پاکستانی انجینئر نے پانی سے گاڑی چلا دی

محمدصابر

محفلین
فیس بک کا ایک کمنٹ
Anyone who has studied science even at the level of matric would know that this is a fake experiment. Electrolysis of water (to use as fuel) is a highly endothermic reaction, and requires a lot of energy, and even in ideal conditions, the bi-product (Hydrogen and oxygen combined) would yield less energy than actually required to produce hydrogen and oxygen in the first place. This SCAM is proving to the world that as a nation we are just more dumb than anyone would have guessed. Very sad indeed.
 

تلمیذ

لائبریرین
حامد میر جیسے جید صحافی نے اس کو پاکستان کے سب سے بڑے ٹی وی چینل پر چلانے سے پیشتر کچھ تو تحقیق کی ہوگی!!
 

محمد امین

لائبریرین
یہ لوگوں کو بیوقوف بنا رہا ہے۔۔۔ اس کے ساتھی نوجوان انجینئر نے اس عمل کی جو توجیہہ پیش کی ہے وہ کچھ یوں ہے:



‎"Yeh DC current is device k andar aa raha hai. Sahee hai. Aur yeh DC current se gas generate ho rahee hai. Ab rahee baat iss mein first law of thermodynamics ki, tou iss mein jo hum ney electrodes use kiey hain tou woh hain capacitor, sahee hai? aur capacitor ka kaam hota hai charge ko store ker laina. Tou us k ooper applied physics ka aik topic hai resonance, jab hum wo resonance topic apply kertay hain na tou us mein basically hum pulse ko modulate kertay hain, pulse ki width ko modulate kertay hain, pulse ki width jo modulate hoti hai, tou us ki wajah se jo paani hota hai, usey hum capacitor mein as a dielectric medium use kertay hain. Aur paani jab as a dielectric medium use ker rahay hain aur capacitor k cathode aur anode per use ker rahey hain as an electrode tou us mein basically hota yeh hai k jo paani ka jo molecule hota hai hydrogen aur oxygen ka wo apas mein jura huwa hota hai tou jab hum pulse ki width ko barha detay hain, pulse ki width ki rating ko jab barha detay hain tou woh us ko khenchna shru ker deyta hai aur jaisey hee hum us pulse ki intensity ko increase kerdetay hain, tou uss se basically hota yeh hai k us intensity ki wajah se hamein hydrogen ki aur oxygen ki yaani oxyhydrogen ki production bulk quantity mein produce ho jati hai"



حوالہ: https://www.facebook.com/obaiyd/posts/509049062454271?ref=notif&notif_t=feed_comment_reply

اب آئیے اس بیوقوفانہ، جاہلانہ، بچگانہ توجیہہ کی وضاحت پر۔

تھرموڈائنامکس کے پہلے قانون کا capacitor سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔ resonance کا بھی اس عمل سے کوئی تعلق نہیں۔ pulse width modulation کمیونکیشن کا ایک عمل ہے، اس کا thermodynamicsکے اس عمل سے کوئی تعلق نہیں۔ pulse modulation کا الیکٹرولائسس سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔ پاکستان کے مایہ ناز سائنسدان اور دنیا بھر کے مانے جانے کیمیاء دان ڈوکٹر عطاء الرحمٰن اس شخص کے دعوے کو غلط قرار دے چکے ہیں مگر الٹا اس شخص نے ان پر الزام لگایا کہ آپ نے کوئی ایجاد نہیں کی آج تک اور حکومت کے پیسے کھا گئے۔ اول تو عطا صاحب مؤجد نہیں کیمیاء دان ہیں۔ انہوں نے کیمیاوی تحقیق میں سیکڑوں مضامین لکھے اور کتابیں تحریر کیں۔

ہمارے میڈیا والے سائنس کا علم رکھتے ہی نہیں اور لوگوں کے دعووں پر ایسے اودھم مچاتے ہیں جیسے پاکستان واحد ملک ہے جہاں ایجادات ہوسکتی ہیں اور باقی دنیا والے ایجادات کرنے کے بعد اب سوگئے ہیں۔

پانی کے ذریعے گاڑی چلانے کے کئی کامیاب تجربے ہوچکے ہیں اور انٹرنیٹ پر خاصا مواد بھی موجود ہے۔ بنی بنائی kits مل جاتی ہیں۔ یہ کوئی روکٹ سائنس نہیں ہے۔ مگر بات یہ ہے کہ یہ طریقہ بڑے پیمانے پر اور ایفی شنسی کے ساتھ قابلِ عمل نہیں ہے ورنہ امریکہ، جاپان، جرمنی جیسے "کارساز" ممالک نے دنیا میں جھک نہیں ماری۔


تدوین: پانی کو کیپیسیٹر کے قانون کے لیے ڈائی الیکٹرک کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ کیپیسٹر بنیادی طور پر کرنٹ کو روکتا ہے جب کہ برق پاشیدگی میں موجود مائع بنیادی طور پر کرنٹ گزارنے کے کام ہی آتا ہے۔۔۔۔۔
 
میڈیا پر تشہیر سے پہلے ، بہتر ہوتا کہ اسکی گاڑی کی اچھی طرح انسپکشن کرلی جاتی تاکہ فراڈ کا اگر کوئی احتمال ہے تو وہ اسی سٹیج پر پکڑا جاسکے۔ اب اگر کل کلاں اس انسپکشن کے نتیجے میں خدانخواستہ، دال میں کچھ کالا نظر آگیا تو انٹرنیشنل لیول پر پاکستان کی کس قدر سبکی ہوگی، اسکا اندازہ آپ خود ہی کرلیجئے۔
 

محمد امین

لائبریرین
تدوین: پانی کو کیپیسیٹر کے قانون کے لیے ڈائی الیکٹرک کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ کیپیسٹر بنیادی طور پر ڈی سی کرنٹ کو روکتا ہے جب کہ برق پاشیدگی میں موجود مائع بنیادی طور پر کرنٹ گزارنے کے کام ہی آتا ہے۔۔۔ ۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
میڈیا پر تشہیر سے پہلے ، بہتر ہوتا کہ اسکی گاڑی کی اچھی طرح انسپکشن کرلی جاتی تاکہ فراڈ کا اگر کوئی احتمال ہے تو وہ اسی سٹیج پر پکڑا جاسکے۔ اب اگر کل کلاں اس انسپکشن کے نتیجے میں خدانخواستہ، دال میں کچھ کالا نظر آگیا تو انٹرنیشنل لیول پر پاکستان کی کس قدر سبکی ہوگی، اسکا اندازہ آپ خود ہی کرلیجئے۔

محمود بھائی بات فراڈ کی نہیں۔ یہ ایسا ہی معاملہ ہے جیسے وہ پچھلے دنوں ہمیں ایک عدد مائیکروسوفٹ کے ایم ڈی نظر آئے تھے اوکاڑہ سے۔۔۔ :D
 

عثمان

محفلین
محمود بھائی بات فراڈ کی نہیں۔ یہ ایسا ہی معاملہ ہے جیسے وہ پچھلے دنوں ہمیں ایک عدد مائیکروسوفٹ کے ایم ڈی نظر آئے تھے اوکاڑہ سے۔۔۔ :D
اس کا کیا قصہ ہے وہ بھی شئیر کریں۔ :)

میڈیا اینکرز تو خیر سائنس سے نابلد اور غیر ذمہ دار لوگ ہیں جو سنسنی خیزی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ لیکن مجھے رہ رہ کر حیرانی ان سائنسدانوں پر ہے جو طلعت حسین کے پروگرام میں سر ہلا ہلا کر اس شخص کے دعویٰ کی تصدیق کر رہے تھے۔
 

سویدا

محفلین
میں نے کہیں سنا تھا کہ ساٹھ کی دہائی میں مغرب میں کسی آدمی نے یہ کام کیا تھا پانی کے ذریعے گاڑی چلانے کا جسے پیٹرول اور آئل مافیا نے ہلاک کر ڈالا
کیا یہ بات صحیح ہے ؟
 

arifkarim

معطل
یہاں سب لوگ جو ان صاحب پر بار بار فراڈ کا الزام لگا رہے ہیں کیا ان میں سے خود کسی نے اس گاڑی میں بیٹھ کر سفر کر کے دیکھا ہے؟ حامد میر نے پہلے خود آدھا گھنٹا اسمیں سفر کیا اسکے بعد نون لیگ کے ایک سیاست دان کیساتھ اسمیں گھومتا رہا۔ بے شک یہ گاڑی پانی سے نہیں بلکہ چارجڈ بجلی سے چل رہی ہے۔ اور اگر چلتی گاڑی اس استعمال شدہ بجلی کو 100 فیصد واپس بیٹری میں منتقل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو ظاہر سی بات ہے اس "ایجاد" کو کمرشلائز کرنا ناممکن ہے۔ کالج کے زمانہ میں فزکس کے کورس کے دوران خاکسار کو بھی اسی قسم کی کار بنانے کا آئیڈیا آتا رہتا تھا۔ اسوقت میرے اندازے کے مطابق گاڑی کے اوپر پنکھے لگا کر بذریعہ ہوا یا اسکی چھت پر شمسی آئینے لگا کر یہ ضائع شدہ بجلی واپس بیٹری میں منتقل کی جا سکتی ہے۔ مزید یہ کہ گاڑی کے پہیوں کو مقناطیسی تحریض کے ذریعہ بجلی پیدا کرنے والے جنریٹرز میں بھی بدلا جا سکتا ہے۔ الغرض یہ کہ پاکستان جیسے ملک میں اگر کوئی شخص کچھ 'سائنسی' بنا لے تو بجائے اسپر الزام تراشی کرنے کے اسکی ایجاد کو مختلف سائنس دانوں اور عام لوگوں کو ٹیسٹ تو کر نے دیں۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ ایک اور ناکام تجربہ؟ تو کیا؟ انسان اب تک جتنی بھی ترقی کی ہے وہ انہی ناکام تجربات کی بدولت حاصل ہوئی ہے۔ مشہور زمانہ ایڈیسن نے بھی لائٹ بلب ایجاد کرتے وقت کئی سو ناکام تجربات کئے تھے۔
 

ساجد

محفلین
ایک طویل عرصہ کے بعد سائنس کی کسی ایجاد کے حوالے سے پاکستان کا ذکر ہو رہا ہے۔ یہ تجربہ کامیاب ہو یا ناکام لیکن یہی بہت ہے کہ اس وقت محفل پر ہم لوگ سائنس کے حوالے سے اپنے تجربات و خیالات سانجھے کر رہے ہیں بجائے نزاعی معاملات پر الجھنے کے ۔ میرے نزدیک تو یہ بھی بڑی مثبت بات ہے۔
:)
تجربات کا کیا ہے یہ ناکام ہوتے ہی رہتے ہیں ۔ ان سے پیوستہ رہیں گے تو کبھی کامیابی کا مرحلہ بھی آ ہی جائے گا ۔ سائنس کی زیادہ تر ایجادات اتفاقی ہیں۔ بنانے کچھ چلے تھے لیکن بن کچھ اور گیا۔ کچھ نہ بھی بن سکا تو کوئی نیا اصول یا اشیاء ، عناصرا ور مرکبات کی نئی نئی خاصیتیں ہی سامنے آ ئیں جو دیگر تجربات کی بنیاد بنیں۔ سو "پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ"۔
 

نمرہ

محفلین
یہ لوگوں کو بیوقوف بنا رہا ہے۔۔۔ اس کے ساتھی نوجوان انجینئر نے اس عمل کی جو توجیہہ پیش کی ہے وہ کچھ یوں ہے:
حوالہ: https://www.facebook.com/obaiyd/posts/509049062454271?ref=notif&notif_t=feed_comment_reply
زبردست۔۔ویسے اگر یہ صاحب چاہتے، تو اس میں مزید نام بھی لے سکتے تھے، مثال کے طور پر فیوژن۔
 

سید ذیشان

محفلین
ایک طویل عرصہ کے بعد سائنس کی کسی ایجاد کے حوالے سے پاکستان کا ذکر ہو رہا ہے۔ یہ تجربہ کامیاب ہو یا ناکام لیکن یہی بہت ہے کہ اس وقت محفل پر ہم لوگ سائنس کے حوالے سے اپنے تجربات و خیالات سانجھے کر رہے ہیں بجائے نزاعی معاملات پر الجھنے کے ۔ میرے نزدیک تو یہ بھی بڑی مثبت بات ہے

میں اس بات سے اختلاف کروں گا۔ فراڈ کو سائنس بنا کر پیش کرکے لوگوں کا پاکستانی سائنسدانوں ( جو کہ واقعی میں کچھ کام کر رہے ہیں) پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔

تو اس طرح کی "ایجادات" کو بہتر ہے تحقیق کرنے کے بعد ہی اناونس کیا جائے۔ ویسے ٹی وی چینل والے اگر سائنس اڈوائزر رکھ لیں تو بہت بڑی شرمندگی سے بچ سکتے ہیں۔
 

زبیر حسین

محفلین
یہاں سب لوگ جو ان صاحب پر بار بار فراڈ کا الزام لگا رہے ہیں کیا ان میں سے خود کسی نے اس گاڑی میں بیٹھ کر سفر کر کے دیکھا ہے؟ حامد میر نے پہلے خود آدھا گھنٹا اسمیں سفر کیا اسکے بعد نون لیگ کے ایک سیاست دان کیساتھ اسمیں گھومتا رہا۔ بے شک یہ گاڑی پانی سے نہیں بلکہ چارجڈ بجلی سے چل رہی ہے۔ اور اگر چلتی گاڑی اس استعمال شدہ بجلی کو 100 فیصد واپس بیٹری میں منتقل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو ظاہر سی بات ہے اس "ایجاد" کو کمرشلائز کرنا ناممکن ہے۔ کالج کے زمانہ میں فزکس کے کورس کے دوران خاکسار کو بھی اسی قسم کی کار بنانے کا آئیڈیا آتا رہتا تھا۔ اسوقت میرے اندازے کے مطابق گاڑی کے اوپر پنکھے لگا کر بذریعہ ہوا یا اسکی چھت پر شمسی آئینے لگا کر یہ ضائع شدہ بجلی واپس بیٹری میں منتقل کی جا سکتی ہے۔ مزید یہ کہ گاڑی کے پہیوں کو مقناطیسی تحریض کے ذریعہ بجلی پیدا کرنے والے جنریٹرز میں بھی بدلا جا سکتا ہے۔ الغرض یہ کہ پاکستان جیسے ملک میں اگر کوئی شخص کچھ 'سائنسی' بنا لے تو بجائے اسپر الزام تراشی کرنے کے اسکی ایجاد کو مختلف سائنس دانوں اور عام لوگوں کو ٹیسٹ تو کر نے دیں۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ ایک اور ناکام تجربہ؟ تو کیا؟ انسان اب تک جتنی بھی ترقی کی ہے وہ انہی ناکام تجربات کی بدولت حاصل ہوئی ہے۔ مشہور زمانہ ایڈیسن نے بھی لائٹ بلب ایجاد کرتے وقت کئی سو ناکام تجربات کئے تھے۔
سارے مباحثے میں میں آپ کی بات سب سے وزنی ہے۔
 

ساجد

محفلین
میں اس بات سے اختلاف کروں گا۔ فراڈ کو سائنس بنا کر پیش کرکے لوگوں کا پاکستانی سائنسدانوں ( جو کہ واقعی میں کچھ کام کر رہے ہیں) پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔

تو اس طرح کی "ایجادات" کو بہتر ہے تحقیق کرنے کے بعد ہی اناونس کیا جائے۔ ویسے ٹی وی چینل والے اگر سائنس اڈوائزر رکھ لیں تو بہت بڑی شرمندگی سے بچ سکتے ہیں۔
یہ بھی ٹھیک کہا آپ نے۔
 

محمد امین

لائبریرین
یہاں سب لوگ جو ان صاحب پر بار بار فراڈ کا الزام لگا رہے ہیں کیا ان میں سے خود کسی نے اس گاڑی میں بیٹھ کر سفر کر کے دیکھا ہے؟ حامد میر نے پہلے خود آدھا گھنٹا اسمیں سفر کیا اسکے بعد نون لیگ کے ایک سیاست دان کیساتھ اسمیں گھومتا رہا۔ بے شک یہ گاڑی پانی سے نہیں بلکہ چارجڈ بجلی سے چل رہی ہے۔ اور اگر چلتی گاڑی اس استعمال شدہ بجلی کو 100 فیصد واپس بیٹری میں منتقل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو ظاہر سی بات ہے اس "ایجاد" کو کمرشلائز کرنا ناممکن ہے۔ کالج کے زمانہ میں فزکس کے کورس کے دوران خاکسار کو بھی اسی قسم کی کار بنانے کا آئیڈیا آتا رہتا تھا۔ اسوقت میرے اندازے کے مطابق گاڑی کے اوپر پنکھے لگا کر بذریعہ ہوا یا اسکی چھت پر شمسی آئینے لگا کر یہ ضائع شدہ بجلی واپس بیٹری میں منتقل کی جا سکتی ہے۔ مزید یہ کہ گاڑی کے پہیوں کو مقناطیسی تحریض کے ذریعہ بجلی پیدا کرنے والے جنریٹرز میں بھی بدلا جا سکتا ہے۔ الغرض یہ کہ پاکستان جیسے ملک میں اگر کوئی شخص کچھ 'سائنسی' بنا لے تو بجائے اسپر الزام تراشی کرنے کے اسکی ایجاد کو مختلف سائنس دانوں اور عام لوگوں کو ٹیسٹ تو کر نے دیں۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ ایک اور ناکام تجربہ؟ تو کیا؟ انسان اب تک جتنی بھی ترقی کی ہے وہ انہی ناکام تجربات کی بدولت حاصل ہوئی ہے۔ مشہور زمانہ ایڈیسن نے بھی لائٹ بلب ایجاد کرتے وقت کئی سو ناکام تجربات کئے تھے۔

عارف بھائی یہ پانی سے گاڑی چلانے والی کٹس دنیا میں پہلے سے موجود ہیں اور بنی بنائی مل جاتی ہیں، یہ بہت پرانا آئیڈیا ہے، انٹرنیٹ پر سرچ کیجیے بہت کچھ مل جائے گا۔۔۔ تو اس شخص کا دعویٰ جھوٹا ہے۔۔۔ اور مزے کی بات یہ کہ یہ اپنی "ایجاد" کی توضیح میں بھی ناکام ہوگیا ہے۔ اس بندے نے کیمیاوی، طبیعیاتی اور برقیاتی قوانین کی جو دھجیاں اڑائی ہیں وہ کسی سائنس اور انجینئرنگ کے طالبعلم سے پوچھیے :) آپ نے شاید رومن اردو میں لکھا ہوا اقتباس نہیں دیکھا۔۔۔ اگر کوئی اس شخص کی پیش کردہ توضیحات کو درست ثابت کردے تو میں اور میرے کچھ دوست اور ان کے کچھ دوست جو امریکہ، اٹلی، جرمنی، وغیرہم میں سائنس اور انجینئرنگ میں تحقیق کر رہے ہیں اپنی ڈگریاں جلانے کو تیار ہیں۔۔۔ اس شخص نے تو ڈوکٹر عطاء الرحمٰن تک کو نہیں چھوڑا۔۔۔
 

میر انیس

لائبریرین
ابھی میں ایک پروگرام دیکھ رہا ہوں جس میں آغا وقار کے ساتھ مشہور سائینسدان ثمر مبارک بھی موجود ہیں ۔ آپ سب کی بانسبت ڈاکٹر ثمر مبارک نے کلی طور پر اس واٹر کٹ مسترد نہیں کیا ہے۔ کل اس کی مکمل جانچ کی جائے گی پھر حتمی نتیجے پر پہنچیں گے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک کو شکوک ضرور ہیں اور اس ہر انہوں نے بات بھی کی پر اس آئیڈیا کو سراہا بھی بہت۔
 
Top