جاسمن

لائبریرین
میں سوچتا ہوں جاؤں کسی سبزہ زار کو
لے کر کوئی کتاب، کسی سہ پہر کو میں
محمد احمد
 

جاسمن

لائبریرین
گلاب رت میں یہ زردیوں کے نقوش چہرے پہ دیکھ لینا
ہمارے بارے میں کچھ نہ کہنا پہ عبرتوں کی کتاب لکھنا
پروفیسر ڈاکٹر طاہر تونسوی
 

جاسمن

لائبریرین
کہاں کے مکتب و ملّا کہاں کے درس و نصاب
بس اک کتابِ محبت رہی ہے بستے میں
احمد فراز
 

سلیم ستار

محفلین
رمز
جون ایلیا


تم جب آؤگی تو کھویا ہوا پاؤگی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر
ان میں اک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن
مژدۂ عشرت انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا
 

جاسمن

لائبریرین
مضمون سوجھتے ہیں ہزاروں نئے نئے
قاصد یہ خط نہیں مرے غم کی کتاب ہے
نظام رامپوری
 

جاسمن

لائبریرین
اُٹھا رکھوں سبھی کارِ جہاں، کتاب پڑھوں
تیاگ دوں یہ جہاں، ناگہاں! کتاب پڑھوں

وہاں پہنچ کے نہ جانے کہاں ٹھہرنا ہو
سفر میں ہُوں تو یہاں تا وہاں، کتاب پڑھوں

ابھی تو کیف سے پُر ہے حکایتِ ہستی
نئی نئی ہے ابھی داستاں، کتاب پڑھوں

رواں سفینہ ٴ ہستی ہے، رکھ نہ دوں پتوار؟
ہوا کی اور رکھوں بادباں، کتاب پڑھوں

ہرے بھرے کسی جنگل میں ڈال دوں ڈیرا
طُیّور دیکھوں، چُنوں تتلیاں، کتاب پڑھوں

کسی پہاڑ کے ٹیلے پہ بیٹھ کر اک دن
کبھی چَراتے ہوئے بکریاں کتاب پڑھوں

سمجھ میں آتی نہیں ہے روایتِ واعظ
کلام ربِ جہاں، خوش بیاں کتاب پڑھوں

بہار آنے پہ ٹھہرا ہے وصل کا وعدہ
کسی طرح سے گزاروں خزاں! کتاب پڑھوں

تمہاری طرح رکھے پھائے میرے زخم پہ کون؟
میں سوچتا ہوں کوئی مہرباں کتاب پڑھوں

مری طرح ہے کہانی کا مرکزی کردار
سُلجھ رہی ہیں کئی گُتھّیاں، کتاب پڑھوں

میں دیکھتا ہوں کتابوں کو ایک حسرت سے
کہ مجھ غریب کو فرصت کہاں کتاب پڑھوں

یہ زندگی ہے فنا کا سفر تو پھر احمدؔ
میں چاہتا ہوں کوئی جاوداں کتاب پڑھوں

محمد احمدؔ
 

جاسمن

لائبریرین
نہیں ہے اب مجھے فرصت میاں! کتاب پڑھوں
کہ ختم کر کے میں خوش گپّیاں، کتاب پڑھوں

ہوا ہوں بور میں پڑھ کر کتاب ِ طبعیّات
تو کر کے اس میں یہ ناول نہاں، کتاب پڑھوں

پڑھائی چور ہوں ایسا کہ پڑھنی پڑ جائے
تو کر کے خوب میں آہ و فغاں، کتاب پڑھوں

رہا ہے اپنا وتیرہ یہی ہمیشہ سے
جب آئے سر پہ شبِ امتحاں، کتاب پڑھوں

لکھا ہے اس میں کوئی کامیابی کا نسخہ
تو کام کر کے میں سارے پراں*، کتاب پڑھوں

کتاب لکھنی جو بس میں نہیں مرے تابشؔ
تو کر کے بند میں اپنی دکاں، کتاب پڑھوں

محمد تابش صدیقی
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہو نہیں سکتا تری اس "خوش مذاقی" کا جواب
شام کا دلکش سماں اور تیرے ہاتھوں میں کتاب
رکھ بھی دے اب اس کتابِ خشک کو بالائے طاق
اُڑ رہا ہے رنگ و بُو کی بزم میں تیرا مذاق
(مجازؔ)
 

جاسمن

لائبریرین
ان کے اوراق میں پوشیدہ ہیں آنسو میرے
کیا کرو گے مری افسردہ کتابیں پڑھ کر!
اعتبار ساجد
 
Top