ڈرامہ: ہمارے خان صاحب:از: محمد خلیل الرحمٰن

ڈرامہ: ہمارے خان صاحب
از محمد خلیل الرحمٰن

منظر: اسٹیج کسی نیوز چینل کے نیوز اسٹوڈیو کا سماں پیش کررہا ہے۔ پس منظر میں دیوار پر ایک خوشنما ڈیزائن بنا ہوا ہے۔ درمیان میں جلی حروف میں ’بی این این ‘ لکھا ہوا ہے جس کے نیچے ’بنانا نیوز نیٹ ورک ‘ کے الفاظ نمایاں ہیں۔ پردہ اُٹھتے ہی مشہور نیوز چینل کے خبرنامے کی موسیقی سنائی دیتی ہے۔ ایک بچہ ہاتھ میں ایک پلے کارڈ لیے دائیں جانب سے داخل ہوتا ہے، جس پر ’’خبر نامہ ‘‘ کے الفاظ کندہ ہیں۔بچہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا بائیں دروازے سے باہر نکل جاتا ہے۔ ایک بچی اور بچہ نیوز کاسٹر کے روپ میں اسٹیج پر داخل ہوتےہیں۔​
نیوز کاسٹربچی :بی این این نیوز نیٹ ورک پر نو بجے کے خبر نامے کے ساتھ مہِ جبین​
نیوز کاسٹر بچہ : اور مہِ کامل حاضر ہیں۔​
( خبر نامے کی موسیقی تیز ہوجاتی ہے)​
نیوز کاسٹربچی :سب سے پہلے پیشِ خدمت ہیں، اہم خبروں کی سرخیاں۔​
نیوز کاسٹر بچہ : ایران میں پہلوان بیٹے نے پہلوان باپ کو پچھاڑدیا۔( موسیقی)​
نیوز کاسٹربچی :توران میں باپ بیٹے نے اپنے گدھے کو کاندھوں پر اُٹھالیا۔(موسیقی)​
نیوز کاسٹر بچہ : جاپان دوسری جنگِ عظیم سے دست بردار ہوگیا۔(موسیقی)​
نیوز کاسٹربچی :چین میں دنیا کی سب سے لمبی دیوار کی تعمیر مکمل۔(موسیقی)​
( ایک بچہ ہاتھ میں پلے کارڈلیے ہوئے دائیں جانب سے اندر داخل ہوتا ہے۔ جس پر ایک جانب کمرشل بریک اور دوسری جانب وقفہ لکھا ہوا ہے۔)​
نیوز کاسٹر بچہ : ان خبروں کی تفصیل کے لیےحاضر ہوتے ہیں ایک بریک کے بعد۔( موسیقی)​
(بچہ اسٹیج کی بائیں جانب جاکر واپس اسٹیج کی درمیانی سمت میں پلٹ آتا ہے)​
پروڈیوسر : ( آواز آتی ہے) کٹ​
بچہ :آج تو پروڈیوسر صاحب اپنے چچیرے، خلیرے اور ممیرے بھائی کو بھی لے آئے ہیں۔ اور سب مل کر مختلف چینلز پر نشر کی جانے والی بریکنگ نیوز ملاحظہ فرمارہے ہیں۔جونہی وہاں سے کوئی بریکنگ نیوز ملی، وہ ہمیں بھی یہی نیوز چلانے کے لیےکہہ دیں گے۔​
نیوز کاسٹربچی :اچھا! لیکن خیال رہے۔ پچھلی مرتبہ تو ایک خبر کے این این پر سن کر بھی ہم نےاُن سے پہلے یہ خبر نشر کردی تھی۔ پھر بعد میں جھوٹی ثابت ہونے پر معذرت نشر کرنے میں کے این این والے ہم سے بازی لے گئے تھے۔​
بچہ : نہیں نہیں۔ اِس مرتبہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔​
نیوز کاسٹر بچہ : میں تمہاری بات سے سہمت ہوں​
نیوز کاسٹربچی :ہاں ۔ میرا وشواس بھی یہی ہے۔​
پروڈیوسر : (آواز آتی ہے) دوبارہ شروعات ہوتی ہیں۔​
نیوز کاسٹر بچہ : ( دوبارہ وہی انداز اختیار کرتے ہوئے) ایران میں نامی گرامی پہلوان رستم اور اس کک بیٹے کے درمیان ایک دوسرے کو نہ پہچاننے کے باعث گھماسان کا رن پڑا۔ سہراب نے اپنے باپ رستم کو پٹخنیاں دے دے کر گھائل کردیا۔​
نیوز کاسٹربچی :تب ہی اُسے یہ علم ہوسکا کہ رستم ہی اُس کا اپنا باپ ہے۔ اب تو سہراب بہت پچھتایا، لیکن اب پچھتاوے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔​
نیوز کاسٹر بچہ : اُدھر توران میں ایک باپ اور اس کا بیٹا اپنے گدھے پر سوار ہوکر کہیں جارہے تھے۔ لوگوں نے اُن پر سخت اعتراض کردیا کہ کیسے لوگ ہیں جو دونوں ایک ہی گدھے پر سوار ہوکر اس پر ظلم کررہے ہیں۔​
نیوز کاسٹربچی :اب وہ گدھے سے اُتر کر اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگے جس پر لوگوں نے پھر اعتراض جڑ دیا کہ یہ دونوں کتنے بے وقوف ہیں کہ گدھے کے ہوتے ہوئے بھی پیدل جارہے ہیں​
نیوز کاسٹر بچہ :اب کی دفعہ باپ گدھے پر بیٹھا اور بیٹا ساتھ ساتھ پیدل چلنے لگا۔ لوگوں نے پھر اعتراض کیا کہ کتنا خود ضرض باپ ہے جو خود تو آرام سے گدھے پر سوار ہے اور اپنے بیٹے کو پیدل چلنے پر مجبور کررہا ہے۔​
نیوز کاسٹربچی :جب بیٹا گدھے پر بیٹھا اور باپ ساتھ ساتھ پیدل چلا تو لوگوں کو یہ بھی گوارا نہ ہوا، کہنے لگے کہ کتنا بدتمیز بیٹا ہے جو خود تو گدھے پر سوار ہے اور بوڑھے باپ کو پیدل چلنے پر مجبور کردیا ہے۔​
نیوز کاسٹر بچہ :اب تو دونوں بہت جُز بُز ہوئے اور نتیجتاً اُنھوں نے گدھے کو ہی اپنے کاندھوں پر اُٹھالیا​
( بچہ اسٹیج پر داخل ہوتا ہے ۔ اِس مرتبہ اُس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پلے کارڈ پر ’’بریکنگ نیوز‘‘ اور دوسری جانب ’ فوری خبر‘ لکھا ہوا ہے)​
بچہ : لیجیے بھائی لوگ! آج کی بریکنگ نیوز آپ کے لیے۔​
( بچہ نیوز کاسٹر کے ہاتھ میں ایک پرچہ تھما دیتا ہے اور دوسری جانب سے باہر چلا جاتا ہے)​
نیوز کاسٹربچی :جی ہاں ناضرین! (پرچہ دیکھتے ہوئے) آج سولہ اکتوبر ہے۔ ہم نے آپ کے لیے سولہ اکتوبر کی سالگر ہوں کی فہرست تیار کی ہے۔آج مشہور ڈرامہ نگار آسکر وائلڈ اور یوجین اونیل کی سالگرہ ہے۔​
نیوز کاسٹر بچہ :آج سولہ اکتوبر ہے اور مشہور ڈرامہ نگار آسکر وائلڈ اور یوجین اونیل کی سالگرہ ہے۔​
نیوز کاسٹربچی :ہم آپ کو ایک مرتبہ پھر بتاتے چلیں کہ آج سولہ اکتوبر ہے اور مشہور ڈرامہ نگار آسکر وائلڈ اور یوجین اونیل کی سالگرہ ہے۔​
بچہ : (بھاگتا ہوا آتا ہے) بھائی لوگ! غضب ہوگیا!( نیوز کاسٹر کے کان میں کچھ کہتا ہے)​
نیوز کاسٹر بچہ :معاف کیجیے گا ناظرین! ابھی ابھی اطلاع آئی ہے کہ آج شہیدِ ملت خان لیاقت علی خان کی برسی بھی ہے۔​
(بچے سے مخاطب ہوکر) کہاں سے ملی یہ بریکنگ نیوز؟َ​
بچہ :ابھی ابھی پروڈیوسر صاحب کے ممیرے بھائی نے کے این این پر دیکھی ہے یہ نیوز۔​
نیوز کاسٹربچی :اوہ!​
نیوز کاسٹر بچہ :اوہ!​
پروڈیوسر صاحب کا کہنا ہے کہ یہ نیوز ابھی فوراً سنادو تاکہ ہم اس خبر کو چلانے میں پہل کرلیں۔​
نیوز کاسٹربچی :لیکن کے این این والے تو پہلے ہی پہل کرچکے؟​
بچہ : پروڈیوسر صاحب کا اِصرار ہے کہ یہ خبر سب سے پہلے ہم نے ہی چلائی ہے۔​
نیوز کاسٹربچی : (ناظرین سے مخاطب ہوکر) تو ناظرین آپ نے سن ہی لیا ہوگاکہ آج عامر خان، میرا مطلب ہے کنگ خان اوہ معاف کیجیے آج خان لیاقت علی خان کی برسی بھی ہے۔​
بچہ : بھائی! کیا لیاقت علی خان کا تعلق بھی بولی وڈ سے تھا؟​
نیوز کاسٹر بچہ :ہاں شاید۔ میں نے بھی کہیں ایسا ہی پڑھا ہے۔​
پروڈیوسر : ( آواز آتی ہے) بس اب باتیں بند کرو اور اگلے آئیٹم کا اعلان کرو۔​
نیوز کاسٹربچی :جی سر جی سر! تو ناظرین ہمارا اگلا آئیٹم ہے ’ ایک دلچسپ شخصیت سے ملاقات‘ ۔​
نیوز کاسٹر بچہ :آج ہم آپ کی ملاقات ایک مشہور عامل دھوکے باز، اررررر میرا مطلب ہے عہد ساز ہستی سے کروارہے ہیں۔ تشریف لاتے ہیں عامل صاحب۔​
(عامل گلے میں ایک رومال لپیٹے داخل ہوکر ایک کرسی پر بیٹھ جاتا ہے)​
نیوز کاسٹربچی :عامل صاحب! پروگرام میں خوش آمدید۔​
عامل : ( اکھڑلہجے میں)آپ کو بھی خوش آمدید جناب!آج آپ ہم سے کون سا عمل کروانا چاہتے ہو۔​
نیوز کاسٹر بچہ :اچھا! یوں کیجیے کہ اپنے عمل کے ذریعےسے آج کسی ایسی شخصیت کو بلوائیے جن کا آج کے دن سے کوئی خاص تعلق ہو۔ مثلاً ہالی وڈ، بالی وڈ یا لالی وڈ کی کوئی مشہور شخصیت۔​
بچہ : ایسا کرتے ہیں کنگ خان کو بلوالیتے ہیں۔​
نیوز کاسٹربچی :خاموش!​
عامل : اچھا! ہم عمل کرتے ہیں ۔( عامل آنکھیں بند کرکے دونوں ہاتھ اِدھر اُدھر ہلاتا ہے) آج کےدِن سے تعلق رکھنے والی شخصیت حاضر ہو۔​
(خان لیاقت علی خان اپنا مکہ لہراتے ہوئے اسٹیج پر داخل ہوتے ہیں)​
 
عامل :آپ کون ہو؟​
نیوز کاسٹر بچہ :جناب آپ کون ہیں جو یوں بے دھڑک اندر داخل ہورہے ہیں؟​
لیاقت علی خان : ہم خان لیاقت علی خان ہیں۔​
نیوز کاسٹربچی :لیاقت علی خان؟​
نیوز کاسٹر بچہ :لیاقت علی خان؟​
عامل :لیاقت علی خان؟​
بچہ : یعنی کنگ خان؟​
لیاقت علی خان : ہم پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم یعنی لیاقت علی خان۔ ہم جنھوں نے اپنی جان بھی اس ملک پر نچھاور کردی۔​
بچہ : لیاقت انکل ! یہ بتائیے کہ کیا آپ کا نام ہمارے مشہور باغ یعنی لیاقت باغ کے نام پر رکھا گیا تھا؟​
لیاقت علی خان : نہیں بیٹے! یہ وہ باغ تھا جہاں پر ہم پر گولی چلا کر ہمیں شہید کیا گیا تھا۔ اسی لیے اس باغ کا نام لیاقت باغ پڑ گیا۔ اچھا ہاں یہ بتاؤ!( نیوز کاسٹروں سے مخاطب ہوتے ہوئے) کیا میرے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا تھا؟​
نیوز کاسٹربچی :جی ہاں! اسے اسی وقت ماردیا گیا تھا۔​
لیاقت علی خان :اور اُس کا قاتِل؟​
نیوز کاسٹر بچہ :جی اُس کا تو پتہ نہیں چلا۔​
لیاقت علی خان : خیر چھوڑو۔ یہ بتاؤ کہ تم لوگ ابھی یہ کون سی زبان بول رہے تھے۔ یہ ’ سہمت‘، ’وشواس‘ اور’ گھماسان ‘ جیسے الفاظ میں نے تو کبھی اردو میں نہیں سنے؟​
نیوز کاسٹربچی : (شرماکر) جی یہ ہندی کے الفاظ ہیں اور ہم نے انھیں سرحد پار کے ایک چینل پر سنا ہے۔​
لیاقت علی خان :لیکن قائدِ اعظم نے تو کہا تھا کہ پاکستان کی زبان اردو ہوگی؟ کیا اب یہاں کوئی اور زبان بولی جاتی ہے؟​
( سب خاموش رہتے ہیں)​
لیاقت علی خان : بولو! جواب دو! بتاؤ کہ تم لوگ کون ہو اور کیا کررہے ہو؟​
نیوز کاسٹر بچہ : جی جناب ہم مشہور ٹی وی چینل بی این این پر خبر نامہ نشر کررہے ہیں۔ یہ صاحب مشہور عامل ہیں جنھوں نے اپنے عمل سے آپ کو بلایا ہے۔​
عامل : لیکن میں نے تو آپ کو نہیں بلایا تھا۔ میں تو کنگ خان بلارہا تھا تاکہ اُن کے ساتھ مزے مزے کی باتیں کرسکیں۔​
لیاقت علی خان :کنگ خان؟ لاحول و لا قوۃ۔ اچھا اچھا! ہم سمجھ گئے۔ ہم یہاں اِس ناہنجار کے بلانے پر نہیں آئے ہیں بلکہ ہماری آمد کی وجہ جنریشن اسکول کے وہ چھوٹے چھوٹے بچے بنے ہیں جو آج سولہ اکتوبر کو مزارِ قائد پر فاتحہ خوانی کے لیے آئے تھے اور اُن کی استانی جی نے انھیں بتایا تھا کہ آج یعنی سولہ اکتوبر کو لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تھا لہٰذا آج اُن کی برسی ہے۔​
نیوز کاسٹربچی : جی ہاں، جی ہاں! یہ بریکنگ نیوز ابھی ہم چلانے ہی والے تھے۔​
لیاقت علی خان :اچھا تو تم لوگ اخبار نویس ہو؟ چلو ہمیں اپنے پیارے ملک پاکستان کی خبر دو۔ کیا اب وہاں اسلام کا بول بالا ہے؟ کیا اب وہاں پر عدل و انصاف کا نظام رائج ہے؟ کیا با وہاں پر لوگ امن و سکون سے رہتے ہیں؟​
نیوز کاسٹر بچہ :جی نہیں، میرا مطلب ہے جی ہاں۔ یعنی کہ، گویا کہ۔۔۔۔​
لیاقت علی خان :کیا بک رہے ہو؟ بتاؤ کہ وہ سبز ہلالی پرچم جو ہم نے قوم کے لیے پیش کیا تھا، کیا اب بھی اسی شان سے اونچا اُڑ رہا ہے؟​
نیوز کاسٹربچی : جی ہاں! جی ہاں! سب سے اونچا اُڑ رہا ہے۔ اب تو ہم نے سب سے بڑا جھنڈا بنا کر گینس بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی نام لکھوالیا ہے۔​
لیاقت علی خان :تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہمارے سارے خواب سچے ہوگئے۔ ہمارا سبز ہلالی پرچم دنیا میں سب سے اوُنچا اُڑ رہا ہے۔​
نیوز کاسٹر بچہ :جی ہاں ! جی ہاں! بلکہ آج ہی ہم نے یہ گیت بھی گایا ہے۔​
(سب مل کر گاتے ہیں)​
چاند روشن ، چمکتا ستارا رہے​
سب سے اُونچا یہ جھنڈا ہمارا رہے​
(لیاقت علی خان اپنا مکہ لہراتے ہیں اور سیلیوٹ کرتےہیں)​
لیاقت علی خان :اللہ کا شکر ہے کہ قوم کو قراردادِ مقاصد ابھی تک یاد ہے۔ ہم آپ کو سناتے ہیں کہ قراردادِ مقاصد کیا تھی۔​
پروڈیوسر : (آواز آتی ہے) بریکنگ نیوز۔​
نیوز کاسٹربچی : ( چیخ کر) بریکنگ نیوز۔​
( بچہ اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے پلے کارڈ کو ایک مرتبہ پھر لہراتا ہے۔ بریکنگ نیوز کی موسیقی سنائی دیتی ہے)​
لیاقت علی خان : ( مکہ لہراتے ہوئے جیب سے کاغذ نکال کر پڑھنا شروع کرتے ہیں)​
ہر گاہ ساری کائینات کی حاکمیت صرف خداوندِ قادر و توانا کے لیے ہے۔ اور دولتِ پاکستان کو جمہور کے ذریعے جو منصب اور اختیار بخشا گیا ہے وہ اُسی کا عطا کیا ہوا ہے اور اس لیے عطا کیا گیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی قائم کی ہوئی حدود کے اندر رہ کر اس سے کام لیا جائے۔ اس لیے یہ منصب ایک امانت ہے۔​
(کاغذ کو لپیٹ کر جیب میں رکھ لیتے ہیں)​
لیاقت علی خان : اچھا ! اب ہم چلتے ہیں​
نیوز کاسٹر بچہ :اِس وقت آپ کک کک کہاں جائیں گے؟​
لیاقت علی خان :ہم باہر جاکر اپنا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔​
نیوز کاسٹربچی :آپ باہر نہ جائیے۔ للہ نہ جائیے۔​
لیاقت علی خان :کیوں بھئی ! ہم باہر کیوں نہ جائیں؟​
نیوز کاسٹربچی :باہر چور ہیں ، ڈاکو ہیں جو آپ کو لوٹ لیں گے۔​
باہر خودکش بمبار ہیں جو آپ کو شہید کردیں گے۔​
باہر دھوکے باز ہیں جو آپ کے ساتھ فراڈ کریں گے​
لیاقت علی خان :باہر مایوس عوام بھی ہیں جو کسی سچے راہنما کی راہ تک رہے ہیں۔​
باہروہ معصوم بچے ہیں جو آج مزارِ قائد پر آئے تھے۔​
میں ان بچوں سے مایوس نہیں ہوں۔ وہ میرا مستقبل ہیں۔ وہ پاکستان کا مستقبل ہیں​
نیوز کاسٹر بچہ : وہ بچے؟ وہ تو ابھی ٹھیک سے پڑھنا بھی نہیں جانتے۔ بڑی مشکل سے ہجے کرکے پڑھتے ہیں۔​
لیاقت علی خان :یہ بچے جو سچ بولتے ہیں۔ ماں باپ کا کہنا مانتے ہیں۔ محنت کرکے مشکل سے پڑھتے ہیں۔ یہی ہمارا کل ہیں۔ ہم ان سے مایوس نہیں ہیں۔ ہم اِن سے ضرور ملیں گے۔ ہم اِن سے ضرور ملیں گے۔ ہم اِن سے ضرور ملیں گے۔ ہم اِن سے ضرور ملیں گے۔​
(باہر نکل جاتے ہیں)​
(پردہ گرتا ہے )​
 

میر انیس

لائبریرین
بہت ہی خوب اور کمال کی تحریر ہے خلیل بھائی۔ آپ کا انداز بھی خوب ہے پہلے مزاح کا عنصر نمایاں کرکے دلچسپی کو برقرار رکھا پھر بہت اچھا سبق بھی دے گئے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے بچوں کی اردو میں اب ہندی کے الفاظ ہندی فلمیں اور ڈرامے دیکھ دیکھ کر بہت زیادہ آگئے ہیں اور یہ بہت عجیب سا لگتا ہے ۔ اور ہمارے ڈرامہ نگاروں کو دیکھئے کہ اب انہوں نے بھی بجائے اصلاح کے انکی کاپی کرنی شروع کردی ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
زبردست خلیل بھائی زبردست
اس ایک تحریر سے آپ نے کثیر الجہتی مقاصد کو نمایاں کیا ہے۔ ایک طرف ہمارے میڈیا کو آئینہ دکھلایا ہے تو دوسری طرف عوام کو دلچسپ انداز میں درست سمت سے آگہی بخشی ہے۔ پاکستان کے اغراض و مقاصد کو نئی نسل کے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ تو بہت خوبصورت اور پُر معنی ڈرامہ ہے۔ زبردست اور جزاک اللہ
 
محترم خلیل صاحب۔ اتنا اچھا ڈرامہ لکھنے پر مبارکباد قبول کیجئے۔ طنزِ لطیف کی بہیت اچھی مثال ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آب نے " تعلیمِ بالغاں" ، "لال قلعہ سے لالو کھیت" اور " مرزا غالب بندر روڈ پر" والے خواجہ معین الدین کی روایت کو زندہ کیا ہے۔ بہت خوب۔
 
زبردست خلیل بھائی زبردست
اس ایک تحریر سے آپ نے کثیر الجہتی مقاصد کو نمایاں کیا ہے۔ ایک طرف ہمارے میڈیا کو آئینہ دکھلایا ہے تو دوسری طرف عوام کو دلچسپ انداز میں درست سمت سے آگہی بخشی ہے۔ پاکستان کے اغراض و مقاصد کو نئی نسل کے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ تو بہت خوبصورت اور پُر معنی ڈرامہ ہے۔ زبردست اور جزاک اللہ

جزاک اللہ جناب۔ جس قدر خوبصورت انداز میں آپ نے تبصرہ کیا ہے وہ آپ ہی کو زیبا ہے۔ خوش رہیے
 
محترم خلیل صاحب۔ اتنا اچھا ڈرامہ لکھنے پر مبارکباد قبول کیجئے۔ طنزِ لطیف کی بہیت اچھی مثال ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آب نے " تعلیمِ بالغاں" ، "لال قلعہ سے لالو کھیت" اور " مرزا غالب بندر روڈ پر" والے خواجہ معین الدین کی روایت کو زندہ کیا ہے۔ بہت خوب۔

بہت بڑا نام لکھ دیا محمد حفیظ الرحمٰن ۔یاد ہے وہ زمانہ جب ہم سب بھائی اپنے مرفی ریڈیو کے گرد لیٹے ہوئے اسٹوڈیو نمبر نو کے ڈرامے ذوق و شوق سے سنا کرتے تھے۔لائن مین وغیرہ جیسے ڈرامے تو بھلائے نہیں بھولتے ، یا پھر آغا حشر کے ڈرامے کا ڈائیلاگ’’ قزل، پیارے قزل‘‘۔ پھر گھر میں ٹی وی آیا تو ہم نے خواجہ معین الدین کے معرکۃ الآراء ڈرامے تعلیمِ بالغاں اور مرزا غالب بندر روڈ پر دیکھے۔ کیا بات ہے ان کے ڈراموں کی ۔ مجھے تو اردو ڈرامے میں آغا حشر، امتیاز علی تاج کے بعد صرف خواجہ معین الدین ہی کا نام یاد ہے۔

خوش رہو بھائی۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بہت خوب انکل ۔ کیا عمر ہے صاحب زادے کی ؟

کافی تلخ حقیقتوں کو بیان کر دیا ہے انہوں نے اس ڈرامے میں ۔ امید ہے مستقبل میں ایک اچھے ڈرامہ نگار ثابت ہوں گے :)
 
:)
بہت خوب انکل ۔ کیا عمر ہے صاحب زادے کی ؟

کافی تلخ حقیقتوں کو بیان کر دیا ہے انہوں نے اس ڈرامے میں ۔ امید ہے مستقبل میں ایک اچھے ڈرامہ نگار ثابت ہوں گے :)

ارے ناعمہ عزیز بٹیا! یہ ڈرامہ ہم نے خود لکھا ہے اپنے بچوں کے اسکول میں پیش کرنے کے لیے۔:)
 

ساجد

محفلین
کیا کہنے ہیں جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔ ڈرامہ پڑھنے کا مزا خوب آیا اور اسے دو چند کر دیا اس کیفیت نے جو ہمیں ہر ہر لفظ کے ساتھ ہمارے بچپن کے پاکستان میں لے جاتی رہی اور ان فخریہ احساسات سے سرشار کر گئی جو ہمارے اندر امنگ اور جذبات کا مہیج بنا کرتے تھے۔ کہاں گئے وہ لکھاری اور کہاں گئے وہ جذبے جو ہمارے حال کو ماضی اور مستقبل سے جوڑا کرتے تھے۔ بخدا ایک طویل عرصہ بعد آپ کی خوبصورت تحریر سے انہی احساسات کو طراوت ملی۔
خدائے ذوالجلال سے آپ کی درازی عمر کی دعا کے ساتھ ساتھ آپ کے قلم سے مزید تحاریر کا متمنی ومنتظر ہوں۔
 

عاطف بٹ

محفلین
سر، ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ ڈرامہ لکھا ہے آپ نے۔ میرے پاس تو الفاظ ہی نہیں ہیں کہ میں ایسی شاندار تحریر کی داد دے سکوں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور آپ کو ملک و ملت کی خدمت کرنے کی توفیق دے، آمین۔
 
Top