پاکستانی انجینئر نے پانی سے گاڑی چلا دی

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جس دن انڈیا کا کوئی اداکار مرا تھا اس دن اسی حوالے سے ایک پروگرام لگا ہوا تھا۔ جس میں ڈاکٹر ثمر مبارک صاحب نے کہا تھا ایسا ممکن ہے لیکن کچھ مسائل ہیں ان کو چیک کرنا پڑے گا۔ اسی دوران اداکار فوت ہونے کی خبر آ گی تو سارا میڈیا اس طرف لگ گیا
 

سید ذیشان

محفلین
آپ ایک فل چارج شدہ بیٹری سے کتنے کلومیٹر یا کتنی دیر تک گاڑی چلا سکتے ہیں؟ اگر بیٹری کو آؤٹ سورس سے چارج کرنا بھی پڑے تو بھی یہ ٹیکنالوجی فائدے میں ہی ہے۔
گاڑی کی بیٹریاں اس مقصد کے لئے نہیں بنی ہوتیں کہ ان کو بہت زیادہ ڈسچارج کیا جائے اور پھر ری-چارج کیا جائے۔ اس سے بیٹری بہت جلد خراب ہو جاتی ہے۔ اس مقصد کے لئے خاص ٖسم کی بیٹریاں استعمال ہوتی ہیں جو قیمتی بھی ہوتی ہیں۔

اس سے بہتر ہے آپ الیکٹرک کار استعمال کریں۔

ویسے ایک بات بتاتا چلوں کہ بجلی بھی تیل یا گیس جلا کر حاصل کی جاتی ہے۔ تو آپ تیل یا گیس گاڑی میں جلائیں یا پھر پاور پلانٹ میں۔ بات ایک ہی ہے۔
یہ اور بات ہے کہ فرانس کی طرح ہم بھی 70 فی صد بجلی نیوکلیئر زرائع سے حاصل کریں۔ تب تیل کی بچت ہو سکتی ہے۔
 

عثمان

محفلین
اس سارے قضیے میں حضرت ڈاکٹر علامہ عبدالقدیر خان نے جس "علم و فضل" کا مظاہر کیا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ آغا جینئیس تو کل غائب ہو جائیں گے لیکن قومی جینئیس کا یہ نیا کارنامہ مدتوں یاد رکھا جائے گا۔
 

محمد امین

لائبریرین
اس سارے قضیے میں حضرت ڈاکٹر علامہ عبدالقدیر خان نے جس "علم و فضل" کا مظاہر کیا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ آغا جینئیس تو کل غائب ہو جائیں گے لیکن قومی جینئیس کا یہ نیا کارنامہ مدتوں یاد رکھا جائے گا۔

مجھے تو حیرت ہے ان "فیس بکیے" دوستوں پر جو علامہ عبد القدیر صاحب کو "نیوکلیئر سائنسدان" قرار دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔جی چاہتا ہے اپنے ہی منہ پہ تھپڑ دے ماروں :rollingonthefloor:


لیجیے، پاکستان کے ایک عظیم سائنسدان کے دل جلے تاثرات پڑھیے اس فراڈیے کے بارے میں۔۔۔۔

http://tribune.com.pk/story/416542/the-water-car-fraud/
 

عثمان

محفلین
مجھے تو حیرت ہے ان "فیس بکیے" دوستوں پر جو علامہ عبد القدیر صاحب کو "نیوکلیئر سائنسدان" قرار دیتے ہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔جی چاہتا ہے اپنے ہی منہ پہ تھپڑ دے ماروں :rollingonthefloor:


لیجیے، پاکستان کے ایک عظیم سائنسدان کے دل جلے تاثرات پڑھیے اس فراڈیے کے بارے میں۔۔۔ ۔

http://tribune.com.pk/story/416542/the-water-car-fraud/

میڈیا اور آغا جی کی دھول تو کچھ دنوں تک بیٹھ جائے گی۔ اس کے بعد جو کچھ رہ جائے گا وہ انہی سائنسدانوں کے یہ کارنامے ہیں۔ مجھے تو اب تک یقین نہیں آ رہا کہ ایک کوالیفائیڈ انجینئر اور سائنسدان اس قدر بچکانہ باتیں کر سکتے ہیں۔ عبدالقدیر خان نے آغا موجد کے حق میں اپنے تازہ بیان کسی سائنسی اصول نہیں بلکہ اپنی نئی سیاسی پارٹی کے صدقے ایک قدیم سیاسی اصول کی پیروی میں دیے ہیں جس کی رو سے سائنسی اصولوں سے کچھ ممکن ہو نہ ہو لیکن عوامی دل پشوری کے سیاسی اصول کی رو سے کچھ بھی ممکن ہے۔ پانی کیا دعاؤں سے بھی گاڑی چل سکتی ہے۔
 

mwalam

محفلین
ویسے میرے نزدیک یہ ٹھیک بھی ہو سکتا ہے۔ پچھلے سال میں نے نوٹنگھم یونیرسٹی میں ایک عدد گاڑی دیکھی تھی۔ وہ ریموٹ کنٹرول الیکٹرک کار تھی۔ اور وہ کار اپنی بجلی الیکٹرولسز سے پیدا کرتی تھی۔ لیکن اسمیں خاص بات یہ تھی کہ الیکٹرولیسز کا عمل سولر پینل سے کیا جاتا تھا اور پندرہ منٹ میں اتنی بجلی پیدا ہو جاتی تھی کہ کار آدھا گھنٹہ آرام سے 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکے۔ اس کار پر ایک پی ایچ ڈی سٹوڈنٹ کام کر رہا تھا۔
میں نے طلعت والا پروگرام دیکھا تھا۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آغا کی ٹیم نے کپیسٹر استعمال کیئے ہوں انرجی سٹور کرکے گیس بناتا ہو۔ میں آپکو اسکی مثال ایسے دونگ کہ 90 کے دور میں جب ہم کیمرہ استعمال کرتے تھے تو لوڈ ہونے کا انتظار کرتے تھے تاکہ فلیش چل سکے۔ اور کیمرہ میں سیل صرف دو ہی لگتے تھے۔ لیکن کیمرہ کی فلیش کسی بھی صورت دو سیلوں سے نہیں چل سکتی۔ اسکو چلانے کیلئیے کیمرہ میں کافی زیادہ کپیسٹر استعمال کیئے جاتے تھے تاکہ فلیش چل سکے۔ اس وجہ سے سیل بھی کافی عرصہ چل جاتے تھے۔

ایک اور بات وہ لوگ HHO ایک ٹیوب میں سٹور بھی تو کر رہے تھے۔ جس وقت الیکٹرولسز بند ہو جاتا ہے تو بیٹری ری چارج ہو جاتی ہے۔ ہر وقت تو سسٹم نہین چلتا ناں۔ اور گاڑی کی mileage بھی تو زیادہ ہے پٹرول سے۔

پھر PCSIR والوں نے بھی دیکھی ہے اور وہ پوری سپورٹ دے رہے ہیں۔ باقی لوگوں نے بھی یہ کار دیکھی ہے۔ آپکا کیا خیال ہے PCSIR والوں نے نہیں دیکھا ہو گا کہ یہ سسٹم کس طرح کام کر رہا ہے۔ میرے والد خود پی ایچ ڈی کیمسٹ ہیں اور پنجاب یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ہیں انہوں نے ہی مجھے اسکے بارے میں بتایا تھا۔ اور میں نے پوچھا تھا کہ کیا یہ ممکن ہے تو میرے ویلد نے کہا تھا کہ ہاں یہ ممکن ہے لیکن فزکس والے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپکو شائد پتہ ہو کہ ڈاکٹر عطا الرحمٰن خود کیمسٹ ہیں۔ اول تو انکو اس پروگرام میں آنا ہی نہیں چاہیئے تھا۔ ایک اور بات وہ لوگ کافی کچھ چھپا رہے تھے اور اپنی کِٹ کے بارے میں صحیح انفارمیشن نہیں دے رہے تھے۔ لیکن انتظار کرتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
ویسے میرے نزدیک یہ ٹھیک بھی ہو سکتا ہے۔ پچھلے سال میں نے نوٹنگھم یونیرسٹی میں ایک عدد گاڑی دیکھی تھی۔ وہ ریموٹ کنٹرول الیکٹرک کار تھی۔ اور وہ کار اپنی بجلی الیکٹرولسز سے پیدا کرتی تھی۔ لیکن اسمیں خاص بات یہ تھی کہ الیکٹرولیسز کا عمل سولر پینل سے کیا جاتا تھا اور پندرہ منٹ میں اتنی بجلی پیدا ہو جاتی تھی کہ کار آدھا گھنٹہ آرام سے 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکے۔ اس کار پر ایک پی ایچ ڈی سٹوڈنٹ کام کر رہا تھا۔

پھر تو یہ شمسی توانائی سے چلنے والی کار ہوئی نا۔ آغا وقار کا کہنا ہے کہ اس کہ کار صرٍف اور صرف پانی سے چلے گی۔ جس پر سب کو اعتراز ہے۔ ورنہ فیول سیل ،جو کہ ہائڈروجن گیس بناتے ہیں، پر تو اب بھی ریسرچ ہو رہی ہے۔

ایک اور بات وہ لوگ HHO ایک ٹیوب میں سٹور بھی تو کر رہے تھے۔ جس وقت الیکٹرولسز بند ہو جاتا ہے تو بیٹری ری چارج ہو جاتی ہے۔ ہر وقت تو سسٹم نہین چلتا ناں۔ اور گاڑی کی mileage بھی تو زیادہ ہے پٹرول سے۔
اگر وہ سٹور کر رہے ہیں تو پھر تو یہ دعویٰ فراڈ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ سی این جی کی جگہ ہائڈروکسل کے سلنڈر لگا کر کون سا تیر مار لیا ہے؟

پھر PCSIR والوں نے بھی دیکھی ہے اور وہ پوری سپورٹ دے رہے ہیں۔ باقی لوگوں نے بھی یہ کار دیکھی ہے۔ آپکا کیا خیال ہے PCSIR والوں نے نہیں دیکھا ہو گا کہ یہ سسٹم کس طرح کام کر رہا ہے۔ میرے والد خود پی ایچ ڈی کیمسٹ ہیں اور پنجاب یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ہیں انہوں نے ہی مجھے اسکے بارے میں بتایا تھا۔ اور میں نے پوچھا تھا کہ کیا یہ ممکن ہے تو میرے ویلد نے کہا تھا کہ ہاں یہ ممکن ہے لیکن فزکس والے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپکو شائد پتہ ہو کہ ڈاکٹر عطا الرحمٰن خود کیمسٹ ہیں۔ اول تو انکو اس پروگرام میں آنا ہی نہیں چاہیئے تھا۔ ایک اور بات وہ لوگ کافی کچھ چھپا رہے تھے اور اپنی کِٹ کے بارے میں صحیح انفارمیشن نہیں دے رہے تھے۔ لیکن انتظار کرتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔

فزکس کے ٖقانون second law of thermodynamics کی یہ کھلی خلاف ورزی ہے۔ کوئی اس کو مانے یا نہ مانے اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔
اب تو فزکس کے مانے ہوئے پروفیسر پرویز ہودبائے نے بھی اس پر آرٹیکل لکھا ہے۔ اب کیا رہ گیا ہے اس دعوے میں؟
 

باباجی

محفلین
دخل اندازی کی معذرت

کچھ باتیں شیئر کرنا چاہوں گا ۔
انڈیا کا وزیراعظم اکانومسٹ
ماہرِ معاشیات

بات یہ ہے عزیزان گرامی کہ کسی بھی ملک یا کمپنی کا انحصار اس بات پر ہوتاہے کہ اس کے چلانے والوں میں کس اہلیت کے لوگ شامل ہیں
اور جب بات اہلیت کی آتی ہے تو آپ لوگ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ ہماری مشترکہ اہلیت کیا ہے۔ میں اپنی ذاتی بات کروں گا کہ مجھے بھی
کسی حد تک آپ کی بات سمجھ آئی ہے۔ جس جگہ لوگ یعنی عوام کسی بھی شخص کو محض اپنی ذات برادری یا گاؤں قصبہ کا چودھری یا وڈیرہ ہونے
کی وجہ سے منتخب کریں تو یقیناً وہ لوگ تنزلی کی طرف جائیں گے ۔ باقی رہ گئی اس طرح کی ایجادات کی بات تو آئے دن ایسا کچھ ہوتا رہتا ہے اور
ہم لوگ اسے ایشو بناکر آپس میں بحث کرکے ٹائم پاس کرتے ہیں ۔ ہم لوگ پابند ہیں یار
ناخواندگی اتنی بڑی پابندی ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے ۔ کیونکہ جو شے سوچ کہ جکڑلے وہ یقیناً طاقتور ہے۔ ہمیں لوگوں کی سوچ کو انہی کے
انداز میں بدلنا ہوگا۔ مثبت رویے اور انداز سے۔ کل میں نے نیوز دیکھی کہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر کے بچے نے بین الاقوامی فزکس
اولمپیڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کی لیکن اس کی پذیرائی کو کوئی نہ آیا۔ خدا جانے ہمارے نام نہاد میڈیا میں سے ایک چینل والوں کو کس نے
اور وہ اس کے گھر چلے گئے ۔
اسی طرح میکسیکو میں بین الاقوامی تقریری مقابلے میں پاکستانی بچی اور ایک بچے نے پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کی ۔ اس بات کو کسی نے
شہ سرخی میں شائع نہیں کیا ۔ وہ اس لئے کہ عوام کو اس میں دلچسپی نہیں ہے۔ بلکہ اس میں ہے کہ کون سا سیاستدان کس کے خلاف کیا کہہ
رہا ہے۔

ایک بار پھر معذرت آپ لوگوں سے ۔ کہ میں نے شاید اصل موضوع سے ہٹ کر بہت کچھ کہہ دیا
(یہ میری ذاتی سوچ تھی کسی کا متفق ہونا یا نا ہونا ضروری نہیں)
 

ساجد

محفلین
بات یہ ہے عزیزان گرامی کہ کسی بھی ملک یا کمپنی کا انحصار اس بات پر ہوتاہے کہ اس کے چلانے والوں میں کس اہلیت کے لوگ شامل ہیں
اور جب بات اہلیت کی آتی ہے تو آپ لوگ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ ہماری مشترکہ اہلیت کیا ہے۔ میں اپنی ذاتی بات کروں گا کہ مجھے بھی
کسی حد تک آپ کی بات سمجھ آئی ہے۔ جس جگہ لوگ یعنی عوام کسی بھی شخص کو محض اپنی ذات برادری یا گاؤں قصبہ کا چودھری یا وڈیرہ ہونے
کی وجہ سے منتخب کریں تو یقیناً وہ لوگ تنزلی کی طرف جائیں گے ۔ باقی رہ گئی اس طرح کی ایجادات کی بات تو آئے دن ایسا کچھ ہوتا رہتا ہے اور
ہم لوگ اسے ایشو بناکر آپس میں بحث کرکے ٹائم پاس کرتے ہیں ۔ ہم لوگ پابند ہیں یار
ناخواندگی اتنی بڑی پابندی ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے ۔ کیونکہ جو شے سوچ کہ جکڑلے وہ یقیناً طاقتور ہے۔ ہمیں لوگوں کی سوچ کو انہی کے
انداز میں بدلنا ہوگا۔ مثبت رویے اور انداز سے۔ کل میں نے نیوز دیکھی کہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر کے بچے نے بین الاقوامی فزکس
اولمپیڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کی لیکن اس کی پذیرائی کو کوئی نہ آیا۔ خدا جانے ہمارے نام نہاد میڈیا میں سے ایک چینل والوں کو کس نے
اور وہ اس کے گھر چلے گئے ۔
اسی طرح میکسیکو میں بین الاقوامی تقریری مقابلے میں پاکستانی بچی اور ایک بچے نے پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کی ۔ اس بات کو کسی نے
شہ سرخی میں شائع نہیں کیا ۔ وہ اس لئے کہ عوام کو اس میں دلچسپی نہیں ہے۔ بلکہ اس میں ہے کہ کون سا سیاستدان کس کے خلاف کیا کہہ
رہا ہے۔
باباجی ، ٹھیک کہتے ہیں آپ۔
 

عثمان

محفلین
کل میں نے نیوز دیکھی کہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر کے بچے نے بین الاقوامی فزکس
اولمپیڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کی لیکن اس کی پذیرائی کو کوئی نہ آیا۔ خدا جانے ہمارے نام نہاد میڈیا میں سے ایک چینل والوں کو کس نے
اور وہ اس کے گھر چلے گئے ۔
درست۔ اخبارات کے اندرونی صفحات پر چھوٹی سی خبر چھپی تھی ۔ حالانکہ اس ہونہار بچے کی خوب پذیرائی ہونی چاہیے تھی۔ لیکن افسوس کہ میڈیا کو شائد اب تک اس خبر میں اپنی مطلوبہ سنسنی خیزی دکھائی نہ دے سکی۔
 

mwalam

محفلین
میں آپکی بات سے متفق ہوں کہ جن بچوں نے کارنامے دیکھائے ہیں ان کو بلانا چاہیے لیکن میڈیا ہمارا خیر سے الٹا ہی چلتا ہے۔ باقی رہ گئی بات بھارت کی تو وہاں پر ناخواندگی، بیروزگاری اور اسقسم کے پرابلمز پاکستان سے کہیں زیادہ ہیں۔ اور آپکو یہ بھی بتا دوں پاکستان میں تو شائد تبدیلی آجائے بھارت میں نہیں آنے والی۔ اور بھارتی میڈیا دعویٰ تو بہت کرتا ہے لیکن اندر سے حالت خراب ہی ہے۔
ہمارے ہاں ایک اور خرابی ہو گئی ہے ہمارا میڈیا بھارتی میڈیا کی بہت زیادہ نقل کرنی شروع ہو گیا ہے اور وہاں کی خبریں زیادہ شوق سے سناتا ہے۔
 

باباجی

محفلین
میں آپکی بات سے متفق ہوں کہ جن بچوں نے کارنامے دیکھائے ہیں ان کو بلانا چاہیے لیکن میڈیا ہمارا خیر سے الٹا ہی چلتا ہے۔ باقی رہ گئی بات بھارت کی تو وہاں پر ناخواندگی، بیروزگاری اور اسقسم کے پرابلمز پاکستان سے کہیں زیادہ ہیں۔ اور آپکو یہ بھی بتا دوں پاکستان میں تو شائد تبدیلی آجائے بھارت میں نہیں آنے والی۔ اور بھارتی میڈیا دعویٰ تو بہت کرتا ہے لیکن اندر سے حالت خراب ہی ہے۔
ہمارے ہاں ایک اور خرابی ہو گئی ہے ہمارا میڈیا بھارتی میڈیا کی بہت زیادہ نقل کرنی شروع ہو گیا ہے اور وہاں کی خبریں زیادہ شوق سے سناتا ہے۔
بات وہاں کے میڈیا کی نہی ۔ میں نے بات کی ہے وہاں کے تعلیم یافتہ حکمران طبقے کی ۔ کے کم سے کم وہاں کے گورنمنٹ ہیڈز تو اعلٰی تعلیم یافتہ ہیں
اور ہمارے میڈیا کی بات نہ کریں ۔ میں 3 سال ہوگئے ہیں ٹی وی بالکل نہیں دیکھتا۔
بلکہ آجکل بھی سحری کے وقت دیکھ لیتا ہوں کہ وقت گذر جائے۔
 

mwalam

محفلین
پھر تو یہ شمسی توانائی سے چلنے والی کار ہوئی نا۔ آغا وقار کا کہنا ہے کہ اس کہ کار صرٍف اور صرف پانی سے چلے گی۔ جس پر سب کو اعتراز ہے۔ ورنہ فیول سیل ،جو کہ ہائڈروجن گیس بناتے ہیں، پر تو اب بھی ریسرچ ہو رہی ہے۔

یونیورسٹی والے بیٹری کی بجائے سولر سیلز سے بجلی لے رہے تھے۔

اگر وہ سٹور کر رہے ہیں تو پھر تو یہ دعویٰ فراڈ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ سی این جی کی جگہ ہائڈروکسل کے سلنڈر لگا کر کون سا تیر مار لیا ہے؟
Honda کمپنی نے فیول سیل سے چلنے والی گاڑی بنائی ہے۔ اسمیں ہائیڈروجن گیس CNG گیس کیطرح ڈالی جاتی ہے۔ جبکہ انکے سسٹم میں گاڑی کے اندر پانی کو گیس میں تبدیل کرکے سٹور کیا جاتا ہے۔


فزکس کے ٖقانون second law of thermodynamics کی یہ کھلی خلاف ورزی ہے۔ کوئی اس کو مانے یا نہ مانے اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔
اب تو فزکس کے مانے ہوئے پروفیسر پرویز ہودبائے نے بھی اس پر آرٹیکل لکھا ہے۔ اب کیا رہ گیا ہے اس دعوے میں؟
یہ اسوقت خلاف ہوتا اگر گیس سٹور ہوئے بغیر سیدھی انجن میں جاتی۔ جبکہ گیس سٹور ہو رہی ہے۔ اور پھر انجن میں جا رہی ہے۔ آغا وقار کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ پانی کو گیس میں بہت جلد اور بیٹری کی کم پاور لیکر تبدیل کر رہا ہے۔ باقی رہ گئی بات پروفیسر ہودبائی کی۔ انہوں نے تو کار کے فیول ٹینک میں جنریٹر فٹ کرا دیا ہے۔ پروفیسر صاحب کو شائد علم ہو گا کہ جنریٹر کی اچھی خاصی آواز ہوتی ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
یونیورسٹی والے بیٹری کی بجائے سولر سیلز سے بجلی لے رہے تھے۔
تو اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟ سولر سیل کی جگہ پر آپ اس میں نیوکلیئر پلانٹ لگا دیں۔ پوائنٹ یہ تھا کہ صرف پانی پر گاڑی نہیں چل سکتی۔

Honda کمپنی نے فیول سیل سے چلنے والی گاڑی بنائی ہے۔ اسمیں ہائیڈروجن گیس CNG گیس کیطرح ڈالی جاتی ہے۔ جبکہ انکے سسٹم میں گاڑی کے اندر پانی کو گیس میں تبدیل کرکے سٹور کیا جاتا ہے۔
اس سے گاڑی کی افیشنسی بڑھتی ہے۔ خرچہ CNG جتنا یا اس سے زیادہ آتا ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ کمرشل ہائڈروجن گیس میتھین گیس سے حاصل کی جاتی ہے electrolysis سے نہیں کیونکہ electrolysis پر زیادہ توانائی خرچ ہوتی ہے۔

یہ اسوقت خلاف ہوتا اگر گیس سٹور ہوئے بغیر سیدھی انجن میں جاتی۔ جبکہ گیس سٹور ہو رہی ہے۔ اور پھر انجن میں جا رہی ہے۔ آغا وقار کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ پانی کو گیس میں بہت جلد اور بیٹری کی کم پاور لیکر تبدیل کر رہا ہے۔

سٹور کریں نہ کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جتنی مقدار انجن کو چلنے کے لئے چاہیے اتنی ہی چاہئے، چاہے وہ سلنڈر سے آ رہی ہو یا electrolysis کٹ سے۔


باقی رہ گئی بات پروفیسر ہودبائی کی۔ انہوں نے تو کار کے فیول ٹینک میں جنریٹر فٹ کرا دیا ہے۔ پروفیسر صاحب کو شائد علم ہو گا کہ جنریٹر کی اچھی خاصی آواز ہوتی ہے۔

شائد آپ کا اشارہ اس اقتباس کی طرف ہے:
. Here’s how: take an emergency electricity generator, of which there are thousands in Islamabad. Its engine is similar to that in a car. Remove the fuel tank and make sure the ‘water kit’ contains only water.
میں آپ کی سہولت کے لئے اس کا اردو میں ترجمہ کرتا ہوں۔

"یہ ایسے ہوتا ہے: بجلی کے جنریٹر کو لیں، اسلام آباد میں ایسے (جنریٹر) ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ اس کا انجن گاڑی کے انجن کی طرح ہوتا ہے۔ اس کے فیول ٹینک کو ہٹا دیں اور اس کو یقینی بنایئں کی "واٹر کٹ " میں صرف پانی ہو"

اس بات سے یہ کیسے اخذ کیا کہ "کار کے فیول ٹینک میں جنریٹر فٹ کرا دیا ہے"؟

میں سمجھتا ہوں کہ آپ چاہتے ہیں کہ یہ تجربہ کامیاب ہو لیکن اس کے لئے دروغ گوئی سے کام نہ لیجئے۔
 

بلال

محفلین
ہون رام جے؟؟؟ اب سناؤ کچھ آرام آیا؟
آج کے پروگرام ”حسبِ حال“ اور ”آج کامران خان کے ساتھ“ کس کس نے دیکھے ہیں؟ ذرا کوئی پانی سے چلنے والی گاڑی کا قصہ تو بیان کرے۔ چلو پھر یہ دو ویڈیوز دیکھو اور اب اپنی سوچ اور جذباتی پن پر ماتم کرو۔ اب جو دنیا میں ہمارے ملک کی بے عزتی ہو رہی ہے اس کو کس تناظر میں دیکھو گے حضور؟
جب میں نے اس پر لکھا تھا تو بہت زیادہ دوست جو سائنس کا شعور رکھتے ہیں، انہوں نے حوصلہ افزائی کی مگر کچھ لوگ جذبات میں اتنے آگے نکل گئے کہ اخلاقیات بھولتے ہوئے گالیوں پر گالیاں دینے لگے۔ خیر پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔
 

میر انیس

لائبریرین
اس ویڈیو میں کامران خان کے پروگرام میں پی ٹی وی کا وہی پروگرام دکھایا گیا ہے جس کے بارے میں پرسوں میں نے بتایا تھا۔ اس پروگرام میں ڈاکٹر ثمر مبارک نے کہا تھا کہ ہم کل اسکا ٹرائل لیں گے پھر کوئی حتمی بات کہ سکیں گے ۔ مجھ کو ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ انہوں نے میڈیا پر کلیئر کٹ یہ کیوں نہیں کہا کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا جب سائینس کے کسی بھی نظریہ اور قانون سے یہ بات ثابت ہی نہیں کی جاسکتی تو کیا وجہ ہے ایک اتنا بڑا سائینسدان پھر بھی آس لگائے بیٹھا ہے۔ میڈیا نے کیوں اسکو بڑھا چڑھا کے پیش کیا۔ ہمارے دو وزیربھی حوصلہ افزائی کیلئے کیوں آگے بڑھے ۔ مجھے اسکی وجوہات صرف یہی نظر آتیں ہیں کہ اگر یہ سب نہ کیا جاتا تو
1۔ ہماری معصوم عوام یہی کہتی دیکھو پاکستان میں ایک سے بڑھ کر ایک ٹیلینٹ موجود ہے پر انکی کبھی سرکاری سرپرستی ہی نہیں کی جاتی۔ فلاں نے بھی فلاں دعوٰی کیا تھا اور فلان نے بھی پر انکو کسی نے پوچھا تک نہیں جبکہ فلاں کو فلاں ملک لے گیا جہاں اب وہ انکے لئے کام کر رہا ہے۔
2۔ اسکا بھی وہی حشر ہوا جو اس سے پہلے کے لوگوں کے ساتھ ہوا تھا چونکہ یہ عام غریب آدمی تھا اس لئے خواص نے پسند نہیں کیا کہ کسی ایسے آدمی کی مشہوری ہو۔
3۔ ہماری میڈیا تو ہے ہی اغیار کی غلام امریکہ کے کہنے پر چلتی ہے ایک آدمی دعوٰی کرچکا ہے کہ پانی سے گاڑی چلائے گا پر امریکہ کیوں کسی مسلمان کو آگے بڑھنے دے گا ۔ دیکھنا کچھ عرصہ بعد یہ آدمی ہی غائب کردیا جائے گا۔
4۔ حکومت کبھی اسکو کامیاب نہیں ہونے دے گی کیوں کہ وہ تو کماتی ہی پیٹرول سے ہے۔
یہ سب وہی باتیں ہیں جو میں سن چکا ہوں عام لوگوں سے۔ اچھا ہے اس بار ہر سطح پر اتمامِ حجت کی جارہی ہے تاکہ ہماری عوام جس خوش فہمی میں مبتلا ء ہے وہ تو کم از کم دور ہو
 
Top