مری والو اپنا رویہ بدلو ۔۔۔آپ کیا کہتے ہیں؟

محمد وارث

لائبریرین
یہ کسی نے مری کے ایک ہوٹل کا بِل شیئر کیا ہے۔ پکوڑے 600 روپے کلو، اور کوک جس کی قیمت 80 روپے ہے وہ 160 کی۔ اس پر مستزاد یہ کہ سروس چارجز بھی ڈالے گئے ہیں!

31957824_10204554263572290_4045125367604707328_n.jpg
 
یہ کسی نے مری کے ایک ہوٹل کا بِل شیئر کیا ہے۔ پکوڑے 600 روپے کلو، اور کوک جس کی قیمت 80 روپے ہے وہ 160 کی۔ اس پر مستزاد یہ کہ سروس چارجز بھی ڈالے گئے ہیں!

31957824_10204554263572290_4045125367604707328_n.jpg
بھائی جان نے خریدنے سے پہلے قیمت پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بھائی جان نے خریدنے سے پہلے قیمت پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
صدیقی صاحب آپ بھی جانتے ہونگے کہ ایسے موقعوں پر ایسا اکثر نہیں ہوتا۔ رش لگا ہوتا ہے اور ہر کوئی بھیڑ چال میں مصروف۔ اور اگر پوچھ بھی لیا ہوگا اور مجبوری میں خرید بھی لیا ہوگا تو کیا بیچنے والی کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے کہ وہ لوگوں کو مجبوری کے عالم میں جس نرخ پر جو چاہے بیچے!
 

آصف اثر

معطل
صدیقی صاحب آپ بھی جانتے ہونگے کہ ایسے موقعوں پر ایسا اکثر نہیں ہوتا۔ رش لگا ہوتا ہے اور ہر کوئی بھیڑ چال میں مصروف۔ اور اگر پوچھ بھی لیا ہوگا اور مجبوری میں خرید بھی لیا ہوگا تو کیا بیچنے والی کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے کہ وہ لوگوں کو مجبوری کے عالم میں جس نرخ پر جو چاہے بیچے!
جب کہ اس طرح آرڈر دینے سے پہلے ایک ایک چیز کا نرخ پوچھنا معیوب بھی سمجھا جاتاہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے ذاتی خیال میں حکومت کو اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیئے۔ اور جیسے پورے ملک میں دیگر اشیا کی قیمتیں چیک کی جاتی ہیں یہاں بھی کرنی چاہئیں۔ اگر بیچنے والوں نے من مانی ہی کرنی ہے اور اپنا "سیزن" ہی لگانا ہے تو پھر ہر کسی کو کھلی چھوٹ دو، پھر تو دوائیاں بیچنے والے سب سے زیادہ رقم بنا سکتے ہیں، ان پر چیک کیوں ہے اور مری (اور اس جیسے دیگر مقامات) والوں کو کھلی چھٹی کیوں ہے!
 

عباس اعوان

محفلین
منافع خوری میں کوئی قباحت نہیں، دنیا کے تمام بزنس منافع کے لیے ہی ہوتے ہیں۔
لیکن میرا تجربہ زیادہ تر یہ رہا کہ سیاحتی مقامات پر بہت ناجائز منافع کشید کیا جاتا ہے،لوگ بھی مجبور ہوتے ہیں کہ جائیں تو کہاں جائیں۔
موبائل کارڈ، کولڈ ڈرنک وغیرہ پر تو اس قدر منافع کی کوئی تُک ہی نہیں بنتی۔ گلگت وغیرہ کے بارے میں اگرچہ اچھی باتیں سنی ہیں۔
 
بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ یہ نہ صرف تمام سیاحتی مراکز کا مسئلہ ہے، بلکہ عام شہروں میں بھی ذرا اونچی دکان پر چلے جائیں تو 150 کا منرل واٹر مل رہا ہوتا ہے۔
صرف مری ہی ہدف کیوں۔
 

اے خان

محفلین
پچھلے سال یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ مری جانا ہوا تو ایک ہوٹل نما کیبین میں بیٹھ کر گول گپے اور چاٹ کھایا بل میں چاٹ کی قیمت 250 اور گول گپوں کی قیمت 160 تھی شاید۔۔۔50 روپے سروس کے۔۔۔۔۔وہی چاٹ دوسرے شہروں میں 60 یا 50 کا اور گول گپے تو یہاں مردان میں اے سی کمرے میں بیٹھ کر 50 روپے کے ملتے ہیں۔البتہ ایک تنگ سی گلی میں ہوٹل تھا جہاں دوپہر کا کھنا کھایا تھا اور ایک دو گھنٹہ آرام بھی ان کی سروس بہت اچھی اور عملہ کافی خوش اخلاق تھا۔اور پیسے بھی معمول کے مطابق تھے۔
 
پچھلے سال یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ مری جانا ہوا تو ایک ہوٹل نما کیبین میں بیٹھ کر گول گپے اور چاٹ کھایا بل میں چاٹ کی قیمت 250 اور گول گپوں کی قیمت 160 تھی شاید۔۔۔50 روپے سروس کے۔۔۔۔۔وہی چاٹ دوسرے شہروں میں 60 یا 50 کا اور گول گپے تو یہاں مردان میں اے سی کمرے میں بیٹھ کر 50 روپے کے ملتے ہیں۔البتہ ایک تنگ سی گلی میں ہوٹل تھا جہاں دوپہر کا کھنا کھایا تھا اور ایک دو گھنٹہ آرام بھی ان کی سروس بہت اچھی اور عملہ کافی خوش اخلاق تھا۔اور پیسے بھی معمول کے مطابق تھے۔
بس بھائی 95 فیصد مری کے دکانداروں کی وجہ سے 5 فیصد بھی بدنام ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
پچھلے سال یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ مری جانا ہوا تو ایک ہوٹل نما کیبین میں بیٹھ کر گول گپے اور چاٹ کھایا بل میں چاٹ کی قیمت 250 اور گول گپوں کی قیمت 160 تھی شاید۔۔۔50 روپے سروس کے۔۔۔۔۔وہی چاٹ دوسرے شہروں میں 60 یا 50 کا اور گول گپے تو یہاں مردان میں اے سی کمرے میں بیٹھ کر 50 روپے کے ملتے ہیں۔البتہ ایک تنگ سی گلی میں ہوٹل تھا جہاں دوپہر کا کھنا کھایا تھا اور ایک دو گھنٹہ آرام بھی ان کی سروس بہت اچھی اور عملہ کافی خوش اخلاق تھا۔اور پیسے بھی معمول کے مطابق تھے۔
یہ کیبن اِن کو کافی قیمت کی ادائیگی کے بعد مِلتا ہے اور شاید انہیں ماہانہ کرائے کی مد میں بھاری رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ تاہم، اِن کی ناجائز منافع خوری اور سیاحوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ جواز انتہائی ناکافی ہے۔ یہ تو سچ مچ ایک المیہ ہے۔ صرف مری ہی نہیں، دیگر تفریحی مقامات پر بھی دکان داروں اور اسٹال یاکیبن برداروں کا یہی رویہ عام دیکھنے کو ملتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ڈاکٹر شاہد 'قیامت' مسعود کا اس موضوع پر ایک تبصرہ، انکی فیس بُک وال سے (اللہ ہی جانے یہ اکاؤنٹ اصل ہے یا نہیں، لیکن تبصرہ متعلقہ ہے):


"اسٹیل کی کیلیں .... مری والوں کی مہمان داری
یہ مری مال روڈ کا ایک بداخلاق ہوٹل "[----]" ہے. اس ریسٹورنٹ کے سامنے بے شمار کرسیاں خالی بھی رہتی ہیں، لیکن اگر آپ ان کے گاہک نہیں ہیں اور چند منٹ سستانے کیلئے کسی کرسی پر بیٹھنا چاہیں تو ان کے منحوس ویٹر فوراً آپ کو اٹھانے کیلئے آجائیں گے... مزے کی بات یہ ہے کہ ریسٹورنٹ کے سامنے ہی کچھ سیمنٹ کے بیریئرز بھی رکھے ہے لیکن اس خدشے کے پیش نظر کہ لوگ کہیں ان پر بیٹھ نہ جائیں، ان پر اسٹیل کی کیلیں ٹھونک دی گئی ہیں."

32104767_656682918014856_3507119733835038720_n.png
 
Top