کیا وزل کو اردو شاعری میں وہ مقام حاصل ہے جسکی وہ متقاضی ہے؟

  • ہاں

  • نہیں

  • سوچ کر بتاؤں گا


نتائج کی نمائش رائے دہی کے بعد ہی ممکن ہے۔

عظیم

محفلین


کہا ہم دل گرفتہ ہیں کہا تم دل گرفتہ ہو
کہا اِس جان کا ڈر ہے کہا اے جان ! تو ؟ ہو گا !
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
کہا تیرے ستائے ہیں کہا اچها ستائے ہوں
کہا پہچان کا ڈر ہے کہا پہچان تو ہو گا

کہا کوئی نہیں دل میں کہا دیکهو ذرا جهانکو
کہا مہمان کا ڈر ہے کہا مہمان تو ہو گا

کہا امید کیسی ہے کہا کاہے کی امیدیں
کہا امکان کا ڈر ہے کہا امکان تو ہو گا

 
آخری تدوین:
مجھے افسوس ہے کہ احباب مزاح کو مزاح کے طور پر نہیں لے سکے۔ یہ تو واضح ہی تھا کہ خلیل واقعی کوئی نئی صنف سخن ایجاد نہیں کر رہے ہیں۔ اس لئے آسی بھائی اور دوسروں کو اتنی سنجیدگی سے اسے نہیں لینا چاہئے تھا میرے خیال میں۔

بہت پہلے کا کہا ہوا ایک شعر، آپ کی نذر
لوگ تو منہ میں زباں رکھتے ہیں نشترجیسی
جانِ جاں تم تو مرے زخم کریدا نہ کرو​

آداب
۔۔۔
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
صنفِ ’’فاختہ‘‘ پہلے سے موجود ہے، نازک بھی ہے اور معروف بھی؛ مظلومیت کے حوالے سے بھی اور خلیل خان کے حوالے سے بھی۔ اسی کو نئے معانی اور تعریف و تعارف سے سرفراز فرما دیجئے تا کہ ادب میں بھی مساواتِ عامیانہ کا طوطی (بی فاختہ سے بلند آواز میں) بولنے لگے۔
جہاں اتنے سارے انحطاط آ چکے ہیں ایک یہ بھی سہی! کہ ’’۔۔۔ ابھی جاں باقی ہے‘‘

یہ درست اور نادرست کا امتیاز ہی تو ہے نا، جس کو فی زمانہ بنائے فساد قرار دیا جاتا ہے، اس کو باقی رہنا بھی نہیں چاہئے، کہ یہ زمانہ تو دجل کا زمانہ ہے۔
 
آخری تدوین:
لیجیے ایک سہ وزلہ تیار ہے جسے کئی محفلین نے لکھا ہے
کہا ہم دل تمہیں دے دیں، کہا تم دل ہمیں دے دو
کہا نقصان کا ڈر ہے ، کہا نقصان تو ہوگا

کہا سرحد پہ جابیٹھیں، کہا سرحد پہ جابیٹھو
کہا افغان کا ڈر ہے، کہا افغان تو ہوگا

کہا گنگا چلے جائیں، کہا گنگا چلے جاؤ
کہا اشنان کا ڈر ہے، کہا اشنان تو ہوگا

کہا ہم اونٹ پر بیٹھیں، کہا تم اونٹ پر بیٹھو
کہا کوہان کا ڈر ہے، کہا کوہان تو ہوگا

کہا ہم چین جاپہنچیں ، کہا تم چین جاپہنچو
کہا جاپان کا ڈر ہے، کہا جاپان تو ہوگا

کہا مسجد چلے جائیں، کہا مسجد چلے جاؤ
کہا قرآن کا ڈر ہے، کہا قرآن تو ہوگا
رستم کیانی​

کہا ہم معذرت کرلیں، کہا تم معذرت کر لو
کہا (خلیل) رحمٰن کا ڈر ہے، کہا رحمٰن تو ہوگا​

کہا ہم بھی کمنٹ کرلیں، کہا تم بھی کمنٹ کرلو
کہا طوفان کا ڈرہے، کہا طوفان تو ہوگا​


کہا ہم نیک بن جائیں کہا تم نیک بن جاؤ
کہا شیطان کا ڈر ہے کہا شیطان تو ہو گا

کہا ہم خلد میں جائیں کہا ہو خلد کے وارث
کہا دربان کا ڈر ہے کہا دربان تو ہو گا

کہا بستی میں بستے ہیں کہا بستی میں بس جاؤ
کہا انسان کا ڈر ہے کہا انسان تو ہو گا​

کہا گھر اپنا بنالوں، کہا گھر اپنا بنا لو
کہا مہمان کا ڈر ہے، کہا مہمان تو ہوگا

کہا انڈوں کو ہڑپ لوں، کہا انڈوں کو ہڑپ لو
کہا یرقان کا ڈر ہے، کہا یرقان تو ہوگا

کہا کترینہ کو چھیڑوں، کہا کترینہ کو چھیڑو
کہا سلمان کا ڈر ہے، کہا سلمان تو ہوگا

کہا میں پارلر کھولوں، کہا تم پارلر کھولو
کہا نقصان کا ڈر ہے، کہا نقصان تو ہوگا


کہا چارہ نہیں کوئی کہا چارہ کریں کوئی
کہا احسان کا ڈر ہے کہا احسان تو ہو گا​

کہا ہم گھر چلے جائیں، کہا تم گھر چلے جاؤ
کہا مہمان کا ڈر ہے، کہا مہمان تو ہوگا

کہا دربار میں آئیں، کہا دربار میں آؤ
کہا دربان کا ڈر ہے، کہا دربان تو ہوگا

کہا ہم کچھ بھی کھالیں نا! کہا تم کھاؤ جو چاہو
کہا خفقان کا ڈر ہے، کہا خفقان تو ہوگا

کہا ہم سوچ میں ڈوبیں، کہا سوچوں میں بہہ جاؤ
کہا نسیان کا ڈر ہے، کہا نسیان تو ہوگا

کہا گاڑی چلالیں ہم، کہا گاڑی چلاؤ تم
کہا چالان کا ڈر ہے، کہا چالان تو ہوگا​


کہا ہیں قافیہ پیما کہا پیمائی کر دیکھو
کہا فقدان کا ڈر ہے کہا فقدان تو ہو گا

کہا ہم دل گرفتہ ہیں کہا تم دل گرفتہ ہو
کہا اِس جان کا ڈر ہے کہا اے جان ! تو ؟ ہو گا !

کہا تیرے ستائے ہیں کہا اچها ستائے ہوں
کہا پہچان کا ڈر ہے کہا پہچان تو ہو گا

کہا کوئی نہیں دل میں کہا دیکهو ذرا جهانکو
کہا مہمان کا ڈر ہے کہا مہمان تو ہو گا

کہا امید کیسی ہے کہا کاہے کی امیدیں
کہا امکان کا ڈر ہے کہا امکان تو ہو گا​
 
آخری تدوین:
کہا ہم گاڑی اڑائیں، کہا تم گاڑی اڑاؤ
کہا چالان کا ڈر ہے، کہا چالان تو ہوگا

کہا بھٹے میں چرالوں، کہا جی بھر کے چرا لو
کہا دہقان کا ڈر ہے، کہا دہقان تو ہوگا

کہا نسوار جلادوں، کہا نسوار جلا دو
کہا گل خان کا ڈر ہے، کہا گل خان تو ہوگا

کہا میں کرلوں بغاوت، کہا تم کرلو بغاوت
کہا سلطان کا ڈر ہے، کہا سلطان تو ہوگا

کہا "پی ایم" میں بنوں گا، کہا "پی ایم" ہی بنو گے
کہا عمران کا ڈر ہے، کہا عمران تو ہوگا​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یہ تو زبردست ادب ہے۔۔۔۔ اعلی ہے خلیل بھائی۔۔۔۔
ویسے ذاتی طور پر بھی مجھے وزل ہی پسند ہے۔۔۔ سنا ہے کہ پرانے زمانے کی دال بگھارنے والی لڑکیاں عہد حاضر میں وزل بگھارا کرتی ہیں۔ اور ان "وروضی" "موانین" کے "شزن" کا خاص خیال رکھتی ہیں۔۔۔ جن سے کسی بھی "اہل تخن" کا دل لبھایا جا سکے۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
نیرنگ خیال بھائی دیکھیے آپ کے رنگ میں لکھنے کی کوشش کی ہے۔
تو حال بھی نیرنگ والا ہوا نا۔۔۔۔ اسی بات پر ایک وزلیہ بیر۔۔۔۔

آئینے سے ڈرتے ہو تم
بیٹھ اکیلے ہنستے ہو تم
:p

تم کا صیغہ استعمال کرنا ادب کے خلاف ہے۔ پر وزلیہ بیر کا شزن پورا کرنے کو ضروری تھا۔۔۔ :p
 

ابن رضا

لائبریرین
یہ تو زبردست ادب ہے۔۔۔۔ اعلی ہے خلیل بھائی۔۔۔۔
ویسے ذاتی طور پر بھی مجھے وزل ہی پسند ہے۔۔۔ سنا ہے کہ پرانے زمانے کی دال بگھارنے والی لڑکیاں عہد حاضر میں وزل بگھارا کرتی ہیں۔ اور ان "وروضی" "موانین" کے "شزن" کا خاص خیال رکھتی ہیں۔۔۔ جن سے کسی بھی "اہل تخن" کا دل لبھایا جا سکے۔۔۔۔
حضور وزل میں پہلا حرف نکال کرصرف واؤ گھسیڑنے کی اجازت بتائی گئی ہے آپ نے تو وزل کو بھی نئی جہت سے آشنا کر دیا ہے۔:p
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
حضور وزل میں پہلا حرف نکال کرصرف واؤ گھسیڑنے کی اجازت بتائی گئی ہے آپ نے تو وزل کو بھی نئی جہت سے آشنا کر دیا ہے۔:p
کیسی بحث کہاں کی اجازت جب وزل اکھیڑنا ٹھہرا
تو پھر اے حروف تہجی صرف ترا واؤ کیوں ہو۔۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
ہمیں تو خلیل بھیا کی "وزلی"تحریر بہت اچھی لگی۔ اور زمرے کی رعایت کے بعد تو یہ تحریر ادبی بھی کہلا سکتی ہے۔۔۔:)

کہا اک صنف تازہ غزل کی (ب) نام وزل لاؤ
کہا ظلمان کا ڈر ہے ، کہا ظلمان تو ہو گا۔۔۔:)
 
ہمیں تو خلیل بھیا کی "وزلی"تحریر بہت اچھی لگی۔ اور زمرے کی رعایت کے بعد تو یہ تحریر ادبی بھی کہلا سکتی ہے۔۔۔:)

کہا اک صنف تازہ غزل کی (ب) نام وزل لاؤ
کہا ظلمان کا ڈر ہے ، کہا ظلمان تو ہو گا۔۔۔:)
آداب عرض ہے الشفاء بھائی۔ اطلاعآ عرض ہے کہ یہ’’ طنز و مزاح ‘‘ کا زمرہ وہی ہے جس میں یہ مضمون پہلے دن پیش کیا گیا تھا۔
 
نئی اصنافِ سخن کا مذاق اُڑایا جانا اور اُنھیں کسی کھاتے میں نہ گننا فن کے خود ساختہ ٹھیکے داروں اور اساتذہ کا وتیرہ رہا ہے۔
ہم وزل گو نہ بکیں گے نہ جھکیں گے
ہم مشقِ سخن کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے​
اس صنفِ سخن میں ایک عظیم اضافہ پیشِ خدمت ہے۔ یہ انتہائی تازہ اور فی البدیہ کلام ہے۔ پیشگی آداب عرض ہے!

دیواروں سے ملنا، ٹکر کھانا، چوٹ کا آنا اچھا لگتا ہے
دل کا کیا ہے دل تو بچہ لگتا ہے

میں نے جس پھل پر بھی ہاتھ رکھا وہ بولے
یہ رہنے دو، وہ لے لو، وہ چھوڑو، یہ لے لو، بلکہ سب رہنے دو کیوں کہ مجھ کو اس ٹھیلے پر رکھا ہر پھل کچا کچا لگتا ہے

جس لمحے سے اُس نے میرے دل پر بول رکھا دھاوا
اس کا ہر اک جھوٹ، بہانہ، اور تسلی، ہر دعوا
مجھ کو سچا لگتا ہے

دیواروں سے ملنا، ٹکر کھانا، چوٹ کا آنا اچھا لگتا ہے
دل کا کیا ہے دل تو بچہ لگتا ہے​

(انتباہ: اگرچہ انتباہ کی قطعی کوئی ضرورت نہیں لیکن اس دھاگے کے ابتدائی مراسلے پر احباب کا ردِّ عمل دیکھتے ہوئے واضح کیا جاتا ہے کہ یہ مراسلہ فقط مزاح کے طور پر لکھا گیا ہے۔) :p
 
اس صنفِ سخن میں ایک عظیم اضافہ پیشِ خدمت ہے۔ یہ انتہائی تازہ اور فی البدیہ کلام ہے۔ پیشگی آداب عرض ہے!

دیواروں سے ملنا، ٹکر کھانا، چوٹ کا آنا اچھا لگتا ہے
دل کا کیا ہے دل تو بچہ لگتا ہے

میں نے جس پھل پر بھی ہاتھ رکھا وہ بولے
یہ رہنے دو، وہ لے لو، وہ چھوڑو، یہ لے لو، بلکہ سب رہنے دو کیوں کہ مجھ کو اس ٹھیلے پر رکھا ہر پھل کچا کچا لگتا ہے

جس لمحے سے اُس نے میرے دل پر بول رکھا دھاوا
اس کا ہر اک جھوٹ، بہانہ، اور تسلی، ہر دعوا
مجھ کو سچا لگتا ہے

دیواروں سے ملنا، ٹکر کھانا، چوٹ کا آنا اچھا لگتا ہے
دل کا کیا ہے دل تو بچہ لگتا ہے​

(انتباہ: اگرچہ انتباہ کی قطعی کوئی ضرورت نہیں لیکن اس دھاگے کے ابتدائی مراسلے پر احباب کا ردِّ عمل دیکھتے ہوئے واضح کیا جاتا ہے کہ یہ مراسلہ فقط مزاح کے طور پر لکھا گیا ہے۔) :p
واہ وا۔ بہت خوب:applause:
لیکن آداب تو آپ پیشگی کہہ چکے
 
وزل

گونجی جو ایک جلسے میں آواز ’’گڑگڑوں‘‘
حیران سب ہوئے کہ ہے کیا راز گڑگڑوں!

ہر اک نے دوسرے سے یہ دریافت بھی کیا
کیا اُس کا وہم تھا یا کوئی ساز گڑگڑوں

اتنے میں صدرِ جلسہ نے اعلان یہ کیا
’’حاصل ہے آج ہم کو اِک اعزاز‘‘، ’’گڑگڑوں!‘‘

’’ہیں درمیاں ہمارے جو اک‘‘، ’’گڑگڑوں‘‘، ’’جناب،
اونچی ہے ان کی فکر کی پرواز‘‘، ’’گڑگڑوں‘‘

اس گڑگڑوں میں نام پکارا گیا مِرا
کہ
’’دکھلائیے کلام کا اعجاز‘‘، ’’گڑگڑوں!‘‘

سن کر یہ، میں اُٹھا تو ذرا لڑکھڑا گیا
تھا کپکپی بھرا مِرا انداز، ’’گڑگڑوں‘‘

سرگوشیاں سنائی دیں اس درمیاں مجھے
’’ہے کون یہ؟’’، ’’کیوں آتا نہیں باز؟‘‘، ’’گڑگڑوں‘‘

اسٹیج پر پہنچ کے، میں بس اتنا کہہ سکا
’’آتی ہے میرے پیٹ سے آواز گڑگڑوں‘‘

بھوک

دیکھیں، یہ وزل کی خوبی ہے کہ عنوان اوپر دینے کی بجائے نیچے دیا گیا اور اس سے کیسا خوب صورت حسن پیدا ہوگیا ہے۔ عنوان کے بغیر وزل پڑھ کر آپ کے ذہن میں مزاحیہ خاکہ اُبھرے گا اور آپ لطف اندوز ہوں گے، اور آخر میں عنوان ٹریجڈی ثابت ہوگا۔ بلاشبہ یہ خوب صورتی اور انفرادیت، روایت شکن صنفِ سخن ’’وزل‘‘ ہی کا خاصہ ہے۔
 
آخری تدوین:
Top