نوبل انعام یافتہ واحد پاکستانی ڈاکٹر عبدالسلام

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
مستقبل میں نہایت قابل لوگوں نے پاکستان میں کام کیا اور آج بھی کر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن، اٹومک انرجی کمیشن اور جامعہ کراچی جیسے ادارے آج بھی اپنی پوری لگن کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والی شخصیات ہی ہیںجن کی سائنسی کاوشوں کو بین الاقوامی سطح پر گردانا گیا۔ ان شخصیات میں ایک نام ڈاکٹر عبدالسلام کا بھی ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام وہ پہلے اور واحد پاکستانی ہیں جنہوں نے فزکس میں نوبل انعام جیتا۔

ڈاکٹر عبدالسلام 1926ء میں پاکستان کے شہر جھنگ جو اس وقت کے برطانیہ ہندوستان کا حصہ تھا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محکمہ تعلیم میں تعلیمی افسر اور والدہ گھریلو خاتون تھیں، ان کے چھ بھائی اور ایک بہن تھی۔ ڈاکٹر عبدالسلام کا خاندان غریب تھا اور انھوں نے کبھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ انھیں بیرون ملک تعلیم کا موقع ملے گا۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے میٹرک میںسب سے زیادہ نمبر حاصل کیئے تب ان کی عمر صرف 14 سال تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے گورنمنٹ کولج لاہو ر سے گریجویشن مکمل کی۔ انہوں نے 1946ء میں گورنمنٹ کولج یونیورسٹی لاہور سے ایم اے میتھ میٹکس کی ڈگری حاصل کی ، انہیں اسی سال گورنمنٹ کولج یونیورسٹی لاہور سے کیمبرج یونیورسٹی کا وظیفہ بھی ملا۔ 1949ء میں ڈاکٹر عبدالسلام کیمبرج یونیورسٹی چلے گئے اور یہاں بی اے ڈبل فرسٹ کلاس اونر (میتھ میٹکس، فزکس) کی ڈگری حاصل کی۔ 1950ء میں ڈاکٹر عبدالسلام کو کیمبرج یونیورسٹی کی طرف سے فزکس کے شعبے میں نمایاں خدمات کے اعتراف میں (اسمتھس پرائسز) سے نوازا گیا۔ ڈگری مکمل کرنے کے بعد بھی ڈاکٹر صاحب نے کیونڈس لیبارٹری میں تحقیقاتی کام شروع کیارتھر فورڈ نے ایٹم کی ساخت پر تجربے کیئے تھے۔ کیونڈس تجرباتی کام کے لیئے ایک شاندار لیبارٹری تھی اور دنیا بھر کے طبیعات دان کا مرکز تھی۔ ایک سال تک کیونڈش یونیورسٹی میںفزکس پر تحقیق کرتے رہے، پھر 1951ء میں واپس پاکستان آ گئے اور یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کر دیا مگر ایک طبیعات دان ہونے کے ناطے، انھوںنے اپنے مضمون سے لاتعلقی محسوس کی اور 1954ء میں یونیورسٹی چھوڑ دی اور کیمبرج واپس چلے گئے۔ یہاں دنیا کے بہترین نظریاتی طبیعات دانوں کی ایک جماعت پاکستان اکیڈمی اوف سائنسز بنانے میں کامیاب ہوئے، اسی سال ایس ٹی جوہنز کولج کیمبرج بحیثیت لیکچرار اور فیلو آف سینٹ تقرر ہوئے۔ تین سال بعد امپیرئل کالج لندن میں بحیثیت پروفیسر تقرر ہوئے۔ 1957ء میں پنجاب یونیورسٹی نے ڈاکٹر عبدالاسلام کو فزکس کے شعبے میں خدمات کے اعتراف میں ڈوکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ 1957ء میں ہی ڈاکٹر عبدالسلام کیمبرج یونیورسٹی میں پاکستانی طالب علموں کے لئے اسکولر شپ پروگرام شروع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہیں عظیم درسگاہ امپریل کالج اوف سائنس اینڈ ٹیکنولوجی لندن سے پروفیسر فیلو شپ کی آفر دی گئی، جسے منظور کر لیا۔

ڈاکٹر عبدالسلام نے تھیوری اوف دی نیوٹرینوس پر کام کیااور تھیوری اوف نیوٹرینوس چیرل سمینٹری پیش کیا جو کہ تھیوری اوف الیکٹرو ویک انٹریکشنز میں اہم کردار اداد کرتا ہے کو پیش کیا۔ انھوں نے 1960ء میں نیوکلیئر فزکس پر کام کیا جہاں پروٹون کشی پر کام کی سربراہی کی۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے تھیوری اوف دی اسٹینڈرڈ موڈل میں انڈکشنز اوف دی میسو ہیگس بوسونس کو پیش کیا۔ 1963ء میں ڈاکٹر صاحب نے ویکٹر میسن پر اپنی تحقیقات شائع کیں۔

فزکس میںڈاکٹر عبدالاسلام کی خدمات کا نقطہ عروج 1979ء میں آیا جب انھوں نے شیلڈن گلاسکو اور اسٹیبون وینبرگ کے ساتھ نوبل پرائز جیتا۔ یہ پرائز انہیں الیکٹرو میگنیٹک اور کمزور نیوکلیئر طاقت کے ملاپ پر ملا۔ اس نظریے کے تحت یہ لفظ جو کہ 1978ء میں ہی تخلیق کردہ تھا کی گئی پیشن گوئیاں تجربات کے ذریعے ثابت کی جا سکتی ہیںجو کہ بیسوی صدی کی ایک اہم کامیابی تھی۔ جس میںسب سے زیادہ ظاہر کردہ یہ تھی کہ ایک نیا پارٹیکل انتہائی توانائی کے ساتھ وجود رکھتا ہے۔ 1960ء میں واپس پاکستان آ گئے اور پاکستانی صدر ایوب خان نے انہیں سائنسی تحقیقاتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کا کام دیا۔ تب پاکستان میں تحقیق تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی اور سائنس کے شعبے پر صرف صفر اعشاریہ تین فیصد خرچ کیا جاتا تھا ۔ پاکستان اٹومک انرجی کمیشن کو ایک کمرے سے شروع کیا گیا جس میں فزکس پر دس سے بھی کم سائنسدان کام کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان اٹومک انرجی کمیشن ( پی اے ای سی) کا پہلا ممبر ٹیکنیکل سلیم الزماں صدیقی کو رکھا۔

ڈاکٹر عبدالسلام نے پانچ سو سے زائد سائنسدانوں کو بیرون ملک بھیج کر پاکستان میں طبیعیاتی تحقیق اور ترقی کی وسیع کیا۔ 1961ء میں ڈاکٹر عبدالسلام نے صدر ایوب خان کو پاکستان کی اسپیس ایجنسی قائم کرنے کو کہا جس کے نتیجے عبدالاسلام کی سربراہی میں اسی سال اسپیس اینڈ اپرریسرچ کمیشن بنائی گئی۔ 1967ء میں ڈاکٹر عبدالسلام نے قائداعظم یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ اوف فزکس قائم کیا۔ نومبر 1961ء میں ناسانے بلوچستان میں فلائیٹ ٹیسٹ رینج بنائی جس کا ٹیکنیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالسلام کو رکھا گیا۔ 1964ء میں ڈاکٹر عبدالسلام نے انٹرنیشنل سینتر فور تھیوریٹیکل فزکس (آئی سی ٹی پی) کی بنیاد رکھی۔ 1965ء میں ڈاکٹر عبدالسلام کی کاوشوں سے کینیڈا اور پاکستان کے درمیان نیوکلیئر انرجی کارپوریشن کا معاہدہ طے ہوا اور کراچی میں نیوکلیئر پاور پلانٹ تعمیر کیا گیا۔ 1965ء میں ہی ڈاکٹر صاحب کی بدولت یونائیٹڈ اسٹیٹس اور پاکستان کے درمیان معاہدہ ہوا اور یونائیٹڈ اسٹیٹس نے پاکستان کو ایک چھوٹا نیوکلیئر ریکٹر فراہم کیا۔ عبدالسلام پاکستان میں نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ بنانا چاہتے تھے چنانچہ انھوں نے نیلور اسلام آباد میںپاکستان انسٹیٹیوٹ اوف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنولوجی کی بنیاد اٹلی میں رکھی اور اس میں ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا۔ 1972ء میںپاکستان میں سائنسی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے انٹرنیشنل نیتھیگلی سمر کولج (آئی این ایس سی) ادارہ قائم کیا۔ 1997ء میں اس ادارے کا نام تبدیل کر کے ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر رکھ دیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے ہی تھرڈ ورلڈ اکیڈمی اوف سائنسز ( ٹی ڈبلیو اے ایس) قائم کیا۔1976 ء میں جب پاکستان پارلیمنٹ نے احمدی کو غیر مسلم قرار دیا تو ڈاکٹر عبدالسلام احتجاجی طور پر پاکستان چھوڑ کر لندن چلے گئے لیکن لندن جاکر بھی وہ پاکستان سے اپنا تعلق منقطع نہ کر سکے اور پاکستان کی سائنسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ 21 نومبر1996ء میں 70 سال کی عمر میں ڈاکٹر عبدالسلام کی وفات شدید علالت کے باعث اوکسفورڈ (لندن) میں ہوئی، انہیں پاکستان میں ہی دفن کیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے اپنی تحقیقی سرگرمیوں سے پاکستان کو ترقی کی جانب گامزن کیا اور ثابت کیا کہ وہ ایک سچے پاکستانی تھے۔

تحریر: سید محمد عابد

http://smabid.technologytimes.pk/?p=613
http://www.technologytimes.pk/2011/11/26/نوبل-انعام-یافتہ-واحد-پاکستانی-ڈاکٹر-ع/
 
اگر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب سچے پاکستانی تھے تو اپنا محبوب وطن پاکستان چھوڑ کر یو کے کیوں گئے؟ جب قادیانیوں کو انہیں کے خلیفہ مرزا ناصر صاحب کے قومی اسمبلی کی کاروائی کے دوران زندیقانہ بیانات پر صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں غیر مسلم قرار دیا گیا تو وہ آئین پاکستان پر مرتے دم تک تنقید فرماتے رہے اور اپنے خلیفہ مرزا ناصر کے اس بیان کی تائید کرتے رہے جس متنازعہ بیان میں مرزا ناصر صاحب نے مرزا صاحب پر ایمان نہ لانے والے ہر مسلمان کو کافر اورجہنمی قرار دیا تھا ، اور یہ بھی جان لیجئے کہ قادیانی وزیر خارجہ ظفر اللہ نے بھی حضرت قائد اعظم کا جنازہ تک پڑھنے سے انکار کر دیا تھا تو اس حوالے سے ڈاکٹر عبدالسلام نے ہمیشہ ظفر اللہ کے موقف کی حمایت کی اور فرماتے رہے کہ ظفر اللہ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ نہ پڑھ کر درست کیا کیونکہ ہمارے نذدیک کوئی ایسا شکص مسلمان نہیں جو مرزا صاحب پر ایمان نہیں رکھتا اور کسی غیر مسلم کی نماز جنازہ نہیں ہوتی ۔۔۔۔اور اس سلسلے میں وہ ہمیشہ قادیانی ٹی وی یو کے پر اپنے اس عقیدے کے مطابق آئین پاکستان کی کھلی تضحیک اور مرزا صاحب کو خدا کا رسول اور امام مہدی قرار دیتے رہے ۔۔۔۔۔ اور قادیانی مزہب کے ازلی و ابدی سپورٹر مغربی آقاوں نے انہیں اسلام دشمن خدمات کے عوض انہیں نوبل پرائز سے نوازا ۔۔۔ ایک بات واضع کرنا چاہتا ہوں کہ غیر مسلم کافر اور زندیق میں بہت فرق ہے ۔۔۔۔ کافر کھلا غیر مسلم ہے لیکن ،، زندیق ،، اس غیر مسلم کو کہتے ہیں جو غیر مسلم ہونے کو باوجود مسلمان ہونے کا دعوی کرے اور اصل مسلمان کو کافر قرار دے ( جیسے قادیانی ) ۔۔۔ یہی وہ سٹیٹمنٹ تھی جو مرزا صاحب کی ساری کتابوں میں لکھی ہے ، مرزا ناصر صاحب کے اسی سٹیٹمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوایا ۔۔۔۔۔ اسی سٹیٹمنٹ پر ظفر اللہ سے حضرت قائد اعظم کا جنازہ پڑھنے سے اکار کیا اور یہی بیان ڈاکٹر صاحب کو نوبل پرائز دلوا گیا ۔۔۔۔ اور جس پر وہ مرتے دم تک قائم رہے اور مرزا صاحب پر ایمان نہ لانے والے کو کافر قرار دیتے رہے ۔۔۔۔۔
 
ڈاکٹر صاحب کی پاکستان سے محبت کا ثبوت دیکھئے گا کہ 10 ستمبر 1974ء کو ڈاکٹر عبدالسلام نے وزیراعظم کے سائنسی مشیر کی حیثیت سے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ اس کی وجہ انھوں نے اس طرح بیان کی
’’ آپ جانتے ہیں کہ میں احمدیہ (قادیانی) فرقے کا ایک رکن ہوں۔ حال ہی میں قومی اسمبلی نے احمدیوں کے متعلق جو آئینی ترمیم منظور کی ہے، مجھے اس سے زبردست اختلاف ہے۔ کسی کے خلاف کفر کا فتویٰ دینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ کوئی شخص خالق اور مخلوق کے تعلق میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ میں قومی اسمبلی کے فیصلہ کو ہرگز تسلیم نہیں کرتا لیکن اب جبکہ یہ فیصلہ ہو چکا ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ہو چکا ہے تو میرے لیے بہتر یہی ہے کہ میں اس حکومت سے قطع تعلق کر لوں جس نے ایسا قانون منظور کیا ہے۔ اب میرا ایسے ملک کے ساتھ تعلق واجبی سا ہوگا جہاں میرے فرقہ کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہو ‘‘
 
یہ بات اہل علم سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اسرائیل کے معروف یہودی سائنس دان یوول نیمان کے ڈاکٹر عبدالسلام سے دیرینہ تعلقات ہیں۔ یہ وہی یوول نیمان ہیں جن کی سفارش پر تل ابیب کے میئر نے وہاں کے نیشنل میوزیم میں ڈاکٹر عبدالسلام کا مجسمہ یادگار کے طور پر رکھا۔ معتبر ذرائع کے مطابق بھارت نے اپنے ایٹمی دھماکے اسی یہودی سائنس دان کے مشورے سے کیے جو مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یوول نیمان امریکہ میں بیٹھ کر براہ راست اسرائیل کی مفادات کی نگرانی کرتا ہے۔ اب داکٹر صاحب کے مجسمہ کی اسرائیل کے نیشنل میوزیم میں موجودگی داکتر صاحب کی پاکستان سے محبت کا ثبوت ہے یا پاکستان اور عالم اسلام کے سب سے بڑے دشمن اسرائیل سے محبت بھرے تعلق کا ۔۔۔فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں ۔۔۔
 

کاشفی

محفلین
کالم کافی اچھا لکھا ہے محمد عابد صاحب خوش رہیں۔
لیکن کچھ باتوں سے اختلاف ہے۔۔۔ اول یہ کہ جھنگ برطانیہ ہندوستان کا حصہ نہیں تھا۔ بلکہ جھنگ اُس ہندوستان کا حصہ تھا جہاں برطانوی قابض تھے۔۔۔
ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل انعام سے اس لیئے نوازا گیا کیونکہ وہ ایک غیر مسلم تھے۔۔ اور ڈاکٹر صاحب کے اسرائیل کے ساتھ بھی کافی قریبی روابط تھے۔۔۔
سائنس ، فزکس، کیمسٹری وغیرہ میں اس سے بھی بڑے بڑے کام ہوئے ہیں پاکستان کی طرف سے۔۔
نوبل انعام انہیں ملتا ہے جو مغربی نواز ہو یا اسرائیل سے ہمدردی رکھے۔۔
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو نوبل انعام کیوں نہیں ملا ۔ یہ اس سلسلے میں بہت بڑا ثبوت ہے۔۔
ویسے نوبل انعام کوئی بڑی چیز نہیں۔۔۔ نوبل انعام میرٹ پہ نہیں دیئے جاتے۔۔۔
 

سویدا

محفلین
فرقہ وارانہ باتوں سے قطع نظر ایک پاکستانی جو پاکستان کو پسند نہ کرتا ہو اس کے لیے پاکستانی کا لفظ ہی استعمال نہیں کرنا چاہیے
 
ڈاکٹر عبد السلام کے پاکستان دشمن بھارتی لیڈر نہرو کے ساتھ بڑے دوستانہ مراسم تھے۔ ایک دفعہ نہرو نے ڈاکٹر عبدالسلام کو آفر کی تھی کہ آپ انڈیا آ جائیں، ہم آپ کو آپ کی مرضی کے مطابق ادارہ بنا کر دیں گے۔۔۔۔۔۔۔ اس پر ڈاکٹر عبدالسلام نے کہا کہ ’’وہ اس سلسلہ میں اٹلی کی حکومت سے وعدہ کر چکے ہیں لہٰذا میں معذرت چاہتا ہوں لیکن آپ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے وہاں کے سائنس دانوں سے تعاون کروں گا۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام کی بھارتی ’’خدمات‘‘ کے عوض ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ برائے بنیادی تحقیق بمبئی، انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی نئی دہلی اور انڈیا اکیڈمی آف سائنس بنگلور کے منتخب رکن رہے۔ گورونانک یونیورسٹی امرتسر (بھارت)، نہرو یورنیورسٹی بنارس (بھارت)، پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ (بھارت) نے انہیں ’’ڈاکٹر آف سائنس‘‘ کی اعزازی ڈگریاں دیں۔۔۔۔۔۔۔۔ کلکتہ یونیورسٹی نے انہیں سر دیو پرشاد سردادھیکاری گولڈ میڈل اور انڈیشن فزکس ایسوسی ایشن نے شری آرڈی برلا ایوارڈ دیا۔ اسرائیل یا بھارت نے ڈاکٹر عبدالقدیر کو اعزازات سے کیوں نہ نوازا؟۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان اور اسلام کے بدترین دشمنوں کی صرف قادیانی حضرات پر ہی نوازشات کیوں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو میرا یار ، میں تیرا یار ۔۔۔۔۔ اب بتائیں کون کس کا یار ؟
 

سویدا

محفلین
آپ کی پیش کردہ تمام باتوں کے جواب ممکن ہیں لیکن پاکستان اور قائد اعظم دشمنی انتہائی شرمناک ہے
 
حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ شعیہ مسلمان تھے یا سنی ، وہابی تھے یا دیوبند ، وہ ہر مسلم مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمان ، پورے برصغیر پاک و ہند کے ہر مسلمان کیلئے قابل قبول اور ہر دل عزیز راہنما اور مسیحا تھے انہیں ہر مسلک کے مسلمان نے اپنا راہنما تسلیم کیا ۔۔۔۔۔۔۔ مگر قادیانیوں نے ان کا جنازہ پڑھنے سے کھلا انکار کر کے ثابت کر دیا کہ قادیانی ہم مسلمانوں کا فرقہ ہرگز نہیں بلکہ غیر مسلم زندیق ہیں ۔۔۔۔۔
 
تاریخ گواہ ہے کہ امتِ مسلمہ سے اپنا ناطہ توڑنے والوں کو کفر نے ہمیشہ قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا۔۔۔بہت ایمان افروز واقعہ ہے جو بخاری و مسلم اور حدیث کی دیگر مستند کتب میں جگمگا رہا ہے۔۔۔قرآن میں بھی اسی واقعے کی نسبت آیات نازل ہوئیں جب تین صحابہ کرام کسی ٹھوس وجہ کے بغیر ایک اہم غزوہ میں شرکت سے رہ گئے۔۔۔اوررسولِ کریم کی مدینہ واپسی پر جہاں بہت سے منافقین نے جھوٹ موٹ کے عذر پیش کئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے چشمپوشی سے کام لیتے ہوئے درگزر فرمایا، وہاں ان تین صحابہ نے رسولِ پاک کے سامنے کوئی جھوٹا عذر پیش کرنے سے بہتر سمجھا کہ پنے اس عمل کی ذمہ داری سچ بول کر قبول کرلیں چنانچہ ان پاک نفوس نے اپنی غلطی تسلیم کر لی۔۔۔رسول ِ کریم نے ان تینوں صحابہ کو اللہ کا حکم نازل ہونے تک انکے حال پر چھوڑنے کا حکم دیدیا۔۔۔اور تمام صاحبہ کو بھی حکم دیا گیا کہ ان سے کسی قسم کا بھی میل جول نہ رکھا جائے تاوقتیکہ اللہ کی جانب سے فیصلہ نہ آجائے۔۔۔حدیث پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کہ ان صحابہ کے دل وں پر کیا قیامت گذری ان دنوں۔۔۔
مثال دینے کا مقصد یہ ہے کہ مدینے میں پیش آنے والے اس واقعے کی خبر قیصرِ روم کو ایک مہینے کے اندر اندر مل گئی اور اس نے اپنا نمائندہ ان کے پاس بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ،" میں نے سنا ہے کہ محمّد نے تم لوگوں کو چھوڑدیا ہے۔ میں قیصرِ روم تمہیں یہ پیشکش کرتا ہوں کہ تم ہماری پناہ میں آجاو اور تم دیکھ لو گے کہ ہم لوگوں کی قدر کرنے والے ہیں۔"۔۔۔اس پیغام نے ان صحابہ کے دلوں کو مزید زخمی کیا اور وہ یہ کہہ کر دہائی دینے لگے کہ "ہائے افسوس ۔۔اب تو کفار بھی ہم میں طمع کرنے لگے"
قصہ مختصر یہ کہ قرآن میں ان صحابہ کی توبہ کی قبولیت کی سند نازل ہوئی اور وہی زمین جو ان پر تنگ ہوگئی تھی ، پھر سے شاد و آباد ہوگئی۔۔۔۔
اس واقعے میں غور و فکر کیلئے بہت کچھ ہے۔۔۔
بمصطفی رساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست​
اگر بہ اُو نہ رسیدی، تمام بولہبی است۔۔۔​
 

شمشاد

لائبریرین
محمود بھائی آپ بھی ان لوگوں کو کن ہستیوں سے ملا رہے ہیں۔ قیصر روم نے ایک صحابی کو اپنی آدھی سلطنت اور اپنی بیٹی دینے کی بھی پیشکش کی تھی جسے انہوں نے ٹھکرا دیا۔ موجودہ دور کے جعفر و صادق تو اس کے عشرہ عشیر سے بھی کم میں بکنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
 
30 اپریل 1984ء کو قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا طاہر احمد قادیانی آرڈیننس مجریہ 1984ء کی خلاف ورزی پر مقدمات کے خوف سے بھاگ کر لندن چلے گئے۔ رات کو لندن میں انھوں نے مرکزی قادیانی عبادت گاہ ’’بیت الفضل‘‘ سے ملحقہ محمود ہال میں غصہ سے بھرپور جوشیلی تقریر کی۔ اس موقع پر ڈاکٹر عبدالسلام مرزا طاہر کے سامنے صف اوّل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مرزا طاہر احمد نے اپنے خطاب میں صدارتی آرڈیننس نمبر 20 مجریہ 1984ء (جس کی رو سے قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال سے روک دیا گیا تھا) پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے حقوق انسانی کے منافی قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ احمدیوں کی بددعا سے عنقریب پاکستان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ مزید برآں انھوں نے امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک سے اپیل کی کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر پاکستان کی تمام اقتصادی امداد بند کر دیں۔ اپنے خطاب کے آخر میں مرزا طاہر نے ڈاکٹر عبدالسلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’صرف آپ میرے دفتر میں ملاقات کے لیے تشریف لائیں۔ آپ سے چند ضروری باتیں کرنا ہیں۔‘‘ ’’فرزند احمدیت‘‘ ڈاکٹر عبدالسلام نے اسے اپنی سعادت سمجھا اور ملاقات کے لیے حاضر ہو گئے۔
اس ملاقات میں مرزا طاہر احمد نے ڈاکٹر عبدالسلام کو ہدایت کی کہ وہ صدر ضیاء الحق سے ملاقات کریں اور انھیں آرڈیننس واپس لینے کے لیے کہیں۔ لہٰذا ڈاکٹر عبدالسلام نے جنرل محمد ضیاء الحق سے پریذیڈنٹ ہائوس میں ملاقات کی اور انھیں جماعت احمدیہ کے جذبات سے آگاہ کیا۔ صدر ضیاء الحق نے بڑے تحمل اور توجہ سے انھیں سنا۔ جواب میں صدر ضیاء الحق اٹھے اور الماری سے قادیانی قرآن ’’تذکرہ‘‘ مجموعہ وحی مقدس و الہامات اٹھا لائے اور کہا کہ یہ آپ کا قرآن ہے اور دیکھیں اس میں کس طرح قرآن مجید کی آیات میں تحریف کی ہے اور ایک نشان زدہ صفحہ کھول کر ان کے سامنے رکھ دیا۔
اس صفحہ پر مندرجہ ذیل آیت درج تھی:
انا انزلنا قریبا من القادیان ترجمہ: ’’(اے مرزا قادیانی) یقینا ہم نے قرآن کو قادیان (گورداسپور بھارت) کے قریب نازل کیا۔‘‘ (نعوذ باللہ) (تذکرہ مجموعہ وحی مقدس و الہامات طبع چہارم ص 59 از مرزا قادیانی)
اور مزید لکھا ہے کہ یہ تمام قرآن مرزا قادیانی پر دوبارہ نازل ہوا ہے۔ ضیاء الحق نے کہا کہ یہ بات مجھ سمیت ہر مسلمان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ اس پر ڈاکٹر عبدالسلام کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور وہ بے حد شرمندہ ہوئے اور کھسیانے ہو کر بات کو ٹالتے ہوئے پھر حاضر ہونے کا کہہ کر اجازت لے کر رخصت ہو گئے۔

( برادر محترم متین خالد صاحب کی تحریر سے مدد لی گئی)
 
ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ہم مسلمانوں کو کیا سمجھتے تھے؟ اس سلسلہ میں معروف صحافی و کالم نویس جناب تنویر قیصر شاہد نے ایک دلچسپ مگر فکر انگیز واقعہ اپنی ذاتی ملاقات میں راقم کو بتایا۔ یہ واقعہ انہی کی زبانی سنئے اور قادیانی سائینس لیجنڈ اخلاق پر غور کیجیے:
’’ایک دفعہ لندن میں قیام کے دوران بی بی سی لندن کی طرف سے میں اپنے ایک دوست کے ساتھ بطور معاون، ڈاکٹر عبدالسلام کے گھر ان کا تفصیلی انٹرویو کرنے گیا۔ میرے دوست نے ڈاکٹر سام کا خاصا طویل انٹرویو کیا اور ڈاکٹر صاحب نے بھی بڑی تفصیل کے ساتھ جوابات دیئے۔ انٹرویو کے دوران میں بالکل خاموش، پوری دلچسپی کے ساتھ سوال و جواب سنتا رہا۔ دوران انٹرویو انہوں نے ملازم کو کھانا دسترخوان پر لگانے کا حکم دیا۔ انٹرویو کے تقریباً آخر میں عبدالسلام مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہاں کہ آپ معاون کے طور پر تشریف لائے ہیں مگر آپ نے کوئی سوال نہیں کیا۔ میری خواہش ہے کہ آپ بھی کوئی سوال کریں۔ ان کے اصرار پر میں نے بڑی عاجزی سے کہا کہ چونکہ میرا دوست آپ سے بڑاجامع انٹرویو کر رہا ہے اور میں اس میں کوئی تشنگی محسوس نہیں کر رہا، ویسے بھی میں، آپ کی شخصیت اور آپ کے کام کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ میں نے آپ کے متعلق خاصا پڑھا بھی ہے۔ جھنگ سے لے کر اٹلی تک آپ کی تمام سرگرمیاں میری نظرں سے گزرتی رہی ہیں لیکن پھر بھی ایک خاص مصلحت کے تحت میں اس سلسلہ میں کوئی سوال کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ اس پر ڈاکٹر عبدالسلام فخریہ انداز میں مسکرائے اور ایک مرتبہ اپنے علمی گھمنڈ اور غرور سے مجھے ’’مفتوح‘‘ سمجھتے ہوئے ’’فاتح‘‘ کے انداز میں ’’حملہ آور‘‘ ہوتے ہوئے کہا کہ ’’نہیں… آپ ضرور سوال کریں، مجھے بہت خوشی ہو گی۔‘‘ بالآخر ڈاکٹر صاحب کے پرزور اصرار پر میں نے انہیں کہا کہ آپ وعدہ فرمائیں کہ آپ کسی تفصیل میں گئے بغیر میرے سوال کا دوٹوک الفاظ ’’ہاں‘‘ یا ’’نہیں‘‘ میں جواب دیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے وعدہ فرمایا کہ ’’ٹھیک! بالکل ایسا ہی ہو گا؟‘‘ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ چونکہ آپ کا تعلق قادیانی جماعت سے ہے، جو نہ صرف حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بحیثیت آخری نبی منکر ہے، بلکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی اور رسول مانتے ہیں۔ جبکہ مسلمان مرزا قادیانی کی نبوت کا انکار کرتے ہیں۔ آپ بتائیں کہ مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہ ماننے پر آپ مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں؟ اس پر ڈاکٹر عبدالسلام بغیر کسی توقف کے بولے کہ ’’میں ہر اس شخص کو کافر سمجھتا ہوں جو مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتا۔‘‘ ڈاکٹر عبدالسلام کے اس جواب میں، میں نے انہیں کہا کہ مجھے مزید کوئی سوال نہیں کرنا۔ اس موقع پر انہوں نے اخلاق سے گری ہوئی ایک عجیب حرکت کی کہ اپنے ملازم کو بلا کر دستر خوان سے کھانا اٹھوا دیا۔ پھر ڈاکٹر صاحب کو غصے میں دیکھ کر ہم دونوں دوست ان سے اجازت لے کر رخصت ہوئے۔‘‘

( برادر محترم متین خالد صاحب کی تحریر سے مدد لی گئی)
 
میرا چیلنج ہے کہ کوئی بھی قادیانی صاحب، ڈاکٹر عبدالسلام سے منسلک کسی بھی نوعیت کا کوئی ایک بھی واقعہ، کوئی ایک بھی مستند بیان، کوئی ایک حوالہ ہی ایسا بتا دیں جس میں ڈاکٹر صاحب نے پاکستان یا پاکستانیوں سے محبت ، مسلمانوں کی عزت و تکریم کی بات کہی ہو ۔ مسلم اہل علم اور محبان ملک و ملت بخوبی جانتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ایک انتہائی متعصب اور جنونی قادیانی تھے جو اپنی سائنس کی آڑ میں ساری زندگی قادیانیت کا شر پھیلاتے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی کوئی بھی ایک بھی ایسی بات نہیں کہی جو دین اسلام کے شاتمین اور پاکستان دشمن ممالک کے اغراض و مقاصد سے متصادم ہو۔ مملکت پاکستان کے دفاع کے متعلق بھارت، اسرائیلی جارحیت یا امریکہ کی مسلم کش پالیسیوں کے خلاف ایک لفظ بھی کہنا، ان کی ایمان دوستی کے منافی منافی تھا ۔۔۔۔۔۔۔انکی دوستیاں اسرائیلی سائینسدانوں ، ہندوآتہ پریس اور سامراجی ٹھنک ٹینک سے رہیں ۔۔۔۔۔۔۔ درحقیقت قادیانیت نقل بمطابق اصل کا ایسا پیکنگ ہے، جس کی ہر زہریلی گولی کو ورق نقرہ میں ملفوف کر دیا گیا ہے۔ انگریز نے اس دجالی مذہب کو الہامات و روایات اور کشف و کرامات کے سانچوں میں ڈھال کر پروان چڑھایا۔۔۔۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ صرف ڈاکٹر صاحب کا ہی نہیں سب قادیانیوں کے دل و دماغ بلکہ جسم و جان تک انگریزی کی قید میں ہوتے ہیں سو ڈاکٹر عبدالسلام صاحب بھی انہیں کے غلام تھے ۔ اور ان کے سامراجی و صیہونی آقاؤں نے انہیں ہمیشہ اپنے مفاد کی خاطر ایسے ہی استعمال کیا جیسے وہ ہر قادیانی اور سب اسلام دشمن عناصر کو کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اور انہیں خدمات کے عوض ظفر اللہ کو ،، سر،، اور ڈاکٹر عبدالسلام کو ،، نوبل پرائیز ،، ملا ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ یورپ کی گو میں پناہ لئے مفرور ملعون سلمان رشدی ہو یا نسرین بنگالی، مرزا مسرور ہو یا انجہانی ڈاکٹر عبدالسلام، سب ایک ہی آقا کے غلام تھے اور ہیں سو انہیں کیلئے انعام و اکرام بھی ہیں اور خلعت و مراعات بھی اور نوبل پرائز یافتہ ان ننگ آدم ، ننگ ملت ننگ دین ہستیوں کے مکروہ چہروں کو بے نقاب کرنے والے درویش کیلئے سامراجی غلاموں کے بنائے گئے ٹارچر سیلز، میڈ ان انڈیا گولی اور در بدر کی ٹھوکریں ۔۔۔۔ مگر حق الیقین و حق الایمان ہے کہ محشر میں نبی آخرالزمان محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا تاج انعام ہو گا اور وہی مطلوب و مقصود ہے ۔۔۔۔ اور یہی ہر غلام مصطفے کا بیان و ایمان ہونا چاہیے کہ ۔۔۔۔۔ بس ۔۔۔۔۔ میرے آبا و اجداد، میری آل اولاد اور میری آنے والی سب نسلیں حرمت و ناموس ِ سرور ِ کونین خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر ہزار بارقربان، یہ زندگی ہزار بار ملے تو ہر بار ہزار بار قربان۔۔۔۔۔۔ کہ ہم غلام ہیں غلام ہیں رسول کے غلام ہیں ۔۔۔۔ غلامیء رسول میں موت بھی قبول ہے ۔۔۔۔۔ والسلام
 
قادیانت کو غیر مسلم اقلیت قرار دئے جانے سے پہلے نیشنل اسمبلی میں سابق قادیانی خلیفہ مرزا ناصر صاحب کی تقریریں ان سے مولانا شاہ احمد نورانی (رح) مولانا مفتی محمود (رح) اور دیگر ممبران پارلیمنٹ کی جرح اور بحث کا ریکارڈ پڑھا جائے اورپھر اس کاروائی کے بارے ڈاکٹرعبدالسام کے لکھے تبصرے اور تنقیدیں پڑھ لی جائیں تو ان کی ساری حب الوطنی اور اسلام سے محبت عیاں ہو جائے گی، لیکن کوئی پڑھے تو سہی۔ اپنے سب مسلمان بھایوں اور بزرگوں سے ہماری گزارش ہے کہ ایک باراسمبلی کی اُس کاروائی کو ضرور پڑھیں پھر کوئی قادیانی اپنے پراپیگنڈے سے آپ کو ورغلا یا بہکا نہیں سکے گا۔
 
کس قدر ہے جائے عبرت اب مسلماں کے لئے
دین کے گستاخ و غداروں سے الفت ہو گئی
حادثے درہیش ہیں اور منزلیں گم ہیں غزل
دور ہم سے آج کیوں خالق کی رحمت ہو گئی

سیدہ سارا غزل ہاشمی
 

قیصرانی

لائبریرین
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو نوبل انعام کیوں نہیں ملا ۔ یہ اس سلسلے میں بہت بڑا ثبوت ہے۔۔
علامہ اقبال اور رابندر ناتھ ٹیگور کے بارے پڑھا ہے بی بی سی اردو پر کہ ان میں سے ایک شاعر کو نوبل انعام دینا تھا لیکن ٹیگور نے جن وجوہات کی بناء پر بازی جیتی ان میں سب سے اہم یہ بات تھی کہ ٹیگور نے اپنی مادری زبان جبکہ اقبال مرحوم نے اردو اور فارسی میں طبع آزمائی کی تھی۔ دوسرا اقبال کے اشعار "قدرے باغی" نوعیت کے بھی تھے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top