کاشفی

محفلین
مرثیہ شہادت امام حسین علیہ السلام
(علامہ ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی)

مالک سلطنتِ صبرو شجاعت تھے حسین
عارفِ دبدبہء عزمِ شہادت تھے حسین
وارث عظمتِ سرکارِ رسالت تھے حسین
جانِ زہرا و علی، نازِ مشیت تھے حسین
حیف جس کا کوئی کونین میں ثانی نہ ملا
زیر شمشیرِ ستم اُس کو بھی پانی نہ ملا

یوں تو ہر بیکس و مضطر کا سہارا تھے حسین
سارا عالم تھا مریض اور مسیحا تھے حسین
دردِ تنہائیِ آدم کا مداوا تھے حسین
عصر کے وقت مگر بیکس و تنہا تھے حسین
ہر ستمگر تھا نئے ظلم کا ڈھانے والا
اور نہ تھا کوئی بیکس کا بچانے والا

ہائے وہ وقت کہ جب تھے تہِ شمشیر حسین
مُنہ کے بل خاک پہ تھا فاطمہ کا نورِ عین
دشت میں گونج رہے تھے کسی غمخوار کے بین
اب تو جنت میں بھی ممکن نہیں ماں کے لئے چین
شمر کچھ سوچ کہاں تیری جفا پہنچی ہے
فاطمہ خلد سے سر پیٹتی آ پہنچی ہے

کوئی باقی نہیں سیّد کا بچانے والا
جلتی ریتی سے نہیں کوئی اُٹھانے والا
آفتیں لاکھ ہوں کوئی نہیں آنے والا
نہیں مقتل میں کوئی یہ بھی بتانے والا
ظالمو خاک پہ جو دھوپ میں افتادہ ہے
یہ تمہارے ہی پیمبر کا نبی زادہ ہے

خاک پر گر کے ہوئے اس طرح بےہوش حسین
لب بھی ہلتے نہیں یوں ہوگئے خاموش حسین
کرکے اس سارے زمانے کو فراموش حسین
ماں کے نالوں پہ ہوں جیسے ہمہ تن گوش حسین
پانی وہ کیسے دم تشنہ دہانی مانگے
جس کی گردن پہ چلے تیغ تو پانی مانگے

کون بتلائے کہ کیا ثانی زہرا کا تھا حال
خاک پر بیٹھی تھی اور ضعف سے چہرہ تھا نڈھال
لب تھے یوں خشک کہ باقی نہ رہی تابِ مقال
بیکسی شاہ کی کرتی تھی اگر کوئی سوال
عالمِ سکتہ میں شبیر کی شیدائی تھی
فاطمہ خلد سے گھبرا کے نکل آئی تھی

کانپتی تھی یہ زمیں عرش بھی تھرّاتا تھا
شمر شمشیرِ ستم اس طرح چمکاتا تھا
نہ حیا کرتا تھا ظالم، نہ ترس کھاتا تھا
پردہ خیمے کا جو اُٹھاتا تھا تو گرجاتا تھا
بہر شبیر قیامت کی گھڑی جب آئی
یا علی کہتی ہوئی دشت میں زینب آئی

شمر شمشیرِ ستم لے کے سرہانے آیا
عرش ہلنے لگا، بیکس پہ ستم وہ ڈھایا
غرق خوں ہوگیا اس طرح نبی کا جایا
شام سے پہلے زمانے میں اندھیرا چھایا
ذبح یوں فاطمہ کا زینتِ آغوش ہوا
دفعتاَ مہرِ فلک شرم سے روپوش ہوا

گردن شاہ پہ یوں خنجر بیداد چلا
دیکھتے دیکھتے کونین کا نقشہ بدلا
ہوگیا عالم بالا میں بھی اک حشر بپا
ہر مَلک روتا ہوا جانب مقتل دوڑا
آل احمد پہ مصیبت کی وہ ساعت آئی
حشر سے پہلے زمانے میں قیامت آئی

یوں گرا دوش پیمبر کا مکیں مقتل میں
نوحہ پڑھنے لگے جبریل امیں مقتل میں
کس طرح کوئی نظر آتا کہیں مقتل میں
روح زہرا کے سوا کوئی نہیں مقتل میں
کہتی ہے بہر مدد آؤ دہائی بابا
لٹ گئی دشت میں کُل میری کمائی بابا
 
Top