میری ڈائری کا ایک ورق

F@rzana

محفلین
؛

چلیں سخی بھیا پھر یہ مسکراہٹ آپ کے نام :lol: :lol:

شوخ نظر کی چٹکی نے نقصان کیا
ہاتھوں سے چائے کے برتن چھوٹے تھے
 

رضوان

محفلین
جو کچھ اس بندہ مزدور کی ڈائری میں لکھا تھا وہ نقل کر دیا- اب آپ لوگوں کی طرح :oops: یہ فضول اشعار اور سمجھ میں نہ آنے والی چیزیں اپنی ڈائری میں نہیں لکھتے(ان کے لیے کتاب دل ہی کافی ہے ایک نام ہے جو قاضی نے کالی سیاہی سے لکھ دیا ہے وہی وقت کیساتہ سنہرا ہوچکا ہے)

شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی
شکر ہے زندگی تباہ نہ کی
تجہ کو دیکھا تو سیر چشم ہوئے
تجھ کو چاھا تو اور چاہ نہ کی


فیض صاحب کے ان اشعار میں اپنا چہرہ دکھائی دیتا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
یہ زیادہ بہتر ہے کہ کوئی آپ سے محبت کرئے اور چھوڑ کر چلا جائے بہ نسبت اس کے کہ کوئی آپ سے محبت ہی نہ کرئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
سدا سہاگن سڑکوں پر وہ فیشن پریڈ دیکھی جائے، جس میں ہر سال آسودہ حال گھرانوں کی ناآسودہ بہو بیٹیاں دھن اور تن کی بازی لگا دیتی ہیں۔ انہی سڑکوں پر کالی کوفی اور آلو کی ہوائیوں پر گزارہ کرنے والے ادیب بیگماتی زبان میں ایک دوسرے کو خونیں انقلاب لانے پر اُکساتے ہیں۔ انہی سڑکوں پر اپنے گلدان میں برگد اُگانے والے انٹلکچول کسی خوبصورت لڑکی کو شرفِ زوجیت بخشنے کی گھات میں لگے رہتے ہیں۔ ادھر خوبصورت لڑکی چراغِ رخِ زیبا لیئے اس تلاش میں سرگرداں کہ جلد از جلد کسی بوڑھے لکھ پتی کی بیوہ بن جائے۔ یہ سوئنمبر، یہ سہاگ رُت ہر ہل سٹیشن پر ہر سال منائی جاتی ہے۔ اور اس سے پہلے کہ سبزہ نورستہ برف کا کفن پہن کر سو جائے، چناروں کی آگ سرد اور قہوہ خانے ویراں ہو جائیں، مویشی میدانوں میں اترنے لگیں اور سڑکوں پر کوئی ذی روح نظر نہ آئے بجز ٹورسٹ کے، اس سے پہلے کہ موسمِ گل بیت جائے، بہت سے ہاتھوں کی تیسری انگلی میں انگوٹھیاں جگمگانے لگتی ہیں۔
(مشتاق احمد یوسفی کی ہل سٹیشن سے اقتباس)
 

رضوان

محفلین
شمشاد بھائی گریٹ سلیکشن
کیا ہواباقی سب کی ڈائریوں کو کیا ورق ورق بکھر گیا؟
جاری رکھیئے اتنی بھی کیا ذودحسی آپ لوگ تو سچی مچی پرانی ڈائریاں تلاش کرنے لگ گئے۔ بھائی لوگ کوئی تلخ جواب ھی دے دیتے ہم نے تو
ع چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد

والا معاملہ کیا تھا مگر لگتا ہے دل پر لگی ہے!!!!!!!!!!! :cry:
 

تیشہ

محفلین
شمشاد نے کہا:
یہ زیادہ بہتر ہے کہ کوئی آپ سے محبت کرئے اور چھوڑ کر چلا جائے بہ نسبت اس کے کہ کوئی آپ سے محبت ہی نہ کرئے۔



جناب ، یہ کچھ ایسا نیہں جیسا آپ نے لکھا یہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ، ۔
مجھے اب یاد نیہں آرہا ، :oops: یاد کر کے بتاتی ہوں
 

تیشہ

محفلین
کسی انسان کی عظمت و شرافت پرکھنے کا آخری پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ اسکا رویہ دیکھا جائے ان لوگوں سے کیسا ہے؟ جو اسے کچھ نیہں دے سکتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اشفاق احمد کہتے ہیں :

ایک دفعہ ایک سوال نے مجھے بہت ڈسٹرب کیا۔ میں نے اپنے ملنے والوں سے اکثر اسے پوچھا لیکن میرا دل مطمئن نہ ہوا۔ سوال تھا “ مسلمان اور مومن میں کیا فرق ہے؟“

ایسے میں، میں ایک دن ایک گاؤں سے گزرا کہ میں نے ایک بزرگ کو دیکھا جو گنے کا رس نکال رہے تھے۔ میرے دل میں جانے کیا خیال آیا، میں نے ان بابا جی سے وہ سوال پوچھا، “ بابا جی کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ مسلمان اور مومن میں کیا فرق ہے؟“

بابا جی نے اپنا سر اٹھایا اور کہا “مسلمان وہ ہے جو خدا کو مانتا ہے اور مومن وہ ہے جو خدا کی مانتا ہے۔“
 

شمشاد

لائبریرین
ماں

ماں

ابا جی مجھے مارتے تھے تو امی بچا لیتی تھیں۔ ایک دن میں نے سوچا کہ اگر امی پٹائی کریں گی تو ابا جی کیا کریں گے اور یہ دیکھنے کے لیئے کہ کیا ہوتا ہے میں نے امی کا کہا نہ مانا۔ انہوں نے کہا بازار سے دہی لا دو، میں نہ لایا، انہوں نے سالن کم دیا، میں نے زیادہ پر اصرار کیا، انہوں نے کہا پیڑھی پر بیٹھ کر روٹی کھاؤ، میں نے زمین پر دری بچائی اور اس پر بیٹھ گیا، کپڑے میلے کر لیئے، میرا لہجہ بھی گستاخانہ تھا۔ مجھے پوری توقع تھی کہ امی ضرور ماریں گی مگر انہوں نے کیا یہ کہ مجھے سینے سے لگا کر کہا “ کیوں دلور (دلاور) پتر! میں صدقے، بیمار تو نہیں ہے تُو؟“

اس وقت میرے آنسو تھے کہ رکتے ہی نہیں تھے۔

(مرزا ادیب کی کتاب “مٹی کا دیا“ سے اقتباس)
 
“جن نکالنا“ کوئی آسان کام ہوتا تو ہر بندہ “جن نکالتا پھرتا“۔ یہ تو جن سے پوچھے یا پھر جس کا “جن نکلتا“ ہے اس سے۔ کیوں جن کا ایک ٹھکانہ گیا اور جس کا جن نکلتا ہے اسکو دوہری ضرب لگتی ہے اول ناک میں مرچوں کی دھونیوں کی اذیت اور دوئم ہماری فیس۔
آج کل دھندے میں‌مندا چل رہا ہے کیوں کہ آمدن کم ہونے کی وجہ سے لوگوں کی جن نکلوانے میں دلچسپیاں کم ہورہی ہیں، شاید اسکی وجہ اسکولوں اور تعلیم کا عام ہونا ہی ہو، میں تو کہتا ہوں کہ اس اسکولوں کو “طبیلہ“ بنا دینا چاہئے بلکہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ ان کو تالا ہی لگا دیا جائے کہ ان میں جنات ڈیرے ڈال سکیں اور ہمارے “ دھندہ کا مندا“ ختم ہو۔
میں سوچ رہا ہوں کہ کسی زیادہ آمدنی والے ملک چلا جاؤں۔ یورپ وغیرہ اور ادہر گوروں کے جن نکالوں۔ ویسے گوریوں کے جنات کا نکالنا کچھ اور ہی لطف ہوگا۔

(ہمارے دوست شاہ جی کی ڈائیری کا ایک ورق مؤرخہ 30 جون انیس سو ننانوے) ‌
 

شمشاد

لائبریرین
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

نیند تو صحت کے لیئے نہائیت ضروری چیز ہے۔ لیکن یاد رکھیئے خواب آور گولیوں کا استعمال خطرے سے خالی نہیں۔ اس لیئے سمجھدار لوگ، ادیب، شاعر، تاجر پیشہ، عشق پیشہ حضرات نیند لانے کے لیئے ہمارے ہاں کی حسبِ ذیل مطبوعاچت استعمال کرتے ہیں :

- جدید لسانیات کے اساسی اصول، 120 صفحے، قیمت چار روپے
- تنقید کے مابعد لطبیعاتی نظریات، 216 صفحے، قیمت چھ روپے

فیملی سائز مطلوب ہو، تو حضرت خرگوش لکھنوی کا تازہ ترین ناول “ خوابِ خرگوش “ استعمال کیجیئے۔ 125 صفحات پر محیط اس لاثانی تحفے کی قیمت فقط 18 روپے ہے۔ محصول ڈاک معاف۔

خوراک :
- بڑوں کے لیئے چار سے آٹھ صفحے
- بچوں کے لیئے دو صفحے
- تین سال سے کم عمر کے بچوں کو فقط کتاب کی شکل دکھا دینا کافی ہے۔

مقررہ خوراک سے زیادہ استعمال نہ کیجیئے۔ خراٹے آنے کا ڈر ہے۔

ابن انشا کے کالم “ ہماری کمرشل سروس “ سے
 

شمشاد

لائبریرین
پنڈی سے ہمیں پیار ہے۔ ایک تو اس لیئے کہ اس کے نام میں نسائیت ہے۔ لاہور اور پشاور بہت مذکر کاٹھ کے شہر ہیں۔ نام کے لحاظ سے کراچی بھی اتنی ہی مؤنث ہے، بلکہ ایک شادی شدہ کنیت بھی رکتی ہے یعنی عروس البلاد کہلاتی ہے۔ لیکن جو شیوہ تُرکانہ دوشیزہ پنڈی کا ہے، وہ اس عروسِ ہزار داماد کا نہیں۔

(کرنل محمد خان “بسلامت روی“)
 

الف نظامی

لائبریرین
ماں

شمشاد نے کہا:
ماں

ابا جی مجھے مارتے تھے تو امی بچا لیتی تھیں۔ ایک دن میں نے سوچا کہ اگر امی پٹائی کریں گی تو ابا جی کیا کریں گے اور یہ دیکھنے کے لیئے کہ کیا ہوتا ہے میں نے امی کا کہا نہ مانا۔ انہوں نے کہا بازار سے دہی لا دو، میں نہ لایا، انہوں نے سالن کم دیا، میں نے زیادہ پر اصرار کیا، انہوں نے کہا پیڑھی پر بیٹھ کر روٹی کھاؤ، میں نے زمین پر دری بچائی اور اس پر بیٹھ گیا، کپڑے میلے کر لیئے، میرا لہجہ بھی گستاخانہ تھا۔ مجھے پوری توقع تھی کہ امی ضرور ماریں گی مگر انہوں نے کیا یہ کہ مجھے سینے سے لگا کر کہا “ کیوں دلور (دلاور) پتر! میں صدقے، بیمار تو نہیں ہے تُو؟“

اس وقت میرے آنسو تھے کہ رکتے ہی نہیں تھے۔

(مرزا ادیب کی کتاب “مٹی کا دیا“ سے اقتباس)
واہ شمشاد جی اردو ڈائجسٹ والوں کا ماں نمبر یاد آگیا۔ ابھی نکال کہ پڑھتا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
نظر بھی کیا چیز ہے

نظر بھی کیا چیز ہے، یہ دیکھتی بھی ہے، یہ بولتی بھی ہے اور کسی ولی اللہ کے پاس ہو تو تقدیریں بدل دیتی ہے۔

نظر اُٹھائی تو دعا بن گئی
نظر جھکائی تو حیا بن گئی
نظر ترچھی ہوئی تو ادا بن گئی
نظر پھیر لی تو قضا بن گئی
 

شمشاد

لائبریرین
اختصار

ایک ورکشاپ میں وہاں کے ملازم گاڑیوں کو ان کے مالکوں کے نام سے پہچانتے تھے۔ ایک دن نوٹس بورڈ پر یوں لکھا ہوا تھا :

1) بوڑھے یوسف کی وائیرنگ خراب ہے۔
2) مسز ایلس کو دھکا دو۔
3) مس للی کو آج ہی دھونا ہے۔
4) موٹے سیٹھ کی ہوا نکلی ہوئی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
پرہیز کریں

1) گیس میں مبتلا حضرات سوئی گیس پر پکے ہوئے کھانوں سے پرہیز کریں۔

2) عارضہ قلب کے مریض بجلی کے بِل دیکھنے سے پرہیز کریں۔

3) ذیابطیس میں مبتلا دوشیزائیں اپنے محبوب کی میٹھی میٹھی باتوں سے پرہیز کریں۔

4) ہائی بلڈ پریشر کے مریض رکشا، ٹیکسی کے پیچھے بھاگنے سے پرہیز کریں۔

5) امراض چشم کے مریض ڈرامہ سیریز “ اندھیرا اُجالا“ دیکھنے سے پرہیز کریں۔ پولیس کی انہونی کارکردگی دیکھ کر ان کی آنکھوں کی بینائی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
حرف “ د “

انسان دائی کے توسط سے دنیا میں آیا۔ سب سے پہلے دودھ سے واسطہ پڑا، بڑا ہوا دھن دولت کی ضرورت پڑی، دوستی ہوئی، دشمنی ہوئی، دلہا بنے، دھوم دھام سے دلہن لائے، دعوتیں ہوئیں، مرے اور “د“ سے دفنا دئیے گئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
جدید لغت

طلاق - مغرب کی ہر دلعزیز گھریلو صنعت
فیشن - کپڑا کم سے کم استعمال کرنے کی ترکیب
تجربہ - پرانی غلطیاں چھوڑ کر نئی غلطیاں کرنا
ٹیلی ویژن - جس کی گود اب بچے کا پہلا مدرسہ ہے
منگنی - ایڈوانس بکنگ
حقہ - دس سگریٹ ایک ہی کش میں
 

شمشاد

لائبریرین
زندگی اور ادبیات میں بدمزاج اور تُندخُو عورتوں کی کمی نہیں۔ رتن ناتھ سرشار کی “ الف لیلہ “ میں مخمورہ اپنے شوہر معروف موچی سے کبابوں کی فرمائش کرتی ہے :

“ خدا دے یا نہ دے، مجھے نہ خدا سے بحث ہے نہ روپے سے۔ میں تو تم کو جانتی ہوں اور کسی کو نہیں پہچانتی ہوں۔ اگر نہ لائے تو تم جانو، تمہارا کام۔ تب مخمورہ میرا نام کہ تم سے ابھی بدلہ لوں اور جہاں کے ہو وہیں پہنچا دوں۔“

موچی عاری ہو گیا۔ اشک جاری ہو گیا، کہ میں آخر کہاں سے لاؤں، کس کے ہاں چوری کرنے جاؤں۔ اس پر مخمورہ آگ بھبھوکا ہو کے بولی، “ ہت تیرے لُوکا لگاؤں، تیرا حلوا کھاؤں، ارے مردود ! ابھی لا کے دے، نہیں تو تیری بوٹیاں نوچوں گی۔“
 
Top