مذاکرات: کامیابی کی ضمانت۔( جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کا حقائق کق ظاہر کرتا کالم)

ساقی۔

محفلین
author_1372559247.jpg


حالیہ دنوں میں‘اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کی شہ سرخیوں کے حوالے سے یہ مضمون لکھ رہا ہوں۔ ان شہ سرخیوں کے مطابق ’’مسلم لیگ (ن) کے ارکان پارلیمنٹ نے طالبان کیخلاف فوجی آپریشن کی شدیدخواہش کا اظہار کیا ہے۔‘‘مجھے یقین کامل ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ملکی یک جہتی اور سلامتی کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا۔پختونوں کی تاریخ اور 2004ء میں جنوبی وزیرستان میں کئے جانے والے فوجی آپریشن کے نتائج کا تقاضا ہے کہ مسئلے کا حل فوجی آپریشن نہیں بلکہ سیاسی افہام و تفہیم ہے ۔ڈیورنڈ لائن1893 ء میں ہندوستان کے برطانوی حکمران اور افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمن خان کے دور میں کھینچی گئی تھی۔ اس کا مقصد پختون قوم کو تقسیم کرنا تھا لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا کیونکہ افغانستان کے بادشاہ کو حکمرانی کیلئے ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف میں بسنے والے قبائل کی منظوری حاصل کرنا لازمی ہے۔1970ء کی دہائی میں سوویٹ روس نے کابل میں اپنی من پسند حکومت قائم کی جسے مجاہدین کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اورمجاہدین کے ساتوں قائدین کی مشترکہ جدوجہد سے اس حکومت اور روس کو ذلت آمیز شکست اٹھانا پڑی۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ مجاہدین کی کوششوں اور قربانیوں سے حاصل کی جانے والی فتح کے بعد انہیں کابل پر حکمرانی کا حق دیا جاتا لیکن انکے ساتھ دھوکا کیا گیا اور یوں افغانستان کو خانہ جنگی میں دھکیل دیا گیا۔اس خانہ جنگی کے دوران ملا عمر کی قیادت میں پختونوں کی مزاحمتی قوت ابھری جسے عرف عام میں ’طالبان‘ کہا جاتا ہے۔ اس قوت نے1996ء سے 2001ء تک کے عرصے میں افغانستان کے بیشتر علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیاتھا اوریہی وہ وقت تھا جب امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کیا اوراپنا تسلط قائم کر لیا۔2003 ء میں جلال الدین حقانی پاکستان کے دورے پر آئے تھے ۔ مجھے ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ دوران ملاقات انہوں نے مجھے بتایا کہ طالبان اور مجاہدین باہمی اتحاد سے قابض فوجوں کیخلاف مشترکہ جنگ کیلئے آمادہ ہو چکے ہیں۔ میں نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ افغانستان میں قیام امن اور جمہوریت کے قیام کیلئے انہیں امریکی ایجنڈے کو قبول کر لینا چاہیئے کیونکہ افغانستان میں پختونوں کو اکثریت حاصل ہے جسے اس جمہوری نظام میں اقتدار اور حکمرانی کا حق مل جائیگا اور جنگ کی تباہ کاری کے بغیر مقاصد حاصل ہوں گے۔اس پر انہوں نے کوئی تبصرہ نہ کیا لیکن وعدہ کیا کہ وہ ملا عمر سے بات کر کے اس کا جواب دیں گے۔دو ماہ بعد مجھے ان کی جانب سے یہ جواب موصول ہوا: ’’ہم نے اپنی آزادی کے حصول کی خاطر آخری لمحے تک جنگ کا عزم کر رکھا ہے۔ قابض فوجوںکا ایجنڈا قبول کرناہماری روایات ‘ قومی اقدار اور نظریے کے خلاف ہے۔اگر اللہ نے چاہا تو ہم اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک کہ ہم اپنی آزادی حاصل نہ کر لیں‘ چاہے پاکستان ہمارا ساتھ نہ بھی دے۔‘‘طالبان منظم ہوئے اور بارہ سال کی جنگ کے بعد ملا عمر کی زیر قیادت طالبان نے دنیا کی عظیم ترین طاقت کے خلاف جنگ جیت لی ہے اور جارح قوتیں پسپاہو چکی ہیں۔ اب کابل میں حکومت بنانے سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ شمالی اتحاد اور کرزئی بھی ان کے ساتھ شامل ہو جائینگے ۔ اس طرح طالبان کی یہ حکومت 1996-2001میں قائم ہونیوالی حکومت سے کہیں ز یادہ مستحکم اور پر اعتماد ہوگی کیونکہ مجاہدین کی پہلی حکومت سات جماعتوںکے اتحاد پر مشتمل تھی جو سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے زیر سایہ کام کر رہے تھے لیکن اب وہاں صرف ایک لیڈر ملا عمرہے۔ جو انکے کمانڈربھی ہیں اور لیڈر بھی۔اسکے علاوہ ایک اور بھی نمایاں فرق ہے کہ طالبان کے حریت پسندوں کی اکثریت ان نوجوانوں پر مشتمل ہے جو گذشتہ تین دہائیوں میں جنگ و جدل کے سائے میں پلے بڑھے ہیں اور انہیں زندگی کی کوئی آسائش میسر نہیںرہی ہے۔وہ صرف لڑنا جانتے ہیں جس کا انہیں کئی دہائیوں کا تجربہ ہے اور یہی نوجوان اس تحریک کے روح رواں ہیں۔
طالبان کو افغانستان کے تقریباً 90 فیصد علاقوں پر کنٹرول حاصل ہے جہان انہوں نے اپنی عملداری قائم کر رکھی ہے اور ان کااپنا قانون رائج ہے۔پاکستان میں بسنے والے پچیس ملین پختونوں اور افغانستان کے سترہ ملین پختونوں کی اقدار و روایات مشترک ہیں۔افغانستان میں کسی بھی حکمران کیلئے ان دونوں فریقین کی رضامندی کے بغیر حکومت قائم کرنا ناممکن ہے۔اب ان کا اثرورسوخ اسلام آباد تک پھیل چکا ہے جو ایک اہم تذویراتی تبدیلی ہے۔

جنرل مشرف کو امریکیوں نے وزیرستان کے جال میں پھنسایا تھا۔انہیں بتایا گیا تھا کہ راولپنڈی میں ان پر کئے جانیوالے قاتلانہ حملوں کا ماسٹر مائنڈ جنوبی وزیرستان میں ہے۔ یوں بلا سوچے سمجھے جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی منظوری دے دی گئی جس کے سبب ہزاروں قبائلی قتل ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ وہا ں سے ہجرت کر کے ملک کے مختلف علاقوں میں پناہ گزیں ہو گ
ئے۔یہ عمل ابھی تک جاری ہے ۔ان اندرون ملک بے گھر کئے جانے والوں کی صفوں میں مسلح دہشت گرد بھی شامل ہو کر کراچی‘ پشاور‘ کوئٹہ اور لاہور میں پناہ گزیں ہو گئے ہیں اور دہشت گردی کی مختلف کاروائیوں میں ملوث ہیں۔حالیہ دنوں میں شمالی وزیرستان میں کی جانیوالی فوجی کاروائی کے بعد بھی تقریباً پندرہ سو خاندان وہاں سے ہجرت کر کے خیبر پختون خواہ کے شہروں اور قصبوں میں پناہ گزیں ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال میں اگرشمالی وزیرستان میں بھرپور فوجی آپریشن کیا گیا توبے گھر ہونے والوں کا سیلاب آئے گا اور امن وامان کی صورت حال انتہائی بگڑ جائے گی جسے سنبھالنا ناممکن ہوگا۔

عام طور پر یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان قابل اعتبار نہیں لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے کیونکہ انکے ساتھ متعدد مواقع پر دھوکا کیا گیا۔ 2004ء میں جب کہ معاہدہ طے پا چکا تھا تو دوسرے ہی دن مولوی نیک محمد کو ڈرون حملے میں مار دیا گیا۔ایسی ہی کاروائی تین مرتبہ دہرائی گئی اور بیت اللہ محسود‘ حکیم اللہ محسود اورولی الرحمن کو قتل کر کے مفاہمتی عمل کو سبوتاژ کیا گیا۔فوجی قیدیوں کے تبادلے اور معاوضے کی ادائیگی کا بھی ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں300 فوجی قیدی تو رہا کرا لئے گئے لیکن معاوضے کی ادائیگی نہیں کی گئی۔اس کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے خیبر پختون خواہ کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل اورکزئی نے استعفی دے دیا تھا۔تین اور مواقع پر قیدیوں کے تبادلوں کے معاہدے طے پائے تھے جن کے تحت طالبان نے ہمارے قیدیوں کو رہا کردیا تھا لیکن بدلے میں طالبان قیدیوں کو رہا نہیں کیا گیا

۔ایک پیچیدگی لوگوں کے ذہن میں اور بھی ہے ۔ وہ افغان طالبان کی قوت کو تحریک طالبان پاکستان کا پشت پناہ سمجھ رہے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ افغان طالبان ایک اور ہی قوت کے نمائندے ہیں جس نے اب تک دنیا کی بڑی قوتوں کو شکست دی ہے۔ یہ قوت پختون قوت ہے جوکوہ ہندو کش سے لیکر کراچی تک پھیلی ہوئی ہے ۔جب امریکہ ‘ افغانستان سے نکلے گا تو یہ قوت امت مسلمہ کا ہراول دستہ ہوگی۔ اسلام کے دشمن اس قوت سے خوف زدہ ہیں اور اسے ایک دوسری قوت‘ شیعہ قوت سے لڑانا چاہتے ہیں جو ایران ‘ عراق‘ شام‘ بحرین کے علاوہ سعودی عرب‘ خلیجی ممالک اور پاکستان میں اقلیت کی صورت میں موجود ہے۔


اسلام دشمن ہر جگہ فرقہ وارانہ تصادم دیکھنا چاہتا ہے۔پاکستان میں بھی اسی فرقہ وارانہ تصادم کو ہوا دی جا رہی ہے۔ جہاں فرقہ وارانہ تصادم کا حربہ کام نہیں آتا وہاں نسلی عصبیت کو ہوا دی جاتی ہے۔ امریکہ ایک ایسے موقع پر جب وہ افغانستان سے شکست کھا کر نکل رہا ہے تو اس کی خواہش ہے کہ اس خطے میں بد امنی رہے اور یوں وہ اپنی شکست کا بدلہ لے سکے۔

پاکستان کو انتہائی مشکل مسائل کا سامنا ہے ‘ ان مسائل کے باوجو د ایک نیا محاذ کھولنا کسی طور دانشمندی نہیں ہوگی۔بہتر یہی ہوگا کہ قیام امن کی خاطر بات چیت کے عمل میں خیبر پختون خواہ کی حکومت کو بھی شامل کیا جائے۔طالبان کی جانب سے قیام امن کیلئے مذاکرات پر آمادگی کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے باہمی اعتماد پر مبنی فضا قائم کی جائے تاکہ قیام امن کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوں۔

قیام امن کی خاطرحکومت کی جانب سے چار رکنی ٹیم کا اعلان نہایت خوش آئند ہے۔ اس ٹیم کے اراکین قابل اعتماد اور اہل شخصیات ہیں۔لازم ہے کہ مسائل کو پرامن طور پر حل کرنے کی راہ اپنائی جائے جس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس جنگ سے علیحدہ کر لیں جو ایک سازش اورسفارتکاری کے منفی ہتھکنڈوں کو استعمال کر کے ہم پر تھونپی گئی ہے۔اس جنگ سے نجات حاصل کرنے کیلئے ہمارے پاس قائد اعظم کی اس منطق کی جانب واپس آنے کے علاوہ اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے کہ: ’’افغانستان کیساتھ ملحق ہماری سرحدوں کی حفاظت وہاں کے قبائل کی اپنی ذمہ داری ہے۔یہ ذمہ داری انہیں کو سونپ دو۔‘‘


ربط
 

ساقی۔

محفلین
لگتا ہے جنرل(ر) اسلم بیگ بھی طالبان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ۔:chatterbox:








جلنے والے" برنال "کا انتظام کر لیں۔:liquor:
 
جنرل اسلم بیگ کی رائے کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن پاکستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں جن بے گناہوں کا خون بہا ہے اسکا مداوا بھی ہونا چاہئے!
 
کالم میں کافی چیزیں حقائق کے منافی لگ رہی ہیں۔۔۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ شمالی اتحاد طالبان کے ساتھ مل چکا ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ یہ کہنا کہ اب چونکہ طالبان کا ایک ہی لیڈر اور کمانڈر ہے، اسلئے آنے والی طالبان کی حکومت پہلی سے زیادہ مستحکم ہوگی، تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ کمانڈر تو پہلے بھی طالبان کا ایک ہی تھا یعنی ملا عمر، تو پھر یہ کیسے نتیجہ نکلا کہ پہلی حکومت سے زیادہ مستحکم ہوگی آنے والی حکومت؟
تیسرا یہ کہنا کہ جنوبی وزیرستان میں جنرل مشرف کو امریکیوں نے پھنسایا، مجھے تو اس بات کی کوئی سمجھ نہیں آئی۔ جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے، یہ جنوبی وزیرستان کا اپریشن کیانی کی زیر قیادت زرداری کے دور میں شروع ہوا تھا۔ اس میں جنرل مشرف کہاں سے؟
چوتھے یہ کہنا کہ ٹی ٹی پی والے تو مخلص تھے ، انکے ساتھ دھوکہ کیا گیا اور مذاکرات کے ساتھ ہی انکے کمانڈر کو ماردیا گیا، تو بھائی کیا یہ پاکستان نے مارا ہے؟ مذاکرات امریکہ کے ساتھ نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ ہونے جارہے تھے امریکہ کے ساتھ نہیں۔ چنانچہ ٹی ٹی پی والوں کی کاروائیاں نہ تو پاکستان کے خلاف رکیں اور نہ ہی امریکہ کے خلاف، تو پھر فریقِ مخالف یعنی امریکہ کی کارروائی دھوکہ کیسے قرار پائی، اور پاکستان پر دھوکہ دہی کے الزام کی تو یہاں کوئی تُک ہی نہیں ہے۔
پانچویں بات بعد میں۔۔۔۔
 

ساقی۔

محفلین
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ شمالی اتحاد طالبان کے ساتھ مل چکا ہے؟

صاحب مضمون ہی بتا سکتے ہیں۔ جس منصب سےریٹائرڈ ہوئے ہیں اس سے تو یہی لگتا ہے بے سروپا بات نہیں کررہے ہوں گے گے۔ (واللہ علم)

دوسری بات یہ ہے کہ یہ کہنا کہ اب چونکہ طالبان کا ایک ہی لیڈر اور کمانڈر ہے، اسلئے آنے والی طالبان کی حکومت پہلی سے زیادہ مستحکم ہوگی، تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ کمانڈر تو پہلے بھی طالبان کا ایک ہی تھا یعنی ملا عمر، تو پھر یہ کیسے نتیجہ نکلا کہ پہلی حکومت سے زیادہ مستحکم ہوگی آنے والی حکومت؟

طالبان نے افغانستان پر سات سال حکومت کی ۔ پوری دنیا میں کھلے عام کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ اور یہ سات سال بھی خانہ جنگی پر قابو پاتے گزرے۔ناتجربہ کاری ، وسائل کی کمی اور سفارتی تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے انہیں منظر سے غائب ہونا پڑا۔ اب جب کہ انہوں اپنے دشمنوں کو شکست فاش دے دی ہے اور دشمنوں سے مذاکرات کرنے پر تیار نہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ ان کے پاس اتنی قوت و صلاحیت ہے کہ وہ ایک مستحکم حکومت بنا سکتے ہیں۔


تیسرا یہ کہنا کہ جنوبی وزیرستان میں جنرل مشرف کو امریکیوں نے پھنسایا، مجھے تو اس بات کی کوئی سمجھ نہیں آئی۔ جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے، یہ جنوبی وزیرستان کا اپریشن کیانی کی زیر قیادت زرداری کے دور میں شروع ہوا تھا۔ اس میں جنرل مشرف کہاں سے؟

مشرف کو اس وقت پھنسایا گیا تھا وزیرستان میں جب کمانڈر نیک محمد کو حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔یہ 2004 کی بات ہے۔ اگر آپ پوری تفصیلات جاننا چاہتے ہیں تو ادارہ النور والوں کی شائع کردہ دو جلدوں پر مشتمل "تاریخ افغانستان"پڑھ سکتے ہیں ۔

چوتھے یہ کہنا کہ ٹی ٹی پی والے تو مخلص تھے ، انکے ساتھ دھوکہ کیا گیا اور مذاکرات کے ساتھ ہی انکے کمانڈر کو ماردیا گیا، تو بھائی کیا یہ پاکستان نے مارا ہے؟ مذاکرات امریکہ کے ساتھ نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ ہونے جارہے تھے امریکہ کے ساتھ نہیں۔ چنانچہ ٹی ٹی پی والوں کی کاروائیاں نہ تو پاکستان کے خلاف رکیں اور نہ ہی امریکہ کے خلاف، تو پھر فریقِ مخالف یعنی امریکہ کی کارروائی دھوکہ کیسے قرار پائی، اور پاکستان پر دھوکہ دہی کے الزام کی تو یہاں کوئی تُک ہی نہیں ہے۔

پاکستانی علاقوں میں بسنے والے پاکستانیوں کی حفاظت کس کے ذمے ہے؟؟
بے شک ڈارون حملے امریکہ کرتا ہے مگر اجازت کس نے دے رکھی ہے؟؟

جب امریکہ انہیں مارے گا تو کیا وہ وہ چپ کر کے بیٹھے رہیں گے۔ جب مذاکرات ہونے جا رہے تھے تو امریکہ نے حملہ کر کے ان کو کھڈے لائن لگا دیا۔ پاکستان نے اس حملے پر کیا بگاڑ لیا امریکہ کا؟
مذاکرات تو تبھی کامیاب ہوں گے جب پاکستان امریکیوں کو پاکستان میں غیر قانونی اور بلا جواز حملے کرنے سے روکے گا۔
 

ساقی۔

محفلین
جنرل اسلم بیگ کی رائے کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن پاکستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں جن بے گناہوں کا خون بہا ہے اسکا مداوا بھی ہونا چاہئے!

بے شک بے گناہوں کے خون کا حساب ہونا چاہیے ۔ چاہے دشت گرد کوئی بھی کیوں نہ ہو۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کالم میں کافی چیزیں حقائق کے منافی لگ رہی ہیں۔۔۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ شمالی اتحاد طالبان کے ساتھ مل چکا ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ یہ کہنا کہ اب چونکہ طالبان کا ایک ہی لیڈر اور کمانڈر ہے، اسلئے آنے والی طالبان کی حکومت پہلی سے زیادہ مستحکم ہوگی، تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ کمانڈر تو پہلے بھی طالبان کا ایک ہی تھا یعنی ملا عمر، تو پھر یہ کیسے نتیجہ نکلا کہ پہلی حکومت سے زیادہ مستحکم ہوگی آنے والی حکومت؟
تیسرا یہ کہنا کہ جنوبی وزیرستان میں جنرل مشرف کو امریکیوں نے پھنسایا، مجھے تو اس بات کی کوئی سمجھ نہیں آئی۔ جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے، یہ جنوبی وزیرستان کا اپریشن کیانی کی زیر قیادت زرداری کے دور میں شروع ہوا تھا۔ اس میں جنرل مشرف کہاں سے؟
چوتھے یہ کہنا کہ ٹی ٹی پی والے تو مخلص تھے ، انکے ساتھ دھوکہ کیا گیا اور مذاکرات کے ساتھ ہی انکے کمانڈر کو ماردیا گیا، تو بھائی کیا یہ پاکستان نے مارا ہے؟ مذاکرات امریکہ کے ساتھ نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ ہونے جارہے تھے امریکہ کے ساتھ نہیں۔ چنانچہ ٹی ٹی پی والوں کی کاروائیاں نہ تو پاکستان کے خلاف رکیں اور نہ ہی امریکہ کے خلاف، تو پھر فریقِ مخالف یعنی امریکہ کی کارروائی دھوکہ کیسے قرار پائی، اور پاکستان پر دھوکہ دہی کے الزام کی تو یہاں کوئی تُک ہی نہیں ہے۔
پانچویں بات بعد میں۔۔۔ ۔
اور یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ پاکستانی فوجیوں کو رہا کرنے کے بدلے معاوضہ مانگا گیا تھا جو طالبان کو نہیں ملا :)
ویسے میرا خیال ہے کہ جنرل اسلم بیگ کو Bear Trap کا مطالعہ کرنا چاہئے جس میں ان کے بارے چند کافی اہم معلومات مہیا کی گئی ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
جب امریکہ انہیں مارے گا تو کیا وہ وہ چپ کر کے بیٹھے رہیں گے۔ جب مذاکرات ہونے جا رہے تھے تو امریکہ نے حملہ کر کے ان کو کھڈے لائن لگا دیا۔ پاکستان نے اس حملے پر کیا بگاڑ لیا امریکہ کا؟
مذاکرات تو تبھی کامیاب ہوں گے جب پاکستان امریکیوں کو پاکستان میں غیر قانونی اور بلا جواز حملے کرنے سے روکے گا۔
پس یہ ثابت ہوا کہ امریکہ اگر طالبان کو ہلاک کرتا ہے تو طالبان کے لئے پاکستانی عوام کا خون حلال ہے :)
 

ساقی۔

محفلین
پس یہ ثابت ہوا کہ امریکہ اگر طالبان کو ہلاک کرتا ہے تو طالبان کے لئے پاکستانی عوام کا خون حلال ہے

بالکل نہیں خون کسی بے گناہ کا حلال نہیں چاہے وہ امریکی ہو یا پا کستانی۔۔آپ نے شاید اوپر یہ نہیں پڑھا۔
بے شک بے گناہوں کے خون کا حساب ہونا چاہیے ۔ چاہے دشت گرد کوئی بھی کیوں نہ ہو۔

کیا قبائلیوں کا خون اتنا سستا ہے کہ امریکہ وہاں حملے کر کے بے گناہوں کو مارتا ہے؟؟۔ آپ نے بھی دیکھے ہوں گے معصوم بچوں کے چھیتڑے اڑے جسم۔!
 

قیصرانی

لائبریرین
بالکل نہیں خون کسی بے گناہ کا حلال نہیں چاہے وہ امریکی ہو یا پا کستانی۔۔آپ نے شاید اوپر یہ نہیں پڑھا۔

کیا قبائلیوں کا خون اتنا سستا ہے کہ امریکہ وہاں حملے کر کے بے گناہوں کو مارتا ہے؟؟۔ آپ نے بھی دیکھے ہوں گے معصوم بچوں کے چھیتڑے اڑے جسم۔!
یہ میرا بھی سوال ہے کہ پاکستانیوں کا خون اتنا سستا ہے کہ اسے بم دھماکوں میں ضائع کیا جائے؟ آپ نے قبائلی علاقے میں کتنے بچوں کو دیکھا ہوگا جن کے چیتھڑے اڑے جسم ہیں؟ اور کتنے پاکستان بھر میں تھے جو دکھائی نہیں دے رہے؟
اس بات سے متفق ہوں کہ کسی بے گناہ کا خون نہیں بہنا چاہئے :)
 

ساقی۔

محفلین
یہ میرا بھی سوال ہے کہ پاکستانیوں کا خون اتنا سستا ہے کہ اسے بم دھماکوں میں ضائع کیا جائے؟ آپ نے قبائلی علاقے میں کتنے بچوں کو دیکھا ہوگا جن کے چیتھڑے اڑے جسم ہیں؟ اور کتنے پاکستان بھر میں تھے جو دکھائی نہیں دے رہے؟
اس بات سے متفق ہوں کہ کسی بے گناہ کا خون نہیں بہنا چاہئے :)

پاکستانی چھوڑ میں نے تو بے گناہ امریکیوں کا خون بھی حلال نہیں کہا۔ اور آپ ہیں کہ کمبل کی طرح پیچھے ہی پڑ گئے ہیں ۔:)
 

میر انیس

لائبریرین
1655999_730195663679603_715780232_n.jpg

کیا ایسے ظالموں کو مسلمان سمجھنا اور انکی حمایت میں کالم پر کالم لکھنا ظالموں کے ہاتھ مضبوط کرنا نہیں ہے؟۔
 

سید ذیشان

محفلین
اسلم بیگ پاکستان کے چند ایک جاہل جرنیلوں میں اعلیٰ نمبر حاصل کر کے پہلے نمبر پر آتا ہے۔ دوسرے نمبر پر حمید گل ہے۔ پپو سروے۔
 
Top