کوئٹہ ۔کیرانی روڈپر ریمونٹ کنٹرول بم دھماکہ 50 افراد جان بحق اور 180سے زائد زخمی

کاشفی

محفلین
کاشفی بھائی غیر متفق ہونے کا موقع نہیں ہے۔ زین نے بالکل صحیح کہا ہے۔

کچھ لوگ لاشوں پر ہی سیاست کرتے ہیں اور اسی وجہ سے حالات خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں۔

یہ وقت ہے اتحاد اور یگانگت کا کہ اکٹھے ہو کر برائی کے خلاف لڑنا ہے۔

دوستوں کی باتیں ہمیشہ صحیح ہی ہوتی ہیں۔۔اور دشمنوں کی غلط۔
وقت نکل چکا ہے بھائی۔۔اتحاد اور یگانگت تو اس وقت ممکن ہے جب لوگ حق کو حق کہیں اور غلط کو غلط کہیں۔
جب کبھی بھی طالبان کو برا کہا جائے تو لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔۔اور بہانے تلاش کرتے ہیں دوسروں کو غلط ثابت کرنے کے لیئے۔۔
میری کسی بھی بات میں ملک کو برا کہنے کا گمان موجود نہیں۔۔ میں نے ذکر کیا تھا مزید ستیاناس ہونے کا۔۔۔کیونکہ ملک کا ستیاناس ہوچکا ہے۔۔اور مزید ستیاناس ہورہا ہے۔۔
لیکن محب وطن لوگ اس میں بھی ملک کو برا کہنے کا مطلب ہی نکالیں گے کیونکہ میں طالبان کا ذکر بھی کیا تھا۔۔اور جہاں طالبان کے خلاف بات کی جائے وہ بندہ اور بات دونوں غلط کہلاتے ہیں۔۔ کوئی یہ نہیں کہ رہا کہ لشکرِ جھنگوی غلط ہے طالبان غلط ہیں۔۔سب منہ بند کرکے چپ خاموش ہیں۔۔ ملک ترقی کی طرف گامزن ہے۔۔اور ملک کا ستیاناس نہیں ہورہا ہے۔۔
 

زین

لائبریرین
ہزارہ قبیلہ بہت بدقسمت ثابت ہوا ہے کہ ان کے خون پر سیاست رچائی جارہی ہے لیکن قبیلے کو امن نصیب ہورہا ہے اور نہ ہی ان کے دکھوں کا مداوا ہوا ہے ۔ دس جنوری کے سانحہ علمدار روڈ کے خلاف لواحقین کے احتجاج کو بھی سیاسی مقاصد کےلیے استعمال کیا گیا ۔ بلوچستان حکومت گئی بھی تو کیا تبدیلی آئی ؟؟

اور اگر بات کی جائے ان دھماکوں میں ملوث تنظیمیں کی تو انہیں حاصل حمایت کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ پولیس کی رپورٹ کے مطابق کل کے دھماکے میں ایک ہزار کلو گرام دھماکا خیز مواد استعمال ہوا ہے ۔ اندازہ لگایا جائے کہ اتنا دھماکا خیز مواد کہاں سے آسکتاہے؟ ۔ سوال یہ بھی ہے کہ یہ تنظمیمیں اتنی آسانی سے اہداف کیسے حاصل کرلیتی ہیں ؟
 

شمشاد

لائبریرین
انا للہ وانا الیہ راجعون

انسانیت کے دشمنوں کا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو انسان کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔
آپ انسان کہہ رہے ہیں،میں تو کہتا ہوں کہ جانور کہلانے کے بھی مستحق نہیں ہیں۔ شیطان ہیں یہ اور وہ بھی غلیظ شیطان۔
 

زین

لائبریرین
باہر بیٹھ کر تبصرے کرنا آسان ہے ، قاتلوں کے بیچ بیٹھ کر ایک لفظ کہتے ہوئے بھی ہزار دفعہ سوچنا پڑتا ہے ۔ دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کرنے والے جب آپ کے معاملات سے واقف ہوں اور آپ کو رات کو فون کرکے آپ کی دن بھر کی مصروفیات کا تفصیل سے بتائیں ۔ یہاں تک کہ آپ کی فیس بک کی سرگرمیوں پر بھی سوال اٹھائیں تو احتیاط لازم ہوجاتی ہے ۔ ان سب کے باوجود بھی کوئٹہ سے ایسے واقعات کے خلاف کوئی دو لفظ بھی لکھتا ہے تو بہت بڑی بات ہے۔
 

عمراعظم

محفلین
بے گناہ لوگوں، عورتوں اور بچوں کو خاک و خون میں نہلانے والے وحشی درندوں کو ختم کرنا ہی انسانیت اور اسلام کی خدمت ہے۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ درندے جن کے منہ کو خون لگ چکا ہے ایک کےبعد ایک کو اپنی درندگی کا نشانہ بناتے رہیں گے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم متحد ہو جائیں ،ورنہ ہم ان کے لئے تر نوالا ثابت ہوں گے۔
 

عمراعظم

محفلین
آپ انسان کہہ رہے ہیں،میں تو کہتا ہوں کہ جانور کہلانے کے بھی مستحق نہیں ہیں۔ شیطان ہیں یہ اور وہ بھی غلیظ شیطان۔

شمشاد بھائی ! شیطانیت کا یہ وحشی رقص صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دیگر اسلامی ملکوں میں بھی جاری ہے۔حیرت انگیز اور دردناک حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ہی مسلمان کا خون بہا کر اسلام کے خدمت گار بن رہے ہیں۔پاکستان میں بھی چنداسلامی ممالک اپنے سرمائے کا بے دریغ استعمال کر کے بقول ان کے اسلام کی خدمت فرما رہے ہیں۔ ہماری بقا صرف ا تحاد میں مضمر ہے۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
 

زین

لائبریرین
کوئٹہ : پاکستان کے صوبے بلوچستان میں صحافی برادری حکومت اور شرپسندوں کے درمیان پھنس کر رہ گئی ہے اور ان کے پاس مرنے یا جیل جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ گیا۔
امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں مقامی صحافیوں کو اکثر رات گئے شرپسندوں کے فون آتے ہیں جن میں وہ لوگوں کو قتل یا تشدد پھیلانے کا پیغام دیتے ہیں اور اسے شائع نہ کرنے پر رپورٹر کو قتل کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔
تاہم صحافی یہ پیغام شائع کردیں تو انہیں انسداد دہشتگردی قوانین کے تحت 3 سال قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ 6 برس کے دوران بلوچستان میں کم از کم 20 صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے۔
دوسری جانب بلوچستان حکومت بھی میڈیا پر دباؤ بڑھا رہی ہے، اس حوالے سے گزشتہ ماہ صوبائی حکومت نے پہلی بار 21 میڈیا اداروں، ان کے مالکان اور متعدد صحافیوں پر لوگوں میں خوف پھیلانے کے الزامات عائد کئے ہیں، جن پر انہیں انسداد دہشتگردی قوانین کے تحت 3 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان صحافیوں کے لئے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے، یہاں شدت پسند تنظیمیں آزادی سے کام کرتی ہیں اور پولیس ان کے سامنے کمزور نظر آتی ہے، جس کے باعث یہ گروپس صحافیوں کو دھمکاتے نظر آتے ہیں۔
پاکستانی نیوز ایجنسی نیوز نیٹ ورک انٹرنیشنل کے کوئٹہ میں بیوروچیف عاشق بٹ کے مطابق اگر ہمیں اس شہر میں زندہ رہنا ہے تو ہمیں وہی لکھنا ہوگا جو وہ کہیں۔
مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان لبریشن آرمی اور لشکر جھنگوی سمیت انہیں فون کرکے اپنے پیغامات شائع کرنے کا حکم دیتے ہیں ورنہ قتل کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔
وہ صحافیوں کو کہتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں مرنے والے افراد کا ذکر احترام سے کرنے کی بجائے تحقیرانہ انداز میں کیا جائے۔
کمیٹی آف پروٹیکٹ جرنلسٹ کے ایشیاء میں پروگرام کوآرڈنیٹر باب ڈائیٹز کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، یہاں کے مسائل کا حل آسان نہیں، میڈیا گروپس کے لئے تو یہ میدان جنگ بن چکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ تشدد کے باعث بلوچستان کا بڑا حصہ رسائی کے قابل نہیں، جبکہ حکومت بھی اس صورتحال پر خوش ہے۔
ان کے مطابق حکومت مطمئن ہے کہ صورتحال کی آزادانہ مانیٹرنگ نہیں ہورہی۔انہوں نے مقامی صحافیوں پر حکومتی چارج شیٹ کی بھی مذمت کی۔
تاہم کوئٹہ پولیس کے سربراہ عمر ابن خطاب نے الزامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انسداد دہشتگردی قوانین اس حوالے سے بالکل واضح ہیں۔
ربط
 

کاشفی

محفلین
امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس AP کی غلط رپورٹ پر یقین کرنا بیوقوفی اور بزدلی ہے۔۔
بزدل صحافی اور پیسے بٹورنے والے صحافی حضرات یقیناَ وہی لکھیں گے جو انہیں کہا جائے گا۔۔اور ویسے بھی بہت سے صحافی حُبِ لشکرِجھنگوی میں دہشت گردوں کے بارے میں نہیں لکھتے۔۔اور ٹوپی ڈرامہ کر کے فرار کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔۔ عوام کی اکثریت بھی حبِ یزید میں دہشتگردوں کو کچھ نہیں بولتی۔ عوام کی کتنی اکثریت نے لشکرِجھنگوی کو برا کہا۔۔۔؟
مسلمانوں کے قتلِ عام میں پاکستانی صحافی ہمیشہ منہ بند کر کے چپ چاپ خاموش ہی رہتے ہیں۔۔اور نہ لکھنے اور حق نہ بولنے کے لیئے غیرملکی بہانے تلاش کیئے جاتے ہیں۔۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
سمجھ سے باہر ہے کہ ہماری ایجنسیاں کیا کرتی پھر رہی ہیں؟ فوجی چھاؤنیوں اور چوکیوں کے ہوتے ہوئے بھی دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں ۔۔۔ کیوں؟ کیسے؟ کم از کم میں یہ بات ماننے سے انکاری ہوں کہ سانحہء کوئٹہ جیسے واقعات صرف اور صرف سیاست دانوں کی ناکامی کا اعلان ہیں ۔۔۔ یہ ہم سب کی ناکامی ہے اور خاص طور پر ہماری ان خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی ہے جن کی تعریفیں کرتے ہم نہیں تھکتے ۔۔۔ ان کا کام وہاں بیٹھ کر تماشا دیکھنا نہیں ہے ۔۔۔ خفیہ ایجنسیاں اگر فعال ہوں تو کوئٹہ میں ایسی کاروائیاں بار بار نہ ہوں ۔۔۔ افسوس، صد افسوس کہ سیاست دانوں کو تو ناکامی کے سرٹیفیکیٹ جاری کیے جا رہے ہیں لیکن خفیہ ایجنسیوں سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ۔۔۔ یہ ایک المیہ ہے ۔۔۔
 

صرف علی

محفلین
اسلاام علیکم
یہاں سب کو پتا ہے کے دھماکہ کس نے کیا ہے مگر کسی میں جرت نہیں ہے کہ وہ بولے کون لوگ ہیں سوات میں جو اہل سنت (واقعی ) کے ساتھ ہوا جتنے مزارات میں دھماکے ہوئے سب کو پتا ہے کہ یہ وہابی نظریہ فکر کے لوگوں نے کئے ہیں مگر کوئی جرت نہیں کرتا ہے ان کے بارے میں بولنے کوسب خاموش ہیں اور اپنی باری کا انتظار کر رہیے ہیں ۔
والسلام
 

حسان خان

لائبریرین
جن عناصر کے ایسے متشدد نظریات ہیں اُن سے ہماری موقع پرست سیاسی جماعتیں بھی ساز باز کرنے میں لگی رہتی ہیں۔ یہ دیکھیے، نواز لیگ اور سپاہِ صحابہ کی انتخابی گٹھ جوڑ کا احوال: (خبر ستمبر کی ہے، لیکن برمحل ہے۔)

17106_10151281611618059_396574653_n.jpg


ربط
 

شمشاد

لائبریرین
تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ ملکی مفاد کے لیے کچھ کرتے ہیں۔ جی نہیں، یہ صرف اور صرف اپنے اور اپنی اولاد کے مفاد کے لیے کرتے ہیں۔ اور اس کے لیے یہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوتے ہیں۔
 

حسینی

محفلین
اسلاام علیکم
یہاں سب کو پتا ہے کے دھماکہ کس نے کیا ہے مگر کسی میں جرت نہیں ہے کہ وہ بولے کون لوگ ہیں سوات میں جو اہل سنت (واقعی ) کے ساتھ ہوا جتنے مزارات میں دھماکے ہوئے سب کو پتا ہے کہ یہ وہابی نظریہ فکر کے لوگوں نے کئے ہیں مگر کوئی جرت نہیں کرتا ہے ان کے بارے میں بولنے کوسب خاموش ہیں اور اپنی باری کا انتظار کر رہیے ہیں ۔
والسلام

جی ھاں یہ دھماکے وھابیوں نے ہی کیے ہیں۔۔۔۔۔۔ لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ سر عام اپنی تنظیمیں چلا رہے ہیں۔۔۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ ہماری فوج اور عدالتوں تک میں تکفیری فرقوں کے لوگ گھسے ہوئے ہیں۔۔۔ خادم الحرمین کہلانے والے لوگ بھی پیسے دے کر یہ سارے کام کروا رہے ہیں۔۔۔
ضرورت اس امر کی ہے ہماری فوج کو، عدالتوں کو، تعلیمی اداروں کو، غرض ہر ادارے کو ان تکفیریوں سے آزاد اور پاک کیا جائے۔۔۔۔۔ اور وطن دوست لوگوں کو آگے لایے جایں۔۔
باقی رہی بات ہماری ایجنسیوں کی تو وہ خود ان دھماکوں میں براہ راست ملوث ہیں۔
کیونکہ یا تو ان کو ان دھماکوں کی اطلاع ہی نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔ پھر تو یہ ان کی ناکامی ہے اور ان کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔۔۔۔۔
اور اگر اطلاع تھی اور یقینا تھی تو یہ ایجنسیاں خود ملوث ہیں۔۔
ظاہر سی بات ہے پیسے آنکھین اندھی کر دیتے ہیں۔۔۔۔ یہ سارے لوگ بکے ہوئے ہیں۔
اللہ تعالی پاکستان پر رحم فرما دے ۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔
 

زین

لائبریرین
امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس AP کی غلط رپورٹ پر یقین کرنا بیوقوفی اور بزدلی ہے۔۔
بزدل صحافی اور پیسے بٹورنے والے صحافی حضرات یقیناَ وہی لکھیں گے جو انہیں کہا جائے گا۔۔اور ویسے بھی بہت سے صحافی حُبِ لشکرِجھنگوی میں دہشت گردوں کے بارے میں نہیں لکھتے۔۔اور ٹوپی ڈرامہ کر کے فرار کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔۔ عوام کی اکثریت بھی حبِ یزید میں دہشتگردوں کو کچھ نہیں بولتی۔ عوام کی کتنی اکثریت نے لشکرِجھنگوی کو برا کہا۔۔۔ ؟
مسلمانوں کے قتلِ عام میں پاکستانی صحافی ہمیشہ منہ بند کر کے چپ چاپ خاموش ہی رہتے ہیں۔۔اور نہ لکھنے اور حق نہ بولنے کے لیئے غیرملکی بہانے تلاش کیئے جاتے ہیں۔۔
نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کی بات جواب دینا پڑ رہا ہے ۔ بلوچستان کے زمینی حقائق سے ایک فیصد بھی باخبر ہوتے تو آپ کبھی یہ نہ کہتے کہ یہاں کے صحافی بزدل ہیں۔

وقت کی کمی ہے ۔وقت ملنے پر تفصیل سے جواب دوں گا۔ اس وقت یہاں صرف ان ’’بزدل‘‘ صحافیوں کی تفصیل پیش کروں گا جو پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

(03)ڈاکٹر چشتی مجاہد :۔ ڈاکٹر چشتی مجاہد ماہر امراض چشم کے ساتھ ساتھ وہ شعبہ صحافت سے بھی منسلک تھے جنہیں 9فروری 2008ءکو نامعلوم مسلح افراد ان کے گھر کے سامنے فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا وہ کوئٹہ میں جنگ گروپ کے ہفت روزہ اخبار جہاں کے نمائندہ تھے ان کے قتل کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ۔
(04)خا دم حسین شیخ :۔ بلوچستان کے علاقے حب سے تعلق رکھنے والے صحافی تھے جنہیں 14 اپریل 2008ء کو نامعلوم مسلح افراد نے قتل کردیا خادم شیخ روزنامہ خبریں سے وابستگی رکھتے تھے اس کے علاوہ مقامی سطح پر شائع ہونے والے روزنامہ حب نیوز کے چیف ایڈیٹر بھی تھے ۔
(05)وصی احمد قریشی :۔ بلوچستان کے علاقے خضدار میں روزنامہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس کے لئے خدمات انجام دینے والے صحافی کو 10اپریل2009 ءکو ٹارگٹ کلنگ میں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے ۔
(06)فیض ساسولی:۔ فیض محمد ساسولی بلوچستان کے علاقے خضدار کے رہائشی تھے اور شعبہ صحافت سے منسلک تھے خضدار سے بطور نامہ نگار بلوچستان سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ ”آزادی“ کے لئے اپنی خدمات انجام دے رہے تھے جنہیں 27جون 2009ءکو ہدف بنا کر نامعلوم مسلح افراد نے موت کی نیند سلادیا ۔ بلوچ مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے فیض ساسولی کے قتل کی ذمہ داری قبول کی ۔
(07)لالہ حمید بلوچ :۔ بلوچستان کے ضلع گوادر سے تعلق رکھتے تھے ایک طویل عرصہ تک صحافتی خدمات انجام دیتے رہے گوادر پریس کلب کے صدر کے عہدے پر فائز تھے اور روزنامہ ”توار“ مستونگ میں خدمات انجام دے رہے تھے انہیں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ۔ مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ حمید بلوچ کو پاکستانی سکیورٹی فورسز نے 25 اکتوبر کو ا±س وقت حراست میں لے لیا تھا جب وہ تربت سے اپنے آبائی علاقے گوادر جا رہے تھے۔اور18نومبر 2010ءکو ان کی تشدد زدہ گولیوں سے چھلنی لاش تربت شہر کے نواحی علاقے سے ان کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاش ملی ۔
(08)محمد خان ساسولی :۔ محمد خان ساسولی خضدار سے تعلق رکھتے تھے صحافتی اور سماجی حلقوں میں انتہائی متحرک و فعال کردار ادا کرتے رہے خضدار سے مختلف اداروں کےلئے کام کررہے تھے جن میں خبر رساں ادارہ آئی این پی ،روزنامہ زمانہ کوئٹہ ،بلوچستان ٹائمزشامل تھے ان کو بھی نامعلوم مسلح افراد نے 14دسمبر 2010ءکو اس وقت ٹارگٹ بنا کر قتل کردیا جب وہ ورکرزکالونی میں واقع اپنے گھر کے گیٹ پر پہنچے سیاسی اور سماجی حلقوں میں محمد خان ساسولی کا احترام ان کی غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کی وجہ سے کیا جاتا تھا اور وہ بلاامتیاز تمام طبقوں کے لیے کام کرتے تھے بلوچ مسلح دفاع نامی تنظیم کی جانب سے ایک پمفلٹ بھی تقسیم ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ خضدار کے صحافی بی ایس او اور بی این پی کے جلسوں کی رپورٹنگ نہ کریں۔
(09)ملک محمد عارف :۔ملک محمد عارف کوئٹہ کے رہائشی تھے اور میڈیا کے ساتھ بطور کیمرہ مین منسلک تھے ایک طویل عرصہ تک پاکستان ٹیلی ویژن میں خدمات انجام دینے کے بعد نیوز ٹی وی چینل ” سماءنیوز “ کے ساتھ وابستگی اختیار کی کوئٹہ بیورو آفیس میں بطور سینئر کیمرہ مین فرائض انجام دے رہے تھے 16اپریل 2010ءکو شہر میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ پیش آیا تو حسب روایت کیمرے کے ساتھ وہ بھی اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ سول ہسپتال کے شعبہ حادثات میں کوریج کےلئے پہنچے لیکن تھوڑی دیر بعد وہاں ہونے والے خود کش حملے میں خود خبر بن گئے اور جان کی بازی ہار بیٹھے
(10)محمد سرور :۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں محمد سرور نجی ٹی وی چینل آج نیوز میں بطور ڈرائیور اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ کوئٹہ میں” یوم القدس کی ریلی کے دوران خود کش حملے اور فائرنگ میں 03ستمبر2010ءکو محمد سرور اپنی جان کی بازی ہار گئے۔
(11) اعجاز رئیسانی :۔ اعجاز احمد رئیسانی کوئٹہ کے نواحی علاقے سریاب کے رہائشی تھے محنتی نوجوان تھے مختلف نجی ٹی وی چینلز کے ساتھ بطور کیمرہ مین فرائض انجام دینے والے اس کہنہ مشق نے سماءنیوز کے ساتھ وابستگی اختیار کرلی 03ستمبر کو ہونے والی ”القدس ریلی“ کی کوریج کےلئے میزان چوک پر موجود تھے جہاں خود کش حملہ ہوگیا اور بعد میں ہونے والی فائرنگ کے دوران زخمی ہوئے ہسپتال میں 06ستمبر 2010ءکو ابدی نیند سو گئے
(12)الیاس نذر:۔ الیاس نذر بلوچستان کے ضلع کیچ تربت سے تعلق رکھتے تھے اور ایک طویل عرصے سے کراچی سے شائع ہونے والے روزنامہ” توار “مستونگ کے لئے کام کررہے تھے انہیں اغواءکرنے کے بعد قتل کردیا گیا اور ان کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاش 03جنوری 2011ء کو ملی ۔
(14)عبدوست رند :۔ بلوچستان سے شائع ہونے والے اخبار روزنامہ ”ایگل“ میں تربت سے رپورٹنگ کررہے تھے غیر جانبدارانہ پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کرنے والے 27سالہ عبدوست رند کو 18فروری2011ءکو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے گولیاں مار کر قتل کردیا ۔
(15)رحمت اللہ شاہین :۔ بلوچستان کے ضلع بولان مچھ سے تعلق رکھنے والے رحمت اللہ شاہین روزنامہ توار کےلئے رپورٹنگ کرتے تھے 18 مارچ 2011ءکو بلوچستان کے علاقے ڈھاڈر سے لاپتہ ہوگئے تھے اور یکم اپریل 2011ءکو ان کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاش کوئٹہ کے نواحی علاقے سریاب سے ملی ۔
(16)ظریف فراز :۔بلوچستان کے علاقے تربت سے تعلق رکھتے تھے تربت کے علاقے کلاتک سے ”شاجو“ کے نام سے ایک سہ ماہی میگزین شائع کرتے تھے اور اس کے چیف ایڈیٹر تھے جنہیں 21اپریل2011ءکو گوادر زیر پوائنٹ کے مقام پر نامعلوم افراد نے بس سے اتارا جس کے بعد 25اپریل2011ءکو تربت میں مرغاپ کے علاقے میں ظریف فراز کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاش ملی۔
(17)صدیق عیدو :۔ بلوچستان کے ساحلی علاقے پسنی سے تعلق رکھتے تھے صدیق عیدو حب سے شائع ہونیوالے اردو روزنامہ ’ایگل‘ کے لیے مکران میں رپورٹنگ کرتے اور گوادر میں انسانی حقوق کمیشن کے رکن تھے صدیق عیدو اور یوسف نظر 21 دسمبر 2010ءکو اس وقت نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں اغواءہوئے تھے جب وہ گوادر میں ایک عدالت میں پیشی کے بعد پولیس کی تحویل میں واپس پسنی جارہے تھے بلوچستان کے ساحلی شہر اورماڑہ کراس کے قریب 29اپریل2011ء کی صبح مقامی لیویز کو صدیق عیدو اور یوسف نظر کی تشدد زدہ لاشیں ملیں .
(18)منیراحمد شاکر:۔ منیر احمد شاکر چٹھہ قبائل سے تعلق رکھتے تھے ایک طویل عرصہ سے خبر رساں ادارے ” آن لائن انٹر نیشنل نیوز نیٹ ورک“ کےلئے خضدار سے رپورٹنگ کررہے تھے اس کے علاوہ وہ بلوچی زبان کے نیوز چینل ”سبز بات “ کے لئے بھی خدمات انجام دے رہے تھے ۔ 14اگست2011ءکو منیر کو نامعلوم موٹر سائیکل سوار مسلح افراد نے اس وقت فائرنگ کرکے قتل کردیا جب پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر بلوچ علیحدگی پسندوں کی اپیل پر یوم سیاہ کی رپورٹنگ اور کوریج کرکے پریس کلب کی طرف آرہے تھے بلوچستان کے علاقے خضدار میں آن لائن انٹر نیشنل نیوز نیٹ ورک کے رپورٹر منیر احمد شاکر سمیت تمام صحافیوں کو بلوچ قوم پرستوں بالخصوص بلوچ علیحدگی پسندوں کے پروگراموں میں شرکت اور ان کی کوریج کرنے سے منع کرتے ہوئے بلوچ مسلح دفاعی آرمی نامی تنظیم نے سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی۔
(19)اختر مرزا :۔اختر مرزا بلوچستان کے سینئر صحافی اور روزنامہ جنگ کوئٹہ کے ایڈیٹر تھے 16اکتوبر2011ءکو حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے۔ اختر مرزا بلوچستان ہائی کے اس فیصلے کے بعد سخت ذہنی دباو¿ میں تھے جس میں ذرائع ابلاغ کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ کالعدم تنظیموں کے بیانات شائع کرنے سے باز رہیںہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد کالعدم تنظیموں نے صحافیوں پر دباو¿ ڈالا اور اصرار کیا کہ ان کے بیانات ہر صورت میں نشر اور شائع ہونگے کالعدم تنظیموں کے صحافیوں پر دباو¿ کےخلاف بلوچستان یونین آف جرنلسٹ نے یکم اکتوبر2011ءکو بلوچستان بھر میں احتجاج بھی کیا ۔
(20)جاوید نصیر رند :۔ جاوید نصیر رند بلوچستان کے علاقے حب سے تعلق رکھتے تھے اور کراچی سے شائع ہونے والے روزنامہ توار کےلئے رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ کالم نویسی بھی کرتے تھے بلوچستان کے مخصوص حالات کے پیش نظر انہوں نے روزنامہ توار کو خیر باد کہہ دیا اور حب شہر میں انٹر نیٹ کیفے کھولا ،حب کے مقامی صحافی نیاز شہزاد کے مطابق جاوید نصیر اپنے نیٹ کیفے میں بیٹھے تھے کہ10ستمبر2011ءکو مسلح افراد نے انہیں اغواءکرلیا اور ڈیڑھ ماہ سے زائد کا عرصہ غائب رہنے والے جاوید نصیر کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاش 05نومبر2011ءکو خضدار گزگی چوک سے برآمد ہوئی ۔
(21)رزاق گل بلوچ :۔ بلوچستان کے ضلع کیچ تحصیل تربت میں سنگانی سر سے تعلق رکھنے والے رزاق گل بلوچ نے اپنے صحافتی سفر کا آغاز روزنامہ ”توار“ سے کیا بعد ازاں وہ روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس نیوز ٹی وی چینل کے ساتھ وابستہ ہوگئے 18مئی 2012ءکو ایک نامعلوم فون کال سننے کے بعد رزاق گل گھر سے باہر نکلے واپس نہیں پہنچے 19مئی کو علی الصبح گھر کے قریب ان کی لاش ملی ۔
(23) عبدالقادر حاجی زئی :۔عبدالقادر حاجی زئی بلوچی نیوز چینل ”وش“ میں بطور رپورٹر فرائض انجام دے رہے تھے 28مئی کو واشک تحصیل بیسمہ میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے لقمہ اجل بن گئے عبدالقادر حاجیزئی کے قتل کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان بشام بلوچ نے قبول کی اور دعویٰ کیا کہ مذکورہ صحافی بلوچ دشمن سرگرمیوں میں ملوث تھا اور سرکار کےلئے مخبری کرتا تھا جس پر اسے نشانہ بنایا گیا۔
(24دلشاد دھانی:۔ دلشاد دھانی گوادر پریس کلب کے جوائنٹ سیکرٹری تھے اور گذشتہ بارہ سال سے روزنامہ آزادی کےلئے بظور نامہ نگار فرائض انجام دے رہے جنہیں 31اگست2012ءکو کراچی کے علاقے لیاری میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا دلشاد دھانی گوادر سے کراچی پی ایف یو جے کی ایک ورکشاپ میں شرکت کےلئے گئے ہوئے تھے
(25)عبدالحق بلوچ :۔ عبدالحق بلوچ گذشتہ 12سال سے صحافت کے شعبہ سے وابستہ تھے خضدار سے روزنامہ توار ،روزنامہ عوام کوئٹہ اور نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کےلئے فرائض انجام دے رہے اور خضدار پریس کلب میں جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے 29ستمبر 2012ءکی شام پریس کلب سے گھر کی طرف جارہے تھے کہ نامعلوم موٹر سائیکل سوار مسلح افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا
(26)خالد موسیٰ:بلوچستان کے ضلع کیچ تربت میں کراچی کے موقر اردو روزنامہ’ امت‘ کے نمائندے خالد موسیٰ کو23اکتوبر2012ءنامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے اس وقت موت کی نیند سلادیا جب وہ نماز ظہر ادا کرنے جا رہے تھے قتل کے واقعہ کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ نے قبول کی۔

خضدارپریس کلب کے صدر ندیم گرگناڑی کے دو جوانسال صاحبزادوں 27 سالہ سراج ندیم اور 20 سالہ منظور ندیم پر 25اکتوبر2012 کو نامعلوم مسلح افراد نے خضدار شہر میں اس وقت حملہ کیا جب وہ ایک کار میں عید گاہ روڈ سے گزر رہے تھے فائرنگ سے سراج ندیم موقع پر جاں بحق جبکہ منظور ندیم زخمی ہو گئے تھے منظور ندیم خضدار میں ہی زیر علاج تھے کہ 26اکتوبر2012ء کو زخموں کی تاب نہ لا تے ہوئے چل بسے

(27)عبدالاحد بلوچ:عبدالاحدبلوچ بلوچستان کے ضلع پنجگور سے مو¿قر اردو روزنامہ آج کل کےلئے ایک طویل عرصہ تک فرائض انجام دیتے رہے نامعلوم مسلح افراد نے 15نومبر2012ءکو پنجگور کے علاقے گرمکان میں اندھا دھند فائرنگ کرکے موت کی نیند سلادیا

) (28رحمت اللہ عابد:۔رحمت اللہ عابد گذشتہ پانچ چھ سال سے بلوچستان کے ضلع پنجگور سے سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹ پریس پاکستان اور نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے لئے رپورٹنگ کررہے تھے 18نومبر 2012ءکو نامعلوم مسلح افراد نے پنجگور کے علاقے وش بود میں انہیں اس وقت نشانہ بناکر قتل کردیا جب وہ حجام کی دکان سے بال بنوا کر نکل رہے تھے۔

(30)سیف الرحمن بلوچ :۔سیف الرحمن بلوچ نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز روزنامہ آساپ سے کیا ایک طویل عرسہ تک کراچی میں بیورو چیف کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے بعد ازاں کوئٹہ منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے آساپ کے ساتھ وابستگی برقرار رکھی اور پھر نیوز ون کے ساتھ منسلک ہوگئے 2010ءمیں انہوں نے سماءنیوز کے ساتھ وابستگی اختیار 10جنوری 2013ءکو علمدار روڈ پر ہونے والے خود حملہ کی کوریج کےلئے پہنچے اور خود خبر بن گئے علمدار روڈ پر ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی نے قبول کی

(31)محمد عمران شیخ: بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں نجی ٹی وی چینل سماءنیوز کے ساتھ 35سالہ محمد عمران شیخ گذشتہ پانچ سال سے بطور کیمرہ مین اپنے فرائض انجام دے رہے تھے 10جنوری 2013ءکوئٹہ کے علاقے علمدار روڈ پر یکے بعد دیگرے ہونے والے بم دھماکوں کی کوریج کے دوران جان بحق ہوگئے بم دھماکوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے ترجمان ابوبکر صدیق نے قبول کی

(32)محمد اقبال :۔ محمد اقبال صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں گذشتہ پانچ سال سے خبر رساں ادارے نیوز نیٹ ورک انٹرنیشنل (این این آئی) کے ساتھ بطور کمپیوٹر آپریٹر اور فوٹو جرنلسٹ کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے 10جنوری2013ءکو علمدار روڈ پر ہونے والے بم دھماکے کی کوریج کےلئے گئے جہاں دوسرا دھماکہ ہوا زد میں آکر جاں بحق ہوگئے واقعہ کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے ترجمان ابوبکر صدیق نے قبول کی ۔


اور ان سب واقعات کے باوجود کوئٹہ کے کسی صحافی نے صحافت سے تعلق ترک نہیں کیا۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
جی ھاں یہ دھماکے وھابیوں نے ہی کیے ہیں۔۔۔ ۔۔۔ لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ سر عام اپنی تنظیمیں چلا رہے ہیں۔۔۔ ۔۔ یہ حقیقت ہے کہ ہماری فوج اور عدالتوں تک میں تکفیری فرقوں کے لوگ گھسے ہوئے ہیں۔۔۔ خادم الحرمین کہلانے والے لوگ بھی پیسے دے کر یہ سارے کام کروا رہے ہیں۔۔۔
ضرورت اس امر کی ہے ہماری فوج کو، عدالتوں کو، تعلیمی اداروں کو، غرض ہر ادارے کو ان تکفیریوں سے آزاد اور پاک کیا جائے۔۔۔ ۔۔ اور وطن دوست لوگوں کو آگے لایے جایں۔۔
باقی رہی بات ہماری ایجنسیوں کی تو وہ خود ان دھماکوں میں براہ راست ملوث ہیں۔
کیونکہ یا تو ان کو ان دھماکوں کی اطلاع ہی نہیں ہیں۔۔۔ ۔۔۔ پھر تو یہ ان کی ناکامی ہے اور ان کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔۔۔ ۔۔
اور اگر اطلاع تھی اور یقینا تھی تو یہ ایجنسیاں خود ملوث ہیں۔۔
ظاہر سی بات ہے پیسے آنکھین اندھی کر دیتے ہیں۔۔۔ ۔ یہ سارے لوگ بکے ہوئے ہیں۔
اللہ تعالی پاکستان پر رحم فرما دے ۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔

آپ کی کچھ باتوں سے متفق نہیں ہوں ۔۔۔ لیکن یہ بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہیں ۔۔۔
 

زین

لائبریرین
جن عناصر کے ایسے متشدد نظریات ہیں اُن سے ہماری موقع پرست سیاسی جماعتیں بھی ساز باز کرنے میں لگی رہتی ہیں۔ یہ دیکھیے، نواز لیگ اور سپاہِ صحابہ کی انتخابی گٹھ جوڑ کا احوال: (خبر ستمبر کی ہے، لیکن برمحل ہے۔)

17106_10151281611618059_396574653_n.jpg


ربط
خبر کا ایک حصہ تو درست ثابت ہوگیا کہ مشتاق سیکھرا کو آج آئی جی بلوچستان تعینات کردیا گیا ہے
 

زین

لائبریرین
سانحہ ہزارہ ٹاؤن سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دہشتگردوں نے دھماکا خیزمواد واٹر ٹینکر کے اندر مائع شکل میں تیار کیا جسے پانی کے ٹینکر میں ہزارہ ٹاﺅن لے جایا گیا ، واقعہ میں صرف دس کلوگرام بارودی مواد جبکہ ایک ہزار کلو گرام ڈیزل، چینی، المونیم پاوڈر، پوٹاشیم کلورائیڈ، امونیم نائٹریٹ اور فاسفورس کیمیکل استعمال کیا گیا، دھماکے میں استعمال کرنے کے لیے کیمیکل لاہور کی اکبری منڈی میں واقع وارث کیمیکل سے منگوایا گیا ، کیمیکل خریدنے والے شخص کو لاہور سے گرفتار کرلیا گیا۔

نجی ٹی وی کے مطابق حساس اداروں اور تکنیکی ماہرین نے دھماکے کی رپورٹ تیار کی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بم ہزار گنجی کے ایک گیراج میں تیار کیا گیا جس کے لئے کیمیکل لاہورکے اکبری منڈی سے لایا گیا تھا، اس سے پہلے اس طرح کے بم اسلام آباد کی میرٹ ہوٹل ،کراچی میں سی آئی ڈی کی عمارت اور لاہورکے ایف آئی اے دفتر میں استعمال ہوا تھا ۔دھماکے میں صرف دس کلوگرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ اس کے علاوہ پوٹاشیم کلورائیڈ، امونیم نائٹریٹ اور فاسفورس کیمیکل بھی استعمال کیا گیا جس میں ڈیزل، چینی اور المونیم پاوڈر مکس کیا گیا۔ مائع کیمکلز کے ساتھ دس کلو گرام بارودی مواد کا اثر ایک ہزار کلوگرام بارودی مواد کے برابر ہوا۔ دھماکا ہوتے ہی دس ہزار میٹر فی سیکنڈ کی شاک ویوز پیدا ہوئی جس نے آس پاس کی عمارتوں کو تباہ کردیا۔ واقعے میں ہلاکتوں کی بڑی تعداد عمارتوں کے ملبے تلے آجانے یا آگ سے جھلس جانے سے ہوئیں جس کے باعث ابھی بھی متعدد لاشیں ناقابل شناخت ہیں۔ ماہرین کی رپورٹ کے مطابق ہزارہ ٹاﺅن میں پانی کی قلت کے باعث روزانہ سو سے ایک سو بیس واٹر ٹینکرز کا آنا جانا معمول جس میں ایک ایک ٹینکر کو چیک کرنا ممکن نہیں، دھماکہ خیز مواد سے بھرے ٹینکر کو ہزارگنجی کی ورکشاپ میں تیار کیا گیا۔ د رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی ایجنسیز کے ڈیٹیکٹر کھاد یا اس قسم کے کیمکلز ڈیٹیکٹ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اس لیے الگ الگ شکلوں میں آنے والے کیمیکلز کو روکا نہیں جا سکتا۔دریں اثناءلاہور کے علاقے اکبر منڈی سے وارث نامی شخص کو پولیس نے حراست میں لیا ہے جس نے دھماکے میں استعمال ہونےوالا کیمیکل خریدا تھا ۔ بتایا جاتا ہے کہ حساس اداروں نے کیمیکل کی خریدو فروخت کے تمام دستاویزات بھی تحویل میں لے لئے ہیں ۔ مذکورہ کارروائی پہلے سے گرفتار ملزمان کے انکشاف کے بعد کی گئی ہے ۔گرفتار ہونے والے ملزم کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے ۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
سانحہ ہزارہ ٹاؤن سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دہشتگردوں نے دھماکا خیزمواد واٹر ٹینکر کے اندر مائع شکل میں تیار کیا جسے پانی کے ٹینکر میں ہزارہ ٹاﺅن لے جایا گیا ، واقعہ میں صرف دس کلوگرام بارودی مواد جبکہ ایک ہزار کلو گرام ڈیزل، چینی، المونیم پاوڈر، پوٹاشیم کلورائیڈ، امونیم نائٹریٹ اور فاسفورس کیمیکل استعمال کیا گیا، دھماکے میں استعمال کرنے کے لیے کیمیکل لاہور کی اکبری منڈی میں واقع وارث کیمیکل سے منگوایا گیا ، کیمیکل خریدنے والے شخص کو لاہور سے گرفتار کرلیا گیا۔

نجی ٹی وی کے مطابق حساس اداروں اور تکنیکی ماہرین نے دھماکے کی رپورٹ تیار کی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بم ہزار گنجی کے ایک گیراج میں تیار کیا گیا جس کے لئے کیمیکل لاہورکے اکبری منڈی سے لایا گیا تھا، اس سے پہلے اس طرح کے بم اسلام آباد کی میرٹ ہوٹل ،کراچی میں سی آئی ڈی کی عمارت اور لاہورکے ایف آئی اے دفتر میں استعمال ہوا تھا ۔دھماکے میں صرف دس کلوگرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ اس کے علاوہ پوٹاشیم کلورائیڈ، امونیم نائٹریٹ اور فاسفورس کیمیکل بھی استعمال کیا گیا جس میں ڈیزل، چینی اور المونیم پاوڈر مکس کیا گیا۔ مائع کیمکلز کے ساتھ دس کلو گرام بارودی مواد کا اثر ایک ہزار کلوگرام بارودی مواد کے برابر ہوا۔ دھماکا ہوتے ہی دس ہزار میٹر فی سیکنڈ کی شاک ویوز پیدا ہوئی جس نے آس پاس کی عمارتوں کو تباہ کردیا۔ واقعے میں ہلاکتوں کی بڑی تعداد عمارتوں کے ملبے تلے آجانے یا آگ سے جھلس جانے سے ہوئیں جس کے باعث ابھی بھی متعدد لاشیں ناقابل شناخت ہیں۔ ماہرین کی رپورٹ کے مطابق ہزارہ ٹاﺅن میں پانی کی قلت کے باعث روزانہ سو سے ایک سو بیس واٹر ٹینکرز کا آنا جانا معمول جس میں ایک ایک ٹینکر کو چیک کرنا ممکن نہیں، دھماکہ خیز مواد سے بھرے ٹینکر کو ہزارگنجی کی ورکشاپ میں تیار کیا گیا۔ د رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی ایجنسیز کے ڈیٹیکٹر کھاد یا اس قسم کے کیمکلز ڈیٹیکٹ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اس لیے الگ الگ شکلوں میں آنے والے کیمیکلز کو روکا نہیں جا سکتا۔دریں اثناءلاہور کے علاقے اکبر منڈی سے وارث نامی شخص کو پولیس نے حراست میں لیا ہے جس نے دھماکے میں استعمال ہونےوالا کیمیکل خریدا تھا ۔ بتایا جاتا ہے کہ حساس اداروں نے کیمیکل کی خریدو فروخت کے تمام دستاویزات بھی تحویل میں لے لئے ہیں ۔ مذکورہ کارروائی پہلے سے گرفتار ملزمان کے انکشاف کے بعد کی گئی ہے ۔گرفتار ہونے والے ملزم کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے ۔

حساس اداروں کا کام کیا ہوتا ہے؟ خفیہ ایجنسیاں کن خطوط پر کام کرتی ہیں؟ سیدھی سی بات ہے کہ ایجنسیاں بھی کسی حد تک ملوث ضرور ہیں وگرنہ کوئٹہ میں آگ اور خون کا یہ کھیل اس تواتر سے جاری نہ رہتا ۔۔۔ اب جب عدالت کی طرف سے دباؤ بڑھ رہا ہے تو کچھ نہ کچھ تو "کارکردگی" دکھائیں گے یہ لوگ ۔۔۔ لیکن میں تو یہی کہوں گا ۔۔۔ افسوس، صد افسوس!
 
Top