نظم - میں مجرم ہوں -عارف عبد المتین

میں مجرم ہوں

وہ شب ان گنت ڈھلتی راتوں کا روپ لے کر،
مرے گھر کے آنگن سے رخصت ہوئی جا رہی تھی،
خوشی کی شبنم مسلسل در و بام پر گر رہی تھی،
مگر کوئی آواز کا پھول کھلنے نہیں پا رہا تھا!

اچانک مری ننھی بچی کسی خواب کو ایک زندہ حقیقت سمجھ کر،
ڈری- ڈر کے چیخی تو پہلا صدا کا شگوفہ عجب بے قراری کے عالم میں پھوٹا،
مرے واسطے جو صدا کا شگوفہ نہ تھا تیشہء حرف تھا،
جس نے میرے خیالوں کے سب پیکرِ دل نشیں ایک ہی ضرب سے توڑ ڈالے،
وہ پیکر جنہیں تیرگی کے تلاطم میں اشکوں کی مدہم سی شمعیں جلا کر تراشا تھا میں نے،

شکست آفرینی کے اس حادثے پر میں گردن جھکائے ہوئے سوچتا تھا،
کہ اک نرم سے ہاتھ نے میرے شانے کو آہستہ آہستہ تھپکا،
اٹھا کر بوجھل نگاہوں کو دیکھا تو میری رفیقِ سفر میرے پہلو میں دردِ مجسم کی صورت کھڑی کہہ رہی تھی
تجھے کون سی منزلوں کی تمنا اڑائے لیے جا رہی ہے،
تجھے ہوش بھی ہے کہ تلوؤں سے تیرے لہو رس رہا ہے، ترا پیراہن چاک در چاک ہے،
مسافر سرِ شام اپنے قدم روک لیتے ہیں اور تازہ دم ہو کے پھر صبحدم جادہء سخت پر چل نکلتے ہیں لیکن
تجھے شب کی تاریکیوں میں بھی اپنا سفر جاری رکھنے پر اصرار کیوں ہے؟

میں خاموش تھا اور افکار کے جابجا ٹوٹے پھوٹے ہوئے تانے بانے میں الجھا ہوا تھا،
وہ کہتی رہی-"راہرو یہ بجا ہے کہ احساسِ واماندگی سے ، تجھے کوئی نسبت نہیں ہے،
مگر تو کبھی میرے پاؤں کے ان آبلوں کی طرف بھی نظر کر،
مرے دامنِ پارہ پارہ کو بھی آنکھ اٹھا کر کبھی دیکھ لے- تجھ کو شاید۔
کسی مرحلے پر فقط میری خاطر روانی کے اس بے محبا تسلسل پہ قدغن لگانی پڑے!"

میں چپ چاپ اس قصرِ تخیل کا جائزہ لے رہا تھا ، مرے ذہن میں ایک ملبہ کی صورت جو بکھرا پڑا تھا
وہ کہتی چلی جا رہی تھی۔ مرے جادہ پیما! ترا عزمِ منزل سلامت،
مگر تو کبھی اپنے نوواردانِ جہانِ مسافت پہ بھی اک نظر کر،
انہیں تو نشیب و فرازِ راہِ زیست کی کچھ خبر تک نہیں ہے،
کہاں تک یہ ننھے قدم تیری پر ہول رفتار کا ساتھ دیں گے،
میں جب ان کی افتاد کے بڑھتے امکان پر دھیان کرتی میرے دل و جان پر دہشت سی ہوتی ہے جاری،
تجھے بھی تو اس تند خطرے کا احساس ہو گا،
جو ان نرم و نازک سے جسموں پہ ہر آن منڈلا رہا ہے،
یہ احساس شاید کبھی تیری اس جہدِ پیہم پہ اک عارضی سا پہرہ بٹھا دے!"

وہ چپ ہو گئی اس کے ہونٹوں سے غمناک آہنگ کے پھول جھڑنے کا جب سلسلہ رک گیا،
میں گویا ہوا - " میری جان مجھ کو اس تند خطرے کا مدت سے احساس ہے،
مرے ناتواں بوڑھے ماں باپ نے مرے ہمراہ چلتے ہوئے ، ایک ایسے ہی خطرے کا ادراک بخشا تھا اور مجھکو تلقین کی تھی
میں اپنی قیامت کی رفتار کو سست کر دوں،
مبادا اہ شل ہو کے گر جائیں اور یہ زمانہ،
انہیں زیست کے راستے کا گراں بار پتھر سمجھ کر،
اجل کے کسی غار میں جا گرائے!

مجھے ان کے کرب کا کتنا احساس تھا میرا جی چاہتا ہے،
مگر میارا احساس میرے لیے کوئی زنجیرِ پا بن نہ پایا ابھی،
میں چلتا رہا یونہی چلتا رہا اور جب بوڑھے ماں باپ میرے،
تھکن اور زخموں سے بے حال ہو کر گرے تو انہیں میں زمین سے اٹھانے کو پل بھر رکنے نہ پایا
میں بڑھتا گیا ۔ یونہی بڑھتا گیا،
میں مجرم ہوں، لیکن مجھے اپنے اس جرم پر کچھ ندامت نہیں ہے،
میں جنت سے اس آگ کو پھر چرانے چلا ہوں،
جو یونان کی دیومالا کی نسبت سے ذہنوں میں محفوظ ہے اک المناک سی یاد بن کر،
مگر جس کا اپنے جہاں میں کہیں بھی وجود آج باقی نہیں ہے،
میں جس کے بغیر ابنِ آدم کو تاریکیوں کے گھنے جنگلوں میں ٹھٹھرتے ہوئے دیکھ سکتا نہیں ہوں،
میں اس قندیلِ فن کو کو خود اپنے لہو سے جلائے اڑا جا رہا ہوں،
مجھے اس عذابِ مسلسل کا بھی ڈر نہیں جو پرو میتھس کا مقدر بنا تھا،
تری بے بسی اور ان ننھے بچوں کی افتاد کا خوف کیوں کر،
مری اس تگ و تاز پیہم میں اک رخنہ ء عارضی کا سبب بن سکے گا،
وہ خاموش تھی - بدستور خاموش تھی،
مگر اس کے رخسار سے بہتے آنسو،
مری روح کے جلتے پاتال میں گر رہے تھے!

عارف عبد المتین
 
Top