اور سوچا چلو جی اب ان کے سوالوں کے جواب بھی دینے پرے گئے:unsure:
حکیم شبن میاں نے ایک ایسی بات پوچھی جسے سن کر اڑن شاہ کے ہوش اڑگئے۔
وہ بات کیا تھی؟ ایک ایسی بات جسے سننے کی اڑن شاہ کو بالکل توقع نہیں تھی۔
انہیں اپنے کیے پر اب پچھتاوا ہونے لگا اور وہ یہ سوچنے لگے کہ یہاں سے کس طرح رفوچکر ہوا جائے۔
کہ اچانک اسے ایک ترکیب سوجھی اور اس نے اپنے شرارتی ہونے کا ثبوت دوبارہ پیش کیا ۔ اڑن شاہ نے حکیم صاحب کی دوکان کے ایک کونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چلایا سانپ سانپ حکیم صاحب جب تک اپنا ڈنڈا تلاش کرتے اڑن شاہ نو دو گیارہ اڑن چھو ہو گئے۔۔۔
وہ بات جس کی وجہ سے اڑن شاہ کے ہوش اڑگئے تھے، پھر وہ سانپ سانپ چلا کر خود اڑگئے یہ تھی کہ۔۔۔
 

بنت شبیر

محفلین
وہ بات کیا تھی؟ ایک ایسی بات جسے سننے کی اڑن شاہ کو بالکل توقع نہیں تھی۔


وہ بات جس کی وجہ سے اڑن شاہ کے ہوش اڑگئے تھے، پھر وہ سانپ سانپ چلا کر خود اڑگئے یہ تھی کہ۔۔۔
کے وہ ابھی اپنے کل کے بارے میں سوچتا اس کو کسی نے پکارا جب اس نے موڑ کر دیکھا تو اس کے ہوش آڑ گئے
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
وہ بات کیا تھی؟ ایک ایسی بات جسے سننے کی اڑن شاہ کو بالکل توقع نہیں تھی۔


وہ بات جس کی وجہ سے اڑن شاہ کے ہوش اڑگئے تھے، پھر وہ سانپ سانپ چلا کر خود اڑگئے یہ تھی کہ۔۔۔
حکیم شبن میاں نے اُڑن شاہ سے پُوچھا تھا کہ ایک کھلونوں کا دکاندارتمہیں ڈھونڈھ رہا ہے۔ وہ تمہارا دوست ہی ہے نا۔۔؟ یہ سُن کر اُڑن شاہ کویاد آگیا کہ واقعی وہ دکاندار تو میرا دوست تھا اور اُس کی دُکان پر بھی میں اُس سے کچھ پیسے اُدھار مانگنے جا رہا تھا نہ کہ سودا سلف لینے،اور پھر دوست کے پاس تو کھلونے تھے تو میں بھلا سودا سلف کیسے چُرا سکتا تھا وہاں سے۔۔ یہ سب سوچ کر اڑن شاہ کو کہانی کاروں پر سخت غصہ آگیا جو پوری کہانی پڑھے بغیر اُس کو خوار کئے دے رہے ہیں۔۔۔:)
 
آخری تدوین:
اب اڑن شاہ نے حکیم شبن کی زبانی جو کہانی سنی تو شرم سے پانی پانی ہو گیا ۔لیکن اپنی غلطی کو چھپانے کے لئے کہنے لگا حکیم صاحب وہ میں نہیں میرا دوست تھا حکیم نے کہا نہیں تمہیں تھے اس نے تمہارا نام لیکر مجھے بتایا اور اب تو تمہاری شکایت میں تمہارے ابو سے کروں گا
 
ابو سے شکایت کا سن کر تو اڑن شاہ کے طوطے بھی اڑن شاہ ہو گئے اور فوراََ دماغ گھومانے لگے کہ کیسے اس سیچوئشن سے اڑن چھو ہو جائے
 

سید ذیشان

محفلین
اڑن شاہ وہاں سے رفوچکر ہوا تو راستے میں اس کی محبوبہ اڑن چھو اس کو چاند رات کو چوڑیوں والے سٹال پر نظر آئی۔ اڑن شاہ نے ایک دم سے منرل واٹر کی بوتل سے پانی اپنے چلو میں بھرا اور اسی میں شرم سے ڈوب مرا۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
ابھی لوگ دعا مانگ ہی رہے تھے کہ پسِ منظر سے آواز آئی ، ”اُٹھ کمبخت۔۔نالائق۔۔۔ سارا دِن افیم پی کر سویا رہتا ہے، خدا ایسی ناہجار اولاد کسی دُشمن کو بھی نہ دے۔۔ یہ میاں شبراتی تھے، اُڑن شاہ کے والد بزرگوار۔۔۔ساتھ ہی ایک زور دار لات اُڑن شاہ کے پڑی اور اُس کا رہا سہا خمار بھی رفو چکر ہو گیا۔۔۔ ”تو یہ سب خواب تھا!!“ اُڑن شاہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ سوچا۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
اڑن شاہ منہ دھو کے بازار سے دہی لینے گیا۔ دہی والے کو ایک کلو دہی کے پچاس روپے تھمائے تو گوالے نہ کہا "ارے میاں منہ دھو رکھ، اتنے میں تو پانی کی بوتل نہیں آتی" اسی وقت ایک زور دار دھماکہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
ہمزاد کو کچھ دیر کے لئے گمان گزرا کہ اصل میں اڑن شاہ اس کا ہمزاد ہے اور وہ ایک معمولی انسان۔ اس نے سر جھٹک کر ایسے واہیات خیال کو ذہن سے نکال دیا۔۔۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
اڑن شاہ ہمزاد کی حاضری سے بہت جزبز ہوا۔۔۔ اصل میں اس کا ہمزاد من موجی قسم کا تھا اور اپنی مرضی سے حاضری دیتا تھا اور اُس کی کوئی خدمت نہ کرتا بلکہ اکثر حاضر ہو کے اُڑن شاہ سے مالش کرواتا تھا۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
ہمزاد بھی اڑن شاہ کی نت نئی گذارشات سے قدرے نالاں تھا- اس کا تعلق کوہ قاف کے ایک خطے "لینڈ آف پیور" سے تھا، جہاں ملاقات کے لئے کسی سے وقت لینے کا کوئی رواج نہیں تھا، جس کا جب جی چاہتا آن دھمکتا۔۔۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
اس کا حل ہمزاد نے یہ نکالا تھا کہ چینی زبان میں شاعری شروع کر دی تھی۔۔ اور موٹا سا دیوان ہر وقت بغل میں دابے پھرتا۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
ہمزاد نے سوچا کہ وہ چینی زبان میں شاعری کر کے کچھ اوور ہو گیا ہے تو اس کا دف مارنے کے لئے لاطینی زبان میں نثر لکھنا شروع کر دی۔
 
لیکن اس کی نثر کسی کو پلے نہ پڑتی تھی ۔بڑے زور و شور سے پورے علاقہ میں ایک ایسے شخص کی تلاش شروع ہوئی جو اس کی اسکرپٹ کو پڑھ ۔بڑی مشکل سے ایک صاحب ملے بھی تو انھوں نے یہ کہہ کر اپنی جان بچائی کہ بھیا یہ اسکرپٹ تو کب کی ناپیدہو چکی اب اس زبان کے جاننے والے یہاں نہیں ملنے والے ۔چونکہ وہ صاحب بھی صحیح معنوں میں اس تحریر کو پڑھنے کے اہل نہ تھے ۔لیکن لوگوں کی بھیڑ جو اکٹھا ہوئی تو انھوں نے اپنی دھونس جمانے کے لئے کہا کہ اس میں تو ایک ایسا گر بتایا گیا ہے جس کے جانتے ہی راتوں رات سارے گاوں والے امیر ہو جائیں گے ۔پورے گاوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور آن کی آن میں ایک خوبصورت جلسہ کا انعقاد کیا گیا جہاں یہ حضرت وہ گر پڑھ کر سناتے اور سمجھاتے لیکن خدا کا کرنا
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ہوا چلی اور اگلے لمحے ہی کالے سیاہ بادل ان کے سر پر آن موجود ہوئے، بجلی کڑکی اور موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔۔۔سبھی ہمزاد اپنے گھروں کو بھاگے تا کہ چھتری تلاش کر سکیں لیکن جلد ہی انہیں اپنی بےوقوفی کا احساس ہوا کہ وہ تو ہمزاد ہیں اور انہیں بھلا چھتری کی کیا ضرورت ہے لہذاٰ وہ جلسہ گاہ میں واپس آگئے۔لیکن جن صاحب نے گر بتانا تھا وہ موقع کا فائدہ اٹھاتے فرار ہو چکے تھے۔
اگلا خیال جو ان کے ذہنوں میں آیا کہ ہمیں بھلا دولت کی کیا ضرورت ہے اور ہم یوں ہی بھاگے دوڑے پھر رہے ہیں۔ شرم اور خجالت کے مارے ان کے چہرے سرخ ہو گئے اور انہوں نے نہایت غصہ سے کہانی نویسوں سے مطالبہ کیا کہ کہانی کو اڑن شاہ پر مرکوز رکھا جائے نہیں تو سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دی جائے گی۔
سو ایک بار پھر اڑن شاہ کی خبر لی گئی تو پایا کہ۔۔
 
اڑن شاہ وہ ناپید لاطینی زبان سیکھنے میں مصروف تھے تاکہ وہ کہانی کاروں سے اپنے مطلب کی چیز لکھوا سکے ۔لیکن یہ زبان اتنی مشکل اور گنجلک تھی کہ اڑن شاہ کے ایک پلے نہ پڑتی تھی ۔اڑن شاہ کبھی اپنا بال نوچتا تو کبھی سکھانے والے شخص کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتا ۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
اتنے میں ہمزاد اڑتا ہوا اڑن شاہ کے پاس آیا اور بولا کہ اے آدم زاد لاطینی زبان تو میں سیکھ رہا ہوں۔۔۔ تجھے اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، تو یہ موبائل نوکیا کا لے لے کہ ماڈل جس کا 3310 ہے اور اس میں ”دل میں میرے ہے دردِ ڈسکو“ جیسی اعلیٰ شاعری پر مبنی مونو فونک رنگ ٹون کو سنتا رہ اور سر دھنتا رہ۔۔
 
Top