میر مہدی مجروح نیچی نظروں کے وار آنے لگے - میر مہدی مجروح

کاشفی

محفلین
غزل
(میر مہدی مجروح)
نیچی نظروں کے وار آنے لگے
لو بس اب جان و دل ٹھکانے لگے

میری نظروں نے کیا کہا یارب
کیوں وہ شرما کے مُسکرانے لگے

مصلحت ترکِ جور تھا چندے
پھر اُسی ہت کھنڈوں پہ آنے لگے

جلوہء یار نے کیا بےخود
ہم تو آتے ہی اُن کے جانے لگے

سب کا کعبہ ہے منزلِ مقصود
ہم تو آگے قدم بڑھانے لگے

کیا کہیں آمدِ بہار ہوئی

کیوں گریباں پہ ہاتھ جانے لگے

گر حقیقت نگر ہو چشم تو وہ
جلوہ ہر رنگ میں دکھانے لگے

ہم کو ربطِ گذشتہ یاد آئے
وہ جو بن ٹھن کے گھر جانے لگے

بس یہی غایتِ تصوّر ہے
ہجر میں لطفِ وصل آنے لگے

اُس سراپا بہار کے جلوے
رنگ کچھ اور ہی دکھانے لگے

کیونکہ فرصت عدو سے تم کو ملی
جو تصور میں میرے آنے لگے

بے غذا کے تو رہ نہیں سکتے
نہ ملا کچھ تو زہر کھانے لگے

بات بنتی نظر نہیں آتی
اب وہ باتیں بہت بنانے لگے

آج مجروح ضبط کر نہ سکا
کیا کرے جبکہ جان جانے لگے
 
Top