اختر شیرانی نظم فراق از اختر شیرانی

فرخ منظور

لائبریرین
نظم

فراق
از اختر شیرانی

حیراں ہے آنکھ جلوۂ جاناں کو کیا ہوا
ویراں ہیں خواب گیسوئے رقصاں کو کیا ہوا ؟

قصرِ حسیں خموش ہے ، ایوان پر سکوت
آواز ہائے سروِ خراماں کو کیا ہؤا ؟

پردوں سے روشنی کی کرن پھوٹتی نہیں
اس شمع رنگ و بو کے شبستاں کو کیا ہوا ؟

دنیا سیاہ خانۂ غم بن رہی ہے کیوں
اللہ! میرے ماہِ خراماں کو کیا ہوا ؟

طوفاں اٹھا رہی ہیں مرے دل کی دھڑکنیں
اس دستِ نرم و ساعدِ لرزاں کو کیا ہوا ؟

نادان آنسوؤں کو ہے مدت سے جستجو
آرام گاہِ گوشۂ داماں کو کیا ہوا ؟

سیراب کارئ لبِ گل گوں کدھر گئی
ہیں تشنہ کام، ساغرِ جاناں کو کیا ہوا ؟

کشتِ مراد ہو چلی نذرِ سمومِ غم
یارب نمودِ ابر خراماں کو کیا ہوا ؟

روتا ہے بات بات پہ یوں زار زار کیوں ؟
اختر ، خبر نہیں دل ناداں کو کیا ہوا ؟
 

نوید صادق

محفلین
کیا بات ہے بھائی۔ بہت خوب انتخاب ہے۔
اختر شیرانی کا اسلوب، سبحان اللہ، اپنا رنگ، ایک اپنی دنیا،
ایک عرصہ بعد اختر شیرانی کی کوئی نظم سے گزری، لطف دوبالا ہو گیا۔
کریڈت ظاہر ہے ہمارے سخنور کو جاتا ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
کیا بات ہے بھائی۔ بہت خوب انتخاب ہے۔
اختر شیرانی کا اسلوب، سبحان اللہ، اپنا رنگ، ایک اپنی دنیا،
ایک عرصہ بعد اختر شیرانی کی کوئی نظم سے گزری، لطف دوبالا ہو گیا۔
کریڈت ظاہر ہے ہمارے سخنور کو جاتا ہے۔

بہت بہت شکریہ قبلہ نوید صاحب۔ محفل سے تو کریڈٹ غائب ہو گیا ۔ شاید سارا کریڈٹ ادھر ہی آگیا۔ ;)
 

مغزل

محفلین
کیا کہنے فرخ صاحب ، سبحان اللہ ، سبحان اللہ ، کیا عمدہ انتخاب ہے ، جواب نہیں جناب، ما شا اللہ ، بہت بہت شکریہ پیش کرنے کو
 
Top