ساغر صدیقی نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس میں شرار سا ہے - ساغر صدیقی

کاشفی

محفلین
غزل
(ساغر صدیقی)
نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس میں شرار سا ہے
میں جا نتا ہوں کہ تم نہ آؤگے پھر بھی کچھ انتظار سا ہے
مرے عزیزو! میرے رفیقو! چلو کوئی داستان چھیڑو
غم زمانہ کی بات چھوڑو یہ غم تو اب سازگار سا ہے
وہی فسر دہ سا رنگ محفل وہی ترا ایک عام جلوہ
مری نگاہوں میں بار سا تھا مری نگا ہوں میں بار سا ہے
کبھی تو آؤ ! کبھی تو بیٹھو! کبھی تو دیکھو! کبھی تو پوچھو
تمہاری بستی میں ہم فقیروں کا حال کیوں سوگوار سا ہے
چلو کہ جشن بہار دیکھیں چلو کہ ظرف بہار جا نچیں
چمن چمن روشنی ہوئی ہے کلی کلی پہ نکھار سا ہے
یہ زلف بر دوش کون آیا یہ کس کی آہٹ سے گل کھلے ہیں
مہک رہی ہے فضائے ہستی تمام عالم بہار سا ہے
 

فاتح

لائبریرین
شکریہ کاشفی صاحب! ذرا دیکھیے گا کہ مطلع کے مصرع اولیٰ میں لفظ "پر اسرار" ہی ہے یا کچھ اور ہے؟
 

کاشفی

محفلین
شکریہ جناب فاتح صاحب۔۔

پر اسرار سا ہے ہی ہے۔۔لیکن آپ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔۔اگر کچھ گڑبڑ ہے تو تصیح کردیں۔۔ :happy:
 

فاتح

لائبریرین
مجھے درست مصرع تو نہیں معلوم لیکن موجودہ شکل میں وزن درست نہیں لگ رہا۔
فعول فعلن ۔ فعول فعلن ۔ فعول فعلن ۔ فعول فعلن
نظر نظر بے ۔ قرار سی ہے ۔ نفس نفس پر ۔ اسرار سا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
نہیں فاتح صاحب، اسطرح الف ساقط کرنا بالکل ویسے ہی ہے جیسے الف کا وصال کرانا، دراصل یہاں الف وصل ہی ساقط ہوا ہے، یعنی پُر اور اسرار میں سے الف وصل ساقط ہوا گو شاعر نے اس کو 'پُ رس رار' نہیں بنایا بلکہ 'پر سرار' بنا کر وزن پورا کیا ہے، جیسے میر

قصد اگر امتحان ہے پیارے
اب تلک نیم جان ہے پیارے

یہاں بآسانی 'اگر' کی جگہ 'گر' آسکتا تھا لیکن میر نے اگر ہی لکھا اور الف کو ساقط سمجھا، میر نے یہ شاید روانی کیلیے کیا ہے لیکن ساغر نے یقیناً وزن پورا کرنے کیلیے کیا ہے :)
 

محمد وارث

لائبریرین
افسوس فاتح صاحب کہ آپ کی بات سے اس خاکسار پر 'تمھتیں' لگنی شروع ہو گئیں حالانکہ سند 'میر' کی تھی نہ کسی میرے جیسے 'فقیر' کی :)
 

فاتح

لائبریرین
وارث صاحب! آپ ایسے عالم کی رائے میرے لیے انتہائی اہم اور مستند ہے لیکن یہاں معذرت کے ساتھ ایک اختلافی رائے رکھتا ہوں؛ الف وصل کا سقوط بالکل جائز ہے لیکن اس سے ما قبل ساکن کو متحرک بھی کیا جاتا ہے یعنی "پُر اَسرار (فعلن فعل)" کو "پُرَسرار (مفاعیل)" تو باندھا جا سکتا ہے مگر "پُر سَرار (فاعلان)" نہیں۔ اور "نفس نفس پر اسرار سا ہے" میں ما قبل ساکن کو متحرک نہیں کیا گیا جب کہ مسقوط الف کے بعد کے ساکن حرف کو متحرک کر دیا گیا ہے جو غلط ہے۔ میرے خیال میں یہ سہوِ ساغر نہیں بلکہ سہوِ کاتب ہے۔:)

آپ نے جس شعر کا حوالہ دیا ہے اس میں بھی یہی کلیہ برتا گیا ہے یعنی الف وصل کو گرا کر اس کا ما قبل متحرک کر دیا گیا اور یوں تقطیع میں "قَص دَ گَر (فاعلن)" شمار ہوا۔
قصد اگر امتحان ہے پیارے
اب تلک نیم جان ہے پیارے
لیکن اسی مصرع کو ذرا سی ترمیم کے ساتھ یوں لکھیے کہ "قصد امتحان ہے اگر پیارے" اور اب "امتحان" کے الف کو گرا کر تقطیع کیجیے اور اسے "قصد مت (فاعلن)" پڑھیے۔ کیا یہ جائز ہو سکتا ہے؟
 

فاتح

لائبریرین
افسوس فاتح صاحب کہ آپ کی بات سے اس خاکسار پر 'تمھتیں' لگنی شروع ہو گئیں حالانکہ سند 'میر' کی تھی نہ کسی میرے جیسے 'فقیر' کی :)
حضور! یہ تیر ہماری جانب چھوڑا گیا ہے ہمارے ذیل کے مراسلے کو سامنے رکھتے ہوئے::laughing::laughing::laughing:
اسرار کا الف ساغر نے ساقط کیا تو مسکرا دیے اور ہم کرتے تو سقوطِ ڈھاکہ سے زیادہ افسوس ناک واقعہ مانا جاتا۔:laughing:
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب! آپ ایسے عالم کی رائے میرے لیے انتہائی اہم اور مستند ہے لیکن یہاں معذرت کے ساتھ ایک اختلافی رائے رکھتا ہوں؛ الف وصل کا سقوط بالکل جائز ہے لیکن اس سے ما قبل ساکن کو متحرک بھی کیا جاتا ہے یعنی "پُر اَسرار (فعلن فعل)" کو "پُرَسرار (مفاعیل)" تو باندھا جا سکتا ہے مگر "پُر سَرار (فاعلان)" نہیں۔ اور "نفس نفس پر اسرار سا ہے" میں ما قبل ساکن کو متحرک نہیں کیا گیا جب کہ مسقوط الف کے بعد کے ساکن حرف کو متحرک کر دیا گیا ہے جو غلط ہے۔ میرے خیال میں یہ سہوِ ساغر نہیں بلکہ سہوِ کاتب ہے۔:)

آپ نے جس شعر کا حوالہ دیا ہے اس میں بھی یہی کلیہ برتا گیا ہے یعنی الف وصل کو گرا کر اس کا ما قبل متحرک کر دیا گیا اور یوں تقطیع میں "قَص دَ گَر (فاعلن)" شمار ہوا۔
قصد اگر امتحان ہے پیارے
اب تلک نیم جان ہے پیارے​

لیکن اسی مصرع کو ذرا سی ترمیم کے ساتھ یوں لکھیے کہ "قصد امتحان ہے اگر پیارے" اور اب "امتحان" کے الف کو گرا کر تقطیع کیجیے اور اسے "قصد مت (فاعلن)" پڑھیے۔ کیا یہ جائز ہو سکتا ہے؟

میرے خیال میں محفل پر اس اشکال کے بارے میں پہلے بھی گفتگو ہوئی تھی، میری نظر سے اساتذہ کے کچھ اشعار مزید بھی گزرے ہیں جن میں یہی مسئلہ ہے، انشاءاللہ ملے تو پوسٹ کرتا ہوں :)
 

فاتح

لائبریرین
اصل شعر میں "پر اسرار" کی بجائے "میں شرار" ہے، یوں ساغر اس الزام سے بری ہوا کہ اس بے چارے پر درد کی دولت کو عام کرنے کی تہمت ہی کافی ہے۔:)
نظر نظر بے قرار سی ہے، نفس نفس میں شرار سا ہے
میں جا نتا ہوں کہ تم نہ آؤگے پھر بھی کچھ انتظار سا ہے

 
Top