احمد مشتاق نکلے تھے کسی مکان سے ہم ۔۔ احمد مشتاق

نوید صادق

محفلین
غزل

نکلے تھے کسی مکان سے ہم
روٹھے رہے اک جہان سے ہم

بدنامیاں دل سے آنکھ تک تھیں
رسوا نہ ہوئے زبان سے ہم

ہے تنگ جہانِ بود و نابود
اترے ہیں کسی آسمان سے ہم

پھولوں میں بکھر گئے تھے رستے
گزرے نہیں درمیان سے ہم

جو شان تھی ملتے وقت مشتاق
بچھڑے اسی آن بان سے ہم

شاعر: احمد مشتاق
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب نوید۔۔ وارث اس میں احمد مشتاق کے نام کا ٹیگ لگا دیں تاکہ مستقبل میں تلاش آسان ہو۔
 

مغزل

محفلین
کیا کہنے واہ ، بہت خوبصورت کلام پیش کیا ہے نوید بھائی ۔ مجھے احمد مشتاق کا ایک شعر یاد آرہا ہے ۔
جو شاید میرے ہی لیے ہے ۔۔
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
احمدمشتاق۔
 
Top