نظم ۔ ایک خیال کی رو میں ۔۔۔ محمداحمدؔ

محمداحمد

لائبریرین
ایک خیال کی رو میں ۔۔۔

کہیں سنا ہے
گئے زمانوں میں
لوگ جب قافلوں کی صورت
مسافتوں کو عبور کرتے
تو قافلے میں اک ایسا ہمراہ ساتھ ہوتا
کہ جو سفر میں
تمام لوگوں کے پیچھے چلتا
اور اُس کے ذمّے یہ کام ہوتا
کہ آگے جاتے مسافروں سے
اگر کوئی چیز گر گئی ہو
جو کوئی شے پیچھے رہ گئی ہو
تو وہ مسافر
تمام چیزوں کو چُنتا جائے
اور آنے والے کسی پڑاؤ میں ساری چیزیں
تما م ایسے مُسافروں کے حوالے کردے
کہ جو منازل کی چاہ دل میں لئے شتابی سے
اپنے رستے تو پاٹ آئے
پر اپنی عجلت میں کتنی چیزیں
گرا بھی آئے ، گنوا بھی آئے

میں سوچتا ہوں
کہ زندگانی کے اس سفر میں
مجھے بھی ایسا ہی کوئی کردار مل گیا ہے
کہ میرے ہمراہ جو بھی احباب تھے
منازل کی چاہ دل میں لئے شتابی سے
راستوں پر بہت ہی آگے نکل گئے ہیں
میں سب سے پیچھے ہوں اس سفر میں
سو دیکھتا ہوں کہ راستے میں
وفا، مروت، خلوص و ایثار، مہر و الفت
اور اس طرح کی بہت سی چیزیں
جگہ جگہ پر پڑی ہوئی ہیں
میں اپنے خود ساختہ اُصولوں کی
زرد گٹھری میں ساری چیزیں سمیٹتا ہوں
اور اپنے احساس کے جلو میں
ہر اک پڑاؤ پہ جانے والوں کو ڈھونڈتا ہوں
پر ایسا لگتا ہے
جیسے میرے تمام احباب منزلوں کو گلے لگانے
بہت ہی آگے نکل گئے ہیں
یا میں ہی شاید
وفا، مروت، خلوص و ایثار، مہر و الفت
اور اس طرح کی بہت سی چیزیں سمیٹنے میں کئی زمانے بتا چکا ہوں۔

محمد احمدؔ
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ! کیا خوبصورت خیال ہے۔ بہت خوب جناب۔

مگر اس ہیبت میں کتنی چیزیں گرا بھی آئے ، گنوا بھی آئے
 

محمد وارث

لائبریرین
خوبصورت نظم ہے احمد صاحب، مجھ جیسے نظم سے "متنفر" قاری کو بھی اس نے اپنی گرفت میں لئے رکھا اور مسحور کر دیا، واہ کیا کہنے۔ اور اس میں جو خیال آپ نے قلمبند کیا ہے اسکی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، لاجواب۔
 

محمداحمد

لائبریرین
سبحان اللہ! کیا خوبصورت خیال ہے۔ بہت خوب جناب۔

بہت شکریہ فاتح بھائی،

مگر اس ہیبت میں کتنی چیزیں گرا بھی آئے ، گنوا بھی آئے

اس نشاندہی کے لئے بھی ممنون ہوں۔ "کئی" کے سلسلے میں ایک بار پہلے بھی غوطہ کھا چکا ہوں :) کہ میں اس لفظ کو عادتاً فعلن کے وزن پر ادا کرتا ہوں۔ اب احتیاط کرنی پڑے گی۔ :thinking:
 

محمداحمد

لائبریرین
خوبصورت نظم ہے احمد صاحب، مجھ جیسے نظم سے "متنفر" قاری کو بھی اس نے اپنی گرفت میں لئے رکھا اور مسحور کر دیا، واہ کیا کہنے۔ اور اس میں جو خیال آپ نے قلمبند کیا ہے اسکی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، لاجواب۔

حضور یہ آپ کی محبت اور میری خوش بختی ہے کہ آپ اس قدر حوصلہ افزائی فرماتے ہیں۔

بہت شکریہ!
 

الف عین

لائبریرین
خوبصورت خیال ہے اور اچھی نظم ہے احمد۔ بس ذرا سی فنی غلطی ہے۔ اور اسی مصرع میں جس کا ذکر کئی بار ہو چکا ہے!!!
مگر اس ہیبت۔۔۔
مفاعلاتن
مگر اسےبت۔۔
یعنی ہ گر جا رہی ہے جو گرنی نہیں چاہئے۔ ’کتنی‘ تو اب سدھر گیا ہے اور میں اندازہ ہی لگا سکتا ہوں کہ وہاں ’کئی‘ ہو گا۔
 

زیف سید

محفلین
ایک عمدہ بنیادی خیال کو لے کر بہت خوب صورتی سے آگے بڑھایا گیا ہے۔اپنی بے چارگی اور دنیا کی بے مروتی کے مضامین کو جس طرح ایک تمثیل کی شکل میں پرویا گیا ہے وہ قابلِ داد ہے۔ “اس ہیبت۔۔۔“ والی سطر پر بات ہو چکی ہے، میں بھی اپنا حصہ ڈالتا ہوں:

تما م ایسے مُسافروں کے حوالے کردے
کہ جو منازل کی چاہ دل میں لئے شتابی سے
اپنے رستے تو پاٹ آئے
مگر اس ہیبت میں کتنی چیزیں
گرا بھی آئے ، گنوا بھی آئے


میں بھی “اس ہیبت“ پر کھٹکا تھا۔ جیسا کہ محترم الف عین صاحب نے فرمایا، ہ کا گرنا درست نہیں ہے۔ اس کی جگہ “مگر وہ ہیبت کہ کتنی چیزیں ۔۔۔“ وغیرہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن میری ناقص رائے میں یہاں لفظ ہیبت مناسب نہیں ہے۔ کیوں کہ بات تو لوگوں کی جلد بازی یا سفر کے اشتیاق کی ہو رہی ہے جس کے باعث وہ اپنا سامان بھول جاتے ہیں۔ ہیبت سے ڈر اور خوف کا تصور ملتا ہے جس کی وضاحت نہیں کی گئی کہ لوگ کس چیز سے ڈرے ہوئے تھے۔

اس کی بجائے اگر “مگر وہ عجلت، کہ اپنی چیزیں ۔۔۔“ یا اس سے ملتا جلتا کوئی اور لفظ استعمال کیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔

آداب عرض ہے

زیف
 

محمداحمد

لائبریرین
خوبصورت خیال ہے اور اچھی نظم ہے احمد۔ بس ذرا سی فنی غلطی ہے۔ اور اسی مصرع میں جس کا ذکر کئی بار ہو چکا ہے!!!
مگر اس ہیبت۔۔۔
مفاعلاتن
مگر اسےبت۔۔
یعنی ہ گر جا رہی ہے جو گرنی نہیں چاہئے۔ ’کتنی‘ تو اب سدھر گیا ہے اور میں اندازہ ہی لگا سکتا ہوں کہ وہاں ’کئی‘ ہو گا۔

ایک عمدہ بنیادی خیال کو لے کر بہت خوب صورتی سے آگے بڑھایا گیا ہے۔اپنی بے چارگی اور دنیا کی بے مروتی کے مضامین کو جس طرح ایک تمثیل کی شکل میں پرویا گیا ہے وہ قابلِ داد ہے۔ “اس ہیبت۔۔۔“ والی سطر پر بات ہو چکی ہے، میں بھی اپنا حصہ ڈالتا ہوں:

تما م ایسے مُسافروں کے حوالے کردے
کہ جو منازل کی چاہ دل میں لئے شتابی سے
اپنے رستے تو پاٹ آئے
مگر اس ہیبت میں کتنی چیزیں
گرا بھی آئے ، گنوا بھی آئے


میں بھی “اس ہیبت“ پر کھٹکا تھا۔ جیسا کہ محترم الف عین صاحب نے فرمایا، ہ کا گرنا درست نہیں ہے۔ اس کی جگہ “مگر وہ ہیبت کہ کتنی چیزیں ۔۔۔“ وغیرہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن میری ناقص رائے میں یہاں لفظ ہیبت مناسب نہیں ہے۔ کیوں کہ بات تو لوگوں کی جلد بازی یا سفر کے اشتیاق کی ہو رہی ہے جس کے باعث وہ اپنا سامان بھول جاتے ہیں۔ ہیبت سے ڈر اور خوف کا تصور ملتا ہے جس کی وضاحت نہیں کی گئی کہ لوگ کس چیز سے ڈرے ہوئے تھے۔

اس کی بجائے اگر “مگر وہ عجلت، کہ اپنی چیزیں ۔۔۔“ یا اس سے ملتا جلتا کوئی اور لفظ استعمال کیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔

آداب عرض ہے

زیف

محترم اعجاز عبید صاحب اور زیف سیّد صاحب،

نظم کی پسندیدگی اور رہنمائی کا بے حد شکریہ۔۔۔۔!

"ہیبت" کا لفظ میں نے "گھبراہٹ" کے معنوں میں استعمال کیا تھا لیکن آپ کے توجہ دلانے سے اندازہ ہوا کہ یہ لفظ ان معنوں میں کچھ موضوع نہیں ہے۔

متبادل مصرع پر غور کیا تو یہ تین شکلیں کچھ کچھ سمجھ آئیں ۔

"پر اپنی عجلت میں کتنی چیزیں۔۔۔" (اس میں بھی شاید "الف" اور "ی" گر رہے ہیں۔کیا اس طرح سے "الف" اور" ی" کا گرنا جائز ہے)
“مگر وہ عجلت، کہ اپنی چیزیں ۔۔۔“(زیف صاحب کا تجویز کردہ مصرع، اس میں "کتنی" کا مفہوم ادا نہیں ہو پاتا جو ضروری تو نہیں لیکن ہو جاتا تو ٹھیک رہتا :) )
“مگر وہ عجلت، کہ کتنی چیزیں ۔۔۔“ ) زیف صاحب کا تجویز کردہ مصرع ذرا سی ترمیم کے ساتھ، اس میں" کہ" اور "کتنی" کا ایک ساتھ آنا کیسا ہے؟)

اساتذہ اور دوستوں سے درخواست ہے کہ مصرع کے انتخاب میں مدد کریں ۔

ایک بار پھر شکریہ!
 

محمد وارث

لائبریرین
وزن کے لحاظ سے تینوں متبادل مصرعے درست ہیں احمد صاحب، روانی کے لحاظ سے مجھے پہلا اچھا لگا ہے۔ بات مشوروں کی چل نکلی تو "عجلت" کی جگہ "غفلت" پر بھی غور کیا جا سکتا ہے :)
 

زیف سید

محفلین
وزن کے لحاظ سے تینوں متبادل مصرعے درست ہیں احمد صاحب، روانی کے لحاظ سے مجھے پہلا اچھا لگا ہے۔ بات مشوروں کی چل نکلی تو "عجلت" کی جگہ "غفلت" پر بھی غور کیا جا سکتا ہے :)

جنابِ والا: میرے ناقص خیال میں عجلت اس لیے بہتر ہے کہ اس سے پہلے نظم میں کہا گیا ہے (بلکہ یہ سطر بعد میں دہرائی بھی گئی ہے)

کہ جو منازل کی چاہ دل میں لئے شتابی سے


شتابی کی مناسبت سے عجلت اور جلد بازی وغیرہ زیادہ موزوں لگتے ہیں۔

لازم ہے ہم یہاں سے روانہ شتاب ہوں
کہہ دو سب افسروں سے کہ پا درِ رکاب ہوں

- - - - -

ایک بات اور ۔۔۔ اس نظم سے مجھے ن م راشد کی نظم “سفرنامہ“ یاد آ گئی۔ شاید اس لیے کہ اس میں بھی مسافر کی عجلت کی وجہ سے چیزیں پیچھے رہ جاتی ہیں:

بڑی بھاگ دوڑ میں
ہم جہاز پکڑ سکے
اسی انتشار میں کتنی چیزیں
ہماری عرش پہ رہ گئیں
وہ تمام عشق ۔۔۔ وہ حوصلے
وہ مسرتیں ۔۔۔ وہ تمام خواب
جو سوٹ کیسوں میں بند تھے!

لیکن ظاہر ہے کہ محمد احمد صاحب کی نظم موضوع اور پیشکش کے لحاظ سے “سفرنامہ“ سے مختلف ہے۔


ویسے نظم کا حوالہ دینے پر معذرت ۔۔۔ کہ آپ تو نظم سے “متنفر“ ہیں :)

زیف
 

محمداحمد

لائبریرین
وزن کے لحاظ سے تینوں متبادل مصرعے درست ہیں احمد صاحب، روانی کے لحاظ سے مجھے پہلا اچھا لگا ہے۔ بات مشوروں کی چل نکلی تو "عجلت" کی جگہ "غفلت" پر بھی غور کیا جا سکتا ہے :)

بہت شکریہ وارث بھائی،

اب جب کہ آپ کی تائید بھی پہلے مصرع کے لئے ہے سو اسی کو منتخب کئے لیتے ہیں۔

"غفلت" سے زیادہ میری ترجیح بھی "عجلت" ہی ہے کہ میں ایسے لوگوں کو غفلت کا تکیہ( کُشن) فراہم نہیں کرنا چاہتا :)

بہت شکریہ !
 
Top