پاکستان : عام انتخابات 2018 (الیکشن)

ویسے معذرت کے ساتھ، میرے پاس فیس بک ٹویٹر پر کافی انصافی بھائی ایڈ ہیں۔ کسی کی بھی اختلافی پوسٹ اور ٹویٹ نہیں آئی۔ جب مخالفین نے شور مچایا اور ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، تو ان کی جانب سے اکثر نے مکمل خاموشی اختیار کی۔ اور کمیٹی بننے کے اعلان کے بعد کھل کر اختلاف کیا۔
یہی بات میں لکھ رہا تھا لیکن کچھ مصروفیات کے سبب مراسلہ مکمل نا کر پایا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ویسے معذرت کے ساتھ، میرے پاس فیس بک ٹویٹر پر کافی انصافی بھائی ایڈ ہیں۔ کسی کی بھی اختلافی پوسٹ اور ٹویٹ نہیں آئی۔ جب مخالفین نے شور مچایا اور ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، تو ان کی جانب سے اکثر نے مکمل خاموشی اختیار کی۔ اور کمیٹی بننے کے اعلان کے بعد کھل کر اختلاف کیا۔
نیگیٹیو فیڈ بیک نظام کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔
 
تحریک انصاف کی کتھا کلی از وسعت اللہ خان

مجھے وہ نقاد ہرگز پسند نہیں آتے جنہیں بس بہانہ چاہیے کسی ایک جماعت کے پیچھے لٹھ لے کے دوڑنے کا۔ بھلے وہ کپتان کی تحریکِ انصاف ہی کیوں نہ ہو۔

ناقد کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو اہم فیصلے غیر سنجیدگی سے نہیں نہایت سوچ سمجھ کر باہم صلاح مشورے سے کرنے چاہیں اور جب ایک بار کسی منظور آفریدی یا ناصر کھوسہ کو نگراں وزیرِ اعلی بنانے کا فیصلہ حزبِ اختلاف کے مشورے اور تائید سے ہو جائے تو اس پر قائم رہنا چاہیے بھلے اگلے دن اپنا ہی فیصلہ کیسا ہی ناقص کیوں نہ لگے۔

اہم فیصلے بار بار بدلنے سے قیادت کی نابلوغت، غیر سنجیدگی اور مسخرے پن کا احساس ہوتا ہے اور یہ خدشات بھی منڈلانے لگتے ہیں کہ کل کلاں اگر ایک سانس میں فیصلہ کر کے دوسرے سانس میں واپس لینے والی جماعت برسرِاقتدار آ گئی تو کیا اہم داخلی و خارجی حساس نوعیت کی فیصلہ سازی میں بھی یہی لونڈیہار پن اور کھلواڑ ہو گی؟

حاسد کہتے ہیں کہ یہ کوئی ٹیسٹ میچ تو نہیں ہو رہا کہ ایک کھلاڑی کو ون ڈاؤن میدان میں بھیجا جائے اور پھر میچ کے بدلتے حالات دیکھتے ہوئے اسے بیچ میدان سے واپس بلا کر کسی اور کو پیڈنگ کروا کے بلا پکڑا دیا جائے۔

مجھے کپتانیت کے معیار پر انگلی اٹھانے والوں سے بس یہ کہنا ہے کہ ایک بار فیصلہ کر کے اسے بدل دینا قوتِ فیصلہ کی کمزوری نہیں خود اعتمادی ظاہر کرتی ہے۔ یعنی ہمیں اپنا فیصلہ غلطی کا فوری احساس ہونے پر واپس لینا بھی آتا ہے۔ زبان دے کے مکر جانا کتابی باتیں ہیں۔ سیاست میں کوئی بھی وعدہ قرآن و حدیث نہیں ہوتا ( یہ بات ایک دگج سیاسی گرو پانچ برس پہلے فرما چکے ہیں)۔

ناصر کھوسہ نے اس چھیچھا لیدر سے خود کو بچاتے ہوئے نگراں وزیرِ اعلی بننے سے ہی معذرت کر لی۔ مگر جاتے جاتے یہ ضرور کہہ گئے کہ دس روز پہلے عمران خان نے ہی مجھے فون کر کے کہا کہ ہم آپ کا نام تجویز کر رہے ہیں کیونکہ آپ ایک اہل اور قابل بیوروکریٹ ہیں۔ اور آج انہی خان صاحب کے ساتھی کہہ رہے ہیں کہ یہ بندہ اس قابل نہیں۔

یہ واقعہ اسی گھسے پٹے لطیفے جیسا ہے جب کوئی راہ گیر ایک موٹے صاحب سے ٹکرا گیا اور یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا ابے گینڈے دیکھ کے نہیں چلتا۔ اگلے روز موٹے صاحب کو یہی شخص بازار میں دوبارہ دکھائی دیا تو انہوں نے اسے گریبان سے پکڑ کر کہا کل تو نے مجھے گینڈا کیوں کہا تھا؟ راہ گیر نے کہا بھائی صاحب آپ کو میرے گریبان پر ہاتھ ڈالنا ایک دن بعد کیوں یاد آیا؟ موٹے نے کہا کہ آج ہی میں نے گینڈے کی تصویر پہلی بار دیکھی تو توہین کا احساس جاگ گیا۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سارا کیا دھرا نواز شریف کا ہے۔ جنہوں نے تحریکِ انصاف کے نامزد کردہ ناصر کھوسہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ بہت فرض شناس افسر ہیں۔ میرے پرنسپل سیکرٹری بھی رھ چکے ہیں۔ بس اس ایک جملے نے کپتان کے دل پر ناصر کھوسہ سے بیزاری کی مہر لگا دی۔

مگر خیبر پختونخوا کے نامزد نگراں وزیرِ اعلی منظور آفریدی کا نام کیوں واپس لے لیا گیا؟ ان کے بارے میں تو نہ نواز شریف نے منہ کھولا اور نہ ہی کے پی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف مولانا عطا الرحمان کے بھائی مولانا فضل الرحمان نے کوئی تعریفی کلمہ کہا۔

میں پی ٹی آئی کے ایک کٹر مخالف کے اس تبصرے سے ہرگز متفق نہیں کہ چونکہ انصافیوں کو یقین ہو چلا ہے کہ انتخابات پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں گرنے والے ہیں لہذا ان کا حال اس بے قرار بچے جیسا ہے جسے ابا جان نے کھلونوں کی دوکان میں چھوڑ دیا ہے اور بچے کو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کون سا کھلونا لینا ہے کون سا چھوڑنا ہے۔

سوشل میڈیا پر یہ تبصرہ بھی قابلِ مذمت ہے کہ ’اوچھے کے ہاتھ میں تیتر، باہر دھروں کہ بھیتر۔‘

ربط
 
شبنم کا جعلی ٹوئٹر اکاؤنٹ: کیا ایسے اکاؤنٹس کے سیاسی مقاصد ہیں؟

پاکستان میں سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹس بنا کر سیاسی مقاصد حاصل کرنا نیا نہیں ہے مگر انتخابات کے آتے ہی ایسے جعلی اکاؤنٹس کا استعمال بھی بڑھ گیا ہے۔
گذشتہ دنوں پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین کے ساتھ فاروق بندیال کی تصویر کے بعد سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی گئی۔
اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی نے فاروق بندیال کی رکنیت معطل کر دی مگر اسی دن ٹوئٹر پر اچانک سے جھرنا باسک کے ہینڈل سے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ سامنے آیا جس میں عمران خان کی تعریف کی گئی۔
جھرنا باسک پاکستانی سینیما پر راج کرنے والی ماضی کی معروف اداکارہ شبنم کا اصل نام ہے جو ان دنوں ڈھاکہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ رہتی ہیں۔
اس ٹوئٹر اکاؤنٹ سےیہ پہلی ٹوئٹ تھی جس سے اندازہ ہوا کہ یہ اسی دن بنایا گیا ہے۔
پہلی ٹویٹ میں لکھا گیا کہ 'میں عمران خان کی تعریف کرتی ہوں کہ انہوں نے فاروق بندیال کو اپنی جماعت سے نکال دیا اور پاکستان کے عوام کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں اس ریپسٹ کے خلاف آواز بلند کی۔ جیتے رہیں۔'
اس ٹویٹ پر چند لوگوں نے اعتراض کرتے ہوئے لکھا کہ یہ شبنم کی نہیں بلکہ کسی 'ٹرول ڈاکٹر' کی ہے جو کبھی ڈاکٹر قدیر خان بن کر اور کبھی رانی مکرجی بن کر لوگوں کو ٹوئٹر پر بے وقوف بناتا ہے۔
اس پر بی بی سی بنگلہ سروس کے ولی الرحمٰن نے ڈھاکہ میں شبنم کے گھر فون کیا اور ان کی بات شبنم کے بیٹے رونی گھوش سے ہوئی جنہوں نے بتایا کہ ’شبنم ان دنوں کافی علیل ہیں اور اس حالت میں نہیں ہیں کہ میڈیا سے بات کرسکیں۔‘
رونی نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ ان کی والدہ نے کبھی ٹوئٹر استعمال کیا اور 'جھرنا باسک‘ کے نام پر چلائے جانے والے اکاؤنٹ کا اُن کی والدہ شبنم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔'
رونی گھوش نے مزید کہا کہ ان کی والدہ کا نام استعمال کرنے کے پیچھے ’سیاسی ایجنڈہ ہو سکتا ہے۔'
مگر پاکستان کے چند مقامی ٹی وی چینلز نے اسے سچ سمجھ کر اس پر ایک پوری خبر بھی چلائی جو اب بھی ان کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
اس معاملے پر چند اور اکاؤنٹس نے بھی ایک جیسی ٹویٹس کیں جن پر تحقیق سے پتا چلا کہ وہ سب بھی جعلی ہیں۔
کیونکہ نقل کے لیے عقل کی ضرورت ہوتی مگر یہ جعلی اکاؤنٹس چلانے والے نے ایک ہی ٹویٹ مختلف اکاؤنٹس سے جاری کی جس سے شک ہوا کہ قصہ جعلسازی کا ہی ہے۔ یہ جعلی اکاؤنٹس کون سے کیں؟

ایاز امیر @AyazAmirPAK
کالم نگار ایاز امیر کے نام سے ایک جعلی اکاؤنٹ کافی عرصے سے چل رہا ہے جس نے فاروق بندیال والے معاملے پر بھی ٹویٹ کی۔
ٹویٹ میں لکھا کہ 'عمران خان اور پی ٹی آئی کا اچھا فیصلہ ہے فاروق بندیال کو عوامی ردِعمل پر 24 گھنٹے کے اندر اندر پارٹی سے نکال باہر کرنے کا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں ایک ایسی سیاسی جماعت بھی ہے جو پبلک کے ردِعمل پر کارروائی کرتی ہے۔ انہیں کسی کو بھی پارٹی میں جگہ دینے سے پہلے تحقیق کرنی چاہیے۔'
جب بی بی سی نے ایاز امیر سے رابطہ کیا اور اس اکاؤنٹ کے بارے میں پوچھا تو انہوں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ یہ 'اکاؤنٹ ان کے نام پر کیا لکھ رہا ہے۔'

سہیل وڑائچ @Sohail_Waraich1

صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے نام پر چلنے والے اس اکاؤنٹ نے بھی فاروق بندیال والے معاملے پر ٹویٹ کی۔
سہیل وڑائچ خود ٹوئٹر پر موجود ہیں جہاں ان کا ویریفائڈ اکاؤنٹ sohailswarraich@ موجود ہے۔ اور انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات سے انکار کیا کہ ان کا اس اکاؤنٹ Sohail_Waraich1@ سے کوئی تعلق نہیں۔

اعتزاز احسن @SenatorAitzaz
اعتزاز احسن کے نام سے چلنے والا یہ جس کے دس ہزار فالور ہیں بھی جعلی اکاؤنٹ ہے۔

جنرل اسد درانی @GenDurrani
جنرل اسد درانی کی جی ایچ کیو طلبی کے موقع ہر اچانک سے یہ ٹوئٹر اکاؤنٹ نمودار ہوا جس میں جی ایچ کیو جانے کے بارے میں لکھا گیا تھا۔ جنرل درانی نے اس اکاؤنٹ سے لاتعلقی کا اظہار کیا جس کے بعد ٹوئٹر نے اسے معطل کر دیا۔

رانی مکھرجی
بالی وڈ کی معروف اداکارہ کے نام سے بھی کئی ٹوئٹر اکاؤنٹ چلائے گئے جن میں حیرت کی بات ہے کہ انڈیا، بالی وڈ کی بجائے آرمی پبلک سکول پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کی کارکردگی اور اسلام کے بارے میں باتیں لکھی جاتی رہیں۔

پاکستان کے چند اخبارات نے اسے اصل سمجھ کر یہ خبریں تک چلائیں کہ رانی اسلام کی جانب مائل ہو رہی ہیں یا مسلمان ہونے والی ہیں۔
رانی کی ٹیم نے بی بی سی کے پوچھنے پر اس بات کی تردید کی کہ ان کا کوئی ٹوئٹر اکاؤنٹ ہے۔
 
ڈرٹی گیم
جلدی میں ای میل سپیلنگ ہی تبدیل ہو گئے۔
پیارے افضل کو بھول جاتا ہے کہ یہ چینل نہیں جہاں یکطرفہ روداد سناتے رہتے ہیں۔ ابھی ایک آدھ نے ہی غور کیا تھا کہ موصوف نے ٹویٹس ہی ڈیلیٹ کر دیں۔ اب شاید کچھ نیا بنا کر پیش کریں گے۔
 
پیارے افضل کو بھول جاتا ہے کہ یہ چینل نہیں جہاں یکطرفہ روداد سناتے رہتے ہیں۔ ابھی ایک آدھ نے ہی غور کیا تھا کہ موصوف نے ٹویٹس ہی ڈیلیٹ کر دیں۔ اب شاید کچھ نیا بنا کر پیش کریں گے۔
دوبارہ پیش کیا ہے، سپیلنگ ٹھیک کر کے۔ البتہ ایک مسئلہ اس میں بھی رہ گیا ہے۔
Wro=te لکھا گیا wrote کی جگہ
 
دوبارہ پیش کیا ہے، سپیلنگ ٹھیک کر کے۔ البتہ ایک مسئلہ اس میں بھی رہ گیا ہے۔
Wro=te لکھا گیا wrote کی جگہ
یہ اصل ای میل کا سکرین شارٹ کیوں نہیں دیتا ؟

چار دن پہلے جویریہ بی بی کو لوڈ شیڈنگ کی ٹویٹس پر کہا کہ اپنا بجلی بل پر دیا ریفرنس نمبر بھیجیں یا اور کچھ نہیں تو اسلام آباد سیکٹر بتا دیں، تاکہ آپ کی لوڈ شیڈنگ الف لیلی کی حقیقت جان سکیں تو کنی کترا گئیں۔
 

عباس اعوان

محفلین
ن لیگ چھوڑ موصوف کے کسی بھی پارٹی میں ہونے کا کوئی اکیلا ثبوت؟ کسی یونین کونسل، کسی ضلع کونسل کسی بھی عہدے پر تعیناتی کی کوئی رسید ؟
ہاں شیریں مزاری، انور لودھی، ڈاکٹرعبدالقدیر خان ورک کی ٹویٹس وغیرہ کا حوالہ نہیں چلے گا۔
چلیں تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ موصوف ن لیگ میں نہیں تھے۔
باقی مراسلے کا جواب کا انتظار ہے ۔
:)
چوہدری شیر علی مستند سزا یافتہ ہے: لنک
کیا ن لیگیوں میں اتنی بھی غیرت ہے کہ اس کو پارٹی سے نکالے جانے کا کہیں ؟
وہ جو چنبہ ہاؤس میں عورت قتل ہوئی تھی، وہ ن لیگی ممبر کدھر ہوتا ہے ؟اس پر کیا ایکشن لیا گیا پارٹی کی طرف سے ؟ ن لیگی سپورٹرز کی طرف سے ؟
سارے اخلاق، قانون اور ضابطے پی ٹی آئی کے لیے ہیں۔
 
یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے! کیا رکن اسمبلی کا کام اسمبلی میں اپنے حلقے کے عوام کی نمائندگی کرنا ہے یا حلقے میں کام کروانا؟ حلقے میں کام کروانا تو بلدیاتی نمائندہ بھی کر سکتا ہے! مگر قومی اسمبلی میں قومی اشوز پر عوام کی نمادگی کرنا اصل کام ہونا چاہئے، عوامی امنگوں کے مطابق قانون سازی کرانا ضروری ہے۔
کوئی بتا سکتا ہے کہ پانچ سال کے دوران عمران خان نے کتنے اجلاسوں میں شرکت کی اور عوام کی کیا نمائندگی کی ایسے ہی باقی ارکان؟ مناسب نمائندگی نہ کرنے کی بنیاد پر ہی ان ارکان کو نا اہل کر دینا چاہئے۔
 
عمران خان کا المیہ یہ نہیں کہ وہ کرپٹ یا بد دیانت ہیں۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک ہیرو ہیں۔ جب تک اس عارضے سے نجات کی کوئی صورت نہیں نکلتی ، ان کی کامیابی کا امکان بہت کم ہے۔ ہیرو کا پہلا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عام آدمی سے دور رہتا ہے۔ سیاست دان عام آدمی سے راہ و رسم رکھتا ہے۔ دکھاوے کا سہی ، مگر اس کا عام آدمی سے ایک تعلق اور رشتہ کسی نہ کسی شکل میں بر قرار رہتا ہے۔ ہیرو مگر اس تکلف سے بے نیاز رہتا ہے۔ ہیرو لوگوں کی دسترس سے د ور ہوتا ہے۔ اس کے گھر کے طلسماتی گیٹ خلق خدا کے لیے ہمیشہ بند ہوتے ہیں۔ جب اس کا عام آدمی سے تعلق نہیں ہوتا ، جب وہ براہ راست ان کے دکھ سکھ میں شریک نہیں ہوتا تو ایک خلا پیدا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اس خلاء کو پر کر دیتے ہیں۔ وہ ہیرو کو گھیر لیتے ہیں۔ وہ اس کے گرد ایک حصار قائم کر لیتے ہیں۔ وہی اس کی آنکھ اور کان بن جاتے ہیں۔ وہ انہی کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور انہی کے کان سے سنتا ہے۔ یہ اس کے حضور جس کی تعریف کر دیں وہ ہیرو کی نظر میں معتبر ہو جاتا ہے اور یہ جس کے خلاف ہو جائیں وہ ہیرو کی نظر سے بھی گر جاتا ہے۔

ہیرو کے منصب پر بیٹھا آدمی اگر مطالعے کے آزار سے بھی پاک ہو ، کان کا بھی کچا ہو اور زندگی میں کسی ایسی ریاضت سے بھی نہ گزرا ہو جو آدمی کو مردم شناسی کا فن عطا کرتی ہے تو ہیرو کا المیہ شدیدتر ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی عمران خان کے ساتھ ہوا ہے۔ وہ اس ملک میں انقلاب لانا چاہتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ سارے ملک کے ایک چوتھائی حلقوں سے بھی کما حقہ آگہی نہیں رکھتے۔ ان کی جملہ مہارت چند حلقوں تک محدود ہے۔ وہ نہیں جانتے کس حلقے کے زمینی حقائق کیا ہیں۔ انہیں کچھ خبر نہیں کس حلقے میں کتنی برادریاں ہیں ، کن برادریوں کو ناراض نہیں کرنا چاہیے ، کن برادریوں کو کیسے راضی کیا جا سکتا ہے ، وہاں کے مسائل کیا ہیں اور تعصبات کیا ہیں۔ وہ تو شاید اپنے دیرینہ کارکنان تک سے واقف نہیں۔ ان کے دربار تک حاضری کا شرف صرف انہی کو مل سکتا ہے جن کی تجوری کا سائز خاصا بڑا ہو اور جو شوکت خانم ہسپتال کو چندے کے نام کپتان کی نظر میں سرخرو ہونے کا فن جانتے ہوں۔

ان کی خلق خدا سے بے نیازی یا بے زاری کا عالم یہ ہے کہ راولپنڈی سے وہ ایم این اے بنے اور پھر بھول کر بھی انہوں نے راولپنڈی کا رخ نہیں کیا۔ یہاں پر ان کا کوئی کیمپ آفس نہیں تھا، یہاں ان کا کوئی ایسا نمائندہ نہیں جس کے ذریعے وہ حلقے کے عوام سے اور عوام ان سے رابطے میں رہتے۔ ایک خوفناک بے گانگی نے جنم لیا۔ عمران جن لوگوں میں گھرے ہیں وہی ان کی آنکھیں اور وہی انکے کان۔ یہ آنکھیں شاید ضعف بصارت سے دوچار ہیں اور یہ کان شاید صرف کھنکتے سکوں کی آوازیں سنتے ہیں۔ قریبی حلقے میں اہل دانش تو سرے سے کوئی ہے ہی نہیں ڈھنگ کے اہل سیاست بھی کم کم ہیں۔ چنانچہ ایک تماشا سا سر بازار لگا ہے۔ جو اس حلقے کو راضی کر لے وہ مقدر کا سکندر بن جاتا ہے اور جس سے یہ حلقہ ناراض ہو جائے وہ راندہ درگاہ ہو جاتا ہے۔

یہ سطور میں سرگودھا میں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں۔ یہاں تماشا لگا ہے۔ سچ جھوٹ کا خدا جانے، مجھے بھی یقین نہیں آیا ، مگر سینہ گزٹ شہر میں یہ ہے کہ جس نے دو کروڑ دینے سے انکار کر دیا اسے ٹکٹ نہیں ملا اور سرگودھا سے متصل ایک ضلع میں جس نے چھ کروڑ دے دیے اسے ٹکٹ دے دیا گیا۔ باوجود اس کے کہ اس کی بد ترین شکست نوشتہ دیوار ہے۔ سرگودھا میں ٹکٹ ان روایتی گھرانوں میں بانٹ دیے گئے ہیں عامر چیمہ کے علاوہ جن میں اب کوئی الیکٹیبل بھی نہیں رہا۔ دوسری طرف ممتاز کاہلوں کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ ممتاز کاہلوں کی حیثیت یہ ہے کہ وہ آزاد بھی لڑیں تو امکان یہ ہے کہ جیت جائیں۔ ہر لحاظ سے وہ الیکٹیبل ہیں۔ اس قوت کا کامیاب مظاہرہ پہلے وہ کر چکے ہیں ۔ پارٹی کے دیرینہ کارکن بھی ہیں۔ اور شمالی پنجاب کے نائب صدر بھی۔ دوستوں سے میں نے پوچھا انہیں ٹکٹ کیوں نہیں ملا۔ اکثریت کا جواب تھا عامر کیانی انہیں پسند نہیں کرتے۔ سوال پھر وہی ہے، عامر کیانی کے ہوتے ہوئے کیا پارٹی کو کسی دشمن کی ضرورت ہے؟ عامر کیانی آخر چاہتے کیا ہیں؟

عامر کیانی کی اپنی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ کیانی صاحب شمالی پنجاب کے صدر ہیں مگر شمالی پنجاب میں ان کا کوئی حلقہ انتخاب نہیں۔ چنانچہ انہوں نے اسلام آباد کی نشست پر ہاتھ صاف کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس پر اسلام آباد تنظیم نے احتجاج کیا اور فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ اب انہیں پنڈی بھیجا گیا ہے اور وہاں بھی ایسا ہی احتجاج ان کا استقبال کر رہا ہے۔ جس شخص کی اپنی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ ڈرائنگ روم سے نکلے تو علاقہ غیر شروع ہو جائے وہ پارٹی میں فیصلہ ساز بنا پھرتا ہے۔ سرگودھا تو پھر دور ہے ۔

اسلام آباد میں عمران خا ن کے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر الیاس مہربان جیسے مقبول آدمی کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا۔ گذشتہ انتخابات میں الیاس مہربان نے ساٹھ ہزار ووٹ لیے۔ یہ حلقہ نصف سے زیادہ دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہاں برادریاں ہیں جو فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ سالوں سے یہاں الیاس مہربان نے کام کیا۔ شریف النفس انسان ہے۔ روایتی طور پر الیکٹیبل بھی ہے۔ جس بورڈ نے ٹکٹ دینے تھے اس بورڈ نے انہیں 30 میں سے 28 نمبر دیے ۔ اس کے باوجود یہاں کا ٹکٹ عامر کیانی لے اڑے۔ عمران خان کو حلقے کی تفصیل کا خود علم ہوتا تو کیا یہ ممکن تھا؟ عمران تو اس پر یقین کرتے ہیں جو انہیں بتایا جاتا ہے۔ وہ صرف ہیرو ہیں۔ لاتعلق اور بے خبر۔ حتی کہ اپنی جماعت کے معاملات سے بھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام آباد تنظیم نے بغاوت کر دی۔ اسد عمر کو مداخلت کرنا پڑی کہ کیانی صاحب کو ٹکٹ پر اصرار کیا گیا تو ہم ایک حلقہ ہی نہیں اسلام آباد کی تینوں نشستیں ہار سکتے ہیں کیونکہ تنظیم خفا ہوکر بکھر سکتی ہے۔ تب جا کرعامر کیانی سے ٹکٹ واپس لیا گیا۔ لیکن عمران جن لوگوں کے حصار میں ہیں انہوں نے عمران کو باور کرادیا کہ الیاس مہربان تو ہار جائے گا آپ خود یہاں سے لڑ لیں۔ چنانچہ جس نے ساٹھ ہزار ووٹ لیے اور اپنے پارلیمانی بورڈ نے جسے تیس میں سے اٹھائیس نمبر دیے اسے ٹکٹ نہیں ملا۔ کیا پارٹیاں ایسے چلتی ہیں؟ جی ہاں، رہنما اگر صرف ہیرو ہو اور عوام سے فاصلے پر رہے تو ایسے ہی ہوتا ہے۔

فیاض چوہان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ گذشتہ انتخابات میں اس کے خلاف اسی ٹولے نے کام دکھایا اور چودھری اصغر کو ٹکٹ دے دیا۔ اس نے ہارنا تھا ہار گیا۔ چوہان مگر پارٹی کے ساتھ کھڑا رہا۔ اس دفعہ عمران خان نے چوہان کو ٹکٹ دیاتو اسی ٹولے نے شور مچا دیا۔ عمران کے گھر جا کر احتجاج کیا اور توڑ پھوڑ بھی۔ عمران چونکہ فیاض کو جانتے ہیں اس لیے ٹکٹ واپس لینے سے انکار کر دیا۔ وہ گروپ مگر ابھی تک متحرک ہے۔ ٹکٹوں کا اب جو شور مچا ہے یہ نہ مچا ہوتا اگر عمران کو حلقوں کے بارے میں کچھ معلوم ہوتا۔ ایسا نہیں کہ انہوں نے ٹکٹوں کی تقسیم میں جان بوجھ کر بد نیتی سے کام لیا۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ پرانے کارکنوں کو جان بوجھ کر جوتے کی نوک پر رکھے ہوئے ہیں ۔

ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک ہیرو ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں کس حلقے میں کون کیا ہے؟ نواز شریف اور شہباز شریف کا عالم یہ ہے کہ وہ حلقوں کی سیاست کو ہاتھوں کی لکیروں کی طرح جانتے ہیں۔ عمران کے ہاں ایسا کوئی انتظام نہیں۔ کیونکہ وہ صرف ایک ہیرو ہیں۔ بے نیاز اور لاتعلق۔ ہیرو ایسا ہی ہوتا ہے۔ برسوں چاہے جانے اور ٹوٹ کر چاہے جانے کے بعد ہیرو کو نرگسیت کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے۔ سیاست دان گاہے لوگوں کی دلجوئی بھی کرلیتا ہے۔ ہیرو اس سے بھی بے نیاز ہوتا ہے۔ تالیف قلب کی نزاکتوں سے بے بہرہ اس کا ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ اسے چاہا جائے اوراس سے پیار کیا جائے مگر جواب میں وہ کسی کو چاہنے اور کسی کو عزت دینے کا تکلف نہیں کرتا۔ تحریک انصاف میں یہی ہو رہا ہے۔ حیرت سے آدمی سوچتا ہے تحریک انصاف ابھی تک عمران خان کی جماعت ہے یا اسے عامر کیانی کے ہاں رہن رکھ دیا گیا ہے؟ چودھری فضل الٰہی کے زمانے میں ایوان صدر کی دیوار پر کسی نے لکھ دیا تھا صدر پاکستان کو رہا کرو۔ کیا عجب کل کوئی بنی گالہ کی دیوار پر لکھ دے : عمران خان کو رہا کرو۔
۔۔
از آصف محمود
 
Top