پسندیدہ اقتباسات

ساقی۔

محفلین
دنیا میں ہر نعمت سے پہلے کچھ تکلیف، کچھ آزمائش اور کچھ پریشانی آتی ہے ۔ ایک ماں کو بیٹے کی کتنی تمنا ہوتی ہے لیکن بیٹے کی ولادت سے پہلے ماں جس طرح کی راتیں کاٹتی ہے اگر کوئی بیٹا اس تکلیف کا دسواں حصہ بھی جان لے تو کبھی اپنی ماں کے سامنے اونچی آواز سے نہ بولے!

(‘‘رنگ و نور’’ سے انتخاب)
 

فہد اشرف

محفلین
انگریز لڑکی قمیض دوپٹے والی لڑکی سے کہہ رہی تھی:
”یہ ہندوستان کے نواب۔ اگر ان کو کچھ عرصہ کے لیے انگلستان بھیج دیا جائے تو کیا اچھا ہو۔ جمیلہ تم نہیں سمجھتیں۔ میرے والدین کی بھی اسکاٹ لینڈ میں جاگیر ہے، اور چائے کا ایک سیٹ ٹوٹنے سے ہمارا بھی اتنا کچھ ہی نقصان ہوتا ہے جتنا عذرا کا۔ لیکن ہمیں اس کی سزا میں سارا دن چائے نہیں ملتی۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ جب ہمارے گاؤں کی جھیل پر برف جمی ہوئی تھی اور میں چھوٹی سی تھی تو۔۔۔۔۔ اوہ، تم نہیں سمجھتیں۔“
(عبداللہ حسین کی اداس نسلیں سے اقتباس)
 
آپ کبھی فجر کی نماز کے بعد کسی ان پڑھ عام سے کپڑے پہنے کسی دیہاتی کو جسے وضو اور غسل کے فرائض سے بھی شاید پوری طرح واقفیت نہ ہو وہ جب نماز کے بعد قرآن پاک پڑھنےکے لیے کھولے گا تو قرآن پاک کا غلاف کھولنے سے پہلے دو بار اسے آنکھوں سے لگائے گا اور چومے گا ۔
اس کی اس پاک کتاب سے عقیدت اور محبت دیدنی ہوتی ہے ۔وہ قرآن پاک میں لکھی عربی کی آیات کی معانی سے واقف نہیں ہوتا لیکن وہ جس محبت سے اسے پڑھ رہا ہوتا ہے وہ قابلِ رشک ہوتا ہے ۔
اشفاق احمد زاویہ 3 لچھے والا صفہ 32
 

ہادیہ

محفلین
آنسو بہت کمال کی چیز ہوتے ہیں۔ دیکھنے میں بہت شفاف نظر آتے ہیں حالانکہ پتہ نہیں کتنا میل، کتنا کھوٹ، کتنا پچھتاوا یہ اپنے ساتھ بہا کر لے جارہے ہوتے ہیں
(بس اک داغ ندامت ...ازعمیرا احمد)
 

ہادیہ

محفلین
آپ کو پتہ ہے اللہ مجھے کیوں نہیں مل سکتا؟؟
میرے اور اللہ کے درمیان خواہشوں کی دیوار ہے- آسائشوں کی دیوار ہے-
میں نے اپنے اردگرد دنیا کی اتنی چیزیں اکٹھی کرلی ہیں کہ اللہ تو میرے پاس آہی نہیں سکتا جسے وہ اپنی محبت دے دیتا ہے اسے پھر کسی اور چیز کی خواہش نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔ ۔اور جسے دنیا دیتا ہے اس کی خواہش بھوک بن جاتی ہے جو کبھی ختم ہی نہیں ہوتی۔۔ختم ہی نہیں ہوتی.

(شہر ذات ۔۔از عمیرا احمد)
 

فرقان احمد

محفلین
اسلام کی تاریخ کون بنائے گا؟
میں نے جیب سے آٹو گراف بُک نکالی۔ ٹائن بی نے قلم کھولا، دستخط کئے، عیسوی تاریخ لکھی، سَر اُٹھایا اور مُسکرا کر کہا “میں ہجری سن بھی لکھنا چاہتا ہوں۔ آپ ابھی اسلام اور اس کے مُستقبل پہ گفتگو کر رہے تھے۔ بتائیے ہجری سن کون سا ہے؟“
میں خاموش ہو گیا۔ ٹائن بی نے فوراً سَر جھکا لیا، اس کا اشارہ واضح تھا۔ “اسلام کی تاریخ وہ لوگ کیونکر بنا سکتے ہیں، جنہیں تاریخ تک یاد نہ ہو۔ صرف باتیں بنانے سے تاریخ نہیں بنا کرتی۔“
ٹائی بی نے 29 فروری 1960ء کے نیچے یکم رمضان 1379 ھ لکھا اور موضوع بدل دیا۔

(مختار مسعود کی کتاب "آوازِ دوست" سے ایک اقتباس)
 

ہادیہ

محفلین
یہ ٹھیک ہے تم ایک گلاب نہیں بن سکتے۔ مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم ایک کانٹا بن جاؤ۔ یہاں ایک راز کی بات ہے اور وہ میں تمہیں بتاہی دیتا ہوں کہ جو شخص کانٹا نہیں بنتا وہ بالاخر گلاب بن جاتاہے۔
(زاویہ 3۔۔ از اشفاق احمد)
 

ہادیہ

محفلین
میں جانتا ہوں میں "کچھ" تو ہوں ۔۔۔ کیونکہ میرا رب کوئی بھی چیز بیکار نہیں بناتا۔۔
(از اشفاق احمد)
 

فرقان احمد

محفلین
یہ ٹھیک ہے تم ایک گلاب نہیں بن سکتے۔ مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم ایک کانٹا بن جاؤ۔ یہاں ایک راز کی بات ہے اور وہ میں تمہیں بتاہی دیتا ہوں کہ جو شخص کانٹا نہیں بنتا وہ بالاخر گلاب بن جاتاہے۔
(زاویہ 3۔۔ از اشفاق احمد)
بہت اعلیٰ! ہادیہ، یہ کتاب میسر ہے تو اقتباسات کی شراکت کا سلسلہ اسی طرح جاری رہنا چاہیے۔ :)
 

ہادیہ

محفلین
یاخدا! تو جانتا ہے کہ میں تیری کائنات کا سب سے حقیر ذرہ ہوں، لیکن میری کم ظرفی کی داستانیں آسمان سے بھی بلند ہیں۔ میری حقیقت سے اور میرے دل میں چھپے ہر چور سے بس تو ہی واقف ہے۔ میرے گناہوں کی فہرست کتنی بھی طویل سہی، تیری بے کراں رحمت سے کم ہے۔ سو، میری منافقت بھری توبہ و معافی کو یہ جانتےہوئے بھی قبول فرما کہ توبہ کرتے وقت بھی میرے دل کا چور مجھے تیری نافرمانی پر مستقل اکساتا رہتا ہے۔ پھر بھی تجھے تیرے پیارے صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ، میری لاج رکھنا۔ میرے عیبوں پر اور میری جہالت پر پردہ ڈالے رکھنا۔ میرے مولا! تیرا ہی آسرا ہے، تو ہی عیبوں کا پردہ دار ہے۔ میری جھولی میں سو چھید ہیں، پھر بھی یہ جھولی تیرے سامنے پھیلی ہوئی ہے۔ اسے بھردے میرے مالک ...
(ناول عبداللہ۔۔ از ہاشم ندیم)
 

ہادیہ

محفلین
ہم مشرقی لڑکیاں بھی عجیب ہیں، شاید محبت ہمارے بس کا روگ نہیں، ہمارا خون و خمیر شاید اس جذبے کے لئے موزوں نہیں۔ ہم محبت کر بھی لیں تو اسے نبھانا مشکل اور اگر نبھالیں تو زندگی گزارنا مشکل۔ محبت میں ہونے والی وہ لمحے بھر کی لغزش، وہ ایک پل کی خودغرضی نہ ہمیں جینے دیتی ہے نہ مرنے دیتی ہے۔ پھر وہ محبت جو ہم نے بہت لڑ کر اور دنیا سے ٹکر لے کر حاصل کی ہوتی ہے، ہمیں اپنا سب سے بڑا گناہ نظر آنے لگتی ہے۔ ایسا گناہ جس پر ہم اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے شرمندہ ہوتے ہیں۔ ہم محبت کے بغیر رہ سکتے ہیں لیکن خود سے وابستہ رشتوں کے بغیر زندگی گزار ہی نہیں سکتے۔
("وہ جوقرض رکھتے تھے جان پر".. از فرحت اشتیاق)
 

ہادیہ

محفلین
تم نے گناہ چھوڑ دیا؟ بہت اچھا کیا۔اب مہربانی کرکے نیکی اور ثواب بھی چھوڑ دو۔جب تک ان دونوں میں سے کسی ایک پر بھی تمہارا قبصہ رہے گا تمہارا تکبر برقرار رہے گا۔
(زاویہ3۔۔از اشفاق احمد)
 
بری صحبت کا ایک لازمی اثر یہ ہےکہ چاہے انسان گناہ کو دل میں برا بھی جانے تب بھی مستقل گناہوں کے ماحول میں رہنے سے اس کے دل میں اس گناہ کی قباحت کم ہو جاتی ہےاور جب کوئی شخص مستقل ایسے ماحول میں رہے جہاں اس کو دوسروں کے بڑے بڑے گناہ نظر آئیں تو لازما اس کے دل میں اپنے گناہوں کی قباحت اور ان کے انجام بد کی فکر بھی کم ہو جاتی ہے۔
(کفایت الاتقیا)
 
لطائف کے لفظ سے گھبرانا نہیں چاہیئے۔یہ صوفیاء کی طرف منسوب ہوں تو "لطائف تصوف" کہلائیں گے۔علماء سے متعلق ہوں تو "لطائف علمیہ" سے موسوم ہوں گے۔ہمارے اکابر و اسلاف کی زبان مبارک سے ادا ہوئے ہوں تو انہیں "اقوال و ملفوظات" سے تعبیر کیا جائے گا اور اگر روزمرہ کی مجلسی زندگی میں بیان کئے جائیں تو ان پر ایسے "لطائف و ظرائف" کا اطلاق ہوگا جن میں ہلکا پھلکا مزاح بھی پایا جاتا ہو اور بے تکلفانہ پیرایہ بیان میں اظہار واقعہ بھی ہو۔
لطیفے سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی شخص کتنا زندہ دل، کتنا خوش طبع اور کس قدر خوش مزاح ہے، تنگ دل یا تنگ حوصلہ نہیں ہے... خود بھی بات کہنے کا ڈھنگ جانتا ہے اور دوسروں کی بات برداشت کرنے کی ہمت بھی رکھتا ہے۔
اسحاق بھٹی، کتاب "ارمغان حنیف" صفحہ نمبر 217 ،218
 

ہادیہ

محفلین
اگر آپ غور کریں گے تو مصائب اور مشکلات اتنی ہی شدید ہوتی ہیں ،جتنا آپ نے ان کو بنا دیا ہوتا ہے ،اور وہ ساری زندگی کا اک حصہ ہوتی ہیں ۔ساری زندگی نہیں ہوتی ،بندہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ ساری کی ساری میری زندگی ہے اور وہ برباد ہو گئی تباہ ہو گئی۔
(زاویہ۔۔ از اشفاق احمد)
 

ہادیہ

محفلین
مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے مرشد سائیں فضل شاہ صاحب گوجرانوالہ گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا-
ہم جب پورا دن گوجرانوالہ میں گزار کر واپس آ رہے تھے تو بازار میں ایک فقیر ملا، اس نے بابا جی سے کہا کچھ دے الله کے نام پر-
انھوں نے اس وقت ایک روپیہ بڑی دیر کی بات ہے، ایک روپیہ بہت ہوتا تھا-
وہ اس کو دیا وہ لے کر بڑا خوش ہوا، دعائیں دیں، اور بہت پسند کیا بابا جی کو-
بابا جی نے فقیر سے پوچھا شام ہو گئی ہے کتنی کمائی ہوئی؟ فقیر ایک سچا آدمی تھا اس نے کہا ١٠ روپے بنا لئے ہیں تو دس روپے بڑے ہوتے تھے-
تو بابا جی نے فقیر سے کہا تو نے اتنے پیسے بنا لئے ہیں تو اپنے دیتے میں سے کچھ دے-
تو اس نے کہا بابا میں فقیر آدمی ہوں میں کہاں سے دوں؟
انھوں نے کہا، اس میں فقیر امیر کا کوئی سوال نہیں جس کے پاس ہے اس کو دینا چاہئے تو اس فقیر کے دل کو یہ بات لگی-
کہنے لگا اچھا- وہاں دو مزدور کدالیں کندھے پر ڈالے گھر واپس جا رہے تھے-
تو وہ فقیر بھاگا گیا، اس نے چار روپے کی جلیبیاں خریدیں، چار روپے کی ایک کلو جلیبیاں آیا کرتی تھیں-
اور بھاگ کے لایا، اور آکر اس نے ان دو مزدوروں کو دے دیں-
کہنے لگا ، لو آدھی آدھی کر لینا-
وہ بڑے حیران ہوئے میں بھی کھڑا ان کو دیکھتا رہا تو مزدور جلیبیاں لے کے خوش ہوئے اور دعائیں دیتے چلے گئے-
بڑی مہربانی بابا تیری، بڑی مہربانی-
تو وہ جو فقیر تھا کچھ کھسیانا، کچھ شرمندہ سا تھا، زندگی میں پہلی مرتبہ اس نے خیرات دی تھی-
وہ تو لینے والے مقام پر تھا تو شرمندہ سا ہو کر کھسکا-
تو میرے بابا جی نے کہا، " اوئے لکیا کدھر جانا ایں تینوں فقیر توں داتا بنا دتا اے، خوش ہو نچ کے وکھا- "
تو فقیر سے جب داتا بنتا ہے نا، تواس کا رتبہ بلند ہو جاتا ہے، تو باہر نہیں تو اس کا اندر ضرور ناچنے لگتا ہے-
(زاویہ... از اشفاق احمد )
 
مایوسی اور امید
شاہیں بٹ نے مجھ سے کہا،

جو دانشور قوم کو مکمل مایوسی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرتےہیں اور انہیں قوم میں کوئی اچھی بات نظر نہیں آتی۔وہ بلا ارادہ قوم کو موت کی دہلیز پر پہنچانے کی کوشش کرتےہیں۔ہم میں بہت سی خرابیاں ہیں ، ان خرابیوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ہمیں پاکستانی قوم کو خوبیوں کو بھی اجاگر کرتے رہنا چاہیے ہے۔مایوسی اگر انسان کو موت کی طرف تو امید زندگی کی طرف لے جا سکتی ہے تو اس کلیے سے قومیں مستثنی نہیں ہیں۔تقدیر سے تو ہم لڑ نہیں سکتے مگر مایوسی کو مقابلہ ، امید سے کیا جا سکتا ہے۔

جب کوئی ایسا شخص لوگوں کو منفی کے بجائے مثبت سوچیں اپنانے کا مشورہ دے جس کی زندگی مثبت نتائج کی حامل نظر آتی ہو تو اس پر غور ضرور کرنا چاہیے۔

(اقتباس “روزن دیوار سے“عطا ءالحق قاسمی
 
شروع میں دنیا میں تھوڑے ہی ملک تھے۔لوگ خاصی امن و چین کی زندگی بسر کر رہے تھے۔15 صدی میں کولمبس نے امریک دریافت کیا ،اس کے بارے میں دو نظریے ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کا قصور نہیں ،یہ تو ہندوستان یعنی ہمیں دریافت کرنا چاہتاتھا غلطی سے امریکا دریافت کر بیٹھا اس نظریے کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ ہم ابھی تک دریافت ہو نہیں پائے۔دوسرا فریق کہتا ہے کہ نہیں کولمبس نے جان بوجھ کر یہ حرکت کی یعنی امریکہ دریافت کیا بہرحال اگریہ غلطی بھی تھی تو بہت سنگین تھی اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
از ابن انشاء " اردو کی پہلی کتاب"سے اقتباس
 
آخری تدوین:
Top