نوبل انعام یافتہ واحد پاکستانی ڈاکٹر عبدالسلام

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

يہ بات درست ہے کہ ايك حد تك مسلمانوں كو تعصب كا سامنا بھی ہے ليكن اس بات كو بہانہ بنا كر ترقى كى كوشش نہ كرنا بھی غلط روش ہے۔ بدترين حالات ميں بھی جدوجہد جارى ركھنا اصل كم يابى ہے ۔ يہ بات واقعى حقيقت ہے کہ :
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدير كا بہانہ
مسلمان اپنے بہترين وسائل بے دردى سے ضائع كر رہے ہيں : دنيا كا سب سے بلند مينار ، سب سے بڑی مسجد ، سونے چاندی سے مزين قرآن مجيد بنانے كا حكم كسى مذہبی كتاب ميں نہيں دیا گيا ، بلكہ اسلام ميں بلند و بالا عمارتوں اور اسراف كى حد تك مزين مساجد سے منع كيا گيا ہے، ليكن ہم اسلام كى سنتے كب ہيں ؟ ہم اس كو جاننے كى كوشش كب كرتے ہيں؟ مسلمان پس ماندہ ہيں يہ ایک حقيقت ہے اور ايك دوسرى حقيقت يہ ہے کہ مسلمان کسی مذہبی روايت كى اتباع كى وجہ سے پسماندہ نہيں ہوئے بلكہ مذہب کی اصل روح سے دورى كى وجہ سے پچھڑ گئے ہيں۔ اسلام علم کے حصول اور تحقيق سے نہيں روكتا بلكہ يہ كتاب كا مذہب ہے جس کی پہلی وحی پڑھنے کے حکم كے ساتھ نازل ہوئی ۔ جو بار بار غور و فكر ، تدبر كا حكم ديتا ہے ۔ اس صورت ميں ذمہ دار كون ہے ؟ ظاہر ہے کہ ہم خود اس تنزلى كے ذمہ دار ہيں۔۔۔۔ البتہ اس تنزلى كى بنياد پر اپنے مذہبی شناخت پر شرمندہ ہونا بھی غلط روش ہے۔
ہر انسان كى ذات كے کئی پہلو ہوتے ہيں كسى غير مسلم كى ايك ميدان ميں صلاحيت كا اعتراف كرلينے سے ميرا نہيں خيال كہ اسلام پر حرف آتا ہے يا انسان دائرہ اسلام سے باہر نكل جاتا ہے ۔ غير مسلم ہونا اور اسلام كا ناقد ہونا ايك الگ بات ہے اور گستاخى اور صورت مسخ كرنا الگ بات ۔ دونوں ميں واضح فرق ہے۔ مسلمان اسلام پر علمى تنقيد كا علمی جواب ہميشہ ديتے رہے ہيں ، حتى كہ مستشرقين اور قاديانيوں وغيرہ کے شرانگيز سطحى لٹريچر كا انتہائى شائستہ رد بھی آپ كو مسلم علمى شخصيات كى جانب سے ملتا ہے ۔ اسى ليے ميرے خيال ميں مسلمانوں کو كسى قاديانى كى نفرت انگيز بات کے جواب ميں صرف قاديانيت کے شائستہ انداز ميں علمی رد پر توجہ مركوز ركھنی چاہیے۔
آخرى بات : ڈاكٹر عبدالسلام نے کبھی خود کو پاكستانى اور مسلمان تسليم نہيں كيا تو اس كو پاكستانى اور مسلم سائنسدان کہنے كى كيا منطق ہے؟ وہ ايك نوبل انعام يافتہ سائنس دان ہے اور بس ۔ پاكستان اور اسلام كسى كى نظر كرم كے محتاج نہيں، ان كے قابلِ فخر فرزند بہت ہيں اور بہتيرے پيدا ہوتے رہيں گے ان شاء اللہ تعالى ۔​
 

arifkarim

معطل
مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی اور اس کے کیا نظریات تھے۔ یہ سب کچھ مجھے اسی دھاگے سے پتہ چلا ہے۔ یقننا قادیانی بدترین کافر ہیں۔ اور ڈاکٹر عبدالسلام کی شخصیت کا یہ پہلو واقعی کراہیت آمیز ہے۔ لیکن پھر میرے دل میں خیال آجاتا ہے کہ خود ہماری شخصیتوں میں پتہ نہیں کون کون سے کراہیت آمیز پہلو ہیں. کائنات کے بہترین امتی کے طور پر پیدا ہو تو گئے ہیں لیکن کرتوت دیکھ لیں ہمارے.
ڈاکٹر عبدالسلام کے جونسے بھی ذاتی یا سیاسی نظریات تھے وہ انکی ذات تک محدود تھے۔ یاد رہے کہ انہوں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ قادیانی جماعت کو آئین پاکستان کے تحت کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے پر کیا تھا۔ اسکے باوجود انہوں نے اپنے وطن سے تعلق نہیں توڑا، اور مرتے دم تک اپنی قومیت پاکستانی ہی رکھی۔ نیز انکی قبر قادیانی قبرستان چناب نگر میں ہے، کسی مغربی و مشرقی ملک میں نہیں! حیرت انگیز طور پر اپنی نوبل انعام تقریر کو انہوں نے قرآن پاک کے کلام سے شروع بھی کیا۔ صرف اس بات کی تصدیق ہی ان عبدالسلام مخالف جنونیوں کیلئے کافی ہے۔ جو انکو غدار پاکستان و اسلام کہتے نہیں تھکتے :mrgreen:
http://en.wikipedia.org/wiki/Abdus_Salam#Personal_life

اور علامہ اقبال کو نوبل ایوارڈ کیوں نہیں ملا اور دوسرے کئی مسلمانوں کو کیوں نہیں ملا والا آرٹیکل بھی پڑھا۔ اسی لیے یہ جملہ کہا تھا کہ جب ہماری بھی دنیا میں ایسی حیثیت بن جائے گی کہ ہمارا دیا گیا ایوارڈ ایسی عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا تو ہم بھی پہلے اپنے مسلمان بھائیوں کا خیال کریں گے۔
کیونکہ انکا زیادہ تر کلام ملت اسلامیہ کی قوم پرستی پر مبنی تھا۔ 1914 میں نوبل کمیٹی نے جنگ عظیم اول کی تباہ کاریوں کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا کہ نوبل انعام ان ہاتھوں میں نہیں جانا چاہئے جو جنگ و دجل کے حامی ہوں۔ علامہ اقبال ملت اسلامیہ کو اقوام مغرب پر فوقیت دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ساری دنیا پر ایک بار پھر اسلام کی دھاگ بیٹھنے والی ہے۔ مزید:

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان نوبل انعام کے اتنے بھوکے ہی کیوں ہیں کہ ان کو بھی نوبل انعام ملے۔
زیادہ تر مسلمان تو صرف طاقت کے بھوکے ہیں۔ اگر نوبل انعام کے بھوکے ہوتے تو مشرقی و مغربی دنیا کی طرح سائنسی، معاشی و ادبی میدان میں بلا تعصب ترقی نہ کرتے؟

آخرى بات : ڈاكٹر عبدالسلام نے کبھی خود کو پاكستانى اور مسلمان تسليم نہيں كيا تو اس كو پاكستانى اور مسلم سائنسدان کہنے كى كيا منطق ہے؟ وہ ايك نوبل انعام يافتہ سائنس دان ہے اور بس ۔​
کیا مطلب؟ ڈاکٹر عبدالسلام نے تاحیات اپنی قومیت پاکستانی ہی رکھی اور بالآخر چناب نگر کے قادیانی قبرستان میں دفن ہوئے۔ انہوں نے پاکستان اور باقی دنیا کیلئے جو کچھ بھی کیا اسکی تمام تفصیل آپکو اس مضمون سے مل جائے گی:
http://en.wikipedia.org/wiki/Abdus_Salam#Government_work

اور انہوں نے جو کچھ بھی نام نہاد علماء اسلام کی مرضی کیخلاف کیا، اسکی تفاصیل اس دھاگے کے ابتدائی صفحات کو پڑھ کر حاصل ہو جائے گی۔ :grin:
 

شہزاد وحید

محفلین
کیونکہ انکا زیادہ تر کلام ملت اسلامیہ کی قوم پرستی پر مبنی تھا۔ 1914 میں نوبل کمیٹی نے جنگ عظیم اول کی تباہ کاریوں کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا کہ نوبل انعام ان ہاتھوں میں نہیں جانا چاہئے جو جنگ و دجل کے حامی ہوں۔ علامہ اقبال ملت اسلامیہ کو اقوام مغرب پر فوقیت دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ساری دنیا پر ایک بار پھر اسلام کی دھاگ بیٹھنے والی ہے۔


زیادہ تر مسلمان تو صرف طاقت کے بھوکے ہیں۔ اگر نوبل انعام کے بھوکے ہوتے تو مشرقی و مغربی دنیا کی طرح سائنسی، معاشی و ادبی میدان میں بلا تعصب ترقی نہ کرتے؟

بات تو پھر وہی ہے نا، ان کا نوبل انعام ان کی مرضی کے بندے کو ملے۔ کوئی اقوام مغرب کو ملت اسلامیہ پر فوقیت دینے والا ہوتا تو اسے پھر مل جاتا۔
اور کون نہیں چاہتا کہ اس کے مذہب اور تہذیب کی پوری دنیا پر دھاک بیٹھے۔ مسلمان طاقت کے بھوکے ہیں تو صاحب بہادر امریکہ کیا امن کا کائناتی علم بردار ہے؟
دنیا کی تخلیق سے لیکر اب تک قدرت کا یہی اصول رہا ہے کہ طاقتور کمزور پر حاوی رہتا ہے۔ کسی مذہب میں بھی طاقتور ہونے کو بری نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔

مسلم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بھی ہے کہ "طاقتور مسلمان زیادہ بہتر اور اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے کمزور مسلمان سے اور ہر ایک میں بھلائی ہے ۔ اس چیز کی حرص کرو جو تمھیں [ دینی ] نفع پہنچائے اور اللہ تعالٰی سے مدد مانگو اور کم ہمتی نہ دکھاؤ"۔

یعنی کمزور لوگوں سے بھلائی کرنے کی تلقین ہے، یہ نہیں کہ خود بھی کمزور بن جاؤ اور دوسروں کا ظلم و ستم برداشت کروں دوسروں کی زہر بھری باتیں برداشت کروں۔
میری ان تمام پاکستانی بھائیوں سے گزارش ہے جو پاکستان سے باہر بس رہے ہیں اور دوسری تہذیبوں کے زیر اثر زندگی گزار رہے ہیں وہ اپنے آپ کو اتنا کمتر نہ سمجھیں اور ہر وقت کی منکر اور بے جا قسم کے تنقیدی حملوں سے پرہیز کریں۔ یہ کام تو غیر مسلمین بھی بخوبی سرانجام دے رہے ہیں ہم بھی ان کی صفوں میں شامل ہو جائے تو پھر باقی رہ کیا گیا۔ جسے دیکھو وہ یہی راگ الاپ رہا ہے کہ مسلمان نہیں ٹھیک، اسلام نہیں ٹھیک، پاکستان نہیں ٹھیک۔ اؤے یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ تم خود نہیں ٹھیک۔
 

arifkarim

معطل
بات تو پھر وہی ہے نا، ان کا نوبل انعام ان کی مرضی کے بندے کو ملے۔ کوئی اقوام مغرب کو ملت اسلامیہ پر فوقیت دینے والا ہوتا تو اسے پھر مل جاتا۔
یہاں بات تعصب کی نہیں، ادبی شرائط کی ہے۔ اگر نوبل کمیٹی اسوقت یہ اہم فیصلہ نہ کرتی تو کارل مارکس (کمیونزم کے بانی) اور اڈولف ہٹلر (نازازم کے بانی) کو بھی اپنی ادبی صلاحیت کی وجہ سے نوبل انعام سے نوازا جاتا :grin:۔ یہودی ادبی نوبل پرائز جیتنے والوں کی لسٹ میں سے ایک کا بھی صیہونیت سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں ہے یعنی سیاسی ادبی جدوجہد سے آزادتصنیفات کی بناء پر ہی انہیں نوبل انعام دیا گیا:
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_Jewish_Nobel_laureates#Literature


اور کون نہیں چاہتا کہ اس کے مذہب اور تہذیب کی پوری دنیا پر دھاک بیٹھے۔ مسلمان طاقت کے بھوکے ہیں تو صاحب بہادر امریکہ کیا امن کا کائناتی علم بردار ہے؟
دنیا کی تخلیق سے لیکر اب تک قدرت کا یہی اصول رہا ہے کہ طاقتور کمزور پر حاوی رہتا ہے۔ کسی مذہب میں بھی طاقتور ہونے کو بری نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔

امریکہ، اسرائیل اور باقی مغرب اپنے مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے سماجی، سیاسی اور معاشی نظام کی وجہ سے ایک عرصہ دراز سے پوری دنیا پر حاوی ہے۔ ہاں البتہ سنہ 2000 کے بعد سے مشرقی ممالک جیسے جاپان، کوریا، چین اور سنگاپور وغیرہ معاشی دوڑ میں مغرب سے آگے نکل گئے ہیں لیکن ابھی بھی سماجیات اور سیاسیات میں مغرب کا اثر پوری دنیا پر قائم ہے۔ اسکا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں کیونکہ بشمول اسرائیل باقی سارا مغرب جمہوری ہے اور کسی خاص مذہبی لگاؤ سے آزاد ہے۔ :biggrin:

مسلم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بھی ہے کہ "طاقتور مسلمان زیادہ بہتر اور اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے کمزور مسلمان سے اور ہر ایک میں بھلائی ہے ۔ اس چیز کی حرص کرو جو تمھیں [ دینی ] نفع پہنچائے اور اللہ تعالٰی سے مدد مانگو اور کم ہمتی نہ دکھاؤ"۔
اس سلسلہ میں شعیب منصور کی تازہ فلم بول ضرور دیکھئے۔ طاقتور ہونے کے کئی مطالب ہیں۔ زیادہ آبادی کا ہونا یا زیادہ سیاسی طاقت کا ہونا طاقت ور ہونے کا واحد مطلب نہیں۔:smug:۔ اس حدیث کا یوں مطلب نکالا جائے تو ہمارے مسلمان طاقت ور ڈکٹیٹرز جیسے قذافی، ایوب، صدام، حسنی مبارک وغیرہ اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہو جائیں گے۔ :lol:
http://www.imdb.com/title/tt1891757/

یعنی کمزور لوگوں سے بھلائی کرنے کی تلقین ہے، یہ نہیں کہ خود بھی کمزور بن جاؤ اور دوسروں کا ظلم و ستم برداشت کروں دوسروں کی زہر بھری باتیں برداشت کروں۔
میری ان تمام پاکستانی بھائیوں سے گزارش ہے جو پاکستان سے باہر بس رہے ہیں اور دوسری تہذیبوں کے زیر اثر زندگی گزار رہے ہیں وہ اپنے آپ کو اتنا کمتر نہ سمجھیں اور ہر وقت کی منکر اور بے جا قسم کے تنقیدی حملوں سے پرہیز کریں۔ یہ کام تو غیر مسلمین بھی بخوبی سرانجام دے رہے ہیں ہم بھی ان کی صفوں میں شامل ہو جائے تو پھر باقی رہ کیا گیا۔ جسے دیکھو وہ یہی راگ الاپ رہا ہے کہ مسلمان نہیں ٹھیک، اسلام نہیں ٹھیک، پاکستان نہیں ٹھیک۔ اؤے یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ تم خود نہیں ٹھیک۔
جب تک مسلمان اپنی کمزوری تسلیم نہیں کریں گے ترقی نہیں کر پائیں گے۔ یہودی 3000 سال پرانی قوم ہیں جنکو اتنے لمبے عرصہ کے بعد واپس اپنے آبائی وطن پر قبضہ کرکے صیہونیت کی آڑ میں اسرائیل بنانا پڑا۔ میری آئے دن اسرائیل اور صیہون دوست عیسائیوں اور مغربیوں سے بحث ہوتی ہے، اور انکا مؤقف یہی ہے کہ جب عرب مسلمان ممالک تین مرتبہ جنگی جارحیت کے باوجود بھی اسرائیل کا بال بیکا نہیں کر سکے تو اپنی کمزوریوں کو کیوں تسلیم نہیں کرتے؟ یہودیوں نے بھی تو پورے 3 ہزار سال مختلف ممالک میں غلاموں اور ذمیوں جیسی زندگی بسر کی ہے اور بالآخر 20 ویں صدی کی جنگ عظیم دوم اور حولناک نازی ہالوکاسٹ کے بعد ایک خود مختار ملک کی بنیاد ڈالی ہے۔ مگر اسکے باوجود یہود دشمنی دنیا سے ختم نہیں ہوئی۔ وہی عرب جو پچھلے 1400 سال سے انہی یہودیوں کو پناہ دئے ہوئے تھے، یک دم انکے خلاف ہوگئے اور لگے انکو سمندر میں پھینکنے۔ نتیجہ یہی نکلا کہ صیہونی قوتیں مزید طاقتور ہوگئیں اور زیادہ سرگرمی کیساتھ عرب دشمنی کو اسرائیلی دفاع کا حصہ بنا بیٹھیں۔
عقل کا تقاضا تو یہ تھا کہ موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے خود معصوم بنتے اور صیہونیوں کو خوشی خوشی فلسطین کا مغربی حصہ دیکر اسکے پورے مغربی حصے بمع عراق، اردن، شام، یمن، سعودی عرب، امان، بحرین کو جوڑ کر عرب فیڈریشن بناتے۔ جیسا کہ مکہ کے امیر فیصل نے صیہونیوں کے صفیر وائزمین سے 1919 میں معاہدہ کیا تھا۔ مگر ہوا کیا؟ اپنے ہی پیر پر کلہاڑی ماری اور ٹوٹ گئے چھوٹے چھوٹے کمزور ممالک میں۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Faisal–Weizmann_Agreement
اگر آج یہ ایک عرب فیڈریشن ہوتی تو نہ صدام ہوتا، نہ شام کا اسد ڈیکٹیٹر ہوتا اور نہ ہی باقی مسلمان دنیا کی اتنی کمزور لیڈر شپ ہوتی۔ نیز صیہونی جیسے مرضی اپنا اسرائیل آباد کرتے، اور باقی عرب دنیا سے بات بات پر لڑنے جھگڑنے کی نوبت نہ آتی۔ کیونکہ تیل تو بہرحال عرب دنیا ہی کے پاس رہنا تھا۔ فلسطینی علاقے میں تیل نہیں نکلتا!

الغرض موجودہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ احساس کمتری نہیں بلکہ جھوٹا احساس برتری ہے۔ احساس حقیقت پیدا کریں اور سوچیں کہ ہم مسلمان باقی غیر مسلمان قوموں کے مقابلہ میں کہاں کھڑیں ہیں۔ حقیقت نظر آجانے کے بعد میرے خیال میں احساس برتری اپنے آپ مر جائے گا۔ :battingeyelashes:
 

عسکری

معطل
میرے لیے یہی فخر کی بات ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام پاکستانی تھے اور انہیں نوبل انعام ملا ۔رہی بات عقائد کی تو یہ پرسنل معاملہ ہے اس سے کسی چاچے مامے کا کیا لینا دینا؟ خود تو سائیکل کی چین نہیں چڑھا سکتے اور تنقید کرتے ہیں سائنسدانوں پر کیا شان ہے آجکل کے لوگوں کی ۔
 

Ukashah

محفلین
میرے لیے یہی فخر کی بات ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام پاکستانی تھے اور انہیں نوبل انعام ملا ۔رہی بات عقائد کی تو یہ پرسنل معاملہ ہے اس سے کسی چاچے مامے کا کیا لینا دینا؟ خود تو سائیکل کی چین نہیں چڑھا سکتے اور تنقید کرتے ہیں سائنسدانوں پر کیا شان ہے آجکل کے لوگوں کی ۔
لیکن پیٹریاٹ بھائی ، آپ خود ذاتیات پر بات کر گئے :)
 

arifkarim

معطل
میرے لیے یہی فخر کی بات ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام پاکستانی تھے اور انہیں نوبل انعام ملا ۔رہی بات عقائد کی تو یہ پرسنل معاملہ ہے اس سے کسی چاچے مامے کا کیا لینا دینا؟ خود تو سائیکل کی چین نہیں چڑھا سکتے اور تنقید کرتے ہیں سائنسدانوں پر کیا شان ہے آجکل کے لوگوں کی ۔
درست کہا آپنے۔ پہلے یہ مذہبی تنقید کرنے والے ڈاکٹر عبدالسلام کے سائنسی مقام تک پہنچ کر تو دکھا دیں۔ اسکے بعد جتنی چاہے انپر نکتہ چینی کر لیں۔ سائنس قدرتی مشاہدات پر مبنی علوم کا نام ہے۔ اسکا مذہب و عقائد سے دور دور تک بھی کوئی لینا دینا نہیں۔ کرنٹ والی بجلی کو یہ نہیں پتا کہ وہ کسی قادیانی یا کسی حقیقی مسلمان کے جسم سے گزر رہی ہے۔ اسکے سامنے وہ ایک انسان ہی ہوتا ہے :)
 

شہزاد وحید

محفلین
یہاں بات تعصب کی نہیں، ادبی شرائط کی ہے۔ اگر نوبل کمیٹی اسوقت یہ اہم فیصلہ نہ کرتی تو کارل مارکس (کمیونزم کے بانی) اور اڈولف ہٹلر (نازازم کے بانی) کو بھی اپنی ادبی صلاحیت کی وجہ سے نوبل انعام سے نوازا جاتا :grin:۔ یہودی ادبی نوبل پرائز جیتنے والوں کی لسٹ میں سے ایک کا بھی صیہونیت سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں ہے یعنی سیاسی ادبی جدوجہد سے آزادتصنیفات کی بناء پر ہی انہیں نوبل انعام دیا گیا:

http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_Jewish_Nobel_laureates#Literature

امریکہ، اسرائیل اور باقی مغرب اپنے مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے سماجی، سیاسی اور معاشی نظام کی وجہ سے ایک عرصہ دراز سے پوری دنیا پر حاوی ہے۔ ہاں البتہ سنہ 2000 کے بعد سے مشرقی ممالک جیسے جاپان، کوریا، چین اور سنگاپور وغیرہ معاشی دوڑ میں مغرب سے آگے نکل گئے ہیں لیکن ابھی بھی سماجیات اور سیاسیات میں مغرب کا اثر پوری دنیا پر قائم ہے۔ اسکا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں کیونکہ بشمول اسرائیل باقی سارا مغرب جمہوری ہے اور کسی خاص مذہبی لگاؤ سے آزاد ہے۔ :biggrin:


اس سلسلہ میں شعیب منصور کی تازہ فلم بول ضرور دیکھئے۔ طاقتور ہونے کے کئی مطالب ہیں۔ زیادہ آبادی کا ہونا یا زیادہ سیاسی طاقت کا ہونا طاقت ور ہونے کا واحد مطلب نہیں۔:smug:۔ اس حدیث کا یوں مطلب نکالا جائے تو ہمارے مسلمان طاقت ور ڈکٹیٹرز جیسے قذافی، ایوب، صدام، حسنی مبارک وغیرہ اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہو جائیں گے۔ :lol:
http://www.imdb.com/title/tt1891757/


جب تک مسلمان اپنی کمزوری تسلیم نہیں کریں گے ترقی نہیں کر پائیں گے۔ یہودی 3000 سال پرانی قوم ہیں جنکو اتنے لمبے عرصہ کے بعد واپس اپنے آبائی وطن پر قبضہ کرکے صیہونیت کی آڑ میں اسرائیل بنانا پڑا۔ میری آئے دن اسرائیل اور صیہون دوست عیسائیوں اور مغربیوں سے بحث ہوتی ہے، اور انکا مؤقف یہی ہے کہ جب عرب مسلمان ممالک تین مرتبہ جنگی جارحیت کے باوجود بھی اسرائیل کا بال بیکا نہیں کر سکے تو اپنی کمزوریوں کو کیوں تسلیم نہیں کرتے؟ یہودیوں نے بھی تو پورے 3 ہزار سال مختلف ممالک میں غلاموں اور ذمیوں جیسی زندگی بسر کی ہے اور بالآخر 20 ویں صدی کی جنگ عظیم دوم اور حولناک نازی ہالوکاسٹ کے بعد ایک خود مختار ملک کی بنیاد ڈالی ہے۔ مگر اسکے باوجود یہود دشمنی دنیا سے ختم نہیں ہوئی۔ وہی عرب جو پچھلے 1400 سال سے انہی یہودیوں کو پناہ دئے ہوئے تھے، یک دم انکے خلاف ہوگئے اور لگے انکو سمندر میں پھینکنے۔ نتیجہ یہی نکلا کہ صیہونی قوتیں مزید طاقتور ہوگئیں اور زیادہ سرگرمی کیساتھ عرب دشمنی کو اسرائیلی دفاع کا حصہ بنا بیٹھیں۔
عقل کا تقاضا تو یہ تھا کہ موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے خود معصوم بنتے اور صیہونیوں کو خوشی خوشی فلسطین کا مغربی حصہ دیکر اسکے پورے مغربی حصے بمع عراق، اردن، شام، یمن، سعودی عرب، امان، بحرین کو جوڑ کر عرب فیڈریشن بناتے۔ جیسا کہ مکہ کے امیر فیصل نے صیہونیوں کے صفیر وائزمین سے 1919 میں معاہدہ کیا تھا۔ مگر ہوا کیا؟ اپنے ہی پیر پر کلہاڑی ماری اور ٹوٹ گئے چھوٹے چھوٹے کمزور ممالک میں۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Faisal–Weizmann_Agreement
اگر آج یہ ایک عرب فیڈریشن ہوتی تو نہ صدام ہوتا، نہ شام کا اسد ڈیکٹیٹر ہوتا اور نہ ہی باقی مسلمان دنیا کی اتنی کمزور لیڈر شپ ہوتی۔ نیز صیہونی جیسے مرضی اپنا اسرائیل آباد کرتے، اور باقی عرب دنیا سے بات بات پر لڑنے جھگڑنے کی نوبت نہ آتی۔ کیونکہ تیل تو بہرحال عرب دنیا ہی کے پاس رہنا تھا۔ فلسطینی علاقے میں تیل نہیں نکلتا!

الغرض موجودہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ احساس کمتری نہیں بلکہ جھوٹا احساس برتری ہے۔ احساس حقیقت پیدا کریں اور سوچیں کہ ہم مسلمان باقی غیر مسلمان قوموں کے مقابلہ میں کہاں کھڑیں ہیں۔ حقیقت نظر آجانے کے بعد میرے خیال میں احساس برتری اپنے آپ مر جائے گا۔ :battingeyelashes:

جناب حدیث اتنی واضح ہے کہ مطلب نکالنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اور ڈکٹیٹر کا لفظ خوب استعمال کیا جاتا ہے، لوگ تو عمر رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ، علی رضی اللہ عنہ کی حکومت کو بھی ڈکٹیٹر شپ ہی کہتے ہیں۔ ایک مسلم حکمران کی جو ذمہ داریاں ہیں اسلام میں وہ بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ اگر کوئی ان ذمہ داریوں کو نہیں نبھاتا تو شخصی تنقید کی بجائے نظام پر گفتاری حملہ درست نہیں۔

مجھے حیرت ہے کہ کیسے کچھ لوگ اتنے بدظن ہو چکے ہیں کہ حد سے گزر چکے ہیں اور دوسروں کی بھی بد ظن کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان میں ہمت نہیں ورنہ جس قدر وہ اسلامی تعلیمات اور اسلامی تاریخ سے بدظن نظر آتے ہیں وہ اپنی اسلام سے علیحدگی کا اعلان کب کا کر چکے ہوتے۔ اپنی کمزوریاں اور خرابیاں شمار کرنا اور دوسروں کے مثبت نقاط کی خبر رکھنا کرنا ٹھیک لیکن اس حد تک منکر ہو جانا کہ بجائے بہتری کی کوئی صورت تلاش کرنے کے ہمہ وقت دوسروں کی ثنا خوانی اور خود کی پست و رذیل منوانے پر اسرار یقینا ایک خطرناک ذہنی روش ہے۔
مجھے تو یہ بھی نہیں یقین کہ آیا جن کو میں "خود" سمجھ رہا ہوں وہ "خود" ہے بھی یا کوئی "دوسرا" ہے یا پھر "دوسرا" بن چکا ہے۔

جناب یہ بات تو طے ہے کہ باتیں یقینا آپ کو زیادہ آتی ہیں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ جب اتنی باتیں ہیں تو کیا کوئی حل بھی ہے؟ صرف باتیں چلتی رہیں تو مزید کئی صفحات کالے ہوتے رہے گے ہر کوئی مجھ سمیت اپنی اپنی ہانکتا رہے گا۔
 
کیونکہ انکا زیادہ تر کلام ملت اسلامیہ کی قوم پرستی پر مبنی تھا۔ 1914 میں نوبل کمیٹی نے جنگ عظیم اول کی تباہ کاریوں کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا کہ نوبل انعام ان ہاتھوں میں نہیں جانا چاہئے جو جنگ و دجل کے حامی ہوں۔ علامہ اقبال ملت اسلامیہ کو اقوام مغرب پر فوقیت دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ساری دنیا پر ایک بار پھر اسلام کی دھاگ بیٹھنے والی ہے۔
قاديانى جسے جنگ و جدل كہتےہيں قرآن مجيد اسے جہاد كہتا ہے اور جہاد تا قيامت جارى رہنے كے لیےہے
اور علامہ اقبال نے اسى بات كا اظہار كيا ، كيا برا كيا ؟ جو مسلمان ہے وہ اسى بات پر يقين ركھتا ہے
مرزا غلام احمد قاديانى نے متنبى بن كر جہاد كى منسوخى كى ہانكى تو اقبال نے كيا خوب جواب ديا

کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل​
کہتا ہے اسے کون کہ مسلماں کی موت مر:laugh:
باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے​
یورپ زرہ میں ڈوب گیا، دوش تا کمر​
ہم پوچھتے ہیں شیخِ کلیسا نواز(مرزا قاديانى ) سے​
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر!​
حق سے اگر ہے غرض تو زیبا ہے کیا یہ بات​
اسلام کا محاسبہ، یورپ سے در گزر؟؟؟​
رہى يہ بات كہ اقبال كو نوبيل پرائز كيوں نہ ملا؟ تو نوبيل پرائز نہ ملنا اقبال جيسى شخصيت كےليےبہت بہت بڑا اعزاز ہے ، آزادى كا سچا مجاہد ہونےاور انگريز دشمنى كا ثبوت !

ڈاکٹر عبدالسلام کے جونسے بھی ذاتی یا سیاسی نظریات تھے وہ انکی ذات تک محدود تھے۔ یاد رہے کہ انہوں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ قادیانی جماعت کو آئین پاکستان کے تحت کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے پر کیا تھا۔ اسکے باوجود انہوں نے اپنے وطن سے تعلق نہیں توڑا، اور مرتے دم تک اپنی قومیت پاکستانی ہی رکھی۔ نیز انکی قبر قادیانی قبرستان چناب نگر میں ہے، کسی مغربی و مشرقی ملک میں نہیں! حیرت انگیز طور پر اپنی نوبل انعام تقریر کو انہوں نے قرآن پاک کے کلام سے شروع بھی کیا۔ صرف اس بات کی تصدیق ہی ان عبدالسلام مخالف جنونیوں کیلئے کافی ہے۔ جو انکو غدار پاکستان و اسلام کہتے نہیں تھکتے :mrgreen:

اور انہوں نے جو کچھ بھی نام نہاد علماء اسلام کی مرضی کیخلاف کیا، اسکی تفاصیل اس دھاگے کے ابتدائی صفحات کو پڑھ کر حاصل ہو جائے گی۔ :grin:

تاريحى حقائق كے مطابق قاديانيوں كو كافر قرار دينے كا فيصلہ صرف علمائے كرام كا نہيں تھا پارليمان پاكستان كا تھا ، جس نے قاديانيوں كو دفاع كا پورا موقع ديا ، جب "نام نہاد قاديانى "رہنما" اپنے خود ساختہ مذہب كا بروقت دفاع نہيں كر پائے تو اب جا بجا ايك ہی رونا رونے كا فائدہ ؟؟؟ روندو :grin::ROFLMAO:
 
جزاك الله خيرا
اور کون نہیں چاہتا کہ اس کے مذہب اور تہذیب کی پوری دنیا پر دھاک بیٹھے۔ مسلمان طاقت کے بھوکے ہیں تو صاحب بہادر امریکہ کیا امن کا کائناتی علم بردار ہے؟
جناب حدیث اتنی واضح ہے کہ مطلب نکالنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اور ڈکٹیٹر کا لفظ خوب استعمال کیا جاتا ہے، لوگ تو عمر رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ، علی رضی اللہ عنہ کی حکومت کو بھی ڈکٹیٹر شپ ہی کہتے ہیں۔ ایک مسلم حکمران کی جو ذمہ داریاں ہیں اسلام میں وہ بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ اگر کوئی ان ذمہ داریوں کو نہیں نبھاتا تو شخصی تنقید کی بجائے نظام پر گفتاری حملہ درست نہیں۔
مجھے حیرت ہے کہ کیسے کچھ لوگ اتنے بدظن ہو چکے ہیں کہ حد سے گزر چکے ہیں اور دوسروں کی بھی بد ظن کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان میں ہمت نہیں ورنہ جس قدر وہ اسلامی تعلیمات اور اسلامی تاریخ سے بدظن نظر آتے ہیں وہ اپنی اسلام سے علیحدگی کا اعلان کب کا کر چکے ہوتے۔ اپنی کمزوریاں اور خرابیاں شمار کرنا اور دوسروں کے مثبت نقاط کی خبر رکھنا کرنا ٹھیک لیکن اس حد تک منکر ہو جانا کہ بجائے بہتری کی کوئی صورت تلاش کرنے کے ہمہ وقت دوسروں کی ثنا خوانی اور خود کی پست و رذیل منوانے پر اسرار یقینا ایک خطرناک ذہنی روش ہے۔
مجھے تو یہ بھی نہیں یقین کہ آیا جن کو میں "خود" سمجھ رہا ہوں وہ "خود" ہے بھی یا کوئی "دوسرا" ہے یا پھر "دوسرا" بن چکا ہے۔
میری ان تمام پاکستانی بھائیوں سے گزارش ہے جو پاکستان سے باہر بس رہے ہیں اور دوسری تہذیبوں کے زیر اثر زندگی گزار رہے ہیں وہ اپنے آپ کو اتنا کمتر نہ سمجھیں اور ہر وقت کی منکر اور بے جا قسم کے تنقیدی حملوں سے پرہیز کریں۔ یہ کام تو غیر مسلمین بھی بخوبی سرانجام دے رہے ہیں ہم بھی ان کی صفوں میں شامل ہو جائے تو پھر باقی رہ کیا گیا۔ جسے دیکھو وہ یہی راگ الاپ رہا ہے کہ مسلمان نہیں ٹھیک، اسلام نہیں ٹھیک، پاکستان نہیں ٹھیک۔ اؤے یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ تم خود نہیں ٹھیک۔
 
درست کہا آپنے۔ پہلے یہ مذہبی تنقید کرنے والے ڈاکٹر عبدالسلام کے سائنسی مقام تک پہنچ کر تو دکھا دیں۔ اسکے بعد جتنی چاہے انپر نکتہ چینی کر لیں۔ سائنس قدرتی مشاہدات پر مبنی علوم کا نام ہے۔ اسکا مذہب و عقائد سے دور دور تک بھی کوئی لینا دینا نہیں۔ کرنٹ والی بجلی کو یہ نہیں پتا کہ وہ کسی قادیانی یا کسی حقیقی مسلمان کے جسم سے گزر رہی ہے۔ اسکے سامنے وہ ایک انسان ہی ہوتا ہے :)
پہلے قاديانى اپنے مذہب كا اپنا نام تو ركھ ليں ، اپنى كتاب لے آئيں۔پنا الگ نطام عبادات بنا ليں پھر اسلام بات پر تنقيد كريں جہاد كو نشانہ بنائيں تو بات بھی ہو ، اب تك تو ہر بات مانگے تانگے كى ہے ، كلمه ، قرآن نماز روزہ ہمارا اضافے ان كے اور ۱۳۰۰ برس كے مسلمان كافر يہ مسلمان واہ كيا دھونس ہے ؟ :ROFLMAO:
ُُپاكستانى پارليمان نے آپ كو خود انحصارى كى راہ دکھائى تھی كہ مذہب ايجاد كيا ہے تو اپنی اصلاحات بھی ايجاد كر لو ، جب ٹیچی ٹیچی مرزا قاديانى كو نيا نبى بننے كا مشورہ دے رہا تھا تو سيدھا سيدھا نيا ٹريڈ مارك بھی مانگ ليتے trade mark theft , Infringementكى كيا ضرورت تھی ؟ :grin: :laugh:
كند ذہن غبى جو مذہب كا جدا ٹريڈ مارك نہ سوچ سكے ہميں سائنسى سبق ديں گے :giggle:
 

عطاء رفیع

محفلین
ابو لبابہ شاہ منصور صاحب کا ایک مضمون نظر سے گزرا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہر اسرائیلی لڑکے پر 18 سال کی عمر میں جسمانی مشقیں اور کچھ دیگر اسلحہ کے ساتھ کلاشنکوف چلانا، اور گریجویشن مذہبی فریضے میں شامل ہے۔
 

mfdarvesh

محفلین
ابو لبابہ شاہ منصور صاحب کا ایک مضمون نظر سے گزرا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہر اسرائیلی لڑکے پر 18 سال کی عمر میں جسمانی مشقیں اور کچھ دیگر اسلحہ کے ساتھ کلاشنکوف چلانا، اور گریجویشن مذہبی فریضے میں شامل ہے۔

بلکل ٹھیک سنا ہے
 
ابو لبابہ شاہ منصور صاحب کا ایک مضمون نظر سے گزرا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہر اسرائیلی لڑکے پر 18 سال کی عمر میں جسمانی مشقیں اور کچھ دیگر اسلحہ کے ساتھ کلاشنکوف چلانا، اور گریجویشن مذہبی فریضے میں شامل ہے۔
برادر محترم عطا رفیع صاحب اسرائیل میں صرف اٹھارہ سالہ لڑکے پر ہی نہیں بلکہ ہر بالغ لڑکی پر بھی عسکری تربیت حاصل کرنا ریاست کی طرف سےلازم ھے اسی لئے ہی پوری دنیا یں صرف ایک کروڑ پنتالیس لاکھ کی آبادی ( ان میں سے صرف آدھے اسرائیل میں رھتے ہیں ) والے یہودیوں کی عسکری قوت ارد گرد کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیلئے خوف کی علامت بنی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہماری نئی نسل کو ایس ایم ایس کریز سے ھی فرصت نہیں
 

حماد

محفلین
رہى يہ بات كہ اقبال كو نوبيل پرائز كيوں نہ ملا؟ تو نوبيل پرائز نہ ملنا اقبال جيسى شخصيت كےليےبہت بہت بڑا اعزاز ہے ، آزادى كا سچا مجاہد ہونےاور انگريز دشمنى كا ثبوت !
اسی انگریز سے علامہ نے "سر" کا خطاب لینا کیوں قبول کیا؟۔

لو مدرسہ علم ہوا قصر حکومت
افسوس کہ سر ہو گئے اقبال
پہلے تو سر ملت بیضا کے وہ تھے تاج
اب اور سنو تاج کے سر ہو گئے اقبال
کہتا تھا کل ٹھنڈی سڑک پر کوئ گستاخ
سرکار کی دہلیز پہ سر ہو گئے اقبال
سر ہو گیا ترکوں کی شجاعت سے سمرنا
سرکار کی تدبیر سے سر ہو گئے اقبال
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top