مزاحیہ اشعار

شعیب صفدر

محفلین
اصل شعر:
اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کر دو
میں کہ صدیوں سے ادھورا ہوں مکمل کر دو
ستیاناس شعر:
اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کر دو
میرے دانت گندے ہیں مجھے منجن کر دو
 

شمشاد

لائبریرین
ماوراء نے کہا:
فریب نے کہا:
شمشاد نے کہا:
فریب نے کہا:
میں نے تو فریب دیا ہے اور خود آپ چکر پر چکر دے رہی تھیں بیچارے دماغ کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیکھو بھئی فریب بھائی آپ میری بہنا کو الزام نہ دیں، اس کے پاس تو -------- ہے ہی نہیں پھر وہ کیسے چکر دے سکتی ہے اس کو۔ sorry بولیں اس سے۔
sorry ماوراء sis ۔۔۔۔۔۔اب تو شمشاد بھائی سے بھی تصدیق ہو گئی ہے کہ نہیں‌ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فریب۔۔مجھے امید نہیں تھی کہ آپ بھی مجھے فریب دو گے۔ :? :shock: کیا فائدہ ہوا۔اتنا پیار جتانے کا۔۔آخر مجھے ہی منہ کی کھانی پڑی۔
میں نے آپ کا سوری قبول نہیں کیا۔ :cry: :wink:

بُری بات، ایسا نہیں کہتے۔ اگر کوئی سوری کہیے تو مان لینا چاہیے۔ اسی میں بڑائی ہے۔
 

فریب

محفلین
کوچہ یار میں جو میں نے جبیں سائی کی
اس کے ابا نے مری خوب پزیرائی کی
میں تو سمجھا تھا کہ وہ شخص مسیحا ہے
اس نے میری تو مگر تارا مسیحائی کی
وہ بھری بزم میں کہتی ہے مجھے انکل جی
ڈپلومیسی ہے یہ کیسی میری ہمسائی کی
رات ہجرے میں علاقے کی پولیس کھس آئی
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
میں جسے ہیر سمجھتا تھا وہ رانجھا نکلی
بات نیت کی نہیں بات ہے بینائی کی

(ضیاء الحق قاسمی)
 

سیفی

محفلین
تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو میں یوں ہی ڈاکے شاکے ڈالتا رہوں
تم آسامی پہ پستول تانے رہو میں ان کا مال نکالتا رہوں

کتنے پلسے راہ میں ٹکرائے مگر کسی نے ہم کو روکا نہیں
ہمیں دیکھا تو ایس ایچ او کہنے لگا آج ناکے کا کوئی دیہاڑا نہیں
 

اظہرالحق

محفلین
سیفی نے کہا:
تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو میں یوں ہی ڈاکے شاکے ڈالتا رہوں
تم آسامی پہ پستول تانے رہو میں ان کا مال نکالتا رہوں

کتنے پلسے راہ میں ٹکرائے مگر کسی نے ہم کو روکا نہیں
ہمیں دیکھا تو ایس ایچ او کہنے لگا آج ناکے کا کوئی دیہاڑا نہیں

تھوڑی سی تصیح کے ساتھ (اگر برا نہ مانو تو)

تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو، میں یونہی ڈاکے شاکے مارا کروں
تم اسامی کو پستول دکھاتی رہو ،مال میں انکا چراتا رہوں

کتنے پولسے راہ میں ٹکراتے رہے ، پر کسی نے ہمیں روکا نہیں
دیکھ کر ہم کو ایس ایچ او کہنے لگا ، آج ناکے کا کوئی خطرہ نہیں

تم نے جو لوٹنا ہے لوٹو جگر ، میں آنکھیں تم سے چراتا رہوں ۔ ۔
تم اگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چھوٹی موٹی چوری سے اب تو ادھر ، اپنا ہوتا اب گذارہ نہیں
کوئی لوٹوں بینک تو سوچوں گا میں ، مجھ سا کوئی بھی دارا نہیں

پولیس یونہی رشوت کھاتی رہے ، میں جی بھر کہ انکو کھلاتا رہوں
تم ۔ ۔ ۔ ۔

میں نے اکیلے بہت ڈاکے مارے مگر، اب مال زیادہ مجھ سے اٹھتا نہیں
جب تلک کوئی ڈاکو سہارا نہ ہو ، کام ڈاکے کا ایسے چلتا نہیں

ساتھ ملکے مرے تم مجرم بنو ، میں جیل میں آتا جاتا رہوں
تم اگر ۔۔ ۔

(اب ذرا اسے گا کر دیکھنا مزہ نہ آئے تو پوسٹ واپس)
:twisted:
 

اظہرالحق

محفلین
محفل میں کچھ خاموشی لگی تو ناصر کاظمی کا شعر یاد آیا

بے نو ر بہت ہو چکی ہے شہر کی فضا
تاریک راستوں میں کہیں کھو نہ جائیں ہم
اسکے بنا تو دل بہت ہی اداس ہے
ناصر چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم

یعنی ۔ ۔ ۔ کچھ یوں ہو کہ

چپ بہت سادھ لی ہے محفل نے ادھر
ہنسنا کہیں بھول ہی نہ جائیں ہم
کچھ تو کہو کہ دل بہت ہی اداس ہے
اظہر کہیں سے خوشی ڈھونڈ لائیں ہم

اور پھر

ہنسو آج اتنا کہ اس شور میں
صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے
 

شمشاد

لائبریرین
پہلے اُس نے مُس کہا پھر تق کہا پھر بل کہہ دیا
اس طرح ظالم نے مستقبل کے ٹکڑے کر دیئے
 

جہانزیب

محفلین
لجیئے جناب دو شعروں کا ملغوبہ

اکبر الہ آبادی اور الطاف حیسن حالی کے اشعار کے دو مصرعے جوڑ کر کیا حاصل ہوتا ہے

کل بے پردہ نظر آئیں جو چند بیبیاں
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں


:lol:
 
کیا جوڑ لگایا ہے معنوی

اکبر الہ آبادی کا ہی ایک شعر

ہم ایسی کل کتابوں‌کو قابل ضبطی سمجھتے ہیں
جن کو پڑھ کر بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
پڑھ رہا ہوں اک بیمہ کمپنی کا اشتہار
قبر دیتی ہے جو زندہ مرنے والوں کو ادھار

مرنا برحق ہے مگر ہو سنگِ مرمر کا مزار
مہنگا روئے ایک بار اور سستا روئے بار بار
(سید ضمیر جعفری)
 

اظہرالحق

محفلین
تو میرے نال ویاہ کر کڑیے ، تینوں پیار فئیر کراں گا
کجھ عرصہ نباہ کر کڑیئے ، تینوں پیار فئیر کراں گا

میری نوکری دا کجھ وی پروسہ نئیں ، اج ہے کل نئیں
تو بزنس لئے کجھ راھ کر کڑیے ، تینوں پیار فئیر کراں گا

جہیز دی کجھ ڈیٹیل دے ، ابے کولوں بینک میل دے
مینوں فقیر توں شاہ کر کڑیے ، تینوں پیار فئیر کراں گا

تیرے رشتے داراں تے مینوں تے پروسہ نئیں ، سچی مچی
اظہر نوں تو گواہ کر کڑیے ، تینوں پیار فئیر کراں گا
 

شمشاد

لائبریرین
کوئی منشور ہے اُن کا نہ کوئی پالیسی اُن کی
نہ ان کی پیروی میں دیکھنا ہم بھی بھٹک جائیں
مفادِ قوم سے ناآشنا، کردار سے عاری
یہ بے پیندی کے لوٹے ہیں، جدھر چاہیں لڑھک جائیں
(عنایت علی خان)
 
یہ بکھری بکھری زلفیں
یہ اڑتا ہوا آنچل
اداس میری بیوی
ادھر میری ساس
جیسے ویرانے میں الو
جیسے جنگل میں شیر
جیسے شیں، شیں
شوں۔ شوں
شاں، شاں

ہمارے کالج کے زمانے کا قومی ترانہ جو سارے دوست کورس میں ایک ساتھ گایا کرتے تھے۔ آج پھر یاد آگیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
پجیرو بھی کھڑی ہے اب تو اُن کی کار کے پیچھے
عظیم الشان بنگلہ بھی ہے سبزہ زار کے پیچھے
کہاں جچتی ہے دیسی گھاس اب گھوڑوں کی نظر میں
کہ سرپٹ دوڑتے پھرتے ہیں وہ معیار کے پیچھے
(انور مسعود)
 

ماوراء

محفلین
ذرا پہلے اسے قسمت کا تارہ دیکھتے رہنا
جو شادی ہو گئی تو پھر خسارہ دیکھتے رہنا

محبت آجکل کے دور میں ایسی اذیت ہے
سمندر میں کھڑے ہو کر کنارا دیکھتے رہنا

ذرا سی دیر میں کیسی مرمت مفت میں ہو گی
کسی لڑکی کو بھی کر کے اشارہ دیکھتے رہنا

تمھیں کس نے کہا تھا ایسے تھیلے سے کرو شادی
میاں اب عمر بھر یہ ہی غبارہ دیکھتے رہنا

غزل ہے ساتویں، کوئی مکرر کہہ نہیں سکتا
سر محفل ہمیں کس نے پکارا دیکھتے رہنا۔​
 
Top