کیا وزل کو اردو شاعری میں وہ مقام حاصل ہے جسکی وہ متقاضی ہے؟

  • ہاں

  • نہیں

  • سوچ کر بتاؤں گا


نتائج کی نمائش رائے دہی کے بعد ہی ممکن ہے۔

محمداحمد

لائبریرین
شعراء عموماً عام لوگوں سے زیادہ حساس ہوتے ہیں اور اُن کے لئے دنیا کے عمومی رویّوں سے مطابقت کرنا آسان نہیں ہوتا بلکہ اکثر تو انہی وجوہات کے باعث شاعری کی طرف آتے ہیں۔

پھر جو شخص مروجہ معاملات سے مطابقت کرلے وہ معاشرے کا مفید شخص (عام شہری) بن جاتا ہے لیکن جو مطابقت نہ کر سکے وہ اپنی دنیا آپ بنانے کی کوشش کرتا ہے اور جو لوگ اپنی نئی دنیا بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو یہی عام دنیا اُنہیں سر پر بٹھا لیتی ہے۔

کچھ لوگوں میں عام لوگوں سے زیادہ کام کی صلاحیت (Potential) ہوتی ہے ایسے لوگ اگر اپنی صلاحیتوں، علم اور حلم کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنے آج کو کل سے زیادہ تابناک بنانے کا ہنر سیکھ لیں تو جلد یا بدیر دنیا اُن کی صلاحیتوں کا اعتراف کر ہی لیتی ہے۔
 
استاد محبوب نرالے عالم سے یاد آیا کہ کبھی ہماری بھی ان سے ملاقات رہی ہے اور ایک عدد وزل سننے کا شرف حاصل رہا ہے: :) :) :)
آج رات خواب میں میری ملاقات استاد محبوب نرالے عالم سے ہو گئی۔ انہوں نے اپنے تازہ ترین کلام (مطلب فوراً والے) سنانے شروع کر دئے۔ جن میں سے عربا کے اشعار تو بھول گیا ہاں چند بند فارسا کے یاد رہ گئے ہیں سماعت فرمائیے۔۔۔


سندگی با کہ رمی حال
نہ گوید نہ شند
رنجبا داشت ھمی لال
نہ گوید نہ شند
شب دیجور کا مہتاب
نہ گوید نہ شند
زا بہی راست خرنجال
نہ گوید نہ شند

اس کے بعد نیند اتنی گہری ہو گئی کہ خواب بھی نظر آنا بند ہو گئے۔ :)
 
محترم محمد خلیل الرحمٰن بھیا آپ کی کاوش اور جراٰت دونوں ہی قابلِ تحسین ہیں۔

اگر "وزل" کے قوانین میں مندرجہ ذیل نقاط شامل نہ کریں تو اعتراضات کی گنجائش کافی کم ہو جائے گی اور شعراء کے لئے وزل کو قبول کرنا اتنا مشکل نہیں رہے گا:
· غزل کے برعکس ضروری نہیں کہ شعر کے مضمون کا مکمل ابلاغ بھی ہورہا ہو
· ایک ہی وَزَل میں دو یا دوسے زیادہ بحور کا استعمال
· غزل کے برعکس قافیے پر قافیہ تنگ کردینا یعنی آزادانہ قافیوں کا استعمال
· ردیف کی جگہ وزل کی خصوصیت ‘‘ ردیفِ خفی ’’ کا استعمال

ایک بکرا ہی چاہیے تھا ‘‘ وَر’’
اس سے سستی تو گائے آتی ہے
اگر میرے جیسے نالائق نے "ور" کو "ورنہ" کی بجائے "ورگر" یا "ورکر" یا "ورثہ" سمجھنے کی جسارت کرلی تو بات کسی اور طرف چلی جائے گی۔

روندنے کو ہی لیک (ن) آجاتے
شاعری روز کی کہانی ہے
اگر کسی نے لیک (ج) سمجھ لیا تو "لیکج" ہو جائے گا
اس لئے یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آ رہی۔ امید ہے آپ ضرور غور فرمائیں گے۔

"لمگشتگی" ایک اچھا اضافہ ہو سکتا ہے اگر آپ اس کے معنی بھی متعین کر دیں تو، نئے لفظ تخلیق کرنے میں مجھے ذاتی طور پر کوئی اعتراض نہیں ہے :)
مفت کا مشورہ: اگر آپ "پیروڈی" کے لئے اردو زبان میں "وزل" بطورِ لفظ استعمال کرنے کے بارے میں سوچیں تو نتائج یکسر مختلف ہوں گے۔

امید ہے اعتراضات پر ناراض نہیں ہوں گے۔
 
محترم محمد خلیل الرحمٰن بھیا آپ کی کاوش اور جراٰت دونوں ہی قابلِ تحسین ہیں۔

اگر "وزل" کے قوانین میں مندرجہ ذیل نقاط شامل نہ کریں تو اعتراضات کی گنجائش کافی کم ہو جائے گی اور شعراء کے لئے وزل کو قبول کرنا اتنا مشکل نہیں رہے گا:
· غزل کے برعکس ضروری نہیں کہ شعر کے مضمون کا مکمل ابلاغ بھی ہورہا ہو
· ایک ہی وَزَل میں دو یا دوسے زیادہ بحور کا استعمال
· غزل کے برعکس قافیے پر قافیہ تنگ کردینا یعنی آزادانہ قافیوں کا استعمال
· ردیف کی جگہ وزل کی خصوصیت ‘‘ ردیفِ خفی ’’ کا استعمال

ایک بکرا ہی چاہیے تھا ‘‘ وَر’’
اس سے سستی تو گائے آتی ہے
اگر میرے جیسے نالائق نے "ور" کو "ورنہ" کی بجائے "ورگر" یا "ورکر" یا "ورثہ" سمجھنے کی جسارت کرلی تو بات کسی اور طرف چلی جائے گی۔

روندنے کو ہی لیک (ن) آجاتے
شاعری روز کی کہانی ہے
اگر کسی نے لیک (ج) سمجھ لیا تو "لیکج" ہو جائے گا
اس لئے یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آ رہی۔ امید ہے آپ ضرور غور فرمائیں گے۔

"لمگشتگی" ایک اچھا اضافہ ہو سکتا ہے اگر آپ اس کے معنی بھی متعین کر دیں تو، نئے لفظ تخلیق کرنے میں مجھے ذاتی طور پر کوئی اعتراض نہیں ہے :)
مفت کا مشورہ: اگر آپ "پیروڈی" کے لئے اردو زبان میں "وزل" بطورِ لفظ استعمال کرنے کے بارے میں سوچیں تو نتائج یکسر مختلف ہوں گے۔

امید ہے اعتراضات پر ناراض نہیں ہوں گے۔


:):):)
ہرگز نہیں جناب! ہم آپ کو ادبِ عالیہ و سافلہ کی اصنافِ سخن کے ساتھ کھلواڑ ہرگز نہیں کرنے دیں گے۔ اگر ہم اس صنفِ سخن کا نام تجویز کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ کوئی نئی صنفِ سخن ہے جسے ہم ایجاد کیا چاہتے ہیں۔ ہم نے کھڑے کھڑے آپ کو اس کے مشہور شاعر امام الجاہلین، قتیل ادب، استاد محبوب نرالے عالم کے کلام کا نمونہ بھی عطا فرمادیا۔ ادھر ابن سعید بھائی بھی استاد کے کلام سے ایک نمونہ عطا فرماچکے اور جناب سید ذیشان بھائی نےبھی ایک اور مشہور وزل گو شاعر جناب ہدہد کا ایک شعر عطا کیا ہے۔یوں سمجھیے کہ ہم اس صنفِ سخن کے قوانین بنا نہیں رہے۔ استغفرا للہ۔ ہم تو صرف اس کے خواص کا بیان کررہے ہیں۔


مشتے از خروارے چند اور شاعروں کے اشعار بھی پیش کیے دیتے ہیں۔


جناب مشتاق احمد یوسفی ‘‘ زر گزشت ’’ میں یوں رقم طراز ہوتے ہیں:

’’ ’سوال کیا،‘ اور یہ بیل کو سانی کھلانے کی ناند میں کیا پڑا چھلک رہا ہے؟ اور اس میں ڈونگا کیوں ڈال رکھا ہے؟‘ ارشاد فرمایا ’ اوہ! یہ‘ پنچ ‘ہے۔ ایک دوست کے ہاں ہاوس وارمنگ پارٹی ہے۔ اسے بھیجنی ہے۔ اسی طرح ناند میں بھر کر لان پر رکھ دی جاتی ہے۔’ عرض کیا یہ تو غالب کے زمانے میں بھی ہوتا تھا:۔


صحنِ چمن میں رکھ دی مئے مشکبو کی ناند
جو آئے جام بھر کے پئے اور ہوکے مست
سبزے کو روندتا پھرے پھولوں کو جائے پھاند


فرمایا ’ چار مصرعوں کی رُباعی کو تو ہندی میں چوپائی کہتے ہیں۔ آپ نے تو صحنِ چمن میں تپائی رکھ دی‘



اسی طرح جناب رستم کیانی مرحوم کے ایک خط سے اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔

’’ ایک حصہ شیخ عبدالرحمٰن کے خط کا پیش کرتا ہوں: کسی اور شخص کا بیان ہے ‘ ایک دن اپنے استاد کی خدمت میں حاضر تھا کہ انہوں نے کسی لکھنوی استاد کا شعر پڑھا :

کہا ہم دل تمہیں دے دیں، کہا تم دل ہمیں دے دو
کہا نقصان کا ڈر ہے ، کہا نقصان تو ہوگا
میں نادانی سے کہہ اٹھا کہ حضرت اس کا مطلب؟ بس استاد تو پھر برس پڑےکہ کمبخت استادوں کے کلام میں مطلب ڈھونڈتا ہے، میں چپکا ہورہا۔ لیکن اس وقت سے مصمم ارادہ کرلیا کہ ہم بھی پھر استادانہ رنگ میں شعر کہتے ہین۔ چنانچہ مشتے نمونہ از خروارے:

کہا سرحد پہ جابیٹھیں، کہا سرحد پہ جابیٹھو
کہا افغان کا ڈر ہے، کہا افغان تو ہوگا

کہا گنگا چلے جائیں، کہا گنگا چلے جاؤ
کہا اشنان کا ڈر ہے، کہا اشنان تو ہوگا

کہا ہم اونٹ پر بیٹھیں، کہا تم اونٹ پر بیٹھو
کہا کوہان کا ڈر ہے، کہا کوہان تو ہوگا

کہا ہم چین جاپہنچیں ، کہا تم چین جاپہنچو
کہا جاپان کا ڈر ہے، کہا جاپان تو ہوگا

کہا مسجد چلے جائیں، کہا مسجد چلے جاؤ
کہا قرآن کا ڈر ہے، کہا قرآن تو ہوگا


اسی طرح مرزا فرحت اللہ بیگ دہلی کے ایک وزل گو شاعر کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ ان کا نام تو شاید گنتی کے چند لوگ جانتے ہوں گے ہم نے تو جب سنا ان کا نام میر صاحب ہی سنا۔ غزل ہمیشہ فی البدیہہ پڑھتے تھے، لکھ کر لانے کی کبھی تکلیف گوارا نہیں کی۔ غزل میں مصرعوں کے توازن کی ضرورت ہی نہ تھی، صرف قافیہ اور ردیف سے کام تھا۔ جو کہنا ہوا نہایت اطمینان سے نثر میں بیان کرنا شروع کیا ، بیچ میں دوسروں کے اعتراضوں کا جواب بھی دیتے رہے۔ جب کہتے کہتے تھک گئے تو ردیف اور قافیہ پر شعر کو ختم کردیا۔‘‘

مرزا نے ایک اور شاعر کے دو اشعار بھی پیش کیے ہیں ۔ نام مرزا فخر الدین حشمت :

ترے بیمار ہجرا ں کا ترے بن
یہ عالم ہے کہ عالم نوحہ گر ہے

مجھے روتے جو دیکھا ہنس کے بولے
مرے حشمت بتا کیوں چشم تر ہے



خلاصہِ کلام یہ کہ ہم ہرگز اس امر پر راضی نہیں ہوں گے کہ اس صنفِ کے قوانین میں کسی قسم کی تبدیلی کا سوچیں ، چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہوجائے۔
:):):)
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مجھے افسوس ہے کہ احباب مزاح کو مزاح کے طور پر نہیں لے سکے۔ یہ تو واضح ہی تھا کہ خلیل واقعی کوئی نئی صنف سخن ایجاد نہیں کر رہے ہیں۔ اس لئے آسی بھائی اور دوسروں کو اتنی سنجیدگی سے اسے نہیں لینا چاہئے تھا میرے خیال میں۔
 
مجھے افسوس ہے کہ احباب مزاح کو مزاح کے طور پر نہیں لے سکے۔ یہ تو واضح ہی تھا کہ خلیل واقعی کوئی نئی صنف سخن ایجاد نہیں کر رہے ہیں۔ اس لئے آسی بھائی اور دوسروں کو اتنی سنجیدگی سے اسے نہیں لینا چاہئے تھا میرے خیال میں۔
کم علمی پر معذرت چاہتا ہوں، ایک تو اس صنفِ سخن سے واقف نہیں تھا دوسرا یہ کہ باقی دوستوں کی رائے پڑھ کر یقین ہو گیا تھا کہ محمد خلیل الرحمٰن بھائی نے کوئی نئی صنف ایجاد کر ڈالی ہے :beat-up:

کہا ہم معذرت کرلیں، کہا تم معذرت کر لو
کہا (خلیل) رحمٰن کا ڈر ہے، کہا رحمٰن تو ہوگا

:D:D:D

 

ابن رضا

لائبریرین
آخری تدوین:

عظیم

محفلین


کہا ہم نیک بن جائیں کہا تم نیک بن جاؤ
کہا شیطان کا ڈر ہے کہا شیطان تو ہو گا

کہا ہم خلد میں جائیں کہا ہو خلد کے وارث
کہا دربان کا ڈر ہے کہا دربان تو ہو گا

کہا بستی میں بستے ہیں کہا بستی میں بس جاؤ
کہا انسان کا ڈر ہے کہا انسان تو ہو گا



 

فرحت کیانی

لائبریرین

فرحت کیانی

لائبریرین
خلیل الرحمٰن بھائی آپ فکر نہ کریں، تمام اعلیٰ و ارفع افکار کو شروع میں ایسے ہی شد و مد کے ساتھ رد کیا جاتا ہے لیکن پھر آہستہ آہستہ دنیا گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ :)

بشرطِ ہمت و استطاعت ہم بھی آپ سے اس نئی صنف کی مبادیات سمجھنے کی سعی کریں گے۔ :)
نہ صرف سعی کریں گے بلکہ اپنے 'ایکسکلیوسِو 'اشعار کو اسی صنف میں لکھنے کی کوشش کریں گے۔ (y)
 
کچھ ہمارا حصہ بھی شامل ہو جائے ۔ ۔ ۔
کہا گھر اپنا بنالوں، کہا گھر اپنا بنا لو
کہا مہمان کا ڈر ہے، کہا مہمان تو ہوگا

کہا انڈوں کو ہڑپ لوں، کہا انڈوں کو ہڑپ لو
کہا یرقان کا ڈر ہے، کہا یرقان تو ہوگا

کہا کترینہ کو چھیڑوں، کہا کترینہ کو چھیڑو
کہا سلمان کا ڈر ہے، کہا سلمان تو ہوگا

کہا میں پارلر کھولوں، کہا تم پارلر کھولو
کہا نقصان کا ڈر ہے، کہا نقصان تو ہوگا

 
کہا ہم گھر چلے جائیں، کہا تم گھر چلے جاؤ
کہا مہمان کا ڈر ہے، کہا مہمان تو ہوگا

کہا دربار میں آئیں، کہا دربار میں آؤ
کہا دربان کا ڈر ہے، کہا دربان تو ہوگا

کہا ہم کچھ بھی کھالیں نا! کہا تم کھاؤ جو چاہو
کہا خفقان کا ڈر ہے، کہا خفقان تو ہوگا

کہا ہم سوچ میں ڈوبیں، کہا سوچوں میں بہہ جاؤ
کہا نسیان کا ڈر ہے، کہا نسیان تو ہوگا

کہا گاڑی چلالیں ہم، کہا گاڑی چلاؤ تم
کہا چالان کا ڑد ہے، کہا چالان تو ہوگا
محمد خلیل الرحمٰن
 
آخری تدوین:
Top