وزیراعظم نےاکانومک ایڈوائزری کونسل قائم کر دی: معروف ماہر اقتصادیات عاطف میاں کونسل کا حصہ ہوں گے

ام اویس

محفلین
ذہانت بھی مذہبی ہوتی ہے؟

یہ تحریر لکھنے سے پہلے میں بتانا چلوں کہ میرا تعلق جس قوم سے ہے اسکو انسان کہتے ہیں اور میرا مذہب مجھے انسانیت کا درس دیتا ہے اس کے علاوہ مجھے کسی کو یہ بتانے یا سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ میں کتنا بڑا اور سچا مسلمان ہوں۔
کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک اقلیتی کمیونٹی کے خلاف جنگ کا آغاز ہو چکا ہے اور دبائو اتنا بڑھ گیا کہ گورنمنٹ کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ آپ ٹھیک سمجھے میں عاطف میاں کی بات کر رہا ہوں جس کا تعلق احمدی طبقے سے ہے اس کے نام کے علاوہ ان کے بارے میں کچھ اہم معلومات بھی بتاتا چلوں کہ 2014 میں آئی ایم ایف نے عاطف میاں کو دنیا کے ٹاپ 25 اکانومسٹ کی لسٹ میں ڈالا تھا یہ پرنسٹن یونیورسٹی میں اقتصادیات، پبلک پالیسی اور فنانس کے پروفیسر ہیں اور ان کا شمار دنیا میں میکرو معیشت کے بہتریں ماہرین میں سے ہوتا ہے
ذہانت کبھی مذہبی نہیں ہوتی اور اگر مسلمان اپنا فوکس روٹی پر اللہ دیکھنے پر، دھرنے دینے، مذہب کو اپنے انداز سے پیش کرنے، اور غیر مسلموں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے پر صرف کریں گے تو ہمیں ذہین لوگ باہر سے ہی امپورٹ کرنے پڑیں گے- جب انسان مشکل میں ہوتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کی مشکل حل کرنے والا ہندو ہے، کرسچن ہے یا یہودی وہ اس کو خدا کی طرف سے وسلیہ سمجھ کر اس کی مدد قبول کرتا ہے یہی سوچ پاکستانیوں کی بھی ہونی چاہئے تھی لیکن افسوس ہم نے مدد لینے اور دینے میں بھی مذہب کا استعال شروع کر دیا ہے
اگر ہم آج اقلیتوں کو ان کے حقوق سے محروم کریں گے تو ہمیں پھر برما اور انڈیا کی مسلم اقلیتوں کے لئے آواز اٹھاتے شرم آنی چاہئے کیونکہ ان کے ساتھ وہی کچھ ہورہا ہے جو ہم اپنے ملک میں اپنی اقلیتی برادری کے ساتھ کر رہے ہیں
ہم کتنے بڑے مسلمان ہیں آج اس بات کا ہم ثبوت دے سکتے ہیں چلیں آج ہم اپنے موبائل، لیپ ٹاپ توڑ ڈالتے ہیں، فیس بک کو ان انسٹال کر دیتے ہیں، جن بڑی بڑی بلٹ پروف گاڑیوں پر ہمارے یہی مذہبی رہنما پھرتے ہیں ان کو جلا ڈالتے ہیں کیوں کہ یہ سب کافروں کی ایجادات ہیں ہم تو بس بیٹھے ان کی ایجادات کے مزے لوٹنے میں لگے ہیں۔
چلیں اس کو اسلامی نقطہ نظر سے بھی دیکھتے ہیں غزوہ بدر میں جضورﷺ نے قیدیوں (کفار) سے کہا کہ انہیں آزادی لینے کے لئے مسلمانوں کے بچوں کو پڑھنا لکھنا (دنیاوی تعلیم) سکھانا پڑے گا ہم سب مسلمان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ آپ ﷺ کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے تو اگر انہوں نے غیر مسلم قیدیوں کی ذہانت کے استعمال کو برا نہیں سمجھا تو ہم ان کی امت اس کو کیوں برا سمجھ رہے ہیں۔ ہمیں بھی ایک اقلیتی برادری کے ذہین شخص سے ملک کی بہتری کے لئے مشاورت کرنے میں مذہب کا استعمال نہیں کرنا چاہئے تھا
اگر ہم اس ملک بنانے والی ہستی، قائداعظم کی بھی بات کریں تو ان کی 11 اگست 1947 کے خطاب کو بھی یاد رکھنا چاہئے ” آپ کسی مذہب، کسی ذات، کسی عقیدے کے بھی ہوں امور ریاست کو اس سے کوئی تعلق نہیں”

ایاک نعبد و ایاک نستعین
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس معاملے میں یہ بھی کہیں پتہ چلا تھا کہ عاطف میاں صحب پہلے مسلمان تھے پھر قادیانی مذہب قبول کیا ۔ اس تبدیلی کے کیا مضمرات اور امکانات تھے انوں نے ایسا کیوں کیا اس اس سے انہیں کیا حاصل ہوا۔اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا عین ممکن ہے کہ یہی باتیں ان تحفظات کی وجہ بنیں جس پر اتنا واویلا ہوا کہ فیصلہ واپس لینا پڑا ۔ لیکن اس پر شاید تفصیلی بات کہیں نہیں ہوئی۔
 
ذہانت بھی مذہبی ہوتی ہے؟

یہ تحریر لکھنے سے پہلے میں بتانا چلوں کہ میرا تعلق جس قوم سے ہے اسکو انسان کہتے ہیں اور میرا مذہب مجھے انسانیت کا درس دیتا ہے اس کے علاوہ مجھے کسی کو یہ بتانے یا سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ میں کتنا بڑا اور سچا مسلمان ہوں۔
کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک اقلیتی کمیونٹی کے خلاف جنگ کا آغاز ہو چکا ہے اور دبائو اتنا بڑھ گیا کہ گورنمنٹ کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ آپ ٹھیک سمجھے میں عاطف میاں کی بات کر رہا ہوں جس کا تعلق احمدی طبقے سے ہے اس کے نام کے علاوہ ان کے بارے میں کچھ اہم معلومات بھی بتاتا چلوں کہ 2014 میں آئی ایم ایف نے عاطف میاں کو دنیا کے ٹاپ 25 اکانومسٹ کی لسٹ میں ڈالا تھا یہ پرنسٹن یونیورسٹی میں اقتصادیات، پبلک پالیسی اور فنانس کے پروفیسر ہیں اور ان کا شمار دنیا میں میکرو معیشت کے بہتریں ماہرین میں سے ہوتا ہے
ذہانت کبھی مذہبی نہیں ہوتی اور اگر مسلمان اپنا فوکس روٹی پر اللہ دیکھنے پر، دھرنے دینے، مذہب کو اپنے انداز سے پیش کرنے، اور غیر مسلموں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے پر صرف کریں گے تو ہمیں ذہین لوگ باہر سے ہی امپورٹ کرنے پڑیں گے- جب انسان مشکل میں ہوتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کی مشکل حل کرنے والا ہندو ہے، کرسچن ہے یا یہودی وہ اس کو خدا کی طرف سے وسلیہ سمجھ کر اس کی مدد قبول کرتا ہے یہی سوچ پاکستانیوں کی بھی ہونی چاہئے تھی لیکن افسوس ہم نے مدد لینے اور دینے میں بھی مذہب کا استعال شروع کر دیا ہے
اگر ہم آج اقلیتوں کو ان کے حقوق سے محروم کریں گے تو ہمیں پھر برما اور انڈیا کی مسلم اقلیتوں کے لئے آواز اٹھاتے شرم آنی چاہئے کیونکہ ان کے ساتھ وہی کچھ ہورہا ہے جو ہم اپنے ملک میں اپنی اقلیتی برادری کے ساتھ کر رہے ہیں
ہم کتنے بڑے مسلمان ہیں آج اس بات کا ہم ثبوت دے سکتے ہیں چلیں آج ہم اپنے موبائل، لیپ ٹاپ توڑ ڈالتے ہیں، فیس بک کو ان انسٹال کر دیتے ہیں، جن بڑی بڑی بلٹ پروف گاڑیوں پر ہمارے یہی مذہبی رہنما پھرتے ہیں ان کو جلا ڈالتے ہیں کیوں کہ یہ سب کافروں کی ایجادات ہیں ہم تو بس بیٹھے ان کی ایجادات کے مزے لوٹنے میں لگے ہیں۔
چلیں اس کو اسلامی نقطہ نظر سے بھی دیکھتے ہیں غزوہ بدر میں جضورﷺ نے قیدیوں (کفار) سے کہا کہ انہیں آزادی لینے کے لئے مسلمانوں کے بچوں کو پڑھنا لکھنا (دنیاوی تعلیم) سکھانا پڑے گا ہم سب مسلمان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ آپ ﷺ کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے تو اگر انہوں نے غیر مسلم قیدیوں کی ذہانت کے استعمال کو برا نہیں سمجھا تو ہم ان کی امت اس کو کیوں برا سمجھ رہے ہیں۔ ہمیں بھی ایک اقلیتی برادری کے ذہین شخص سے ملک کی بہتری کے لئے مشاورت کرنے میں مذہب کا استعمال نہیں کرنا چاہئے تھا
اگر ہم اس ملک بنانے والی ہستی، قائداعظم کی بھی بات کریں تو ان کی 11 اگست 1947 کے خطاب کو بھی یاد رکھنا چاہئے ” آپ کسی مذہب، کسی ذات، کسی عقیدے کے بھی ہوں امور ریاست کو اس سے کوئی تعلق نہیں”
اس ساری ماتم زدہ پوسٹ میں یہ ذکر تو بار بار کیا گیا ہے کہ احمدی ۔ غیر مسلم ۔ اور ظلم کہیں آئین کو تسلیم نہ کرنے اور قادیانیوں کے اس سے باغی ہونے کا ذکر نہیں ہوا ہوگا۔۔ اگر فورم کے قوانین اجازت دیں اور اندیشہ نقص امن نہ ہو تو انہی مرزائیوں کے وہ وہ مذھبی عقائد نکال کر سامنے لاؤں کہ آپ ان سے سلام لینا گوارا نہ کریں انکی شکل دیکھنا آپ کو پسند نہ ہو اور جب وہی لوگ اپنے تمام تر فاسد عقائد کے باوجود خود کو مسلمان کہلانے پر مصر رہیں تو یہاں حقوق متاثر ہوتے ہیں مسلمانوں کے اس ملک کے آئین کے اور خود مرزائیوں کے بطور اقلیت۔ اسے لانا ہے تو ضرور لاؤ مگر مرزائیوں کی مخصوص نشست پر گھم گھم گھمٹا نہیں چلے گا۔

یاد رکھئیے گا دجال کے پاس بھی دنیاوی آسائش اور دنیاوی عذاب کا پہاڑ ہوگا لیکن وہاں سرخرو کون ہوگا وہی جو بظاہر آسائش کو اللہ کے لیئے چھوڑ دے گا۔

ہمیں اقتصادیات و مال کا لالچ دے کر ہم پر مرتدین کو چھپا کر مسلط کرنے کی۔سازشیں وہیں گھس جائیں گی جہاں سے نکلیں گی
 
ہمارا محبوب قومی مشغلہ: احمدیوں کو برا بھلا کہنا

وزیر اعظم عمران خان کی تشکیل کردہ معاشی مشاورتی کونسل میں ایک احمدی کا نام کیا آ گیا کہ جو لوگ ایسی چیزوں کو مسئلہ بنانے کا فن رکھتے ہیں انہوں نے بھونچال پیدا کر دیا۔ مشاورتی کونسل میں کوشش کی گئی ہے کہ اعلیٰ درجہ کے معاشی ماہرین چُنے جائیں۔ ان میں ایک ڈاکٹر عاطف میاں ہیں جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ امریکہ کی مشہور پرنسٹن یونیورسٹی میں معیشت کے پروفیسر ہیں۔ اُن کی تعلیمی قابلیت یا جو اعزاز اُنہوں نے امریکہ میں حاصل کیا ہے اُس کے بارے میں کوئی اُنگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ لیکن پاکستان کے چند حلقوں میں اعتراض اُن کی احمدیت پہ ہے۔
یہ لوگ کم از کم خدا کو مانتے ہیں۔ لیکن فرض کیجیے کہ وہ کافر بھی ہوں تو اُس کا اُن کی علمی قابلیت سے کیا تعلق ہے؟ جو نام اِس مشاورتی کونسل میں شامل کیے گئے ہیں وہ کسی مسلک یا مذہب کی بنیاد پہ نہیں چُنے گئے۔ جس نے اپنے شعبے میں نام کمایا اور جن کی کوئی بین الاقوامی شناخت ہے اُن کو اِس کونسل میں شامل کیا گیا ہے تاکہ ملک و قوم کی خاطر بہتر سے بہتر معاشی مشورے مل سکیں ۔ کوئی سوالنامہ یہ نہیں پُر کروایا گیا کہ اِس کونسل کے ممبران پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں یا نہیں یا دیگر مذہبی عقائد کے پابند ہیں یا نہیں۔ لیکن ہماری سینیٹ کو دیکھیے جس کے چند ممبران نے ڈاکٹر عاطف میاں پہ سوال اُٹھایا ہے کہ یہ تو احمدی ہیں۔ 1974کی آئینی ترمیم کے حوالے سے احمدی غیر مسلم قرار پائے ہیں۔ بعد میں جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ایک آرڈیننس نافذ کیا گیا جس کے تحت احمدی اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ اگر وہ ایسا کریں اور اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہیں تو یہ قابل دست اندازیِ پولیس مقدمہ ہو سکتا ہے۔ ہمارا قانون تو اَب یہی کہتا ہے لیکن سوال پھر وہی ہے کہ اِس ماجرے کا علمی قابلیت سے کیا تعلق ہے؟
نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام احمدی تھے یعنی ہمارے آئین کے تحت غیر مسلم تھے۔ لیکن شعبہ طبیعات میں جو کچھ اُنہوں نے کیا اور جس کے تحت وہ نوبل انعام کے حقدار ٹھہرے اس کا اُن کی احمدیت سے کوئی واسطہ نہیں۔ وہ ہندو بھی ہو سکتے تھے، سکھوں کی پگڑی پہن سکتے تھے۔ یہودی رغبت رکھ سکتے تھے، پتھروں کی پوجا کر سکتے تھے۔ لیکن اِن ساری روشوں کا اُن کے شعبہ طبیعات کے کام سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔
ہمارے اعلیٰ فوجی افسران امریکہ کے وار کالج میں کورسز کرنے جاتے ہیں۔ انگلستان کے ملٹری کالجز سے بھی اُن کا تعلق ہوتا ہے۔ لیکن یہ سوال کبھی نہیں اُٹھا کہ اُن کو عیسائی مسلک کے امریکن یا برطانوی افسران درس دیتے ہیں۔ ہمارے سب سے قریبی تعلقات چین سے ہیں۔ چین والے سرے سے خدا کو مانتے ہی نہیں۔ وہاں کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کسی مذہب پہ یقین نہیں رکھتی۔ لیکن چین سے تعلق استوار کرتے وقت ہم یہ چیزیں ملحوظ خاطر نہیں لاتے۔
امریکہ کی ترقی کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا بھر کے اعلیٰ ترین دماغ امریکی یونیورسٹیوں میں جانا اور وہاں مستقل قیام کرنا پسند کرتے ہیں۔ ہمارے لوگ بھی امریکی یونیورسٹیوں میں ہیں جیسا کہ ڈاکٹر عاطف میاں کی مثال دی جا سکتی ہے۔ لیکن ہم سے کہیں زیادہ انڈیا کے اساتذہ اور پروفیسروں نے امریکن یونیورسٹیوں میں اپنا مقام بنایا ہے۔ آپ کی اگر علمی قابلیت اُس معیار کی ہے تو امریکی یہ نہیں پوچھتے کہ آپ کا مذہب کیا ہے۔ اپنے مخصوص شعبے میں آپ نے کچھ مقام حاصل کیا ہے تو امریکن اور یورپین یونیورسٹیوں میں آنکھیں بند کر کے آپ کو لے لیا جاتا ہے۔ ہمارا تماشہ دیکھئے۔ ڈاکٹر عاطف میاں پہ تو سب سے پہلا اعتراض کسی دینی مدرسے سے آنا چاہیے تھا‘ لیکن آیا کہاں سے ؟ سینیٹ آف پاکستان سے۔ جس سینیٹ کا معیار یہ ہو آپ اُس سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟
پوچھنے والی بات تو صرف ایک ہے کہ ڈاکٹر عاطف میاں پاکستانی ہیں یا نہیں۔ اگر پاکستانی ہیں تو اُن کی مرضی کہ اُن کا مذہب کیا ہے۔ آئین میں صدر اور وزیر اعظم کیلئے شرط ہے کہ مسلمان ہونا ضروری ہے۔ لیکن کسی اور عہدے کیلئے ایسی کوئی شرط نہیں۔ ہندؤ، عیسائی، سکھ یا احمدی ہوں تو آپ فوج میں جا سکتے ہیں اور دیگر شعبوں میں بھی۔ یہ تو ایک مشاورتی کونسل ہے کہ پاکستان کو اپنے پیروں پہ کھڑا ہونے کیلئے اور اپنی معاشی حالت بہتر کرنے کیلئے کیا کچھ کرنا چاہیے۔ ہماری سینیٹ کے فلسفیوں کو دیکھیں کہ اِس پہ اعتراض کر رہے ہیں۔ دنیا کہاں پہنچ گئی ہے۔ ہم ہیں اور ہمارا کشکول۔ لیکن کیسی باتوں پہ اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں۔

ڈاکٹر عاطف میاں اس قابل ہیں تو اُن کی رائے لیں اور اُن کی خدمات حاصل کریں۔ نماز کا وقت آئے تو آپ اپنی نماز پڑھیں اور اُن کو اپنے طور پہ عبادت کرنے دیں، اگر وہ عبادت کے عادی ہوں کیونکہ ہم میں سے بہت سے مذہبی رسومات کے بارے میں ڈھیلا رویہ رکھتے ہیں۔
پاکستان ٹائمز کے مشہور فوٹو گرافر ایف ای چوہدری‘ جو کہ کرسچیئن تھے‘ کے بیٹے سکواڈرن لیڈر سیسل چوہدری 1965ء کی جنگ کے ایک ہیرو ہیں۔ مختلف حوالوں سے قومی زندگی میں اقلیتوں کا کردار نمایاں رہا ہے۔ لیکن ہمارا اقلیتوں کے ساتھ کیا رویہ رہا ہے؟ گزشتہ سالوں میں کتنے ہی حملے کرسچیئن آبادیوں پہ ہوئے ہیں… گوجرہ، گوجرانوالہ اور سینٹ جوزف کالونی لاہور چند مثالیں ہیں۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی مخالفت مقتدر علماء اور دینی حلقوں نے تو کی، تمام اقلیتیں… کیا کرسچیئن، کیا احمدی، کیا کوئی اور… سب کے سب نے پاکستان کی بھرپور حمایت کی۔ اپنی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر میں بانی پاکستان محمد علی جناحؒ نے واضح الفاظ میں کہا کہ کسی کا کوئی مذہب ہو اس کا ریاست کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں۔ بجائے اِس کے کہ اِن تاریخ ساز الفاظ کو سمجھا جائے ہمارے دینی اور سماجی حلقے جناح صاحب کے اِن الفاظ پہ آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔
جو آئین کی رُو سے غیر مسلم ہیں وہ غیر مسلم ہیں۔ یہ مسئلہ بحث طلب نہیں۔ لیکن مذہبی عقیدہ ایک چیز ہے اور پاکستانیت مختلف۔ ہم نے تو اقلیتوں کو یہاں سے بھگا دیا ہے۔ پڑھے لکھے اور انگریزی بولنے والے کرسچیئن سب امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا آباد ہو گئے۔ قومی زندگی میں اِن لوگوں کا بہت کردار تھا۔ اِن کیلئے حالات خراب کر کے نقصان ہمارا ہوا ہے۔ ہماری قومی زندگی اچھی چیزوں سے محروم ہوئی ہے۔ ڈاکٹر عاطف میاں جیسے نامور معاشی ماہر کو مشاورتی کونسل میں شامل کرنا اچھا فیصلہ ہے۔ اِس بات پہ شور مچانے یا جھنڈے لہرانے کی ضرورت نہیں۔ لیکن مصلحت کی کسی غلط تشریح کے تحت اس فیصلے کو واپس نہیں لینا چاہیے۔ سینیٹ کے جن ممبران نے اِس بات کو مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے اُنہیں اپنے کیے پہ نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔
میرا اس پوسٹ کے جواب میں ایک سوال ہے کی کیوں مرزائی آئین کو اور قانون کو تسلیم کرتے ہوئے اس ملک کی دوسری اقلیتوں کی طرح اپنے حقوق حاصل نہیں کرتے تو جناب اس سوال پر یہ ماتم شروع ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں پر ظلم و ستم ہو رہے ہیں تو جو ظلم و ستم چنیوٹ کے چناب نگر میں عام مسلمانوں پر ہوتے ہیں وہ کیوں نہیں بیان ہوتے۔ مرزائیت ترک کرنے والوں کی جانوں اور جائدادوں پر ہونے والے مرزائی شب خون ایک الگ داستان ہیں۔ مرزائی شور مچا کر حقیقی مظلوم ہونے کا ڈرامہ کرتے ہوئے ظالم کا کردار ادا کرتے ہیں یہ آپ کو کوئی نہیں بتائے گا۔ لہذا کھل کر ماتم کیجئے گا جب حقائق جاننے کا شوق ہوا بتا دیجئے گا ربوے ساتھ لےکر جاؤں گا اور ان کا اصل روپ دکھاؤں گا یہ الگ بات ہے آپ اسے بیان نہ کر پائیں گے
 

فرقان احمد

محفلین
قادیانیوں کا معاملہ اقلیتوں سے بھی کافی حد تک مختلف ہے۔ اسلام کے نام پر اپنا مخصوص ورژن متعارف کروانا یقینی طور پر ایسا فعل ہے جس کی کم از کم مسلمان اجازت نہیں دے سکتے اور پاکستانی آئین کے تحت ایسے افراد کے ساتھ کوئی رو رعایت نہیں برتی جا سکتی۔

ڈاکٹر عاطف میاں کے اپنے نظریات پڑھ کر ہم بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موصوف کی بطور مشیر اقتصادی کونسل تقرری تحریک انصاف کی فاش غلطی تھی۔ عاطف میاں ماضی میں خود کو متعصب ثابت کر چکے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ان کی اہلیت و قابلیت کا مذہبی معاملات سے براہ راست تعلق واسطہ نہیں، تاہم، یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ماضی میں عاطف میاں نے خود اپنی مذہبی شخصیت کے اظہار میں کبھی بخل سے کام نہ لیا۔ جب وہ خود اپنی مذہبی شخصیت کو پبلک میں زیر بحث لانے سے گریزاں نہیں رہے تو ہم کس طرح محض ان کی شخصیت کے ایک پہلو کو لے کر آگے بڑھیں۔یوں بھی جب کسی فرد کی اہم عہدے پر تقرری کی جاتی ہے تو اس کی اپنی فیلڈ سے ہٹ کر بھی سوال کیے جاتے ہیں۔ عاطف میاں کے متعلق جو کچھ نظر سے گزرا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ریاست پاکستان کے وفادار نہیں ہیں ؛ وہ خود کو اب بھی مسلم تصور کرتے ہیں؛ اُن کا یہ فعل پاکستانی آئین سے براہ راست متصادم ہے اس لیے انہیں اس عہدے کے لیے زیر بحث لانا ہی نہیں چاہیے تھا۔ یہ اندیشہ بھی پیش نظر رہے کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت ان کی مذہبی شخصیت کو نظرانداز کر کے انہیں اس عہدے پر برقرار رکھتی تو پاکستان کو مستقبل میں درپیش آنے والے ہر معاشی مسئلے کا ذمہ دار ان کو ہی ٹھہرایا جا سکتا تھا۔

ہماری دانست میں عاطف میاں کی اس کلیدی عہدے کے لیے تقرری ایک غیر مناسب فیصلہ تھا۔ وہ بطور قادیانی صرف اس صورت میں اس عہدے پر کام کر سکتے تھے جب انہوں نے پاکستانی آئین سے اپنی وفاداری ظاہر کی ہوتی یا کم از کم اپنی مذہبی شخصیت کو یوں ظاہر نہ کیا ہوتا۔ بطور قادیانی اقلیت، وہ اس منصب کے لیے اہل ہیں تاہم صرف تب جب وہ خود کو اقلیت تصور بھی کریں۔ بصورت دیگر، وہ پاکستان میں سونے چاندی کے انبار بھی جمع کر دیں تب بھی ناقابل قبول شخصیت تصور کیے جائیں گے۔

پاکستان بہرصورت 'اسلامی جمہوریہ' ہے۔ اس کا اپنا ایک آئین ہے۔ اس آئین کی روشنی میں ڈاکٹر عاطف میاں کو یہ عہدہ نہیں دیا جا سکتا الا یہ کہ وہ اپنے نظریات سے رجوع کریں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اس سارے ڈرامے کی کوئی تُک نہیں تھی۔ جو کوئی بھی وزیراعظم کو مشورے دیتے ہیں وہ انھیں ویسے ہی ڈبوئیں گے جیسے نواز شریف کو اکثر معاملوں میں مشیروں کے الٹے سیدھے مشوروں نے ڈبویا ۔
خصوصا جب آپ ایک حساس موضوع کو بنیاد بنا کر سامنے آئے ہوں تو صورتحال مزید سنجیدہ ہو جاتی ہے۔
عمران خان کو پہلے ہی اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ ان کے اس فیصلے کا رد عمل کیسا ہو گا اور پھر اگر فیصلہ کر لیا تھا تو واپس لے کر انھوں نے نہ صرف اس بات پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی ہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنے فیصلے اور الفاظ سے پھر سکتے ہیں بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث بھی بنے ہیں۔
عاطف میاں کی کریڈیبیلیٹی اپنی جگہ لیکن ان کی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے انھیں شامل نہ بھی کیا جاتا تو باقی ٹیم اتنی قابل تھی کہ آپ کا مقصد حاصل ہو جاتا لیکن ایک بے وقوفانہ قدم نے نہ صرف کونسل کو دو مزید قابل لوگوں کی شمولیت سے محروم کر دیا بلکہ ملک میں بھی شدت پسندی کی ایک نئی لہر متعارف کروا دی۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہمیں اقتصادیات و مال کا لالچ دے کر ہم پر مرتدین کو چھپا کر مسلط کرنے کی۔
بصورت دیگر، وہ پاکستان میں سونے چاندی کے انبار بھی جمع کر دیں تب بھی ناقابل قبول شخصیت تصور کیے جائیں گے۔
حضرت علی کرم الله وجهه کا معروف قول ہے’’کوئی بھی معاشرہ کفر پر قائم رہ سکتا ہے، ظلم پر نہیں‘‘
قوم نے اجتماعی طور پر معاشرے کو قادیانیوں کے کفر سے پاک کرنے کیلئے اپنے پر ظلم، زیادتی اور نا انصافی حلال کر لی۔ تاریخ شاہد ہے جب بھی میرٹ کے اصول سے ہٹ کر ملکی معاملات میں بیرونی یا اندرونی مداخلت ہوئی۔ ملک اوپر جانے کی بجائے دھڑام سے نیچے آگرا:
  • بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1947 میں عین میرٹ پر ملک کا پہلا وزیرخارجہ ایک قادیانی ظفراللہ خان کو لگایا۔ اس تعیناتی پر مذہبی حلقے مشتعل ہو گئے اور چند سال کے مسلسل احتجاج کے بعد ان سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ اس مداخلت سے اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی حلقوں کے کٹھ جوڑ کا ایسا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ جو تاحال جاری ہے۔ پچھلی حکومت میں فیض آباد دھرنے کے دوران اسٹیبلشمنٹ کا واضح کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
  • قدرت نے ایک بار پھر قوم کو موقع دیا۔ پوری دنیا میں اپنی سائنسی تحقیق کا لوہا منوانے والے ڈاکٹر عبدالسلام جب پاکستان آئے تو پھر وہی مذہبی حلقوں کا شور بلند ہوا۔ ان کے خداداد ٹیلنٹ اور قابلیت کو استعمال کرکے جہاں ملک سائنس اور تحقیق کے میدان میں اعلیٰ مقام حاصل کر سکتا تھا۔ وہاں ان کو کافر کافر اور ملک دشمن قرار دے کر ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ باہر جا کر موصوف نے طبیعات کے میدان میں اس اعلیٰ پایہ کی دریافت کی۔ کہ چند سال کے اندر اندر عالمی سائنسی کمیونٹی نے ان کی سائنسی قابلیت سے متعرف ہو کرپہلا پاکستانی نوبیل یافتہ بنا دیا۔ لیکن پاکستانیوں نے پھر بھی ان کو قبول نہ کیا۔ مجبورا وہ ساری زندگی ملک سے باہر رہے اور وہیں فوت ہوئے۔
  • 2014 میں عالمی شہرت حاصل کرنے والے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عاطف میاں کو عمران خان نے میرٹ پر ملک کا وزیر خزانہ لگانے کا اعلان کیا۔ وہی پرانا تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ ان کو مجبورا اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ 2018 میں الیکشن جیتنے کے بعد جب اسد عمر وزیر خزانہ بنے تو انہوں نے دیگر کے ساتھ میرٹ کے مطابق ڈاکٹر عاطف میاں کو بھی مشاورتی کونسل میں شامل کیا۔ ان کا خیال تھا قوم کو حکومتی عہدہ جیسے وزارت کسی قادیانی کو دینے پر اعتراض تھا۔ مشیر بنانے میں کیا حرج ہے۔ اس نے کونسا فیصلے کر نے ہیں۔ مگر قوم کا سخت مزاج دیکھیں پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔
ماضی میں میرٹ پر بھرتی قادیانیوں کو عہدوں سے ہٹا کر قوم نے ملک کی سیاست اور سائنسی میدان میں ترقی تباہ کر لی تھی۔ اب معیشت اور اقتصادیات کی بربادی جذبہ ایمانی کی خاطر بخوشی کر لی ہے۔ وہ اسی میں خوش ہیں۔ ملک کی کس کو پرواہ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
عاطف میاں کی کریڈیبیلیٹی اپنی جگہ لیکن ان کی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے انھیں شامل نہ بھی کیا جاتا تو باقی ٹیم اتنی قابل تھی کہ آپ کا مقصد حاصل ہو جاتا
یہ آپ سے کس نے کہا؟احتجاجی استعفیٰ دینے والے ایک رکن کے مطابق کونسل میں سب سے قابل ترین شخصیت ڈاکٹر عاطف میاں ہی تھے۔ جن کی علمی قابلیت پاکستان کیلئے سخت ضروری تھی۔ ان کو نکال دینے سے باقی کونسل کا کیا کام؟ اس لئے وہ سب بھی گھر کو چلے ۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
حضرت علی کرم الله وجهه کا معروف قول ہے’’کوئی بھی معاشرہ کفر پر قائم رہ سکتا ہے، ظلم پر نہیں‘‘

قوم نے اجتماعی طور پر معاشرے کو قادیانیوں کے کفر سے پاک کرنے کیلئے اپنے پر ظلم، زیادتی اور نا انصافی حلال کر لی۔

یہ دو بالکل الگ الگ باتیں ہیں۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1947 میں عین میرٹ پر ملک کا پہلا وزیرخارجہ ایک قادیانی ظفراللہ خان کو لگایا۔
قادیانیوں کو 1974ء میں اقلیت قرار دیا گیا۔ اس سے قبل وہ مسلم ہی شمار کیے جاتے تھے۔ احتجاجی مظاہروں کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ قادیانیت کے خلاف تحریک کی پوری تاریخ موجود رہی ہے۔ یہ یک طرفہ عمل نہ تھا۔

پوری دنیا میں اپنی سائنسی تحقیق کا لوہا منوانے والے ڈاکٹر عبدالسلام جب پاکستان آئے تو پھر وہی مذہبی حلقوں کا شور بلند ہوا۔ ان کے خداداد ٹیلنٹ اور قابلیت کو استعمال کرکے جہاں ملک سائنس اور تحقیق کے میدان میں اعلیٰ مقام حاصل کر سکتا تھا۔ وہاں ان کو کافر کافر اور ملک دشمن قرار دے کر ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ باہر جا کر موصوف نے طبیعات کے میدان میں اس اعلیٰ پایہ کی دریافت کی۔ کہ چند سال کے اندر اندر عالمی سائنسی کمیونٹی نے ان کی سائنسی قابلیت سے متعرف ہو کرپہلا پاکستانی نوبیل یافتہ بنا دیا۔ لیکن پاکستانیوں نے پھر بھی ان کو قبول نہ کیا۔
ڈاکٹر عبدالسلام نے سائنس کے میدان میں جو معرکے سرانجام دیے، ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ تاہم، ان کی مذہبی شخصیت کا معاملہ مختلف ہے۔

  • 2014 میں عالمی شہرت حاصل کرنے والے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عاطف میاں کو عمران خان نے میرٹ پر ملک کا وزیر خزانہ لگانے کا اعلان کیا۔ وہی پرانا تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ ان کو مجبورا اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ 2018 میں الیکشن جیتنے کے بعد جب اسد عمر وزیر خزانہ بنے تو انہوں نے دیگر کے ساتھ میرٹ کے مطابق ڈاکٹر عاطف میاں کو بھی مشاورتی کونسل میں شامل کیا۔ ان کا خیال تھا قوم کو حکومتی عہدہ جیسے وزارت کسی قادیانی کو دینے پر اعتراض تھا۔ مشیر بنانے میں کیا حرج ہے۔ اس نے کونسا فیصلے کر نے ہیں۔ مگر قوم کا سخت مزاج دیکھیں پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ڈاکٹر عاطف میاں ایک ایسے قادیانی ہیں جو خود کو مسلم تصور کرتے ہیں اور شاید پاکستانی آئین کو بھی تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ اگر وہ خود کو مسلم تصور نہ کریں اور پاکستانی آئین کی پاسداری کریں تو ذاتی طور پر ہمیں ان کی اقتصادی مشاورتی کونسل میں ممبر شپ پر کوئی اعتراض نہ ہو گا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
یہ آپ سے کس نے کہا؟احتجاجی استعفیٰ دینے والے ایک رکن کے مطابق کونسل میں سب سے قابل ترین شخصیت ڈاکٹر عاطف میاں ہی تھے۔ جن کی علمی قابلیت پاکستان کیلئے سخت ضروری تھی۔ ان کو نکال دینے سے باقی کونسل کا کیا کام؟ اس لئے وہ سب بھی گھر کو چلے ۔
آپ کا مطلب ہے کہ صرف ایک عاطف میاں ہی اقتصادی کونسل کی کامیابی کی ضمانت تھے؟ تو پھر دوسرے ممبر کیوں شامل کیے تھے اس ٹیم میں؟
 

زیک

مسافر
ڈاکٹر عاطف میاں ایک ایسے قادیانی ہیں جو خود کو مسلم تصور کرتے ہیں
کسی دوسری قسم کے احمدی دنیا میں نہیں پائے جاتے۔
شاید پاکستانی آئین کو بھی تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
یہ عجیب الزام ہے۔ آئین میں خاص احمدیوں کے خلاف ایک دفعہ شامل کی جاتی ہے تو ہر کسی کو اس سے اختلاف کا حق ہے۔ اس کا یہ مطلب کسی طور نہیں نکلتا کہ وہ آئین کو ہی تسلیم نہیں کرتے۔
 

زیک

مسافر
یہ آپ سے کس نے کہا؟احتجاجی استعفیٰ دینے والے ایک رکن کے مطابق کونسل میں سب سے قابل ترین شخصیت ڈاکٹر عاطف میاں ہی تھے۔ جن کی علمی قابلیت پاکستان کیلئے سخت ضروری تھی۔ ان کو نکال دینے سے باقی کونسل کا کیا کام؟ اس لئے وہ سب بھی گھر کو چلے ۔
جی نہیں۔ دوسرے دونوں اکنامسٹس نے عاطف میاں کے ساتھ کی گئی بدسلوکی اور تعصب پر استعفی دیا
 

زیک

مسافر
اس پوری کہانی کا لب لباب یہ بنتا ہے کہ
  1. پاکستان مکمل طور پر احمدیوں کے خلاف تعصب سے بھرا پڑا ہے۔
  2. یہ سارا قصہ تحریک انصاف کا خود پیر پر کلہاڑی مارنے کا ہے اور اس سے ان کی غیر سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
اس پوری کہانی کا لب کباب یہ بنتا ہے کہ
  1. پاکستان مکمل طور پر احمدیوں کے خلاف تعصب سے بھرا پڑا ہے۔
  2. یہ سارا قصہ تحریک انصاف کا خود پیر پر کلہاڑی مارنے کا ہے اور اس سے ان کی غیر سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔
یہ لب کباب کی بھی خوب رہی۔

پہلی بات سے جزوی اتفاق ہے؛ قادیانیوں کے خلاف نفرت کی فضا موجود ہے اور اس کی کئی تاریخی وجوہات ہیں۔ دوسری بات سے تو مکمل اتفاق ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ کا مطلب ہے کہ صرف ایک عاطف میاں ہی اقتصادی کونسل کی کامیابی کی ضمانت تھے؟ تو پھر دوسرے ممبر کیوں شامل کیے تھے اس ٹیم میں؟
باقی ممبران پاکستان کے رہائشی ہیں ۔ عمران خان نے الیکشن کمپین میں قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ دنیا بھر سے قابل ترین پاکستانی اپنی ٹیم میں شامل کریں گے۔ اور ان کی تجویز کردہ ایکسپرٹ پالیسیوں سے ملک میں جاری معاشی و اقتصادی بحران کا حل نکالیں گے۔
قائدتحریک عمران خان کی نیت پر ذرا بھی شک نہیں۔ کیونکہ انہوں نے ملکی مفاد میں میرٹ کے عین مطابق تمام ماہرین کو ٹیم میں شامل کیا تھا۔ جن میں سے تین جو پہلے ہی باہر مقیم تھےاستعفیٰ دے چکے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ تینوں ایکسپرٹس بیرون ممالک میں وہاں کے لوگوں کو پڑھاتے ہیں۔ وہاں کےطالب علم ان سے معیشت اور اقتصادیات کے گر سیکھتے ہیں ۔ وہ اپنا کامیاب کیرئیر داؤ پہ لگا وطن عزیز کے لئے کام کرنا چاہتے تھے۔ مگر قوم کے متعصبانہ رویہ نے نے ان کو بتا دیا کہ یہ قوم ان کے وجدان کے قابل نہیں۔ بہتر ہے جہاں عزت مل رہی ہے وہیں رہو۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ عجیب الزام ہے۔ آئین میں خاص احمدیوں کے خلاف ایک دفعہ شامل کی جاتی ہے تو ہر کسی کو اس سے اختلاف کا حق ہے۔ اس کا یہ مطلب کسی طور نہیں نکلتا کہ وہ آئین کو ہی تسلیم نہیں کرتے۔
ایک عالمی شہرت یافتہ ماہر معاشیات، جو یوم آزادی کو اپنا قیمتی وقت نکال کر پاکستان کی بدحال معاشی حالت کی مفت میں سرجری کر دے۔ اور آخر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی لگائے۔ اسکی حب الوطنی،آئین سے وفاداری پر وہ لوگ سوال اٹھا رہے ہیں۔ جو الیکشن ہارنے کے بعد کہتے تھے کہ وہ یوم آزادی نہیں منائیں گے۔ جن کے اباؤ اجدادپاکستان کی پ تک بننے کے خلاف تھے۔ جن کے لیڈران بھارت جا کر کہتے تھے کہ وہ اور ہم ایک قوم ہیں۔ درمیان میں صرف ایک سیاسی لکیر ہی تو ہے۔
WhatsApp-Image-2018-08-14-at-11.59.29-e1534231750936.jpeg

Atif-Mian-Tweet-2-e1534231820444.jpg

Atif-Mian-Tweet-3-e1534232036108.jpg

Atif-Mian-Tweet-4-e1534232148667.jpg

Atif-Mian-Tweet-5-e1534232416769.jpg

Atif-Mian-Tweet-7-e1534232640240.jpg
 
Top