فراز کل رات ہم سخن کوئی بُت تھا خدا کہ میں - از احمد فراز

فرخ منظور

لائبریرین
کل رات ہم سخن کوئی بُت تھا خدا کہ میں
میں سوچ ہی رہا تھا کہ دل نے کہا کہ میں

تھا کون جو گرہ پہ گرہ ڈالتا رہا
اب یہ بتا کہ عقدہ کشا تُو ہوا کہ میں

جب سارا شہر برف کے پیراہنوں میں تھا
ان موسموں میں لوگ تھے شعلہ قبا کہ میں

جب دوست اپنے اپنے چراغوں کے غم میں تھے
تب آندھیوں کی زد پہ کوئی اور تھا کہ میں

جب فصل ِ گل میں فکر ِ رفو اہل ِ دل کو تھی
اس رُت میں بھی دریدہ جگر تُو رہا کہ میں

کل جب رُکے گا بازوئے قاتل تو دیکھنا
اے اہل ِ شہر تم تھے شہید ِ وفا کہ میں

کل جب تھمے گی خون کی بارش تو سوچنا
تم تھے عُدو کی صف میں سر ِ کربلا کہ میں
 

عمر سیف

محفلین

جب سارا شہر برف کے پیراہنوں میں تھا
ان موسموں میں لوگ تھے شعلہ قبا کہ میں

جب دوست اپنے اپنے چراغوں کے غم میں تھے
تب آندھیوں کی زد پہ کوئی اور تھا کہ میں


خوب ۔۔۔
 
Top