میری ڈائری کا ایک ورق

میری ڈائیری میں سوائے اس کے کہ کل کیا کرنا ہے اور اسکے اگلے دن کیا کرنا ہے، کہاں جانا ہے، کس کو فون کرنا ہے، اور کس سے ملاقات ہے۔ لکھا ہوتاہے۔ اب ان مصروفیات کو یہاں لکھنا سوائے آپ لوگوں کو بور کرنے کے لاحاصل ہوگا۔
اس لئے اس موضوع میں شرکت نہیں کرسکتا۔ جملہ احباب سے معذرت
 

شمشاد

لائبریرین
ڈاکٹر صاحب ماننے والی بات نہیں۔
آپ کا تعلق پڑھنے پڑھانے سے ہو اور ڈائری میں صرف ایسی ہی باتیں لکھی ہوں۔
 

تیشہ

محفلین
افتخار راجہ نے کہا:
میری ڈائیری میں سوائے اس کے کہ کل کیا کرنا ہے اور اسکے اگلے دن کیا کرنا ہے، کہاں جانا ہے، کس کو فون کرنا ہے، اور کس سے ملاقات ہے۔ لکھا ہوتاہے۔ اب ان مصروفیات کو یہاں لکھنا سوائے آپ لوگوں کو بور کرنے کے لاحاصل ہوگا۔
اس لئے اس موضوع میں شرکت نہیں کرسکتا۔ جملہ احباب سے معذرت


:p
اچھا تو آپ ڈائری میں یہ سب لکھتے ہیں؟
میں یہ سب کیلنڈر پر لکھتی ہوں ، کب کہا ں آنا ہے جانا ہے کیا کرنا ہے کیوں کرنا ہے کونسی ڈیٹ کو app ہے کتنے بجے ہے وغیرہ ۔
پھر کلینڈر کو سامنے لگا لیتی ہوں ۔ مگر پھر بھی ہر بار دیر ہوجاتی ہے ۔ :oops:
 

شمشاد

لائبریرین
شہرِ خموشاں
میرے ساتھ آو، میں تمہیں شہرِ خموشاں کی سیر کرواتا ہوں۔ یہ شہر سے باہر ایک پرسکون اور خاموش جگہ ہے، یہاں کے باسی کسی کو کچھ نہیں کہتے، کسی کی بُرائی نہیں کرتے، کسی کی چغلی نہیں کھاتے، کسی کو دکھ نہیں دیتے، لیکن ہر دیکھنے والے کو ایک سبق ضرور دیتے ہیں، دیکھنے والے کو سامانِ عبرت فراہم کرتے ہیں، لیکن ہم پھر بھی سبق حاصل نہیں کرتے، یہ ہمیں ہمارا انجام بتلاتے ہیں، لیکن ہم پھر بھی انجام کی پرواہ نہیں کرتے۔ قبرستان کے باسیوں کو مر کر بھی ہمارا خیال ہے اور ایک ہم ہیں کہ زندہ ہوتے ہوئے بھی انجام سے بے خبر رہنا چاہتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
محبت اندھی ہوتی ہے لیکن شادی ماہر امراضِ چشم ہے۔

محبت اندھی ہوتی ہے لیکن محلے والے اندھے نہیں ہوتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
پودے نے کہا میرا نام لاجونتی ہے، میں سب سے زیادہ شرمیلا (پودا) ہوں، مجھے چھوئی موئی بھی کہتے ہیں، جب بھی کوئی مرد مجھے ہاتھ لگاتا ہے میری پتیاں شرم سے سکڑ جاتی ہیں۔

عورت نے سن کر کسی کے ہاتھوں کا لمس محسوس کیا اور شرم سے سکڑ گئی۔

لاجونتی حیراں رہ گئی۔
 

تیشہ

محفلین
شمشاد نے کہا:
بوچھی نے کہا:
:roll:

ہاں مگر چیلیانوالہ کا پودے چھوئی موئی سے کیا تعلق؟

میرا مطلب تھا کہ گاؤں والوں کو تو پتہ ہونا چاہیے۔ شہری لوگ یہ سب نہیں جانتے۔


جناب ادھر بھی یہی پرابلز ہے۔ گاؤں کے ہوکے بھی کئی باتوں ، کئی جملوں سے ناواقف ہیں۔ :? جب سے ہوش سنبھالا اسلامآباد رہے۔ گاؤں صرف چھٹیوں میں آنا جانا تھا ۔ شادی سے پہلے چھٹیوں میں۔ اور اب اگر پاکستان ہوں تو یا گھر کی صفائی ستھرائی کرنی ہو ۔ یا کسی کی ڈیتھھ پے جانا بنتتا ہے۔
گاوں میں کوئی رشتے دار گلی میں دیکہھ کر سر پر ہاتھھ پھیرنے کے بعد پوچتھے ہیں کہ ، سیاننا ای سانوں؟ تو مارے شرمندگی نہ سر ہلا سکتے ہیں نہ ہی ان سے پوچھھ سکتے کہ آپ کیا لگتے ہیں ہمارے۔ سوائے چاچا۔ پھپھو۔ دادی ۔ دادا ، اور کسی کا معلوم نیہں تو ہم لاجونتی کے پودے کو کیسے پہچانے گے۔ ؟ :p
 

شمشاد

لائبریرین
کچھ بھی ہو اپنی مٹی سے ناطہ نہیں توڑنا چاہیے
کسی نہ کسی حیلے بہانے سے جڑے رہنا چاہیے

یورپ میں تو ہر وقت بھاگ دوڑ لگی رہتی ہے، اپنوں سے ملنے اور دو گھڑی ان کے ساتھ مل بیٹھنے کا بھی وقت نہیں ہے مشغول لوگوں کے پاس۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
شمشاد بھائی، پاکستان میں اس طرح کا ماحول بھی اب رومانوی داستانوں کا حصہ بن کر رہ گیا ہے۔ میں ہر سال پاکستان جاتا ہوں اور وہاں پر لوگوں کے پاس ملنے کو وقت نہیں ہوتا۔ ایک ہی محلے میں رہنے والے بچپن کے دوستوں کو ایک دوسرے سے ملاقات کیے سال سے اوپر ہو جاتا ہے۔ بیرون ملک سے لوگ ناسٹلجیا کے مارے بھاگے بھاگے ملک واپس آتے ہیں اور یہاں انہیں اپنے ماضی کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ یوسفی ناسٹلجیا کے شکار کو یادش بخیریا کہتے ہیں۔ آب گم کا بنیادی تھیم ناسٹلجیا ہی ہے۔ اس کے مرکزی کردار بشارت پرانے وقتوں کے نشان ڈھونڈنے آہیں بھرتے کوئی 40 سال بعد اپنے آبائی شہر کانپور پہنچتے ہیں۔ کانپور پہنچنے سے پہلے دکھ بھرے لہجے میں کہتے تھے ہائے کیوں چھوڑ آئے۔ وہاں پہنچ کر کہا لاحول ولا قوۃ، پہلے کیوں نہ چھوڑ آئے۔ :wink:
 

شمشاد

لائبریرین
لیکن “ زرگزشت “ میں جب یوسفی 20 - 25 سال کے بعد پشاور گئے تھے اور خان صاحب کو بنک کے کسی ملازم کے ذریعے خبر ملی تو وہ کڑاکے کی سردی میں کوسوں دور سے ٹانگے میں بیٹھ کر ملنے آئے اور ساتھ میں ریتا بھی بنوا کر لائے جو ان کی بیٹی نے ساری رات جاگ کر بنایا تھا۔ اور جاتے ہوئے اپنی 65 سالہ سنگی ساتھی بندوق تحفہً دے گئے۔

اور “ آب گم “ میں بھی تو خان صاحب کو لنڈی کوتل سے لانڈھی تک سوائے بشارت کے اور کوئی نظر نہ آیا جس کے پاس جا کر وہ ہفتوں پڑے رہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اور میرا مطلب صرف اور صرف یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کے لیئے تھوڑا بہت وقت ضرور نکالیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
شمشاد، تمہاری بات سو فیصد درست ہے۔ میرا کہنا صرف یہ تھا کہ اب اپنوں سے ملنے کے لیے وقت کا نہ ہونا مغربی دنیا کا خاصا نہیں رہ گیا۔ پاکستان میں بھی ایک ہی شہر یا ایک ہی علاقے میں رہنے کے باوجود دوستوں اور رشتہ داروں کو ایک دوسرے سے ملے مدتیں بیت جاتی ہیں۔ اس کی وجہ کسی قسم کی رنجش ہونا ضروری نہیں ہے۔ زندگی ہی اس قدر مشینی ہو گئی ہے کہ لوگ انسانی قدروں کو بھولتے جا رہے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ اردو زبان بھی خوب ہے۔ کہیں پیدا ہوئی، کہیں پروان چڑھی، کہیں پناہ لی، کہیں نزاکتوں سے بھر گئی، کہیں لچھے دار ہوئی، کہیں اس پر جوتم پیزار ہوئی، الفاظ میں باریکی، جملوں کی بناوٹ، ادائیگی میں لگاوٹ، نِت نئے جنم لیتی گئی، ہر روپ میں نکھرتی گئی۔ دلوں میں اترتی گئی، زبان پر چڑھتی گئی، کانوں میں رس گھولتی، خیالوں کے پرئے باندھے ذہنوں کے جھروکوں میں سجی، کبھی ہندی کا رنگ، کبھی فارسی کا رنگ، کبھی عربی کی بلاغت - - - - -
 

شمشاد

لائبریرین
- - - دربار میں گئی تو بندی کورنش بجا لائی، شاہی زبان سے نکلی تو فرمانِ ظلِ الٰہی قلعہ معلٰی کی زبان کہلائی :
- - - ہم ہیں اردوئے معّلٰی کے زباں داں اے عرش

گلی کوچوں میں گئی، خواص و عام میں پھیلی، کنجڑے قصائیوں کی زبان، بھٹیارنوں کی لڑائی، “کرخندار“ کی “ آریا - جاریا“، شرفا کی “ آپ جناب “، نوابوں کی زبان، بگڑے رئیسوں کی زبان - - - - - -
 

شمشاد

لائبریرین
- - - - زبان دانی کا دعوہ کہیں اور تنبیہ کہیں :

مصرعہ : کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

سازوں میں چھڑی، سُر میں رچی، گلے میں اُتری، انگ انگ سے پھوٹی، شاعرانہ طبیعت کچھ اور مچلی، زورِ قلم اور زیادہ، کسی کے گھر کی لونڈی بنی تو کسی زبان پر کبھی نہ چڑھی :

- - - میرے محبوب توہرے پردہ نسینی کی کسم
- - - میں نے اسکن کی قطارن میں توہکے دیکھلئی
 
Top