آسمان کے بیچ لٹکے ہوئے ہیں۔ اور پھر یہ کیفیت ختم ہو جاتی آہستہ آہستہ۔ خوفناک سی تھی ۔۔ جب بندہ خود کو کہیں موجود ہی نہ پا رہا ہو۔
ہسپتال میں ہی کئی مریض ایسے نظر آئے کہ اپنی بازوکی نسیں کاٹی ہوئی ہیں۔ زندگی سے مایوس لوگ۔ دردناک حالت میں دیکھے لوگ۔خود کو ایسی جگہ ہاسپٹل میں دیکھ کر سوچا کہ گُل کیوں ہے یہاں؟ اللہ پاک نے بہت کرم کیا اور ہمارے دل میں سورت رحمٰن معہ ترجمہ سننے کی خواہش ہوئی۔ اور ہم اس حقیقت کو پا گئے کہ "تو تم اللہ کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے" پھر ہر کام ہر بات میں بس یہی ورد جاری رکھا اور پر توجہ مرکوز رکھی۔ ایک ہفتہ ہی گزرا ہو گا کہ واضح تبدیلی صحت میں ہوئی۔ اور ہم نے ایکٹیویٹی سینٹر میں جانا شروع کیا ۔ تا کہ دیکھ سکیں کیا کچھ ہے وہاں۔
شاید دو تین مہینے ہی گزرے، تب ہم نے پہلی بار پیچ ورک شروع کیا تھا۔ اور اندازہ ہوا تھا کہ ڈپریشن میں بہت مدد گار ہے۔ سوچوں کو ایک جگہ مرکوز کرنے میں بہت مدد دیتا ہے۔
ہمارے مشاغل تو آپ دیکھتے ہی رہتے ہیں کسی نہ کسی لڑی میں۔ تو وہاں بھی یہ حال تھا۔ کہ سب کو دیکھنا ہوتا تھا ہم نے نیا کیا بنایا ہے۔ ہمیں اچھا محسوس ہونے لگا اور پھر وہاں جو ہماری ٹیچر تھی ، اس نے پوچھا کہ میری مدد گار بن سکتی ہو؟ ہم نے ہاں کر دی۔ دو مہینے اس کے ساتھ ہی کلاس لی۔ پھر ہمارا الگ گروپ بنا دیا گیا۔ گروپ میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ 25 سے لے کر 87 سال تک کی خواتین ہیں۔ کچھ تو معذور ہیں اور اپنی زندگی کے آخری دن یوں کسی طرف دھیان لگا کر گزار رہی ہیں۔ کچھ ویسے بیمار ہیں تو کبھی صرف دیکھنے کے لئے بیٹھی رہتی ہیں۔ دو کو کینسر ہے ۔۔ ایک کی تو ڈیتھ ہو گئی۔ جو تین چار گھنٹے ان کے ساتھ گزرتے ہیں، یہی کوشش ہوتی ہے کہ ان کو چھوٹی چھوٹی خوشیاں دے سکیں۔ کسی کو اچھے سامع کی ضرورت ہوتی ہے، کسی کو ویسے کسی کی توجہ چاہئیے ہوتی ہے۔ بس اپنائیت دینا بہت حوصلے کا کام ہوتا ہے جب کہ انسان خود بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو۔ اسی دوران بھائی کی بھی وفات ہو گئی۔ اچانک ہی معلوم ہوا کہ انھیں کینسر ہے۔اٹلی میں تھے اس وقت جب معلوم ہوا مگر پھر بھابی کی خواہش پہ پاکستان چلے گئے اور تین ہفتوں میں وفات پا گئے۔ آخری دن انھیں ڈاکٹر نے بتا دیا تھا کہ بس آج کا دن ہے جس سے بات کرنا چاہتے ہو کر لو۔ ہمیں کال کی انھوں نے۔ اور بہت حوصلے سے بات کرتے رہے خوش خوش۔ اور ہمیں تسلی دیتے رہے کہ میں علاج کروا رہا ہوں اور بالکل ٹھیک ہوں اب۔ ہم بھی یقین کر بیٹھے کہ اب اتنے اچھے سے بات کر رہے ہیں تو ٹھیک ہی ہیں۔ چند گھنٹے ہی گزرے کہ وہ خبر آئی جس کا سوچا بھی نہ تھا۔ ابھی بھی ان کا وہ خوشگوار سا لہجہ کانوں میں گونجتا ہے اور ہم یہی سوچتے ہیں کہ معلوم ہو جانے کے بعد اتنا مطمئن کیسے رہ سکتا ہے انسان۔ بہت زندہ دل تھے، ہر وقت ہمیں ستاتے رہنا۔ اور دوسرے بھائیوں سے ڈانٹ کھانا۔
بتانے کا مقصد یہ کہ جو ہم اپنوں کے لئے نہیں کر پائے ان کی خدمت کی صورت۔۔۔ تو اب ان خواتین کے لئے اپنی خدمات پیش کر دی ہیں۔ اور سو فیصد اللہ پاک کی خوشنودی کے لئے ہے ۔ رضاکارانہ طور پر ہے۔ اس کے بدلے ہمارا صلہ اللہ پاک کے پاس محفوظ ہو رہا ہے اور وہی ہمارا آخرت سنوارنے کا ذریعہ ہے۔ باقی نماز روزہ تو فرضی عبادات ہیں وہ تو کرنی ہی کرنی ہیں حسبِ ہدایت۔ چند گھڑیوں کی خوشی دے کر اپنا دل بھی خوش ہو جاتا ہے۔ اللہ پاک توفیق دئیے رکھے اور ہمت بھی۔۔۔ آمین۔
اس ایکٹیویٹی سینٹر میں کرسمس سےتین مہینے پہلے کچھ مختلف کرافٹس بنانا شروع کرتے ہیں۔ جو دسبر میں فروخت کئے جاتے ہیں اور وہ رقم انھی پر کسی پارٹی یا کسی اور تفریح پر استعمال کی جاتی ہے۔ ایک دنیا بسی ہوئی ہے یہاں بھی۔۔۔ کئی بار جاؤ صبح تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک نہیں رہا۔۔۔ ایسے ہی محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی اپنا چلا گیا۔ بہت لگاؤ ہو گیا ہے۔ لگتا ہے کہ بس اب زندگی کا یہی ایک مقصد ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ پاک کی محبت اور ہر نعمت کو محسوس نہ کر پاتے تو شاید نیک راہ نہ پاتے جو فلاح کی طرف لے جانے کا سبب بنی۔
پاگل ہو جاتے ورنہ

تن من میرا پرزے پرزے جیویں درزی دیاں لیراں ھُو
ایناں لیراں دی یارو گل کفنی پا کے رل ساں سنگ فقیراں ھُو

اور اب محفل ہے ساتھ میں تو یہاں ہنس بول کر کافی انرجی مل جاتی ہے ۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
میرے والد بھی آٹھ بھائی بہن تھے اور والدہ بھی آٹھ۔ لہذا میرے کزن کافی تعداد میں ہیں۔ اسی لئے جب بھی یہ سنتا ہوں تو ضرور پوچھتا ہوں کہ آپ کے فرسٹ کزن کتنے ہیں؟
صبح گن کر بتائیں گے۔۔۔ بہت سارے ہیں ما شاء اللہ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
اعلی تعلیم کے لیے پاکستانی ادارے کا انتخاب کیوں کیا؟ ڈنمارک کی اعلی تعلیم کو ترجیح کیوں نہ دی؟
ڈنمارک میں کسی بھی وقت تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے ۔ پاکستان میں عمر کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔
سچ پوچھیں تو ہم نے اپنی خواہش سے زیادہ دوسروں کی خوشی کے لئے پڑھا۔ یوں تو ابھی دل کرتا ہے پڑھنے کو مگر ہم نے "عمل" کو ترجیح دی ہے اب۔
ہمیں تو بس ایک مضمون پسند ہے بھائی "انسانیت " کا۔ اور وہ برتنے سے ملتا ہے۔ پڑھنے سے کم ہی ملتا ہے۔ ایسی ہماری سوچ ہے۔
جیسا کہ ہم نے اپنے لمبے والے مراسلہ میں اپنا مقصد بتا دیا ہے کہ کیا کرنا چاہتے ہیں تو ان شاء اللہ اسی مقصد کو لے کر آگے چلیں گے۔
یہ والا گھر بھی اسی مقصد کے لئے مختص کیا سمجھئیے کہ ہمارے فلیٹ کے آس پاس اور ٹاؤن میں کچھ پناہ گزین فیملیز آئی ہیں۔ اور کہیں نہ کہیں ان کے حالات سے واقفیت بھی رہتی ہیں۔ خاص طور پر سینٹر کے حوالے سے۔ تو ان کے ساتھ پروگرام بنتا رہتا ہے کہ ہفتے میں کم سے کم ایک دن اپنے لئے نکالیں۔ جس میں ان پر گھر کا کوئی بوجھ نہ ہو۔
تو ایسا ایک دن بہت ساری خوشیاں لے کر آتا ہے جب ہم انھیں اپنے گھر لے کر آتے ہیں ۔ شروع میں تو پکایا بھی یہیں لیکن اب سب اپنی طرف سے کچھ بنا کر لاتی ہیں۔ سب مل کر کھاتے ہیں۔ اور بچوں کے جیسے اچھل کود کرتے ہیں۔ ایک وقت میں 4 خواتین۔ کیونکہ پک اینڈ ڈراپ بھی ہم نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
نہیں سینئیر ایکٹیوٹی سنٹر نہیں۔۔۔ 18 سے لے کر اوپر تک ہر عمر کے لوگ ہوتے ہیں۔ جو زیادہ تر اکیلے ہوتے ہیں اور کسی قسم کے کام میں یا صرف وقت گزارنے کی حد تک آتے ہیں۔
ایکٹیوٹیز مختلف قسم کی ہیں سٹچنگ، ہینڈ نٹنگ، مشین نٹنگ، بیڈ ورک، پیچ ورک، پینٹنگ، ٹیکسٹیل پینٹنگ، ککنگ۔ کمپیوٹر، میوزک، ڈانس ایکسر سائز اور decoupage وغیرہ ہیں۔
ایک گروپ میں زیادہ سے زیادہ 8 لوگ شامل ہو سکتے ہیں۔ ایک بندے کی نگرانی میں جس کا کام انھیں سکھانا ہوتا ہے یا اس سلسلہ میں مدد کرنی ہوتی ہے، اور یہی رول ہم سرانجام دیتے ہیں۔
ہفتے میں دو یا تین کلاسز ہوتی ہیں ہماری۔ جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں یہ زیادہ تر خواتین ہیں کیونکہ جو جینٹس ہیں وہ زیادہ تر کمپیوٹر اور گارڈننگ وغیرہ میں دلچسپی لیتے ہیں۔
ہماری دلچسپی کیسے ہوئی۔۔۔ اس بارے تھوڑا بتاتے چلیں تو شاید آپ ہمارے اس جنون کو سمجھ جائیں۔
امی ابو کی وفات کے بعد ہمیں شدید ڈپریشن ہوا۔ ابو جان کی وفات پہلے ہوئی اور اتفاق ایسا ہوا کہ اس وقت وہ پاکستان تھے کچھ زمین کے معاملات نمٹانے کے لئے جو دادا جان کی وفات کے بعد ان پر آ پڑے تھے۔ ہم نہیں جا پائے۔ یا شاید یہاں بھی "لاڈ پیار" ہی آڑے آیا کہ کیسے برداشت کرے گی گُل۔ اس سے پہلے دادا جان کی بھی ڈیتھ ہوئی، جس وقت شدید بیمار تھے تو پوچھا گیا ان سے کہ گُل کو بلا دیں۔۔۔ بنا ملے چلے گئے، اپنی طرف سے سب ہمارے لئے اچھا کر رہے تھے کہ ہمارے نازک دل پہ کوئی ٹیس نہ لگے، مگر ہر بار ایک کسک سی دل میں رہ جاتی، پھر یوں ہوا کہ ہم امی جان کے ساتھ پاکستان گئے تھے۔ امی جان کو ابھی رہنا تھا وہاں جبکہ ہمیں آنا تھا واپس۔ تو ہم نے کہا کہ چار ماہ بعد آ کر آپ کو واپس لے جائیں گے۔ بیمار تو تھیں نہیں امی جان۔ چاتھا مہینہ ختم ہونے کا آخری دن تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور کزن نے بتایا کہ تائی اماں نہیں رہیں۔
بھائیوں کو اور ہمیں جیسے جیسے فلائیٹ ملی، پہنچے ۔ وہ دن ہمارے "جھلے" اور "لاپرواہ" دکھنے کا آخری دن تھا۔ جس وقت جنازہ اٹھایا جانا تھا۔۔۔ تو سب سے بڑے بھائی ہمارے پاس کھڑے تھے، اور جیسے بالکل ٹوٹے ہوئے۔۔۔نجانے کیسا وقت اور کیسا احساس تھا کہ ہم نے ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ دیا اور کہا "امی جان کو جانے دیں ، ابو جی انتظار میں ہوں گے۔"
پھر تو رونا جیسے ہم نے اپنے اوپر حرام کر لیا کہ بھائی لوگ نہ پریشان ہوں ۔ جو لاڈ پیار ہم ان سے لیتے آئے تھے، وہ لوٹانے کا وقت آ گیا تھا۔ بہت حساس طبیعت پائی ہے ہم نے مگر جو بھی آنسو ہوتے آنکھوں سے نہ ٹپکنے دئیے۔۔۔ بس دل میں گرتے رہے۔اور ایک دن پیمانہ لبریز ہو گیا برداشت کا، چیخنا اور دیواروں سے سر ٹکرانا ۔ واپس آنے کے بعد ظاہر ہے کہ امی جان نظر نہ آتی تھیں۔ بند کمرہ ، پردے گرائے بس یونہی وقت گزرتا، ہسپتال ایڈمٹ کئی کئی ہفتے، اینٹی ڈیپریشن صحت بگاڑنے لگے۔ اس دوران جو سب سے برا تجربہ ہمیں ہوا وہ خود کو زمین اور آسمان کے بیچ معلق محسوس کرنا تھا۔ اس میں چار سے پانچ دن گزرجاتے اور ہمیں سمجھ نہ آتی تھی کہ ہم زمین پر ہیں یا زمین اور آسمان کے بیچ لٹکے ہوئے ہیں۔ اور پھر یہ کیفیت ختم ہو جاتی آہستہ آہستہ۔ خوفناک سی تھی ۔۔ جب بندہ خود کو کہیں موجود ہی نہ پا رہا ہو۔
ہسپتال میں ہی کئی مریض ایسے نظر آئے کہ اپنی بازوکی نسیں کاٹی ہوئی ہیں۔ زندگی سے مایوس لوگ۔ دردناک حالت میں دیکھے لوگ۔خود کو ایسی جگہ ہاسپٹل میں دیکھ کر سوچا کہ گُل کیوں ہے یہاں؟ اللہ پاک نے بہت کرم کیا اور ہمارے دل میں سورت رحمٰن معہ ترجمہ سننے کی خواہش ہوئی۔ اور ہم اس حقیقت کو پا گئے کہ "تو تم اللہ کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے" پھر ہر کام ہر بات میں بس یہی ورد جاری رکھا اور پر توجہ مرکوز رکھی۔ ایک ہفتہ ہی گزرا ہو گا کہ واضح تبدیلی صحت میں ہوئی۔ اور ہم نے ایکٹیویٹی سینٹر میں جانا شروع کیا ۔ تا کہ دیکھ سکیں کیا کچھ ہے وہاں۔
شاید دو تین مہینے ہی گزرے، تب ہم نے پہلی بار پیچ ورک شروع کیا تھا۔ اور اندازہ ہوا تھا کہ ڈپریشن میں بہت مدد گار ہے۔ سوچوں کو ایک جگہ مرکوز کرنے میں بہت مدد دیتا ہے۔
ہمارے مشاغل تو آپ دیکھتے ہی رہتے ہیں کسی نہ کسی لڑی میں۔ تو وہاں بھی یہ حال تھا۔ کہ سب کو دیکھنا ہوتا تھا ہم نے نیا کیا بنایا ہے۔ ہمیں اچھا محسوس ہونے لگا اور پھر وہاں جو ہماری ٹیچر تھی ، اس نے پوچھا کہ میری مدد گار بن سکتی ہو؟ ہم نے ہاں کر دی۔ دو مہینے اس کے ساتھ ہی کلاس لی۔ پھر ہمارا الگ گروپ بنا دیا گیا۔ گروپ میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ 25 سے لے کر 87 سال تک کی خواتین ہیں۔ کچھ تو معذور ہیں اور اپنی زندگی کے آخری دن یوں کسی طرف دھیان لگا کر گزار رہی ہیں۔ کچھ ویسے بیمار ہیں تو کبھی صرف دیکھنے کے لئے بیٹھی رہتی ہیں۔ دو کو کینسر ہے ۔۔ ایک کی تو ڈیتھ ہو گئی۔ جو تین چار گھنٹے ان کے ساتھ گزرتے ہیں، یہی کوشش ہوتی ہے کہ ان کو چھوٹی چھوٹی خوشیاں دے سکیں۔ کسی کو اچھے سامع کی ضرورت ہوتی ہے، کسی کو ویسے کسی کی توجہ چاہئیے ہوتی ہے۔ بس اپنائیت دینا بہت حوصلے کا کام ہوتا ہے جب کہ انسان خود بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو۔ اسی دوران بھائی کی بھی وفات ہو گئی۔ اچانک ہی معلوم ہوا کہ انھیں کینسر ہے۔اٹلی میں تھے اس وقت جب معلوم ہوا مگر پھر بھابی کی خواہش پہ پاکستان چلے گئے اور تین ہفتوں میں وفات پا گئے۔ آخری دن انھیں ڈاکٹر نے بتا دیا تھا کہ بس آج کا دن ہے جس سے بات کرنا چاہتے ہو کر لو۔ ہمیں کال کی انھوں نے۔ اور بہت حوصلے سے بات کرتے رہے خوش خوش۔ اور ہمیں تسلی دیتے رہے کہ میں علاج کروا رہا ہوں اور بالکل ٹھیک ہوں اب۔ ہم بھی یقین کر بیٹھے کہ اب اتنے اچھے سے بات کر رہے ہیں تو ٹھیک ہی ہیں۔ چند گھنٹے ہی گزرے کہ وہ خبر آئی جس کا سوچا بھی نہ تھا۔ ابھی بھی ان کا وہ خوشگوار سا لہجہ کانوں میں گونجتا ہے اور ہم یہی سوچتے ہیں کہ معلوم ہو جانے کے بعد اتنا مطمئن کیسے رہ سکتا ہے انسان۔ بہت زندہ دل تھے، ہر وقت ہمیں ستاتے رہنا۔ اور دوسرے بھائیوں سے ڈانٹ کھانا۔
بتانے کا مقصد یہ کہ جو ہم اپنوں کے لئے نہیں کر پائے ان کی خدمت کی صورت۔۔۔ تو اب ان خواتین کے لئے اپنی خدمات پیش کر دی ہیں۔ اور سو فیصد اللہ پاک کی خوشنودی کے لئے ہے ۔ رضاکارانہ طور پر ہے۔ اس کے بدلے ہمارا صلہ اللہ پاک کے پاس محفوظ ہو رہا ہے اور وہی ہمارا آخرت سنوارنے کا ذریعہ ہے۔ باقی نماز روزہ تو فرضی عبادات ہیں وہ تو کرنی ہی کرنی ہیں حسبِ ہدایت۔ چند گھڑیوں کی خوشی دے کر اپنا دل بھی خوش ہو جاتا ہے۔ اللہ پاک توفیق دئیے رکھے اور ہمت بھی۔۔۔ آمین۔
اس ایکٹیویٹی سینٹر میں کرسمس سےتین مہینے پہلے کچھ مختلف کرافٹس بنانا شروع کرتے ہیں۔ جو دسبر میں فروخت کئے جاتے ہیں اور وہ رقم انھی پر کسی پارٹی یا کسی اور تفریح پر استعمال کی جاتی ہے۔ ایک دنیا بسی ہوئی ہے یہاں بھی۔۔۔ کئی بار جاؤ صبح تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک نہیں رہا۔۔۔ ایسے ہی محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی اپنا چلا گیا۔ بہت لگاؤ ہو گیا ہے۔ لگتا ہے کہ بس اب زندگی کا یہی ایک مقصد ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ پاک کی محبت اور ہر نعمت کو محسوس نہ کر پاتے تو شاید نیک راہ نہ پاتے جو فلاح کی طرف لے جانے کا سبب بنی۔
پاگل ہو جاتے ورنہ

تن من میرا پرزے پرزے جیویں درزی دیاں لیراں ھُو
ایناں لیراں دی یارو گل کفنی پا کے رل ساں سنگ فقیراں ھُو

اور اب محفل ہے ساتھ میں تو یہاں ہنس بول کر کافی انرجی مل جاتی ہے ۔
اللہ پاک آپ کی ہمت، حوصلہ اور ایمان کی دولت سدا قائم رکھے، آپ کو اور ہم سب کو دین و دنیا کی راحتیں عطاء فرمائے، آمین
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
اس فرق پر کچھ روشنی ڈالیں۔ ڈنمارک کے تعلیمی نظام کی کیا بات سب سے اچھی لگی؟ پاکستان کی تعلیم کی کیا چیز ڈنمارک سے بہتر تھی؟
ڈنمارک کے تعلیمی نظام کی بہترین بات یہ ہے کہ تعلیم کو بوجھ نہیں بنایا جاتا۔ جتنی کسی کی ذہنی استطاعت ہے اسی حساب سے تعلیم ہوتی ہے۔ اور بتدریج بہتر کرتے ہیں۔ کچھ پناہ گزین فیملیز سے بچے سکول میں آتے ہیں جنھیں آئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گررا ہوتا ہے تو انھیں بنیادی تعلیم دے کر ان کی عمر کے مطابق کلاس کے لائق بنا لیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک بری بات یہ ہے اس نظام میں کہ بچوں کو چھٹیوں میں کام نہیں ملتا کرنے کے لئے۔ یہاں تک کہ کتابیں بھی سکول ہی میں رکھ لی جاتی ہیں۔
اس لحاظ سے پاکستان میں بہتر حساب ہے کہ چھٹیوں کا کام اتنا زیادہ دیتے ہیں کہ اور کچھ ہو نہ ہو ، لکھ لکھ کر ہینڈ رائیٹنگ ضرور بہتر ہو جاتی ہے۔
باقی سب اچھا ہی اچھا ہے۔
 

زیک

مسافر
چھٹیوں کا کام اتنا زیادہ دیتے ہیں کہ اور کچھ ہو نہ ہو ، لکھ لکھ کر ہینڈ رائیٹنگ ضرور بہتر ہو جاتی ہے۔
آپ جب پاکستان میں سکول میں تھیں چھٹیوں کا کام پورا کیا؟ جتنے سال میں پاکستان میں سکول میں تھا مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کبھی آدھا کام بھی کیا ہو۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
کچھ ایکٹیویٹی سنٹر کے متعلق بتائیں۔
ایکٹیویٹی سینٹر کے بارے بتا دیا۔
ہاں تھوڑا اور بھی بتانا چاہیں گے۔ ایک دوسرا ایکٹیویٹی سینٹر بھی ہے جہاں ہم کپڑے سے مختلف قسم کی چیزیں بنا کر دیتے ہیں۔ جیسے بیگ، کشن کور، پاٹ ہولڈر وغیرہ ۔ کچھ لوگ اون سے بنا کر چیزیں دیتے ہیں جو جولائی یا اگست میں سٹال لگا کر بیچی جاتی ہیں اور رقم انھی لوگوں پر خرچ کی جاتی ہے۔
1۔ کھانے سے کتنا رغبت ہے؟
کھانے کی تو نہ ہی پوچھیں۔۔۔ پکانے سے البتہ خوب رغبت ہے۔ ابھی تو ہم پچھلے سال کرونا ہونے کی وجہ سے جب یہاں آئے تو پھر واپس جانے کا دل ہی نہیں چاہا۔۔۔ پکا ڈیرا ہی لگا لیا ہے۔ بھتیجیاں ویک اینڈ گزارنے آئی ہوں یا ہم نے گھر جانا ہو تو کبھی یہاں سے کچھ پکا کر لے جاتے ہیں یا وہیں بناتے ہیں ۔ تو کھا بھی لیتے ہیں۔ اکیلے اپنے لئے پکانا ۔۔۔ مزہ ہی نہیں آتا۔ زیادہ تر فروٹ یا براؤن بریڈ۔ سلاد سے کام چل جاتا ہے۔ ہاں پلاؤ کا ذکر بھی ہو تو رات کو دو تین بجے بھی پکا کر کھائیں گے۔
2۔ آپ کتنی زبانیں جانتی ہیں؟
بس اپنی زبان کو۔۔۔ جو ایک ہی ہے۔ :ROFLMAO:
بولنے کی بات کریں تو اردو ، پنجابی، ڈینش، سویڈش اور انگریزی ۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آپ جب پاکستان میں سکول میں تھیں چھٹیوں کا کام پورا کیا؟ جتنے سال میں پاکستان میں سکول میں تھا مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کبھی آدھا کام بھی کیا ہو۔
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
چھٹیاں زیادہ تر یہاں گزرتی تھیں یا کبھی جرمنی تو کام ہمیشہ ساتھ ہی ہوتا تھا نا بھائی
کام کے معاملے میں ہم کام چور نہیں ہیں۔
 

عثمان

محفلین
کیا مقامی ٹی وی شوز اور فلم پسند ہیں؟
میں نے نیٹ فلکس پر ایک دو سکینڈے نیوئن ٹی وی شوز دیکھے۔ دلچسپ تھے۔
 

زیک

مسافر
پکانے سے البتہ خوب رغبت ہے۔
کس قسم کا کھانا پکانا زیادہ پسند ہے؟ نئی ریسپیز ٹرائی کرتی ہیں یا صرف پسندیدہ کھانے ہی پکاتی ہیں؟ پاکستانی کھانوں کے علاوہ اور کن علاقوں کے کھانے پکائے ہیں؟بیکنگ اور میٹھا بنانے کا بھی شوق ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
نہیں سینئیر ایکٹیوٹی سنٹر نہیں۔۔۔ 18 سے لے کر اوپر تک ہر عمر کے لوگ ہوتے ہیں۔ جو زیادہ تر اکیلے ہوتے ہیں اور کسی قسم کے کام میں یا صرف وقت گزارنے کی حد تک آتے ہیں۔
ایکٹیوٹیز مختلف قسم کی ہیں سٹچنگ، ہینڈ نٹنگ، مشین نٹنگ، بیڈ ورک، پیچ ورک، پینٹنگ، ٹیکسٹیل پینٹنگ، ککنگ۔ کمپیوٹر، میوزک، ڈانس ایکسر سائز اور decoupage وغیرہ ہیں۔
ایک گروپ میں زیادہ سے زیادہ 8 لوگ شامل ہو سکتے ہیں۔ ایک بندے کی نگرانی میں جس کا کام انھیں سکھانا ہوتا ہے یا اس سلسلہ میں مدد کرنی ہوتی ہے، اور یہی رول ہم سرانجام دیتے ہیں۔
ہفتے میں دو یا تین کلاسز ہوتی ہیں ہماری۔ جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں یہ زیادہ تر خواتین ہیں کیونکہ جو جینٹس ہیں وہ زیادہ تر کمپیوٹر اور گارڈننگ وغیرہ میں دلچسپی لیتے ہیں۔
ہماری دلچسپی کیسے ہوئی۔۔۔ اس بارے تھوڑا بتاتے چلیں تو شاید آپ ہمارے اس جنون کو سمجھ جائیں۔
امی ابو کی وفات کے بعد ہمیں شدید ڈپریشن ہوا۔ ابو جان کی وفات پہلے ہوئی اور اتفاق ایسا ہوا کہ اس وقت وہ پاکستان تھے کچھ زمین کے معاملات نمٹانے کے لئے جو دادا جان کی وفات کے بعد ان پر آ پڑے تھے۔ ہم نہیں جا پائے۔ یا شاید یہاں بھی "لاڈ پیار" ہی آڑے آیا کہ کیسے برداشت کرے گی گُل۔ اس سے پہلے دادا جان کی بھی ڈیتھ ہوئی، جس وقت شدید بیمار تھے تو پوچھا گیا ان سے کہ گُل کو بلا دیں۔۔۔ بنا ملے چلے گئے، اپنی طرف سے سب ہمارے لئے اچھا کر رہے تھے کہ ہمارے نازک دل پہ کوئی ٹیس نہ لگے، مگر ہر بار ایک کسک سی دل میں رہ جاتی، پھر یوں ہوا کہ ہم امی جان کے ساتھ پاکستان گئے تھے۔ امی جان کو ابھی رہنا تھا وہاں جبکہ ہمیں آنا تھا واپس۔ تو ہم نے کہا کہ چار ماہ بعد آ کر آپ کو واپس لے جائیں گے۔ بیمار تو تھیں نہیں امی جان۔ چاتھا مہینہ ختم ہونے کا آخری دن تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور کزن نے بتایا کہ تائی اماں نہیں رہیں۔
بھائیوں کو اور ہمیں جیسے جیسے فلائیٹ ملی، پہنچے ۔ وہ دن ہمارے "جھلے" اور "لاپرواہ" دکھنے کا آخری دن تھا۔ جس وقت جنازہ اٹھایا جانا تھا۔۔۔ تو سب سے بڑے بھائی ہمارے پاس کھڑے تھے، اور جیسے بالکل ٹوٹے ہوئے۔۔۔نجانے کیسا وقت اور کیسا احساس تھا کہ ہم نے ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ دیا اور کہا "امی جان کو جانے دیں ، ابو جی انتظار میں ہوں گے۔"
پھر تو رونا جیسے ہم نے اپنے اوپر حرام کر لیا کہ بھائی لوگ نہ پریشان ہوں ۔ جو لاڈ پیار ہم ان سے لیتے آئے تھے، وہ لوٹانے کا وقت آ گیا تھا۔ بہت حساس طبیعت پائی ہے ہم نے مگر جو بھی آنسو ہوتے آنکھوں سے نہ ٹپکنے دئیے۔۔۔ بس دل میں گرتے رہے۔اور ایک دن پیمانہ لبریز ہو گیا برداشت کا، چیخنا اور دیواروں سے سر ٹکرانا ۔ واپس آنے کے بعد ظاہر ہے کہ امی جان نظر نہ آتی تھیں۔ بند کمرہ ، پردے گرائے بس یونہی وقت گزرتا، ہسپتال ایڈمٹ کئی کئی ہفتے، اینٹی ڈیپریشن صحت بگاڑنے لگے۔ اس دوران جو سب سے برا تجربہ ہمیں ہوا وہ خود کو زمین اور آسمان کے بیچ معلق محسوس کرنا تھا۔ اس میں چار سے پانچ دن گزرجاتے اور ہمیں سمجھ نہ آتی تھی کہ ہم زمین پر ہیں یا زمین اور آسمان کے بیچ لٹکے ہوئے ہیں۔ اور پھر یہ کیفیت ختم ہو جاتی آہستہ آہستہ۔ خوفناک سی تھی ۔۔ جب بندہ خود کو کہیں موجود ہی نہ پا رہا ہو۔
ہسپتال میں ہی کئی مریض ایسے نظر آئے کہ اپنی بازوکی نسیں کاٹی ہوئی ہیں۔ زندگی سے مایوس لوگ۔ دردناک حالت میں دیکھے لوگ۔خود کو ایسی جگہ ہاسپٹل میں دیکھ کر سوچا کہ گُل کیوں ہے یہاں؟ اللہ پاک نے بہت کرم کیا اور ہمارے دل میں سورت رحمٰن معہ ترجمہ سننے کی خواہش ہوئی۔ اور ہم اس حقیقت کو پا گئے کہ "تو تم اللہ کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے" پھر ہر کام ہر بات میں بس یہی ورد جاری رکھا اور پر توجہ مرکوز رکھی۔ ایک ہفتہ ہی گزرا ہو گا کہ واضح تبدیلی صحت میں ہوئی۔ اور ہم نے ایکٹیویٹی سینٹر میں جانا شروع کیا ۔ تا کہ دیکھ سکیں کیا کچھ ہے وہاں۔
شاید دو تین مہینے ہی گزرے، تب ہم نے پہلی بار پیچ ورک شروع کیا تھا۔ اور اندازہ ہوا تھا کہ ڈپریشن میں بہت مدد گار ہے۔ سوچوں کو ایک جگہ مرکوز کرنے میں بہت مدد دیتا ہے۔
ہمارے مشاغل تو آپ دیکھتے ہی رہتے ہیں کسی نہ کسی لڑی میں۔ تو وہاں بھی یہ حال تھا۔ کہ سب کو دیکھنا ہوتا تھا ہم نے نیا کیا بنایا ہے۔ ہمیں اچھا محسوس ہونے لگا اور پھر وہاں جو ہماری ٹیچر تھی ، اس نے پوچھا کہ میری مدد گار بن سکتی ہو؟ ہم نے ہاں کر دی۔ دو مہینے اس کے ساتھ ہی کلاس لی۔ پھر ہمارا الگ گروپ بنا دیا گیا۔ گروپ میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ 25 سے لے کر 87 سال تک کی خواتین ہیں۔ کچھ تو معذور ہیں اور اپنی زندگی کے آخری دن یوں کسی طرف دھیان لگا کر گزار رہی ہیں۔ کچھ ویسے بیمار ہیں تو کبھی صرف دیکھنے کے لئے بیٹھی رہتی ہیں۔ دو کو کینسر ہے ۔۔ ایک کی تو ڈیتھ ہو گئی۔ جو تین چار گھنٹے ان کے ساتھ گزرتے ہیں، یہی کوشش ہوتی ہے کہ ان کو چھوٹی چھوٹی خوشیاں دے سکیں۔ کسی کو اچھے سامع کی ضرورت ہوتی ہے، کسی کو ویسے کسی کی توجہ چاہئیے ہوتی ہے۔ بس اپنائیت دینا بہت حوصلے کا کام ہوتا ہے جب کہ انسان خود بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو۔ اسی دوران بھائی کی بھی وفات ہو گئی۔ اچانک ہی معلوم ہوا کہ انھیں کینسر ہے۔اٹلی میں تھے اس وقت جب معلوم ہوا مگر پھر بھابی کی خواہش پہ پاکستان چلے گئے اور تین ہفتوں میں وفات پا گئے۔ آخری دن انھیں ڈاکٹر نے بتا دیا تھا کہ بس آج کا دن ہے جس سے بات کرنا چاہتے ہو کر لو۔ ہمیں کال کی انھوں نے۔ اور بہت حوصلے سے بات کرتے رہے خوش خوش۔ اور ہمیں تسلی دیتے رہے کہ میں علاج کروا رہا ہوں اور بالکل ٹھیک ہوں اب۔ ہم بھی یقین کر بیٹھے کہ اب اتنے اچھے سے بات کر رہے ہیں تو ٹھیک ہی ہیں۔ چند گھنٹے ہی گزرے کہ وہ خبر آئی جس کا سوچا بھی نہ تھا۔ ابھی بھی ان کا وہ خوشگوار سا لہجہ کانوں میں گونجتا ہے اور ہم یہی سوچتے ہیں کہ معلوم ہو جانے کے بعد اتنا مطمئن کیسے رہ سکتا ہے انسان۔ بہت زندہ دل تھے، ہر وقت ہمیں ستاتے رہنا۔ اور دوسرے بھائیوں سے ڈانٹ کھانا۔
بتانے کا مقصد یہ کہ جو ہم اپنوں کے لئے نہیں کر پائے ان کی خدمت کی صورت۔۔۔ تو اب ان خواتین کے لئے اپنی خدمات پیش کر دی ہیں۔ اور سو فیصد اللہ پاک کی خوشنودی کے لئے ہے ۔ رضاکارانہ طور پر ہے۔ اس کے بدلے ہمارا صلہ اللہ پاک کے پاس محفوظ ہو رہا ہے اور وہی ہمارا آخرت سنوارنے کا ذریعہ ہے۔ باقی نماز روزہ تو فرضی عبادات ہیں وہ تو کرنی ہی کرنی ہیں حسبِ ہدایت۔ چند گھڑیوں کی خوشی دے کر اپنا دل بھی خوش ہو جاتا ہے۔ اللہ پاک توفیق دئیے رکھے اور ہمت بھی۔۔۔ آمین۔
اس ایکٹیویٹی سینٹر میں کرسمس سےتین مہینے پہلے کچھ مختلف کرافٹس بنانا شروع کرتے ہیں۔ جو دسبر میں فروخت کئے جاتے ہیں اور وہ رقم انھی پر کسی پارٹی یا کسی اور تفریح پر استعمال کی جاتی ہے۔ ایک دنیا بسی ہوئی ہے یہاں بھی۔۔۔ کئی بار جاؤ صبح تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک نہیں رہا۔۔۔ ایسے ہی محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی اپنا چلا گیا۔ بہت لگاؤ ہو گیا ہے۔ لگتا ہے کہ بس اب زندگی کا یہی ایک مقصد ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ پاک کی محبت اور ہر نعمت کو محسوس نہ کر پاتے تو شاید نیک راہ نہ پاتے جو فلاح کی طرف لے جانے کا سبب بنی۔
پاگل ہو جاتے ورنہ

تن من میرا پرزے پرزے جیویں درزی دیاں لیراں ھُو
ایناں لیراں دی یارو گل کفنی پا کے رل ساں سنگ فقیراں ھُو

اور اب محفل ہے ساتھ میں تو یہاں ہنس بول کر کافی انرجی مل جاتی ہے ۔
جب ہم دوسروں کے غم پڑھتے ہیں تو اپنے غم بھول جاتے ہیں۔ اللہ تعالی آپ اور اہل و عیال کو صبر و استقامت عطا کرے۔ آمین
 
Top