مذاکرات: کامیابی کی ضمانت۔( جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کا حقائق کق ظاہر کرتا کالم)

x boy

محفلین
ہمیشہ وہی لوگ سر چڑ کر بولتےہیں
وہی کچھ لوگ ، اتنی بڑی بڑی باتیں کرنے والے یہ بتائیں کہ انکے خاندان سے کوئی مرا ہے اس جنگ میں یا حالت جنگ کا مناظر پیش کرنے والے پاکستان
میں۔
دور کے ڈھول سہانے ۔۔۔
 
صاحب مضمون ہی بتا سکتے ہیں۔ جس منصب سےریٹائرڈ ہوئے ہیں اس سے تو یہی لگتا ہے بے سروپا بات نہیں کررہے ہوں گے گے۔ (واللہ علم)

صاحب مضمون نے کالم کے شروع میں ہی عرض کردیا تھا کہ یہ کالم اخباروں کی شہ سرخیوں کو مدنظر رکھ کر لکھا گیا ہے۔ اور مجھے کہیں بھی یہ شہ سرخی نظر نہیں آئی کہ شمالی اتحاد اور طالبان کا اتحاد ہوگیا ہے۔۔چنانچہ بے سروپا بات
ہی ہوئی یہ۔


طالبان نے افغانستان پر سات سال حکومت کی ۔ پوری دنیا میں کھلے عام کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ اور یہ سات سال بھی خانہ جنگی پر قابو پاتے گزرے۔ناتجربہ کاری ، وسائل کی کمی اور سفارتی تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے انہیں منظر سے غائب ہونا پڑا۔ اب جب کہ انہوں اپنے دشمنوں کو شکست فاش دے دی ہے اور دشمنوں سے مذاکرات کرنے پر تیار نہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ ان کے پاس اتنی قوت و صلاحیت ہے کہ وہ ایک مستحکم حکومت بنا سکتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ میں یہ دعوی ہی تسلیم نہیں کرتا کہ طالبان نے دشمنوں کو شکستِ فاش دے دی ہے۔
خلقتِ شہر میں جس ہار کے چرچے ہیں بہت
میں وہ بازی کبھی کھیلا ہی نہیں تھا شائد۔۔۔۔
طالبان میں تو امریکی جارح افواج کا مقابلہ کرنے کی طاقت ہی نہیں تھی۔ چنانچہ جب امریکہ نے حملہ کیا اور اپنی افواج کو افغانستان میں اتارا تو تمام طالبان شہروں سے فرار ہوچکے تھے یعنی حکومت وقت نے اپنے شہریوں کو حملہ آور افواج کے رحم و کرم پر چھور کر بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔۔۔کیا اسکو فتح کہتے ہیں؟ شکر کریں کہ امریکہ نے انکی پناہ گاہوں پر کارپٹ بمباری نہیں کی اور یہ بھی صرف اسلئیے ہوا کہ یہ پناہ گاہیں پاکستان میں واقع تھیں۔۔۔اور پاکستانی حکومت جتنی بھی کمزور ہے، کم از کم اسکا اتنا فائدہ تو ان طالبان کو ہوا کہ محض پاکستانی علاقوں میں چھپنے کی وجہ سے یہ کارپٹ بمباری سے بچے رہے۔۔۔





پاکستانی علاقوں میں بسنے والے پاکستانیوں کی حفاظت کس کے ذمے ہے؟؟
بے شک ڈارون حملے امریکہ کرتا ہے مگر اجازت کس نے دے رکھی ہے؟؟
جن علاقوں میں پاکستانکے قانون کی عملداری ہی نہیں اور وہاں کے مکین پاکستان کی حکومت کے فیسلوں کو تسلیم ہی نہیں کرتے، پھر انکو یہ گلہ بھی نہیں کرنا چاہئیے۔۔۔
جب امریکہ انہیں مارے گا تو کیا وہ وہ چپ کر کے بیٹھے رہیں گے۔ جب مذاکرات ہونے جا رہے تھے تو امریکہ نے حملہ کر کے ان کو کھڈے لائن لگا دیا۔ پاکستان نے اس حملے پر کیا بگاڑ لیا امریکہ کا؟
مذاکرات تو تبھی کامیاب ہوں گے جب پاکستان امریکیوں کو پاکستان میں غیر قانونی اور بلا جواز حملے کرنے سے روکے گا۔
اچھا مارے امریکہ ، لیکن بدلے میں انتقام لیا جائے پاکستان سے۔۔۔جب یہ لوگ پاکستانی خارجہ پالیسی سے بغاوت کرتے ہوئے پاکستانی علاقے سے افغانستان میں جاکر کارروائیاں کریں گے اور جواب میں دشمن بھی کاروائی کرے گا تو پھر کس منہ سے پاکستان سے مدد کی توقع رکھتے ہیں۔۔۔جس اسلام کا نام لیتے ہیں اس مین تو اطاعتِ امیر اور اولوالامر کی اطاعت کا حکم ہے۔۔۔یہاں تو جس قبائلی کے ہاتھ میں کل؛اشنکوف ہوتی ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میں ہی صلاح الدین ایوبی ہوں۔۔۔۔
 

ساقی۔

محفلین
چلو بھائیوں کرتے جاو انکار ۔۔۔ اور دیکھتے رہو منا بھائی ایم بی بی ایس۔
دس دن میں افغانستان کو فتح کرنے والے ۱۳ سال بعد بوری بسترا گول کر رہے ہیں ۔
اک ذرا صبر کہ صبر کے دن تھوڑے ہیں۔:onthephone:۔
 
دس دن میں افغانستان کو فتح کرنے والے ۱۳ سال بعد بوری بسترا گول کر رہے ہیں ۔
اک ذرا صبر کہ صبر کے دن تھوڑے ہیں۔:onthephone:۔
کیونکہ انہوں نے اپنے اہداف حاصل کتلئیے ہیں، افغانستان کو کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیا ہے، پاکستان میں خانہ جنگی کے ٹائم بم جگہ جگہ لگادئیے ہیں، روسی ریاستوں سے گوادر کے ذریعے سامان تجارت کی نقل و حمل کو ناممکن بنادیا ہے، اور افغانستان میں اپنے فوجی اڈے تعمیر کرلئیے ہیں جہاں انکی افواج 2014 کے بعد تک بھی براجمان رہیں گی۔۔۔آپ شوق سے اسے اپنی فتح اور دشمن کی شکست سمجھتے رہئیے۔۔۔۔مجھے ایک حکایت یاد آگئی جو طالبان ہی کے مکتبِ فکر کے ایک عالم کے ملفوظات میں سے پڑھی تھی :
کہتے ہیں کہ ایک افغانی سیرو سیاحت کرتا ہوا ہندوستان آپہنچا۔ شہروں کی گہما گہمی اور چکا چوند دیکھ کر کافی حیرون ہوا۔ بازاروں میں چلتے چلتے کسی مٹھائی کی دوکان پر سے گذرا تو مٹھائی دیکھ کر منہ میں پانی بھر آیا۔ خان صاحب نے بے تکلفی سے ہاتھ بڑھا کر چند گلاب جامن تناول فرمالئیے اور جب حلوائی نے پیسے مانگے تو صرف گھور کر دیکھنے پر اکتفا کی اور فرمایا کہ پیسے نہیں ہیں کرلو جو کرنا ہے۔ ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دکاندار نے شور مچا کر بازار کے دوسرے دکانداروں کو اکٹھا کیا اور خان صاحب ک ی کافی خاطر تواضع کی گئی ۔ کچھ عرصے بعد جب خان صاحب وطن واپس پہنچے تو دوستوں نے پوچھا کہ سناؤ کیسی رہی سیاحت، بتاؤ ہندوستان کیسا ملک ہے۔ جواب میں کہنے لگے :
" ہندوستان کی کیا پوچھتے ہو دوستوع، میں نے ایسا عجیب ملک پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ وہاں کے لوگ بھی بہت عجیب ہیں۔ میں نے ایک جگہ سے کچھ مٹھائی کھائی اور پیسے ن دئیے تو انہوں نے بالکل برا نہیں منایا، بلکہ الٹا مجھے گدھے پر بٹھا کر میرے گلے میں کافی مہنگی جوتیاں کا ہار لٹکا کر کئی گلیوں کی سیر کرائی اور لوگ میرے ساتھ نعرے لغا تے ہوئے خوشی کا اظہار بھی کرتے رہے۔۔میں یادگار کے طور پر وہ سب جوتے بھی لیکر آیا ہوں۔۔کیا بتاؤں کیسا ملک ہے، وواہ واہ جی چاہتا ہے ایک اور چکر لگاؤں اور مزید سوغاتیں لیکر آؤں"۔۔۔۔۔
واضح ہو کہ یہ حکایت میں نے نہیں گھڑی بلکہ یہ مولانا اشرف تھانوی کی مطبوعہ تقریروں اور مواعظ میں سے لی گئی ہے۔
 

ساجد

محفلین
ہم جس کنویں میں بیٹھ کر ٹراتے ہیں وہ دن بہ دن تنگ ہوتا جا رہا ہے اور ہماری یادداشت کمزور ۔
ماضی قریب تک یہی امریکہ تھا اور یہی طالبان جب دونوں نے مل کر افغانیوں کا خون بہایا تب وہ جہاد تھا ۔ آج وہی امریکہ ہے اور وہی طالبان ، افغانیوں کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں کا خون بھی بہہ رہا ہے اور کچھ مینڈکوں کی نظر میں یہ خونریزی بھی جہاد ہے لیکن جب طالبان کی کمین گاہوں پر حملہ ہو جائے تو کچھ مینڈکوں کی رزم گاہ پھٹ جاتی ہے اور وہ سلطان راہی بن کر بڑھکیں مارتے ہوئے پاکستانیوں اور فوج پر پل پڑتے ہیں ۔ اب ہم کنویں کے مینڈکوں کو کیا پتہ کہ باہر کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے ۔یہ ہمارے ممدوح طالبان کس کے اشارہ ابرو پر کام کر رہے ہیں ہمارے مدرسوں میں اسلحہ کیسے پہنچتا ہے ۔ ان کو مال پانی کہاں سے ملتا ہے ۔ ایک رنگ کے دو جوتے پہننے کے لئے تو پیسہ نہیں تو پھر دنیا کا مہنگا ترین اسلحہ کیا آسمان سے نازل ہوتا ہے ؟۔ جاؤ یار کہیں اور جا کر ٹراؤ پہلے ہی اس کنویں میں بہت شور ہے ۔
 
ہم جس کنویں میں بیٹھ کر ٹراتے ہیں وہ دن بہ دن تنگ ہوتا جا رہا ہے اور ہماری یادداشت کمزور ۔
سے ملتا ہے ۔ ایک رنگ کے دو جوتے پہننے کے لئے تو پیسہ نہیں تو پھر دنیا کا مہنگا ترین اسلحہ کیا آسمان سے نازل ہوتا ہے ؟۔ جاؤ یار کہیں اور جا کر ٹراؤ پہلے ہی اس کنویں میں بہت شور ہے ۔
کس کا؟ امریکی ایجنٹوں کا؟
 

ساجد

محفلین
کس کا؟ امریکی ایجنٹوں کا؟
امریکی ایجنٹوں سے بھی زیادہ خطرناک ایجنٹ ہیں " 3 ڈی ایجنٹ " :) ۔ ایک ایسی مثلث کہ اسےجس طرف سے بھی گھماؤ یا پلٹاؤ نقطے بدلنے کے باوجود اس کے زاوئیے اپنے "قاعدے" پر ہی منطبق ہو جائیں گے :)
 

ساقی۔

محفلین
مذاکرات کے راستے پر(مجیب الرحمان شامی)

جنوری کی آخری تاریخوں میں ایک طرف اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں قاضی حسین احمد کی یاد میں ایک بین الاقوامی کانفرنس جاری تھی،تو دوسری طرف وزیراعظم ہائوس میںمیاں محمد نواز شریف اپنے رفقا سے صلاح مشوروں میں مصروف تھے۔ کئی ماہ بعد انہوں نے قومی اسمبلی کی عمارت میں قدم رنجہ فرمایا۔ ایک روز پاکستانی طالبان سے نبٹنے کے لئے اپنی پارلیمانی پارٹی سے مشورہ کیا، تو دوسرے دن باقاعدہ خطاب کے لئے ایوان میں پہنچ گئے۔ قاضی کانفرنس کا اہتمام مرحوم رہنما کی قائم کردہ ''مجلس فکرو عمل‘‘ نے کیا تھا، جس کے روح و رواں ان کے بیٹے آصف لقمان قاضی اور بیٹی سمیعہ راحیل قاضی ہیں۔ اس کا موضوع ''افغانستان میں مصالحت اور مفاہمت کا عمل‘‘ تھا۔ بتایا گیا تھا کہ اس میں کئی اسلامی ممالک کے وفود شامل ہوں گے، لیکن پاکستان اور افغانستان کی بعض سرکردہ شخصیات ہی نے ماحول کوگرمائے رکھا۔ امریکہ اور چین سمیت کئی ممالک کے سفارت کار موجود تھے، مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں، دانشوروں اور مبصروں کی بڑی تعداد بھی حاضرین میں شامل تھی۔ سید منور حسن کے لئے تو گھر کا معاملہ تھا، وہ دن بھر سٹیج پر بیٹھے رہے۔ مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ افغانستان سے گلبدین حکمت یار اور حکومت کے نمائندے موجود تھے، لیکن طالبان کا کوئی رہنما نہیں آ پایا تھا۔ افغانستان میں مفاہمتی عمل کے بارے میں کوئی گفتگو طالبان کے بغیر مکمل تو کیا (ڈھنگ سے) شروع بھی نہیں ہو سکتی۔ ان کی غیر موجودگی میں معاملہ ایک ہاتھ سے تالی بجانے کے مترادف تھا۔ آصف لقمان صاحب کا کہنا تھا کہ بعض قانونی دشواریوں کی وجہ سے طالبان کا کوئی نمائندہ شرکت کے لئے نہیں آ سکا، لیکن اس کا یہ نتیجہ اخذ کیا جا رہا تھا کہ طالبان اس طرح کی مجالس یا گفتگوئوں سے (فی الحال) کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ افغان مصالحتی کونسل اور گلبدین حکمت یار کے نمائندوں نے اپنا اپنا موقف بیان کر دیا۔ ایک طرف اسلامی بھائی چارے پر زور دیا جا رہا تھا اور کابل حکومت اور اس کے مخالفین کو قرآنی آیات پڑھ کر سنائی جا رہی تھیں، تو دوسری طرف عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ آئندہ چند ہفتوں میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخاب کو مسئلے کا حل نہیں، بلکہ اس کے راستے میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے دلائل پیش ہو رہے تھے۔
طالبان کی عدم موجودگی میں افغانستان میں مصالحت و مفاہمت کے حوالے سے تو کوئی نتیجہ خیز گفتگو نہیں کی جا سکتی تھی،


بقیہ مضمون یہاں پڑھا جا سکتاہے




دوستو ذرا آو مجیب الرحمان شامی کا ماضی کنگال کر کوئی "شُرلی" چھوڑو
 
مرض جتنا پرانا ہوتا جائے اتنا ہی پیچیدہ اور تکلیف دہ ہوتا جاتا ہے۔
ایسا ہی معاملہ پاکستانی طالبان کا ہے۔
امریکہ کا کوئی حق نہیں تھا کہ وہ افغانستان پر حملہ آور ہوتا اور وہاں قبضہ کرتا۔ جب وہاں کے لوگوں نے امریکہ کے خلاف جنگ آزادی لڑی تو وہ مجاہدین سے دہشت گرد قرار دئے گئے۔
پہلے افغانی مجاہدین تھے۔ جب انہوں نے امریکی حملہ تسلیم نہیں کیا تو وہ دہشت گرد بن گئے!
جب پاکستان کے قبائیلیوں نے اپنے ہم قبائلیوں کا ساتھ دینے کے لئے ڈیورنڈ لائن کراس کی تو امریکہ نے مشرف کو حکم دیا کہ انکے خلاف آپریشن کرو اور انکو مارو۔
مشرف نے سر تسلیم خم کیا اور قبائلیوں کو مارنا شروع کر دیا۔
اس کے بعد قبائلیوں نے پاکستانی فوج کو اپنا دشمن سمجھ لیا اور ساتھ ہی ساتھ پاکستانی قوم کو بھی
تو انتقام پاکستانی قوم سے بھی لینا شروع کر دیا۔ جگہ جگہ بم دھماکے اور خود کش حملے پاکستانی قوم کا مقدر بن گئے۔
قبائلی تو انتقام کی آگ میں اندھے ہو چکے تھے، ایسے میں ان قبائلیوں کے بھڑکتے ہوئے جذبات کا فائدہ اٹھانے کے لئے پاکستان کے دشمن بھی میدان میں کود پڑے۔
ان قبائلیوں کو ساتھ ملا جعلی تحریکی طالبان تشکیل دی گئی اور اسکا نام تحریک طالبان پاکستان رکھا گیا۔ کچھ جرائم پیشہ عناصر نے بھی طالبان کا نام استعمال کر کے بھتہ وغیرہ لینا شروع کر دیا۔
پاکستان کے اندر عرصہ دراز سے فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث جماعتیں بھی جعلی طالبان کے ساتھ مل گئیں۔ اور انکو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے لگیں۔
اس وقت جعلی طالبان فرقہ وارانہ رنگ بھی پوری طرح لئے ہوئے ہیں
یہ بیماری اس قدر پھیل چکی ہے کہ جو لوگ مخلص ہو کر اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں وہ بھی بے بس نظر آتے ہیں کہ اس کو حل کیسے کیا جائے۔
طالبان پاکستان میں شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں، پاکستان کے عوام کی اکثریت اسلامی قوانین کا نفاذ چاہتی ہے۔ تو پھر پاکستانی بے گناہ عوام کو مارنے کی کیا تک ہے؟

ذرا اس بات پرغور کیا جائے کہ امریکہ تو اپنا گند مار کے یہاں سے جارہا ہے، لیکن آگ تو ہمارے ملک میں لگی ہوئی ہے!
نا اہل مشرف میں اس بات کی صلاحیت ہی نہیں تھی کہ وہ ایسے مسئلے کو صحیح طریقے سے حل کر پاتا۔
جو قبائل کل تک پاکستان کی مغربی سرحدوں کے محافظ تھے آج وہ ہمارے ہی دشمن بنے ہوئے ہیں!
اور اسکا کریڈٹ مشرف کو جاتا ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
مرض جتنا پرانا ہوتا جائے اتنا ہی پیچیدہ اور تکلیف دہ ہوتا جاتا ہے۔
ایسا ہی معاملہ پاکستانی طالبان کا ہے۔
امریکہ کا کوئی حق نہیں تھا کہ وہ افغانستان پر حملہ آور ہوتا اور وہاں قبضہ کرتا۔ جب وہاں کے لوگوں نے امریکہ کے خلاف جنگ آزادی لڑی تو وہ مجاہدین سے دہشت گرد قرار دئے گئے۔
پہلے افغانی مجاہدین تھے۔ جب انہوں نے امریکی حملہ تسلیم نہیں کیا تو وہ دہشت گرد بن گئے!
جب پاکستان کے قبائیلیوں نے اپنے ہم قبائلیوں کا ساتھ دینے کے لئے ڈیورنڈ لائن کراس کی تو امریکہ نے مشرف کو حکم دیا کہ انکے خلاف آپریشن کرو اور انکو مارو۔
مشرف نے سر تسلیم خم کیا اور قبائلیوں کو مارنا شروع کر دیا۔
اس کے بعد قبائلیوں نے پاکستانی فوج کو اپنا دشمن سمجھ لیا اور ساتھ ہی ساتھ پاکستانی قوم کو بھی
تو انتقام پاکستانی قوم سے بھی لینا شروع کر دیا۔ جگہ جگہ بم دھماکے اور خود کش حملے پاکستانی قوم کا مقدر بن گئے۔
قبائلی تو انتقام کی آگ میں اندھے ہو چکے تھے، ایسے میں ان قبائلیوں کے بھڑکتے ہوئے جذبات کا فائدہ اٹھانے کے لئے پاکستان کے دشمن بھی میدان میں کود پڑے۔
ان قبائلیوں کو ساتھ ملا جعلی تحریکی طالبان تشکیل دی گئی اور اسکا نام تحریک طالبان پاکستان رکھا گیا۔ کچھ جرائم پیشہ عناصر نے بھی طالبان کا نام استعمال کر کے بھتہ وغیرہ لینا شروع کر دیا۔
پاکستان کے اندر عرصہ دراز سے فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث جماعتیں بھی جعلی طالبان کے ساتھ مل گئیں۔ اور انکو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے لگیں۔
اس وقت جعلی طالبان فرقہ وارانہ رنگ بھی پوری طرح لئے ہوئے ہیں
یہ بیماری اس قدر پھیل چکی ہے کہ جو لوگ مخلص ہو کر اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں وہ بھی بے بس نظر آتے ہیں کہ اس کو حل کیسے کیا جائے۔
طالبان پاکستان میں شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں، پاکستان کے عوام کی اکثریت اسلامی قوانین کا نفاذ چاہتی ہے۔ تو پھر پاکستانی بے گناہ عوام کو مارنے کی کیا تک ہے؟

ذرا اس بات پرغور کیا جائے کہ امریکہ تو اپنا گند مار کے یہاں سے جارہا ہے، لیکن آگ تو ہمارے ملک میں لگی ہوئی ہے!
نا اہل مشرف میں اس بات کی صلاحیت ہی نہیں تھی کہ وہ ایسے مسئلے کو صحیح طریقے سے حل کر پاتا۔
جو قبائل کل تک پاکستان کی مغربی سرحدوں کے محافظ تھے آج وہ ہمارے ہی دشمن بنے ہوئے ہیں!
اور اسکا کریڈٹ مشرف کو جاتا ہے۔

یہ تاریخ آپ نے کہاں سے پڑھی ہے؟

حیرت ہے، نسیم حجازی کی نئی کتاب مارکیٹ میں آ بھی گئی اور ہمیں معلوم ہی نہیں پڑا۔ o_O
 
یہ تاریخ آپ نے کہاں سے پڑھی ہے؟

حیرت ہے، نسیم حجازی کی نئی کتاب مارکیٹ میں آ بھی گئی اور ہمیں معلوم ہی نہیں پڑا۔ o_O
ٹی وی، اخبارات وغیرہ۔ روز بروز دیکھ کر خود بخود زہن میں محفوظ اور مرتب ہوتی گئی۔ :)
میں الحمد للہ روزانہ خبریں پڑھنے اور سننے کا عادی اور شوقین ہوں۔ :)
 

سید ذیشان

محفلین
ٹی وی، اخبارات وغیرہ۔ روز بروز دیکھ کر خود بخود زہن میں محفوظ اور مرتب ہوتی گئی۔ :)
میں الحمد للہ روزانہ خبریں پڑھنے اور سننے کا عادی اور شوقین ہوں۔ :)

عینک کس رنگ کی پہنتے ہیں؟

ویسے ہمیں تو نمبر کی عینک لگی ہوئی ہے تو رنگ برنگی عینکیں نہیں پہن سکتے۔ ان سے نظر آنا بند ہو جاتا ہے۔
 
عینک کس رنگ کی پہنتے ہیں؟

ویسے ہمیں تو نمبر کی عینک لگی ہوئی ہے تو رنگ برنگی عینکیں نہیں پہن سکتے۔ ان سے نظر آنا بند ہو جاتا ہے۔
الحمد للہ ، کوئی عینک نہیں پہنتا۔ نا ظاہری نا باطنی۔ کبھی آپ نے میرا کوئی تعصب پر مبنی کوئی مراسلہ پڑھا ہے؟
نہیں پڑھا ہوگا اور انشآاللہ پڑھیں گے بھی نہیں۔
 

ساقی۔

محفلین
جب جواب کوئی نہ سوجھے تو پینڈو عورتوں کی طرح رنگ برنگی چیزوں کاذکر چیھڑ دیا جاتا ہے ۔ نی اے پیلا سوٹ کیتھوں لیا ای؟(بازاروں ای لیا ہو گا ۔ بھینس نے دودھ کے ساتھ تو نہیں دیا ہو گا۔):)
 

سید ذیشان

محفلین
الحمد للہ ، کوئی عینک نہیں پہنتا۔ نا ظاہری نا باطنی۔ کبھی آپ نے میرا کوئی تعصب پر مبنی کوئی مراسلہ پڑھا ہے؟
نہیں پڑھا ہوگا اور انشآاللہ پڑھیں گے بھی نہیں۔

میرا مشورہ یہی ہوگا کہ مطالعہ کچھ وسیع کریں۔ :)
 

x boy

محفلین
یہ لیں ، اس موضوع پر نہیں پر اس سے الگ بھی نہیں۔
1723005_476313039140160_1281476255_n.jpg
 
Top