تاسف وارث بھائی اب ہم میں نہیں رہے

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون

وارث بھائی کی فیس بک پر شئیر کی گئی پوسٹ سے پتا چلا ہے کہ وارث بھائی کا انتقال 15 دسمبر کو ہوگیا تھا۔ اللہ اکبر۔

مجھے عمر سیف بھائی نے ابھی یہ اطلاع دی۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
اللہ پاک مغفرت فرمائیں۔ آمین
 

فہیم

لائبریرین
سچ کہا آپ نے کہ ذکر پر آنکھیں نم ہیں ۔۔
اللہ تعالیٰ انکے لواحقین کو صبر عطا فرمائے ۔۔انکو اپنی کتابوں سے بہت محبت تھی ۔انکی اہلیہ بتا رہی تھیں کہ ابھی بیماری سے پہلے ۔جب انھوں گھر شفٹ کیا تو سب سے زیادہ انکو کتابوں کی فکر تھی ۔۔پھر جب سب کتابیں آگیں تو ایک ایک کو اپنے ہاتھوں سے صاف کرکے سجاتے رہے ۔۔اور یہ کرتے ہوئے انکا انہماک دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ۔۔
کتابوں کے ساتھ ان کا لگاؤ انتہائی غیر معمولی تھا۔
 

جاسمن

لائبریرین
محفل کھولی اور یہ خبر پڑھی تو دوبارہ کھولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ لگتا تھا کہ نہیں کھولیں گے تو خبر جھوٹ ہو جائے گی۔
آنسو ۔۔ آنسو ۔۔۔ آنسو ۔۔۔۔
محفلین کے دل میں بستے تھے۔
اٹھتے بیٹھتے ان کے اور ان کے لواحقین کے لیے دعائیں مانگ رہی ہوں۔ اللہ قبول فرمائے۔ آمین!
کئی کئی بار فاتحہ پڑھتی ہوں۔ دل تڑپتا ہے کہ نجانے قبر میں کیسے ہوں گے! پھر قبر میں ان کے سُکھ کی آسانیوں کی دعا کرتی ہوں۔ اپنے بچوں سے اپنی اہلیہ سے کس قدر محبت کرتے تھے۔ کیسے ذکر کرتے تھے۔ اللہ اکبر!!
ہمیں ان کے دوسری تیسری شادی والے مذاق کے باوجود بھی ان کی اپنی اہلیہ سے محبت کا پتہ چلتا تھا۔ عمر بھی ابھی ایسی تو نہ تھی۔ کتنی بڑی بیماریاں لگا لیں۔ اللہ اکبر!
اللہ پیارے! انھیں وہاں بہت بہت سکون و آرام سے رکھیے گا۔ وہ ہمارے بہت پیارے بھائی تھے۔ انھیں معاف کر دیجیے گا۔ ہر صغیرہ و کبیرہ گناہ۔ اگر کسی کے ساتھ ان کی طرف سے کچھ زیادتی ہو گئی ہو تو ان سے معافی دلوا دیجیے۔ ان کی قبر کو بہت کشادہ، ٹھنڈا، ہوادار اور روشن کر دیں۔ اس میں جنت کی کھڑکیاں کھول دیں۔ بلکہ اسے جنت کے باغ میں بدل دیں۔ قبر کی وحشتوں میں ساتھی ضرور دیں پیارے مالک! انھیں بغیر حساب کتاب کے جنت میں لے جائیے گا۔ نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیجیے گا۔ پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی شفاعت سے ضرور ضرور بہرہ مند کیجیے گا۔ پل صراط سے آسانی سے گزاریے گا۔ جنت میں حوضِ کوثر پر پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے مقدس ہاتھوں سے پانی پینے کی سعادت بھی عطا فرمائیے گا۔
اے پیارے رب! ان کے گھر والوں کو، ان کے اچھے کاموں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دیجیے۔ ان کے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائیے۔ ہمیں بھی صبرِ جمیل دیجیے۔ آمین!
ثم آمین!
یا رب العالمین!
صبر بہت مشکل ہے لیکن پیارے اللہ! آپ ہمارے رب ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
مالک! انھیں بغیر حساب کتاب کے جنت میں لے جائیے گا۔ نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیجیے گا۔ پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی شفاعت سے ضرور ضرور بہرہ مند کیجیے گا۔ پل صراط سے آسانی سے گزاریے گا۔ جنت میں حوضِ کوثر پر پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے مقدس ہاتھوں سے پانی پینے کی سعادت بھی عطا فرمائیے گا۔
اے پیارے رب! ان کے گھر والوں کو، ان کے اچھے کاموں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دیجیے۔ ان کے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائیے۔ ہمیں بھی صبرِ جمیل دیجیے۔ آمین!
ثم آمین!
یا رب العالمین!
آمین ثم آمین !
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
محفل کھولی اور یہ خبر پڑھی تو دوبارہ کھولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ لگتا تھا کہ نہیں کھولیں گے تو خبر جھوٹ ہو جائے گی۔
آنسو ۔۔ آنسو ۔۔۔ آنسو ۔۔۔۔
محفلین کے دل میں بستے تھے۔
اٹھتے بیٹھتے ان کے اور ان کے لواحقین کے لیے دعائیں مانگ رہی ہوں۔ اللہ قبول فرمائے۔ آمین!
کئی کئی بار فاتحہ پڑھتی ہوں۔ دل تڑپتا ہے کہ نجانے قبر میں کیسے ہوں گے! پھر قبر میں ان کے سُکھ کی آسانیوں کی دعا کرتی ہوں۔ اپنے بچوں سے اپنی اہلیہ سے کس قدر محبت کرتے تھے۔ کیسے ذکر کرتے تھے۔ اللہ اکبر!!
ہمیں ان کے دوسری تیسری شادی والے مذاق کے باوجود بھی ان کی اپنی اہلیہ سے محبت کا پتہ چلتا تھا۔ عمر بھی ابھی ایسی تو نہ تھی۔ کتنی بڑی بیماریاں لگا لیں۔ اللہ اکبر!
اللہ پیارے! انھیں وہاں بہت بہت سکون و آرام سے رکھیے گا۔ وہ ہمارے بہت پیارے بھائی تھے۔ انھیں معاف کر دیجیے گا۔ ہر صغیرہ و کبیرہ گناہ۔ اگر کسی کے ساتھ ان کی طرف سے کچھ زیادتی ہو گئی ہو تو ان سے معافی دلوا دیجیے۔ ان کی قبر کو بہت کشادہ، ٹھنڈا، ہوادار اور روشن کر دیں۔ اس میں جنت کی کھڑکیاں کھول دیں۔ بلکہ اسے جنت کے باغ میں بدل دیں۔ قبر کی وحشتوں میں ساتھی ضرور دیں پیارے مالک! انھیں بغیر حساب کتاب کے جنت میں لے جائیے گا۔ نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیجیے گا۔ پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی شفاعت سے ضرور ضرور بہرہ مند کیجیے گا۔ پل صراط سے آسانی سے گزاریے گا۔ جنت میں حوضِ کوثر پر پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے مقدس ہاتھوں سے پانی پینے کی سعادت بھی عطا فرمائیے گا۔
اے پیارے رب! ان کے گھر والوں کو، ان کے اچھے کاموں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دیجیے۔ ان کے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائیے۔ ہمیں بھی صبرِ جمیل دیجیے۔ آمین!
ثم آمین!
یا رب العالمین!
صبر بہت مشکل ہے لیکن پیارے اللہ! آپ ہمارے رب ہیں۔
آمین۔
 
محفل کھولی اور یہ خبر پڑھی تو دوبارہ کھولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ لگتا تھا کہ نہیں کھولیں گے تو خبر جھوٹ ہو جائے گی۔
آنسو ۔۔ آنسو ۔۔۔ آنسو ۔۔۔۔
محفلین کے دل میں بستے تھے۔
اٹھتے بیٹھتے ان کے اور ان کے لواحقین کے لیے دعائیں مانگ رہی ہوں۔ اللہ قبول فرمائے۔ آمین!
کئی کئی بار فاتحہ پڑھتی ہوں۔ دل تڑپتا ہے کہ نجانے قبر میں کیسے ہوں گے! پھر قبر میں ان کے سُکھ کی آسانیوں کی دعا کرتی ہوں۔ اپنے بچوں سے اپنی اہلیہ سے کس قدر محبت کرتے تھے۔ کیسے ذکر کرتے تھے۔ اللہ اکبر!!
ہمیں ان کے دوسری تیسری شادی والے مذاق کے باوجود بھی ان کی اپنی اہلیہ سے محبت کا پتہ چلتا تھا۔ عمر بھی ابھی ایسی تو نہ تھی۔ کتنی بڑی بیماریاں لگا لیں۔ اللہ اکبر!
اللہ پیارے! انھیں وہاں بہت بہت سکون و آرام سے رکھیے گا۔ وہ ہمارے بہت پیارے بھائی تھے۔ انھیں معاف کر دیجیے گا۔ ہر صغیرہ و کبیرہ گناہ۔ اگر کسی کے ساتھ ان کی طرف سے کچھ زیادتی ہو گئی ہو تو ان سے معافی دلوا دیجیے۔ ان کی قبر کو بہت کشادہ، ٹھنڈا، ہوادار اور روشن کر دیں۔ اس میں جنت کی کھڑکیاں کھول دیں۔ بلکہ اسے جنت کے باغ میں بدل دیں۔ قبر کی وحشتوں میں ساتھی ضرور دیں پیارے مالک! انھیں بغیر حساب کتاب کے جنت میں لے جائیے گا۔ نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیجیے گا۔ پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی شفاعت سے ضرور ضرور بہرہ مند کیجیے گا۔ پل صراط سے آسانی سے گزاریے گا۔ جنت میں حوضِ کوثر پر پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے مقدس ہاتھوں سے پانی پینے کی سعادت بھی عطا فرمائیے گا۔
اے پیارے رب! ان کے گھر والوں کو، ان کے اچھے کاموں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دیجیے۔ ان کے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائیے۔ ہمیں بھی صبرِ جمیل دیجیے۔ آمین!
ثم آمین!
یا رب العالمین!
صبر بہت مشکل ہے لیکن پیارے اللہ! آپ ہمارے رب ہیں۔
آمین ثم آمین
یاربالعالمین
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محفل کھولی اور یہ خبر پڑھی تو دوبارہ کھولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ لگتا تھا کہ نہیں کھولیں گے تو خبر جھوٹ ہو جائے گی۔
آنسو ۔۔ آنسو ۔۔۔ آنسو ۔۔۔۔
محفلین کے دل میں بستے تھے۔
اٹھتے بیٹھتے ان کے اور ان کے لواحقین کے لیے دعائیں مانگ رہی ہوں۔ اللہ قبول فرمائے۔ آمین!
کئی کئی بار فاتحہ پڑھتی ہوں۔ دل تڑپتا ہے کہ نجانے قبر میں کیسے ہوں گے! پھر قبر میں ان کے سُکھ کی آسانیوں کی دعا کرتی ہوں۔ اپنے بچوں سے اپنی اہلیہ سے کس قدر محبت کرتے تھے۔ کیسے ذکر کرتے تھے۔ اللہ اکبر!!
ہمیں ان کے دوسری تیسری شادی والے مذاق کے باوجود بھی ان کی اپنی اہلیہ سے محبت کا پتہ چلتا تھا۔ عمر بھی ابھی ایسی تو نہ تھی۔ کتنی بڑی بیماریاں لگا لیں۔ اللہ اکبر!
اللہ پیارے! انھیں وہاں بہت بہت سکون و آرام سے رکھیے گا۔ وہ ہمارے بہت پیارے بھائی تھے۔ انھیں معاف کر دیجیے گا۔ ہر صغیرہ و کبیرہ گناہ۔ اگر کسی کے ساتھ ان کی طرف سے کچھ زیادتی ہو گئی ہو تو ان سے معافی دلوا دیجیے۔ ان کی قبر کو بہت کشادہ، ٹھنڈا، ہوادار اور روشن کر دیں۔ اس میں جنت کی کھڑکیاں کھول دیں۔ بلکہ اسے جنت کے باغ میں بدل دیں۔ قبر کی وحشتوں میں ساتھی ضرور دیں پیارے مالک! انھیں بغیر حساب کتاب کے جنت میں لے جائیے گا۔ نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیجیے گا۔ پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی شفاعت سے ضرور ضرور بہرہ مند کیجیے گا۔ پل صراط سے آسانی سے گزاریے گا۔ جنت میں حوضِ کوثر پر پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے مقدس ہاتھوں سے پانی پینے کی سعادت بھی عطا فرمائیے گا۔
اے پیارے رب! ان کے گھر والوں کو، ان کے اچھے کاموں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دیجیے۔ ان کے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائیے۔ ہمیں بھی صبرِ جمیل دیجیے۔ آمین!
ثم آمین!
یا رب العالمین!
صبر بہت مشکل ہے لیکن پیارے اللہ! آپ ہمارے رب ہیں۔
آمین ثم آمین
 

شمشاد

لائبریرین
آج فیس بُک پر مکرم نیاز بھائی کا مندرجہ ذیل مراسلہ وارث بھائی مرحوم کی تعزیت کے سلسلے میں نظر آیا توسوچا کہ اسے تو اردو محفل پر ہونا چاہئے، تو وہاں سے نقل کر کے یہاں چسپاں کر رہا ہوں۔

سوچا ہے اسد اب کسی سے میں نہ ملوں گا
کچھ دوست و عدو کی مجھے پہچان نہیں ہے
(محمد وارث اسدؔ)
اور یوں محمد وارث اب کسی سے نہ ملنے کی خاطر راہئ ملکِ عدم ہو گئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
محمد وارث اسدؔ

پیدائش: 27/ دسمبر 1972ء (سیالکوٹ)
وفات: 15/ دسمبر 2023ء (سیالکوٹ)
دیکھتے ہی دیکھتے میری نظروں کے سامنے یکے بعد دیگرے وہ اردو دوست وداع ہوتے چلے گئے کہ جن کے ساتھ اردو سائبر دنیا کی زریں و خوشگواریادیں وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر عنیقہ ناز (کیمسٹری پی۔ایچ۔ڈی اور اردو کی ممتاز بلاگر)، عبدالرحمان ناصر (اردو مجلس فورم کے جواں سال بانی وسرپرستِ اعلیٰ)، اکرام ناصر (اردو فورمز کی دنیا کے فعال نوجوان مراسلہ نگار و شاعر) کے بعد اب محمد وارث بھی دنیائے فانی سے وداع ہو گئے۔۔۔كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ
سوشل میڈیا کا دور تو بس کوئی دس بارہ سال سے زیادہ پرانا نہیں جبکہ سن 2002ء سے انٹرنیٹ پر جب اردو یونیکوڈ کا آغاز ہوا تھا تب اکا دکا اردوڈسکشن بورڈز (اردو فورمز) تصویر والی اردو سے تحریری اردو (یعنی یونیکوڈ اردو) میں تبدیل ہونا شروع ہوئے تھے جس کی شروعات "اردو محفلفورم" سے ہوئی۔ بعد ازاں تقریباً تمام ہی اردو فورمز تحریری اردو (یونیکوڈ اردو) میں تبدیل ہو گئے۔ اور اسی کے ساتھ اردو بلاگنگ کا آغاز ہوا جو2008ء میں عروج کو پہنچا کہ متعدد معیاری لکھنے والے شعرا، ادیب و قلمکاروں نے گوگل کے بلاگنگ پلاٹ فارم 'بلاگ اسپاٹ' پر اپنا اپنا بلاگ تعمیرکیا اور اپنی منفرد تخلیقات کے سہارے سائبر دنیا کے سرچ انجنز میں اردو مواد کی مسلسل شمولیت کا فریضہ نبھانے لگے۔ راقم الحروف خود بھیکچھ مختلف قلمی ناموں سے اردو فورمز اور اردو بلاگنگ کی دنیا میں سن 2002ء سے ہی اپنی بھرپور شرکت درج کرتا رہا ہے۔
محمد وارث سے یوں تو اردو محفل اور چند دیگر اردو فورمز کے ذریعے واقفیت ہوئی تھی مگر جب انہوں نے اپنا ذاتی اردو بلاگ شروع کیا تب ان کا یہبلاگ "صریرِ خامۂ وارث" بھی میرے ان چند منتخب بلاگوں کی فہرست میں شامل ہوا جن کا بلاناغہ مطالعہ میں اُس دور میں اپنا فریضہ سمجھتا تھا۔ان کے بلاگ پر پہلی تحریر "دنیا کا پہلا فلسفی" کے عنوان سے ماہ مئی 2008ء میں شائع ہوئی تھی اور بلاگ کی آخری تحریر 9/ دسمبر 2020ء کو"صائب تبریزی کے کچھ متفرق اشعار" کے عنوان سے شائع ہوئی۔

محمد وارث ہر چند کہ مجھ سے چار برس کم عمر تھے، مگر ان کے موضوعات کا انتخاب اور ان کی تحریر کی پختگی نے ہمیشہ مجھ پر ان کا ایکخاص قسم کا علمی رعب طاری کر رکھا تھا۔ عمدہ اور اعلیٰ پائے کی شاعری سے میرا خصوصی شغف والد مرحوم کے حوالے سے میری جین میںشامل سہی مگر شاعری کی تکنیکی باریکیوں سے میں ہمیشہ خائف ہی رہا ہوں۔ جبکہ محمد وارث نہ صرف علمِ عروض اور تقطیع کے ماہر تھے بلکہ وہفارسی شاعری میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے اور اسی باعث انہوں نے فارسی کلام کے متعدد اردو تراجم بھی اپنے بلاگ پر پیش کیے ہیں۔

چند برس قبل فیس بک پر جب وہ نظر آئے تو انہیں اپنی فرینڈز لسٹ میں شامل کرنے کا شرف حاصل کیا۔ ان-بکس میں مختصر سی گفتگو اردو محفلفورم کے حوالے سے ہوئی تو تھی مگر کبھی تفصیلی گفتگو کا موقع نہ مل سکا، جس کا افسوس مجھے تاعمر رہے گا۔

میرا دکھ تو خیر ایک ادب دوست کی حیثیت سے ہے لیکن ان کے حقیقی وارثین (اہلیہ اور دو فرزندان، ایک دختر) کے درد و غم کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اللہ کریم انہیں صبرِ جمیل سے نوازے کہ اتنی دور بیٹھ کر ہم جیسے لوگ صرف دعا ہی دے سکتے ہیں۔
مجھے ان کا ایک انشائیہ اکثر و بیشتر یاد آتا رہا ہے، انہیں خراجِ عقیدت کے بطور وہی انشائیہ (میں نے اپنی پہلی کتاب خریدی)، یہاں ان کے بلاگ کےحوالے سے پیش ہے۔

مگر اس سے قبل انہی کے بلاگ کے حوالے سے محمد وارث کا مختصر تعارف پیش ہے:

جائے پیدائش: سیالکوٹ
جائے رہائش: سیالکوٹ
تعلیم: ماسٹرز ان بزنس ایڈمینسٹریش (ایم بی اے)، 1996، لاہور۔ بی ایس سی، مرے کالج سیالکوٹ، 1994ء

پیشہ: پرائیوٹ نوکری (جنرل مینیجر ایکسپورٹس امپورٹس)۔

بچے:
محمد حسن وارث (تاریخ پیدائش: 24 اگست 2001ء)۔
محمد احسن وارث (تاریخ پیدائش: 30 اکتوبر 2003ء)۔
فاطمہ وارث (تاریخ پیدائش: 22 اکتوبر 2006ء)۔

مشاغل: مطالعہ، تحریر، تصنیف، موسیقی
پسندیدہ شاعر: فیضی، بیدل، غالب، اقبال
پسندیدہ مصنفین: برٹرنڈ رسل، ول ڈیورنٹ، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا شبلی نعمانی، مشتاق احمد یوسفی

پسندیدہ گلوکاران: استاد فتح علی خان (پٹیالہ گھرانہ)، استاد نصرت فتح علی خان قوال، غلام علی، نورجہاں، مناڈے، ہیمنت کمار

انشائیہ: (تحریر کردہ: 2/ جون 2008ء) از: محمد وارث
"میں نے اپنی پہلی کتاب خریدی"
وہ بھی ایک عجیب دن تھا۔ اسلامیہ کالج سیالکوٹ سے گھر واپس آتے ہوئے نہ جانے جی میں کیا آئی کہ میں نے اپنی سائیکل کا رُخ اردو بازار کیطرف موڑ لیا۔

ان دنوں میں گیارھویں جماعت میں پڑھتا تھا اور اپنے کالج کی لائبریری جب پہلی بار دیکھی تو دیکھتا ہی رہ گیا کہ دنیا میں ایک ہی جگہ اتنی کتابیںبھی ہوتی ہیں، ناول اور کہانیاں تو خیر میں بچپن سے ہی پڑھا کرتا تھا لیکن اردو ادب سے صحیح شناسائی کالج میں پہنچ کر ہوئی اور وہ بھی اتفاقاً۔ہوا کچھ یوں کہ میرے ایک اسکول کے دوست، جو کالج میں بھی ساتھ ہی تھا، کی بڑی بہن کو کرنل محمد خان کی کتاب "بجنگ آمد" درکار تھی جوکہ انکے کالج کی لائبریری میں نہیں تھی، انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ اپنے کالج میں پتا کرو، اور بھائی صاحب نے مجھے پکڑا کہ چلو لائبریری،خیر وہ کتاب مل گئی لیکن واپس کرنے سے پہلے میں نے بھی پڑھ ڈالی۔

اس کتاب کا پڑھنا تھا کہ بس گویا دبستان کھل گیا، اسکے بعد میں نے پہلے کرنل محمد خان کی اور بعد میں شفیق الرحمن کی تمام کتب لائبریری سےنکلوا کر پڑھ ڈالیں۔

خیر اردو بازار میں داخل ہوا تو ایک بُک اسٹور پر رک گیا اور کتابیں دیکھنے لگا، ایک کتاب نظر آئی "شناخت پریڈ"، یہ ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب ہے اورشاید ان کی پہلی کتاب ہے، اسکی ورق گردانی کی تو اچھی لگی۔ میرے دل میں آیا کہ کتاب خریدنی چاہیئے لیکن ایک بڑا مسئلہ اسی وقت کھڑا ہوگیا، کتاب کی قیمت پچاس روپے تھی، سوچا پچاس لکھی ہوئی ہے شاید کم کر دیں، مالک سے بات کی، اس نے ایک دفعہ میرے چہرے کی طرف دیکھااور دوسرے ہی لمحے کہا کہ اسکی قیمت کم نہیں ہو سکتی۔ مالک کی اس بے رحمانہ بات پر کیا کہہ سکتا تھا سوائے چپ رہنے کے۔ (خیر اب وہ مالکصاحب میرے اچھے خاصے شناسا ہیں اور تقریباً پچیس سے پنتیس فیصد رعایت بھی کر دیتے ہیں)۔

وہاں سے میں چلا تو آیا لیکن دل کتاب میں ہی اٹکا ہوا تھا، کافی دن اسی سوچ بچار میں گزارے کہ پچاس روپے کہاں سے لاؤں۔ ان دنوں میرا جیبخرچ پانچ روپے روزانہ تھا اور اگر دس دن پیسے جمع کرتا تو پچاس روپے جمع ہو جاتے اور کوشش بھی کی لیکن پیسے تھے کہ جمع ہو کر نہیں دیتےتھے (ویسے وہ اب بھی نہیں ہوتے)۔ بہت تیر مارا تو کچھ دنوں کے بعد میرے پاس پچیس روپے جمع ہو گئے لیکن اب بھی آدھی رقم کم تھی اور تمنابیتاب۔

سوچ سوچ کر پاگل ہوتا رہا لیکن کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کتاب کیسے خریدوں کہ اللہ کی غیبی مدد پہنچ ہی گئی۔ ایک دن والد صاحب کی میز پربیٹھا ہوا تھا کسی کام کیلیئے دراز کھولا تو اس میں ڈاک کے ٹکٹ نظر آئے اور ساتھ ہی ذہن میں ایک شیطانی منصوبہ، میں نے سوچا اگر میں کچھڈاک ٹکٹ چرا لوں اور انہیں بیچ ڈالوں تو رقم مل جائے گی۔

پہلے تو ضمیر نے ملامت کیا کہ چوری بری چیز ہے لیکن پھر حضرتِ شیطان فوراً مدد کو آئے کہ کونسے برے کام کیلیئے چوری کرنی ہے، آخر کتاب ہیتو خریدنی ہے۔ میں نے پچیس روپے کے ڈاک ٹکٹ نکال لیے لیکن پھر خیال آیا کہ اپنے جمع کیئے ہوئے پیسے ضرور خرچ کرنے ہیں، اگر چوری کرنی ہیہے تو پورے پیسوں کی کروں۔

سو نہایت ایمانداری سے گن کر پورے پچاس روپوں کے ڈاک ٹکٹ اٹھا لیئے، اب انہیں بیچنے کا مسئلہ درپیش تھا، اس وقت تو درکنار مجھے ابھی تکبھی کسی بھی چیز کو بیچنے کا تجربہ نہیں ہے لیکن شوق کے ہاتھوں مجبور تھا سو اسی وقت تیز تیز سائیکل چلاتا ہوا ڈاکخانے پہنچا، مجھے امیدتھی کہ مجھے فوراً ہی رقم مل جائے گی لیکن ڈاکخانے میں بیٹھے کلرک نے مجھے سختی سے ڈانٹ دیا کہ یہاں یہ کام نہیں ہوتا۔ وہاں سے نامراد لوٹاتو اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اب کہاں جاؤں، کیا کروں۔

اسی سوچ بچار میں سائیکل چلا رہا تھا اور سڑک کے دونوں طرف دیکھتا بھی جا رہا تھا کہ کوئی ڈاکخانہ نظر آئے، بالآخر کچہری روڈ پر ایک چھوٹاسے ڈاکخانہ نظر آیا، وہاں گیا تو ایک جہاں دیدہ بلکہ گرم و سرد چشیدہ، گرگِ باراں دیدہ قسم کے بزرگ وہاں بیٹھے تھے، مدعا بیان کیا تو اپنی موٹےموٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے سے مجھے گھورا اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ ٹھیک ہے لے لوں گا لیکن بیس روپے دونگا، میں نے التجا کی کہجناب پچاس روپے کے ٹکٹ ہیں کچھ تو زیادہ عنایت فرمائیں، خیر وہ انکے پچیس روپے دینے پر راضی ہو گئے۔

ٹکٹیں چوری کرتے وقت میں تو یہی سمجھ رہا تھا کہ پچاس روپے پورے مل جائیں گے لیکن اس دن صحیح اندازہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں مجبوریاںکیسے خریدی اور بیچی جاتی ہیں۔ اب کل ملا کر میرے پاس پچاس روپے پورے تھے سو فوراً اردو بازار گیا اور چین اس وقت ملا جب "شناخت پریڈ" پڑھڈالی۔

یہ ایک معمولی واقعہ ہی سہی، لیکن آج بیس برس بعد بھی جب اس واقعے کے متعلق سوچتا ہوں تو افسوس بھی ہوتا ہے اور خوشی بھی، افسوس توظاہر ہے کہ چوری کا ہوتا ہے اور خوشی اس بات کی اس دن جب سائیکل کا رخ اردو بازار کی طرف موڑا تھا تو بس میری زندگی کا اپنا رخ بھی ایکایسی جانب مڑ گیا کہ اس کے آگے ایک بحرِ بیکراں تھا، اسکے بعد کتابیں خریدنے اور پڑھنے کی ایسی عادت پڑی کہ یہ مشغلہ شاید اب موت ہی مجھسے چھڑا سکے۔

© مکرم نیاز (حیدرآباد دکن، 30/دسمبر/2023ء بروز ہفتہ)
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
وارث صاحب صحیح معنوں میں کتاب دوست اور علم دوست تھے۔
مجھے یاد ہے کہ 2008 میں اردومحفل پہ ایک کتاب (The Life and Works of Abdul Qadir Bedil) کا تذکرہ کیا تو محمد وارث صاحب نے وہی کتاب مجھے بذریعہ کورئیر بھیج دی۔
آج بھی اس کتاب پر نظر پڑتی ہے تو محمد وارث صاحب یاد آ جاتے ہیں۔
اللہ تعالی ان کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔
متعلقہ :

مثنوی بیدل ، جامعہ پنجاب اور خطاطی غالب

 

جاسمن

لائبریرین
ان کی اہلیہ سے تعزیت کی۔ کتنی دیر وارث بھائی کی باتیں کرتے رہے۔ کہتیں کہ وہ بہت اچھے انسان تھے۔ اپنی بیماری سے بہادری سے لڑتے رہے۔ بچوں کا، اہلیہ کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے۔ بھابھی کے والدین نہیں ہیں لیکن انھوں نے اپنی اہلیہ کو کسی رشتے سے محرومی کا احساس نہیں ہونے دیا۔
 

جاسمن

لائبریرین
ان کی بیماری کا پتہ چلتا تو ہم دعائیں مانگتے۔ دعا میں بڑی طاقت ہے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
جو اللہ نے چاہا۔
 

جاسمن

لائبریرین
وارث بھائی! آپ تو سفر کرنے سے کتنا بچا کرتے تھے۔ اب اتنے لمبے سفر پہ چلے گئے کہ لوٹ کے نہیں آئیں گے۔
 

محمدظہیر

محفلین
انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی مغفرت فرمائے، لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
جان کر افسوس ہوا۔
 
Top