کلامِ شاعر بقلمِِ شاعر

ش زاد

محفلین
اپنی جب اپنے پاوں پہ دستار گِر پڑی
کیوں قاتِلوں ک ہاتھ سے تلوار گِر پڑی
پہلے تو لوگ سائہِ دیوار پر گِرے
پھِر اُس ک بعد اُن پہ وہ دیوار گِر پڑی

ش زاد
 

ش زاد

محفلین
حضرت آپ نے درست فرمایا آپ کی محفل میں نئے ہیں ٹائپ کرنے میں مشکلات درپیش ہیں آپ کو برداشت تو کرنا ہی پڑ:ے گا:cry:
 

ش زاد

محفلین
اُس سے بھی اپنی دھوپ ہٹائے بنے نہیں
ہم سے بھی اپنی چھاؤں بنائے بنے نہیں

اُس رات سے بچائیو یارب ک جب دِیا
روشن کیا نہ جائے ، بجھائے بنے نہیں

ایسا نہ دور آئے کسی خستہ حال پر
جب اپنے سر کا بار اُٹھائے بنے نہیں

دُشوار خُد کو کر دیا اِتنا ترے لیے
اب تُجھ سے میرا ساتھ نبھائے بنے نہیں

آرائشِ جمال کے شائق ہو تم تو کیوں؟
زُولفیں بکیرے سامنے آئے بنے نہیں

ہم تو اُتار لائے ہیں خوُرشید صحن میں
لیکِن نہ تھے نصیب میں سائے بنے نہیں

ش زاد​
 

مغزل

محفلین
شین زاد، عنایت یا شہزاد کہیئے ۔۔ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ جناب
کچھ عرصے قبل ہی ملک کے ایک دورافتادہ مقام سے کراچی تشریف
لائے ہیں ۔۔ اور مجھے شرفِ کلام و محبت بخشا ۔۔ نستعلیق شخصیت ہیں
اورجلد گھل مل جانے والے ہیں ۔۔۔ مگر لگتا ہے کہ کہیں لاشعوری طور پر
مردم گزیدگی کا تاثر لیے ہوئے ہیں جبھی شہر کراچی کے سرحدی علاقے
گلشنِ حدید میں ۔۔۔۔۔ ’’ بن ‘‘ یاترا کررہے ہیں ۔۔

میری جانب سے شین زاد کو محفل میں صمیمِ قلب سے خوش آمدید۔
امید ہے کہ جناب کا یہاں یہ صرف دل لگے گا بلکہ یہاں جناب کی آمد
ہمارے دلوں کو جلاعطا کرے گی۔

نیازمند و نازاں
م۔م۔مغل
 

الف عین

لائبریرین
خوش آمدید شہرزاد.
بھئی ناظم لوگو. اس کے کچھ پیغامات کو تعارف میں شفٹ کر دیں.
اور اس موضوع کا عنوان بھی بدل دیں، بزبانِ شاعر دیکھ کر سمجھا کہ آڈیو کی بات ہے کچھ یہاں.
شہرزاد. غزل اچھی ہے. البتہ ردیف میں بنے نہیں کی جگہ اگر ’نہیں بنے‘ ہو تو روانی بہتر نہیں ہو جاتی؟ کیا خیال ہے نوید، وارث، محمود؟
 

مغزل

محفلین
صحیح فرماتے ہیں حضور ۔۔
پڑھتے ہی میرے ذہن میں بھی یہی خیال آیا تھا۔
پاسِ ادب سے خموش رہا کہ ’’ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است ‘‘

مگر باباجانی :
اُس سے بھی اپنی دھوپ ہٹائے نہیں بنی / بنے
ہم سے بھی اپنی چھاؤں بنائے نہیں بنی / بنے
یہاں ایک عجیب مخمصے کا شکار ہوگیا ہوں ۔۔ اسے رفع کیجئے ۔۔
کہ ’’ کچھ اور سمجھ میں نہیں مرے ہمدم ‘‘ والا معاملہ ہے۔


شکریہ باباجانی
 

ش زاد

محفلین
حضور آپ احباب کا بہت شُکریہ

جناب آپ کے کہنے پر عنوان میں تبدیلی کر دی گئ ہے
رہی ردیف کی بات تو حضرات میں نے اِس پہلو پر کافی سوچا مگر مُجھے"" بنے نہیں"" ہی بہتر لگتا ہے
ویسے اساتزہ کے ہاں نہیں بنے کی ردیف میں بہت زیادہ کہا گیا ہے
رِوایت سے بچنے کی غرض سے بھی ردیف "" بنے نہیں"" رکھی گئ ہے اِس سے وزن میں کوئی فرق نہیں آتا

مُغل صاحب آپ نے مطلع میں جو نُقطہ اُٹھا یا ہے اُس کی وضاحت چاہتا ہوں حضوُر​

HTML:
اُس سے بھی اپنی دھوپ ہٹائے نہیں بنی / بنے
ہم سے بھی اپنی چھاؤں بنائے نہیں بنی / بنے
 

الف عین

لائبریرین
’نہیں بنے میں روانی بھی ہے اور ماضی کا صیغہ نہیں بلکہ شکیہ یا تمنائی بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ محمود میاں کا یہی مخمصہ ہے کہ نہیں بنے کی صورت میں ’نہیں بنی‘ کا محل ہو جاتا ہے۔ شہرزاد سمجھے نہیں۔ یہی بات تھی نا؟
 

مغزل

محفلین
شکریہ باباجانی ، یہی بات مجھے کھٹک رہی تھی۔
شین زاد بھیا ۔۔ امید ہے اب میرے لکھنے کی ضرورت نہ رہی ہوگی۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اپنی جب اپنے پاوں پہ دستار گِر پڑی
کیوں قاتِلوں ک ہاتھ سے تلوار گِر پڑی
پہلے تو لوگ سائہِ دیوار پر گِرے
پھِر اُس ک بعد اُن پہ وہ دیوار گِر پڑی

ش زاد
جس طرح سائہِ دیوار پہ دیوار گِرے (شکیب )



بہت خوب اچھا قطعہ ہے
 

ش زاد

محفلین
جس طرح سائہِ دیوار پہ دیوار گِرے (شکیب )

""مُجھکو گِرنا ہے تو پِھر اپنے ہی قدموں پہ گِروں
جس طرح سائہِ دیوار پہ دیوار گِرے""

(شکیب )
حضرت آپ کا اِشارہ اِس ہی شعر کی ظرف ہے
بہت فرق ہے دونو کے کےخیال اور بُنت میں
 

ش زاد

محفلین
اس حسنِ بے مثال کے ایسے اثر میں ہوں
کہ آپ اپنے واسطے میں اب خبر میں ہوں

میں ہوں زمیں نورد، زمیں ہے خلاء نورد
یہ اک سفر میں اور میں سفر در سفر میں ہوں

آئینہ روُ کے رُخ سے گرا ہے نقاب اور
گم اُس کے بعد آپ میں اپنی نظر میں ہوں

خورشید کے وجود سے ہوگا مرا وجود
میں سائہِ شجر ہوں اور پنہاں شجر میں ہوں

شہزاد آج اس کے جلو میں کہی غزل
جو میرے شوق اور میں جس کے شرر میں ہوں

ش زاد
 

الف عین

لائبریرین
کئی اشعار توجہ چاہتے ہیں، ویسے غزل اچھی ہے۔
اس حسنِ بے مثال کے ایسے اثر میں ہوں
کہ آپ اپنے واسطے میں اب خبر میں ہوں

دوسرے مصرعے کا مفہوم واضح نہیں
میں ہوں زمیں نورد، زمیں ہے خلاء نورد
یہ اک سفر میں اور میں سفر در سفر میں ہوں

دوسرے مصرعے میں لفظ ’میں‘ (دونوں معانی میں( ی اور غنہ کا بار بار گرنا اچھا نہیں لگتا۔
خورشید کے وجود سے ہوگا مرا وجود
میں سائہِ شجر ہوں اور پنہاں شجر میں ہوں

دوسرا مصرعہ پٹری سے اتر گیا ہے۔
 

ش زاد

محفلین
کئی اشعار توجہ چاہتے ہیں، ویسے غزل اچھی ہے۔
اس حسنِ بے مثال کے ایسے اثر میں ہوں
کہ آپ اپنے واسطے میں اب خبر میں ہوں

دوسرے مصرعے کا مفہوم واضح نہیں
میں ہوں زمیں نورد، زمیں ہے خلاء نورد
یہ اک سفر میں اور میں سفر در سفر میں ہوں

دوسرے مصرعے میں لفظ ’میں‘ (دونوں معانی میں( ی اور غنہ کا بار بار گرنا اچھا نہیں لگتا۔
خورشید کے وجود سے ہوگا مرا وجود
میں سائہِ شجر ہوں اور پنہاں شجر میں ہوں

دوسرا مصرعہ پٹری سے اتر گیا ہے۔

بہت شکریہ اعجاز صاحب میں دوبارہ دیکھتا ہوں ان اشعار کو
 

مغزل

محفلین
اس حسنِ بے مثال کے ایسے اثر میں ہوں
کہ آپ اپنے واسطے میں اب خبر میں ہوں

میں ہوں زمیں نورد، زمیں ہے خلاء نورد
یہ اک سفر میں اور میں سفر در سفر میں ہوں

آئینہ روُ کے رُخ سے گرا ہے نقاب اور
گم اُس کے بعد آپ میں اپنی نظر میں ہوں

خورشید کے وجود سے ہوگا مرا وجود
میں سائہِ شجر ہوں اور پنہاں شجر میں ہوں

شہزاد آج اس کے جلو میں کہی غزل
جو میرے شوق اور میں جس کے شرر میں ہوں

ش زاد

میرے دوست ، شین زاد
آداب و سلام مسنون
اوّل تو ایک گزارش کہ اپنا ہر کلام الگ الگ موضوع کے تحت پیش کریں
تو کیا ہی اچھا ہوگا کہ میں کئی بار یہ سوچ کر گزرگیا کہ اس تھریڈ پر بات تو ہوچکی۔
امید ہے آپ کرم کیجئے گا ۔

اس حسنِ بے مثال کے ایسے اثر میں ہوں
کہ آپ اپنے واسطے میں اب خبر میں ہوں

خوب مطلع ہے اور کیا ہی اچھا شعر ہے واہ

میں ہوں زمیں نورد، زمیں ہے خلاء نورد
یہ اک سفر میں اور میں سفر در سفر میں ہوں

اچھے رخ سے کہا ہے ، باقی میں میں کے غنہ کی بابت باباجانی نے نشاندہی کردی ہے ،
مجھے جناب کی بات سے مکمل اتفاق ہے وگرنہ تقطیع میں مصرع بحر میں ہے ۔


آئینہ روُ کے رُخ سے گرا ہے نقاب اور
گم اُس کے بعد آپ میں اپنی نظر میں ہوں

شعر محمل ہونے کی حد تک مبہم ہے ، بلکہ یوں کہا جائے کہ معانی بہ بطنِ شاعر
تو بے جا نہ ہوگا ، یہ اور بات کہ میں بحیثیت شاعر اس سے معانی کشید کرہی لوں، حقیقی معاملات پر کنایہ
بھی کافی ہوتا ہے مگر ، مسلمات کا فسلفہ ۔۔۔ مزید بہتر ہوسکتا ہے ۔ شکریہ


خورشید کے وجود سے ہوگا مرا وجود
میں سائہِ شجر ہوں اور پنہاں شجر میں ہوں

اچھا شعر ہے ۔۔ وجود سے مرادی معنی ظہور کے لیے جائیں (یا وجود کو ظہورکردیا جائے تو خوب ہوگا)
تو بھی داخلی کیفت کی عکاسی ہے ۔۔ مگر مصرع ثانی میں ’’ اور ‘‘ محلِ نظر ہے اور بحر سے خارج ہونے کاسبب بھی ۔ اسے رخصت دیجئے
تو میرے خیال میں مصرع وزن میں ہوجائے گا۔ (یہی بات بابا جانی بھی فرماچکے ) ۔۔۔۔۔ بہت شکریہ


شہزاد آج اس کے جلو میں کہی غزل
جو میرے شوق اور میں جس کے شرر میں ہوں

مقطع بھی خوب ہے ۔۔ اچھا بیانیہ ہے ۔۔
مگر شعریت، نے شہریت اختیارکرلی ہے ۔

تمھاری محبتوں اور دعاؤں کا طالب ۔
تمھارا دوست
م۔م۔مٍغل
 

ش زاد

محفلین
میرے دوست ، شین زاد
آداب و سلام مسنون
اوّل تو ایک گزارش کہ اپنا ہر کلام الگ الگ موضوع کے تحت پیش کریں
تو کیا ہی اچھا ہوگا کہ میں کئی بار یہ سوچ کر گزرگیا کہ اس تھریڈ پر بات تو ہوچکی۔
امید ہے آپ کرم کیجئے گا ۔

اس حسنِ بے مثال کے ایسے اثر میں ہوں
کہ آپ اپنے واسطے میں اب خبر میں ہوں

خوب مطلع ہے اور کیا ہی اچھا شعر ہے واہ

میں ہوں زمیں نورد، زمیں ہے خلاء نورد
یہ اک سفر میں اور میں سفر در سفر میں ہوں

اچھے رخ سے کہا ہے ، باقی میں میں کے غنہ کی بابت باباجانی نے نشاندہی کردی ہے ،
مجھے جناب کی بات سے مکمل اتفاق ہے وگرنہ تقطیع میں مصرع بحر میں ہے ۔


آئینہ روُ کے رُخ سے گرا ہے نقاب اور
گم اُس کے بعد آپ میں اپنی نظر میں ہوں

شعر محمل ہونے کی حد تک مبہم ہے ، بلکہ یوں کہا جائے کہ معانی بہ بطنِ شاعر
تو بے جا نہ ہوگا ، یہ اور بات کہ میں بحیثیت شاعر اس سے معانی کشید کرہی لوں، حقیقی معاملات پر کنایہ
بھی کافی ہوتا ہے مگر ، مسلمات کا فسلفہ ۔۔۔ مزید بہتر ہوسکتا ہے ۔ شکریہ


خورشید کے وجود سے ہوگا مرا وجود
میں سائہِ شجر ہوں اور پنہاں شجر میں ہوں

اچھا شعر ہے ۔۔ وجود سے مرادی معنی ظہور کے لیے جائیں (یا وجود کو ظہورکردیا جائے تو خوب ہوگا)
تو بھی داخلی کیفت کی عکاسی ہے ۔۔ مگر مصرع ثانی میں ’’ اور ‘‘ محلِ نظر ہے اور بحر سے خارج ہونے کاسبب بھی ۔ اسے رخصت دیجئے
تو میرے خیال میں مصرع وزن میں ہوجائے گا۔ (یہی بات بابا جانی بھی فرماچکے ) ۔۔۔۔۔ بہت شکریہ


شہزاد آج اس کے جلو میں کہی غزل
جو میرے شوق اور میں جس کے شرر میں ہوں

مقطع بھی خوب ہے ۔۔ اچھا بیانیہ ہے ۔۔
مگر شعریت، نے شہریت اختیارکرلی ہے ۔

تمھاری محبتوں اور دعاؤں کا طالب ۔
تمھارا دوست
م۔م۔مٍغل
مغل بھائی آپ پر بھی سلامتی ہو
حضور بہت بہت نوازش آپ نے میرے کلام پر نظرِ کرم فرمائی
ابھی دوبارا پیش کرتا ہوں غزل

شکریہ
مخلص

ش زاد
 

ش زاد

محفلین
اس حسنِ بے مثال کے ایسے اثر میں ہوں
کہ آپ اپنے واسطے میں اب خبر میں ہوں

میں ہوں زمیں نورد، زمیں ہے خلاء نورد
یہ اک سفر میں ہے، میں سفر در سفر میں ہوں

خورشید کے ظہور سے ہوگا مرا وجود
سائہِ شجر ہوں میں پنہاں شجر میں ہوں

شہزاد آج اس کے جلو میں کہی غزل
جو میرے شوق اور میں جس کے شرر میں ہوں

ش زاد
 

مغزل

محفلین
اس حسنِ بے مثال کے ایسے اثر میں ہوں
کہ آپ اپنے واسطے میں اب خبر میں ہوں

میں ہوں زمیں نورد، زمیں ہے خلاء نورد
یہ اک سفر میں ہے، میں سفر در سفر میں ہوں

شہزاد آج اس کے جلو میں کہی غزل
جو میرے شوق اور میں جس کے شرر میں ہوں

ش زاد

بہت شکریہ شین زاد ۔ سدا سلامت رہو ۔

خورشید کے ظہور سے ہوگا مرا وجود
سائہِ شجر ہوں میں پنہاں شجر میں ہوں

مصرع ثانی سے اور نکال دیتے اور سو لگادیتے ۔۔ اب تو بحر ہی بدل گئی ۔
ناگوار نہ گزرے ۔۔ دیکھنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں یوں کہہ رہا تھا ۔۔

خورشید کے ظہور سے ہوگا مرا وجود
میں سایہ ِ شجر ہوں ، سو پنہاں شجر میں ہوں

اچھا ایک بات میں نے یہی مراسلہ کہیں اور بھی پیش کیا تھا ۔۔ دیکھ لینا ۔
والسلام
م۔م۔مغل
 
Top