آئیے مل کر مزاحیہ کہانی بناتے ہیں۔
اس دھاگے میں آپ جتنے مرضی الفاظ استعمال کرسکتے ہیں۔
مگر ایک ساتھ دو مراسلے نہیں لکھنے۔
پھر شروع ہوجائیے۔
ایک مسخرہ تھا، نام تو اس کا نہ جانے کیا تھا، مگر سب اسے اڑن شاہ کہہ کر بلاتے تھے۔
 

شعیب صفدر

محفلین
جب وہ بازار کے درمیان میں پہنچا تو اُسے یہ یاد آیا کہ سامان کی لسٹ گھر ہی بھول آیا ہے اور اُس ہی لسٹ میں سامان کے پیسے بھی تھے اب اُس کا ارادہ واپس گھر جا کر لسٹ لانے کا نہ تھا لہذا اُس نے سوچا کہ ایسا کی کیا جائے کہ سامان نہ بھی لو تو خالی ہاتھ گھر نہ جاؤ۔
 

شمشاد

لائبریرین
نہیں پہلے یہ سُن لیں کہ اس کی پہچان اڑن شاہ کیونکر مشہور ہوئی۔ حالانکہ اس کا پیدائشی نام عبد اللہ تھا جو اس کے ماں باپ نے رکھا تھا۔
 

شعیب صفدر

محفلین
اور ہر سنجیدہ سے سنجیدہ سی بات کو مزاح میں بدل کر موقعہ سے غائب ہو جاتا تھا۔ تو ہم بات کر رہے تھے کہ زپنے دوست کی دکان پہنچا تو
 

سندس صغیر

محفلین
وہ دکان پر پہنچا اور وہاں سے سامان لے کر اڑن چھو ہونے لگا تھا۔ لیکن دکان دار نے کانوں سے پکڑ لیا
 
یہ صرف اس کا احساس تھا، وجہ یہ تھی کہ کان چھڑاتے وقت اسے اس قدر شدید تکلیف محسوس ہوئی کہ وہ سمجھا اس کا کان نکل گیا، حالانکہ کان نکلا نہیں تھا، مگر وہ بے چارہ یہ سمجھ کر کہ میرا ایک کان نکل چکا ہے، اب صرف ایک ہی کان رہ گیا ہے اور وہ نہ جانے کب تک صحیح کام کرتا رہے گا ، ممکن ہے کچھ دنوں بعد وہ دوسرا کان بھی خراب ہوجائے تو اسے تو پھر کچھ سنائی نہیں دے گا، بس یہی سوچ کر وہ ہلکان ہوتا رہا، اس نے یہ بھی ڈرتے ڈرتے سوچا کہ جب وہ بالکل سننے سے ہی محروم ہوجائے گا تو لوگ تو اسے نہ جانے کیا کچھ کہہ دیں گے اسے تو کچھ سنائی نہیں دے گا ، لہذا پہلے سے اپنے دفاع کے طور پر کچھ انتظام کرلینا چاہیے، یہ سوچ کر وہ ۔۔۔۔۔
 
روتے ہوئے حکیم صاحب کی دکان کی طرف چل دیا کہ انھیں سے پہلے بات کر لے ۔حکیم صاحب اڑن شاہ کے والد کے جگری دوست تھے ۔اور برابر اڑن شاہ کے گھر بھی آتے رہتے تھے۔
 
جب اڑن شاہ نے انھیں پوری کہانی بتائی تو انھیں بے ساختہ ہنسی آگئی۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے سابقہ رویے پر باتوں ہی باتوں میں معذرت بھی کی۔
لیکن اسی دم ان کے دوست حکیم شبن میاں بھی ان کی دوکان میں آ گئے ۔اڑن شاہ پہلے ہی روہانسے منہ بنائے ہوئے تھے ۔
اور سوچا چلو جی اب ان کے سوالوں کے جواب بھی دینے پرے گئے:unsure:
حکیم شبن میاں نے ایک ایسی بات پوچھی جسے سن کر اڑن شاہ کے ہوش اڑگئے۔:):):)
 

شمشاد

لائبریرین
انہیں اپنے کیے پر اب پچھتاوا ہونے لگا اور وہ یہ سوچنے لگے کہ یہاں سے کس طرح رفوچکر ہوا جائے۔
 
کہ اچانک اسے ایک ترکیب سوجھی اور اس نے اپنے شرارتی ہونے کا ثبوت دوبارہ پیش کیا ۔ اڑن شاہ نے حکیم صاحب کی دوکان کے ایک کونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چلایا سانپ سانپ حکیم صاحب جب تک اپنا ڈنڈا تلاش کرتے اڑن شاہ نو دو گیارہ اڑن چھو ہو گئے۔۔۔
 
Top