کاشفی

محفلین
ناخُدا کہاں ہے ؟
جوش ملیح آبادی

خبر لو آسودگانِ ساحل! کہ سامنے مرگِ ناگہاں ہے
چھِڑی ہوئی دیر سے لڑائی زبوں عناصر کے درمیاں ہے
تمام دُنیا عرق عرق ہے، تمام ہستی رواں دواں ہے
حقیر تِنکے کی طرح کشتی کبھی یہاں ہے کبھی وہاں ہے
کوئی خدا کے لیے بتاؤ کہ ناخُدا کون ہے، کہاں ہے؟

غضب کے گِرداب پڑرہے ہیں، عظیم طوفان زور پر ہے
بَلا کی پُروائی چل رہی ہے، جلال میں‌ رُوحِ بحر و بر ہے
تھپیڑے کھاتا ہوا سفینہ کبھی اِدھر ہے کبھی اُدھر ہے
ہوا اُٹھائے ہوئے ہے طوفاں، گھٹا نکالے ہوئے زباں‌ہے
کوئی خدا کے لیے بتاؤ کہ ناخُدا کون ہے، کہاں ہے؟

ہواؤں کی سنسناہٹیں ہیں، سیاہ موجوں کے ہیں تھپیڑے
ہر اک بھنور میں ہے وہ تلاطم کہ غرق کردے ہزار بیڑے
بَلا ہیں سیلاب کے طمانچے، غضب ہیں طوفان کے دَڑیڑے
کڑک کی زیرِنگیں زمیں ہے، گرَج کے قبضے میں آسماں ہے
کوئی خدا کے لیے بتاؤ کہ ناخُدا کون ہے، کہاں ہے؟

بھرا ہوا غیظ میں سمندرفضا کی جانب ہُمک رہا ہے
گرج، کڑک ہے، کڑک چمک ہے، چمک ہوا ہے، ہوا گھٹا ہے
جَہنن جَہنن ہے گھڑڑ گھڑڑ ہے، گَہنن گَہنن ہے، دَنا َدنا ہے
فلک کے ہونٹوں پر الحذر ہے، زمین کے لب پر الاَماں ہے
کوئی خدا کے لیے بتاؤ کہ ناخُدا کون ہے، کہاں ہے؟

ڈراؤنی رات رو رہی ہے، بھرے ہوئے ہیں تمام جَل تھَل
بھنور نکالے ہوئے ہیں آنکھیں، جھُکے ہوئے ہیں سیاہ بادل
ہوا میں شورش، گھٹا میں‌غوغا، فضا میں لرزش، زمیں میں‌ہَل چل
تمام گیتی ہے پارہ پارہ، تمام گردوں دُھواں دُھواں ہے
کوئی خدا کے لیے بتاؤ کہ ناخُدا کون ہے، کہاں ہے؟

سلام لو اے عزیز یارو! کہ اب نہیں شکلِ زندگانی
کہا سُنا سب معاف کردو، بھُلا دو باتیں نئی پرانی
بڑھو کہ وہ جھُک چلا سفینہ، اُٹھو کہ آنے لگا وہ پانی
مُبارک اے جنگِ کفر و ایماں! حیات دَم بھر کی میہماں ہے
کوئی خدا کے لیے بتاؤ کہ ناخُدا کون ہے، کہاں ہے؟

 
Top